سچی باتیں۔۔۔ اسلام اور ایمان کی اصل بنیاد۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

11:16AM Fri 11 Dec, 2020

13-11-1925 آپ نے کبھی سوچاہے ، کہ آپ کے اسلام وایمان کی اصلی بنیاد کس شے پرہے؟ آپ کے پاس قطعی ومکمل ہدایت نامہ کون ساہے؟ کیا کسی فقیہ کے اقوال؟ کسی صوفی کے ملفوظات، کسی شاعر کا کلام، کسی واعظ کا مجموعہ مواعظ؟ کسی عالم کے فتاوی؟ کسی بڑے انسان کے ارشادات؟ اس قسم کی کوئی شے ، یا ان سب سے الگ، اور ان سب سے ماوراء قرآن مجید؟ اگرآپ اپنے تمام عقیدوں کی بنیادی دستاویز قرآن کو قرار دیتے ہیں، اگرآپ ان تمام شاخوں کی اصل اسی کو سمجھتے ہیں، تواب یہ سوچئے، کہ آپ کے آپس کے اختلافات کی بنا کس شے پر ہے؟ آپ نے اسلام کو حنفی، وشافعی، مالکی وحنبلی، صوفی ووہابی، چشتی وقادری، اشعری و ماتریدی، وغیرہ صدہا فرقوں میں جو تقسیم کرلیاہے، سو آخر اس کی بنیاد کیاہے؟ کیاان اختلافات کی بنیاد قرآن کریم پر ہے؟ کیاقرآن نے امتِ اسلامیہ کو اتنے مختلف اور باہم مخالف فرقوں میں تقسیم کیاہے؟ کیا قرآن اس تفریق ، تقسیم، وانتشار کو جائز رکھتاہے۔ خوب غور کرکے دیکھ لیجئے۔ ان سارے اختلافات کی بنیاد، زائد سے زائد، بعض احادیث وآثار کے اختلاف تعبیر پر نکلے گی، ورنہ اتنی دُور جانے کی بھی ضرورت نہ پڑے گی، بلکہ اکثر صورتوں میں کسی امام، کسی بزرگ، کسی بڑے شخص کے، ماننے یا نہ ماننے پر نکلے گی۔ ایک گروہ کے نزدیک سنتِ رسولؐ سے، نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا ثابت ہے، دوسرے کے نزدیک سینہ کے اوپر ہاتھ باندھنا ثابت ہے۔ ایک کے نزدیک ، چونکہ خود رسول خدا ﷺ اور صحابۂ کرامؓ سے ذکر میلاد ثابت نہیں، اس لئے وہ اس کا مُنکر ہے۔ دوسرے کے عقیدہ میں چونکہ محفل میلاد سے محبت رسول بڑھتی ہے ، اس لئے محفل کرنا ضروری ہے۔ ایک گروہ کہتاہے ، کہ چونکہ فلاں فلاں بزرگوں نے گانا سُنا ہے، اس لئے سماع کی محفلیں منعقد کرنا کارثواب ہے ، دوسرا فریق کہتاہے کہ رسول اللہ ؐ وصحابہؓ سے سماع ثابت نہیں، اس لئے ناجائز ہے۔ ایک گروہ کا دل، اُس شفقت ومحبت کو دیکھ کر جو سرورِ کونینؐ کو حضرت علیؓ اوراُن کے صاحبزادوں سے تھی، ان حضرات کی جانب زیادہ جھکتاہے۔ دوسرے کی عقدیت، اُن خدمات جلیلہ کو دیکھ کر جو حضرت ابوبکر ؓ و حضرت عمرؓ ن دین اسلام اور شارع اسلامؐ کی انجام دی ہیں، اِن حضرات سے زیادہ قائم ہوتی ہے۔ غرض مختلف مسلمان فرقوں کے درمیان جس قدر بھی اختلافات نظر آتے ہیں، زیادہ سے زیادہ اسی قسم کے ہیں، بلکہ اکثروں کی بنیاد توان سے بھی ہلکی ہے۔ جب یہ مسلم ہے ، کہ ان میں سے کسی اختلاف کی بنیاد نہ قرآن کریم کے ردّ وانکار پرہے ، اور نہ سنت رسولؐ سے اعراض وانکار پر، تو پھر یہ کیاہے، کہ آپ ان جزئی وفرعی اختلافات میں ا س قدر شت اور سختی برتتے ہیں؟ جو مقلد کہلاتے ہیں، وہ اس بناپر، کہ ان کے امام نے اُن کے نزدیک قرآن وسنت رسولؐ کا عطر بہترین صورت میں کھینچ کررکھ دیاہے۔ جو غیر مقلد کہلاتے ہیں ، وہ یہ سمجھتے ہیں، کہ وہ خود بھی براہ راست قرآن وحدیث سے مسائل کا نکال سکتے ہیں۔ قرآن ورسول سے محبت وعقیدت دونوں میں مشترک ہے، صرف اظہار عقیدت ومحبت کے طریقے جداگانہ ہیں، ایک فرقہ کی عقل ایک طریقہ کو قبول کرتی ہے اور دوسرے کی دوسرے کو۔ جب نیت دونوں کی نیک ہے، جب خدا اور رسولؐ کی اطاعت، دونوں فرقے کرنا چاہتے ہیں ، اور اختلاف جو کچھ ہے، وہ سمجھ کی بناپر ہے، کسی کے نزدیک ایک بات ایک طریقہ پر ثابت ہے ، دوسرے کے نزدیک اُس طریقہ پر نہیں، تو فرمائیے، کہ پھر ایک دوسرے کو گمراہ ، دشمن قرآن، دشمنِ رسولؐ ، دشمنِ اسلام، اور خارج از اسلام قراردینے کی کہیں گنجایش ہے؟ رائے وفہم کے اختلافات حضرات صحابہؓ تک میں موجود تھے۔ ایک ہی حدیث سے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کچھ مطلب لیتے، اور حضرت عائشہؓ صدیقہ کچھ اور۔ مگر کیا اس سے کسی فریق کی بلندی مرتبہ، اور درجۂ کمال میں کچھ فرق آگیا؟ امیر المومنین حضرت علیؓ اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کے درمیان جنگ وخوں ریزی تک کی نوبت آگئی، اس لئے کہ دونوں اپنے اپنے نزدیک ، اپنی اپنی معلومات وفہم کے مطابق، دین کی خدمت کررہے تھے، لیکن کیا نعوذ باللہ ، دونوں میں سے کسی نے دوسرے کو بیدین یا دشمنِ اسلام قرار دیا؟ پھر یہ کیا اندھیر ہے ، کہ آپ کی نظر مشترک ومتفقہ امور سے کہیں زائد، اختلافی مسائل پر پڑتی ہے؟ یہ کیا ستم ہے، کہ آپ اصول وکلیات کے اتفاق کو چھوڑ کر جزئیات وفروع کے اختلاف کو بڑھا چڑھا کرپیش کرنے لگتے ہیں؟یہ کیا قہرہے ، کہ آپ دوسرے کے اسلام وایمان، تقوے وپرہیزگاری، راست بازی ودیانتداری، علم وعمل، کو نہیں دیکھتے، اور اس کے بجائے صرف اُس کی ، ’’وہابیت‘‘ یا ’’صوفیت‘‘ ’’حنفیت‘‘ یا ’’قادریت‘‘ ’’نیچریت‘‘ یا ’’دیوبندیت‘‘ کو دیکھنے لگ جاتے ہیں؟ ایک شخص تہجد تک قضا نہیں ہونے دیتا، سارا وقت خدا کی یاد، اور امتِ اسلامیہ کی خدمت میں صرف کرتاہے، اسلام کے نام پر اپنی جان تک قربان کردینے کو تیار رہتاہے، آپ ان سب واقعات کو دیکھتے ہیں ، اور خاموش رہتے ہیں، لیکن اگراُس نے محفل میلاد ، عرس، فاتحہ وغیرہ کے سلسلہ میں کوئی ایسی بات لکھ دی ، جوآپ کے سُنے سُنائے عقائد کے مخالف ہے، توآپ اُس کی ساری’’اسلامیت‘‘ کو نظرانداز کرکے، محض اُس کی ’’وہابیت‘‘ یا ’’قبر پرستی‘‘ کے چمکانے کے در پے ہوجاتے ہیں؟ کیا یہی آپ حُبّ اسلام ہے؟ کیا یہی آپ کی محبت خدا اور رسول خداؐ کے ساتھ ہے؟ http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid/