خبر لیجئے زباں بگڑی ۔۔۔ یہ صنادید کیا ہے ؟ ۔۔۔ تحریر : اطہر ہاشمی

کراچی سے شائع ہونے والا ماہ نامہ ’’قومی زبان‘‘ زبان کی خدمت تو کرہی رہا ہے لیکن جنہوں نے اردو زبان کی خدمت کی، اُن کا تعارف بھی کرا رہا ہے۔ تقریباً ہر شمارے میں مشاہیر میں سے کسی کے بارے میں سرورق کے ساتھ بھرپور معلومات بھی ہوتی ہیں۔ غالب سے لے کر مولوی عبدالحق تک اور اب سرسید احمد خان۔ اکتوبر 2017ء کا شمارہ سرسید احمد خان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ انجمنِ ترقی اردو پاکستان کی طرف سے سرسید کی دو سو سالہ سالگرہ کے حوالے سے اُن کی چار کتب کی اشاعت کی جارہی ہے جن میں سے ایک ’’آثار الصنادید‘‘ ہے۔ اتفاق سے فرائیڈے اسپیشل نے بھی ’’آثارالصنادید‘‘ پر ایک عمارت کار حیات رضوی امروہوی کا مضمون شائع کیا ہے۔ بلاشبہ سرسید نے یہ کتاب بڑی مشقت اٹھاکر لکھی تھی۔ لیکن ’صنادید‘ کیا ہے، اس کی وضاحت بھی ہوجاتی تو ہم جیسے ناواقفان کے علم میں اضافہ ہوتا۔ چنانچہ لغت کا سہارا لیا۔ لغت کے مطابق صنادید ’صندید‘ کی جمع ہے اور مطلب ہے بزرگ لوگ، سردار، جرنیل، امراء، بہادر، شریف وغیرہ۔ سرسید احمد خان وہ پہلے مقامی فرد ہیں جنہوں نے اردو قواعد سب سے پہلے اردو میں لکھی۔ ان کی کتاب ’’قواعد صرف و نحو زبانِ اردو‘‘ 1840ء میں لکھی گئی۔ اس لحاظ سے بھی اردو کا ان پر حق ہے۔ ’’قومی زبان‘‘ کا اداریہ ڈاکٹر فاطمہ حسن نے لکھا ہے، تاہم ایک ہی اداریے میں ’’فکر‘‘کو ایک جگہ مذکر اور دوسری جگہ مونث لکھا گیا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ فکر مذکر اور مونث دونوں طرح استعمال ہوتا ہے، لیکن بہتر تھا کہ ایک ہی طرح استعمال کیا جاتا، کیونکہ کم استعداد رکھنے والے ہم جیسے لوگ الجھن میں مبتلا ہوسکتے ہیں کہ فکر بڑھتا ہے یا بڑھتی ہے! بصورتِ دیگر اس کی کہیں وضاحت کی جاتی۔ اداریے میں ایک جگہ جملہ ہے ’’اپنے فکر و عمل میں ان کا ہی پرتو نظر آتے تھے‘‘۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ’ہی‘ کو ’ان‘ کا قرب حاصل ہوتا۔ یعنی ’’ان ہی کا پرتو‘‘۔ یہ بات تو معلوم ہی ہوگی کہ ’ہی‘ کا تعلق جس لفظ سے ہوگا یہ اسی کے ساتھ آئے گا۔ ان کے درمیان کوئی اور لفظ مثلاً ’کا‘ وغیرہ نہیں آنا چاہیے۔ لیکن یہ صورتِ حال تو جسارت سمیت تمام اردو اخبارات میں جگہ جگہ موجود ہے اور ’ہی‘ کا استعمال بے جگہ ہورہا ہے۔ لیکن ’’قومی زبان‘‘ جیسے معیاری جریدے میں کھٹکتا ہے۔ ’’اشاریہ‘‘ اور ’’عشاریہ‘‘ کئی بار سمجھانے کے باوجود 17 اکتوبر کے جسارت میں ہمارا ہی منہ چڑا رہا ہے۔ وزیراعظم کے انٹرویو میں ایک جملہ ہے ’’معاشی عشاریے بہتری کی طرف ہیں‘‘۔ سرخی میں تو عشاریہ ’’اشاریہ‘‘ کردیا گیا تھا لیکن متن میں ’’عشاریہ‘‘ جلوہ گر ہے۔ اس غلطی کی طرف پہلے بھی توجہ دلائی گئی تھی لیکن اسے استقلال کہتے ہیں۔ اگر ہمارے ساتھی ذرا سی توجہ دیں تو ’’معاشی عشاریہ‘‘ کی حماقت سے بچا جاسکتا ہے۔ دراصل اشاریہ انگریزی لفظ ’’انڈیکیٹر‘‘ کا ترجمہ ہے۔ ایک اور عمومی غلطی ’’مامور‘‘ اور ’’معمور‘‘ میں ہوتی ہے۔ 14اکتوبر کے ایک کثیرالاشاعت اخبار میں ایک سینئر کالم نگار جناب بابر ستار نے ایک سے زیادہ بار ’’مامور‘‘ کی جگہ ’’معمور‘‘ استعمال کیا ہے۔ یقینا یہ کمپوزنگ کا سہو ہوگا ورنہ یہ ممکن نہیں کہ موصوف کو مامور اور معمور کا فرق نہ معلوم ہو۔ کچھ عرصے سے تقاریر، بیانات اور اخبارات میں ایک دلچسپتماشا ہورہا ہے اور علی بابا کی گت بنائی جارہی ہے۔ جس کی خبر لینا ہو اُسے علی بابا چالیس چور کا طعنہ اس طرح دیا جاتا ہے جیسے علی بابا چوروں کا سرغنہ تھا۔ کہانی کا معروف کردار علی بابا چوروں کا سردار نہیں تھا بلکہ اُس نے تو40 چوروں کو پکڑوایا تھا۔ سیاسی مخالفین کسی دوسرے کو علی بابا کا طعنہ دے کر کیا اپنے مخالف کی تعریف کررہے ہیں؟ چلیے خود یہ کہانی پڑھنے کا موقع نہ ملا ہو تو کسی بچے ہی سے پوچھ لیا ہوتا۔ علی بابا کو چوروں میں شامل کرنے سے قطع نظر چوروں کی تعداد تو 40 سے کہیں زیادہ ہوگئی ہے جن کی سربراہی علی بابا نہ سہی، کئی بابے کررہے ہیں۔ بہاء الدین کو بہاوالدین اس کثرت سے لکھا جارہا ہے کہ اب اس پر صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں اور اب اسی کو غلط العام قرار دے کر فصیح سمجھ لینا چاہیے۔ منڈی بہاء الدین ہو یا بہاء الدین زکریا یونیورسٹی، اسے بہا۔ والدین ہی جانے دیں۔ گزشتہ دنوں جسارت میں علامہ اقبالؒ کے دو اشعار شائع ہوئے تھے: غریبی میں ہوں محسودِ امیری کہ غیرت مند ہے میری فقیری حذر اس فقر و درویشی سے جس نے مسلماں کو سکھا دی سربزیری سربزیری کا مفہوم تو شعر سے واضح ہورہا ہے لیکن دستیاب اردو لغات میں یہ لفظ نہیں ملا۔ چنانچہ ایک شاعر اور صحافی فیض عالم بابر کی موجودگی سے فائدہ اٹھاکر انہیں اس کام پر لگادیا گیا اور وہ سربزیری کی تہ میں اتر کر معانی کے موتی نکال لائے۔ بزیر (یائے مجہول) فارسی میں اسم زیر کے ساتھ بطور سابقہ لگنے سے بزیر بنا۔ اردو میں بطور متعلق فعل مستعمل ہے (یہ وضاحت خود محتاجِ وضاحت ہے)۔ 1830ء میں نظیر کے کلیات میں استعمال ہوا ہے۔ لیکن وہاں یائے معروف کے ساتھ ہے ’’یہ زر نہ کام آئے گا کچھ بھی بزیر خاک‘‘۔ معانی: نیچے، تحت، فروتنی، پستی وغیرہ۔ اقبالؒ نے سر جھکانے، فروتنی و شرمساری کے معنوں میں استعمال کیا ہے، یعنی سر اٹھا کر جینے کے بجائے ایسی درویشی سے بچا جائے جو سر جھکا کر جینے پر مجبور کرے۔ ’محسود‘ کا مطلب تو معلوم ہی ہے کہ جس سے حسد کیا جائے۔ ویسے پاکستان اور افغانستان میں ایک قبیلہ بھی محسود ہے۔ غالب نے ’چشم حسود‘ کی ترکیب استعمال کی ہے۔ مولانا غلام رسول مہر نے کلام اقبال کی جو تشریح کی ہے اُس میں بھی سربزیری مل گیا۔ ایک اور عام غلطی رفاہی کو رفاعی لکھنا ہے۔ ایک اخبار میں سرخی میں یہی غلطی نظر آئی۔ ایسا لگتا ہے کہ املا اور زبان کی غلطی اور اصلاح کی کوشش کا مقابلہ جاری ہے۔ چنانچہ ہم بھی باز نہیں آئیں گے۔ نثر میں ’دو جمع‘ ایک ساتھ لکھنا مناسب نہیں ہے، جیسے ’’گئیں تھیں‘‘، ’’آئیں تھیں‘‘ وغیرہ۔ لیکن یہ سہو ہورہا ہے۔ رشید حسن خان نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’ان ہی‘‘ کے بجائے انہی (یا انھی) لکھنا بہتر ہے۔ انہی اصلاً مرکب لفظ ہے اور یہ ’’ان‘‘ اور ’’ہی‘‘ سے مل کر بنا ہے۔ ’’ہی‘‘ میں شوشے دار ’ہ‘ ہے جسے ہاے ہوز بھی کہتے ہیں۔ ’’انھی‘‘ میں یہی ’ہ‘ دو چشمی میں بدل گئی۔ اس طرح تلفظ آسان ہوگیا۔ ’’ان ہی‘‘ میں ’ہ‘ کی آواز الگ سے نکلتی ہے۔ ’’انھی‘‘ میں نون کی آواز ’ھ‘ میں مل جاتی ہے اور اس طرح دو حرفوں کی الگ الگ آوازیں ایک بن جاتی ہیں۔ اس طرح بقول رشید حسن خان، تلفظ کے لحاظ سے اس میں ایک سبک پن پیدا ہوجاتا ہے اور روانی آجاتی ہے۔ سید مودودیؒ نے بھی ترجمہ قرآن مجید میں ’’تمھیں، جنھیں، انھیں‘‘ وغیرہ میں دو چشمی ’ہ‘ کا استعمال کیا ہے۔ پروفیسر رؤف پاریکھ بھی دو چشمی ’ہ‘ کے دلدادہ ہیں اور دلھا (یا دولھا) کو بھی دو چشمی کے بغیر دولہا تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔ دولھا ہو یا دولہا، ہندی کا لفظ ہے اور لغت میں دونوں طرح سے ہے، تاہم ترجیح ’’دولھا‘‘ کو دی گئی ہے۔ ایک مثل ہے ’’دولھا ڈھائی دن کا بادشاہ ہے‘‘۔ سو اس مختصر سی مدت کی بادشاہت کے لیے ’ہ‘ اور دو چشمی ’ہ‘ کا کیا جھگڑا۔ ماہرینِ لسانیات کی بات سر آنکھوں پر، لیکن دو چشمی ’ہ‘ کے بجائے مذکورہ کئی الفاظ ’ہ‘ سے لکھنے میں سہولت ہے اور تمہیں، انہیں، جنہیں لکھنے میں بھی تو ’’سبک پن‘‘ پیدا ہوجاتا ہے۔ اسی طرح ’’چاہییں‘‘ کا املا ہے جس میں اصولاً دو ’ی‘ آتی ہیں مگر اس کا اہتمام عموماً نہیں کیا جاتا اور ایک ’ی‘ نکال کر ’ہ‘ کے بعد ہمزہ بٹھادی جاتی ہے یعنی چاہئیں۔
فرائیڈے اسپیشل کراچی