طالبانِ بیعت کا نام تک نہیں ملتا۔۔۔ تحریر : ندیم صدیقی

تاریخ چٗوکتی نہیں وہ ظالم اور مظلوم دونوں پر توجہ کرتی ہے مگر ایسے کہ مظلوم کو اُبھار دیتی ہے اور ظالم کو کنارےلگا دیتی ہے اور کبھی تو اسے منہ بھی نہیں لگاتی ۔86۔ 1987کا زمانہ رہا ہوگا کہ مشہو رادیب و ناقد گوپی چند نارنگ نے ایک جلسے کا انعقاد کیا اور اُس وقت کے مرکزی وزیر ضیا ٔالرحمان انصاری اُس جلسے میں خاص طور پر مدعوکئے گئے موصوف نے اپنی تقریر کے دوران کہا کہ غالبؔ نے کیا خوب کہا ہے:(مثلاً) گر انتظار کٹھن ہے تو جب تلک اے دل کسی کے وعدۂ فردا کی گفتگو ہی سہی جلسے کےشرکامیں مشہور شاعر و ناقد باقر مہدی بھی تھے۔ باقر مہدی سے جو لوگ واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ باقر کہیں چپ رہ ہی نہیں سکتے تھے اور ایسی صورت میں جب کہ سامنے کوئی بے ادبی کر رہا ہو۔ باقر مہدی نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ جلسے سے مرکزی وزیر خطاب کر رہا ہے انہوں نے بھرے جلسے میں فوراً سے پیشتر بلند آواز سے کہا: ’’ جی ۔۔۔یہ شعر مرزا نوشہ کا نہیں فیضؔ کا ہے۔‘‘ ایک لمحےکےلئے سہی مگرجلسے کی فضا متاثر تو ہوئی۔ جب وزیر موصوف تقریر تمام کر کے اپنی نشست پر بیٹھے تو ڈائس پر قریب بیٹھے ہوئے کسی شخص سے پوچھا کہ ٹوکنے والے یہ کون صاحب تھے؟ جواب ملا کہ مشہور شاعرو ناقد باقر مہدی۔ مرکزی وزیر ضیا ٔالرحمان انصاری لکھنؤ سے قریب اُناؤ جیسے خطے سے تعلق رکھتے تھے ظاہر ہے شعر وادب سے کیسے بے خبرہو سکتے تھے۔ باقر مہدی کا نام سنا تو مسکرا کر رہ گئے۔ حال ہی میں اسی طرح کا ایک واقعہ آپ نے بھی سنا ہوگا کہ ایک جلسے سے وزیر مالیات ارون جیٹلی خطاب کرر ہے تھے۔ روایت ہے کہ تقریر کےدوران ارون جیٹلی نے احمد آباد بلٹ ٹرین پروجیکٹ کاذکر بھی کیا تو جلسے میں بیٹھے کسی ستم ظریف نے ان کو ٹوک دِیا کہ جیٹلی جی! بلٹ ٹرین کو ہندی میں کیا کہتے ہیں؟ وزیر موصوف جیٹلی اس غیر متوقع سوال پرتلملا گئے اور سوال کرنے والے پر اپنے غصے کو اُنڈیل دیا۔ لیکن یہ بات نوٹ کی گئی کیونکہ جو لوگ جلسے میں نہیں تھے یہ سوال دوسرے دِن اخبارات کے ذریعے ان لاکھوں افراد تک بھی پہنچ گیا۔ جیٹلی کی جلی بھنی باتیں تو کسی کو یاد رہیں نہ رہیں مگر یہ ضرور یاد رہے گا کہ جیٹلی جی ! بلٹ ٹرین کو ہندی میں کیا کہتے ہیں؟ اگر جیٹلی سوال کرنے والے پر اپنی مسکراہٹ بکھیر دیتے تو شاید یہ بات ریکارڈ ہی نہ ہوتی مگر اُن کے غرور اور ان کی جھنجھلاہٹ نے مذکورہ سوال کو اہم بنا دِیا، جو ریکارڈ ہو گیا، سچ تو یہ ہے کہ سوال نہیں بلکہ جیٹلی کا غرور اور بے علمی تاریخ میں درج ہوگئی۔ ہماری کون سی بات اور کون سا عمل کس وقت ریکارڈ ہو جائے گا اکثر ہم نہیں جانتےمگر ہوتا ہے اور کیسے ہوتا ہےیہ تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں۔۔۔۔ اکثر اوقات آپ ہم کتاب یا کوئی مسودہ پڑھتے وقت اپنی انگلیوں میں لعابِ دہن لگا کر اوراق پلٹتے ہیں۔ صدرِ پاکستان جنرل ضیا ٔ الحق ایک جلسے میں اپنا صدارتی خطبہ پڑھ رہے تھے اور اُنہوں نے بھی اُنگلی کو زبان پر رکھ کر تھوک لگایا اور اُسی اُنگلی سے پھر ورق پلٹا، یہ عمل دیکھا تو سب نے مگر کسی نے یہ نہیں سوچا کہ کوئی اسے اپنے ذہن میں بھی محفوظ کر چکا ہے اور ضیا ٔ الحق کے فرشتوں کو تو یہ خبر بھی نہیں ہوئی، پاکستان کے ایک مشہور صحافی جو مذکورہ جلسے میں موجود تھے، برسوں بعد اُنہوں نے اپنے ایک مضمون میں اس عملِ مکروہ کا ذکر کیا تو تمام پڑھنے والوں تک، جن میں ہم بھی شامل ہیں، پہنچ گیا۔ دوسروں کی تو نہیں مگر ہم اپنی کہیں گے کہ اب جب بھی کتاب پڑھتے ہیں توضیا ٔ الحق کا انگلی پر تھوک لگانا یاد آجاتا ہے۔ یقیناً بعض حضرات کےلئے یہ بات بہت چھوٹی سی ہو مگر اس کے مکروہ ہونے میں کیا شک ہو سکتا ہے ۔!! ایک واقعہ اورآموختے کا طالب ہے، اُردو کی ممتازترین ادیب مرحومہ قرۃ العین حیدر کی شادی کا نہ ہو نا بھی لوگوں کو یاد ہے، در اصل بڑوں کی چھوٹی چھوٹی باتیں، چھوٹی چھوٹی حرکتیں بھی بڑی بن جاتی ہیں۔ قرۃ العین حیدر ہی نے بتایا تھا کہ ایک بارکوئی موصوف اپنے گھر والوں کے ساتھ اُنھیں دیکھنے آئے تو عینی کے ذریعے مہمانوں کی خدمت میں چائے اور بسکٹ وغیرہ پیش کیے گئے۔ اُس لڑکے نے بسکٹ اُٹھایا اور چائے کے پیالے میں ڈبو کر اسے کھایا ، بس یہ۔۔۔ ادا ۔۔۔عینی جیسی نفاست پسند لڑکی کو ناگوار گزر گئی کہ ’’ جو لڑکا گنواروں کی طرح چائے کے پیالے میں بسکٹ ڈبو کر کھاتا ہو وہ میرا شوہر کیسے ہو سکتا ہے۔!!‘‘ یعنی صاحبزادے ناپسند کر دِیےگئے۔ ہے نا یہ چھوٹی سی بات مگر تاریخ میں درج ہوگئی۔ اُس لڑکے کا نام تو کسی کے ذہن میں نہیں مگر عینی ؔکا معیارِنفاست عینی ؔکے نام کے ساتھ ریکارڈ ہو گیا ہے۔ آئیے!تاریخ کا ایک ورق اور پلٹتے ہیں، محرم الحرام کا یہ مہینہ اور نواسۂ رسول کی یادیں کسی سنگ دل ہی کے ہاں نہیں ہوںگی۔ اس معرکہ ٔ حق و باطل کو برسوں نہیں صدیاں گزر رہی ہیں مگر وقت کے ساتھ اس الم ناک واقعے کی زندگی ہے کہ بڑھتی جارہی ہے۔ حضرتِ حسین بن علیؓ کو جسمانی طور پر توقتل کر دِیا گیا مگر اس واقعے کی روح یعنی حق کا وہ علَم جو حسین ؓنے اٹھایا تھا وہ ابتک بلند ہےاور بلند تر ہوتا رہےگا۔ بات صرف ایک غاصب کےہاتھ بیعت کی تھی جان دیدی مگر یزید کے ہاتھ پر اپناہاتھ نہیں دیا۔ یزید عربی زبان کا ایک لفظ ہے جو عربوں میں بطور نام رکھا جاتا تھا تاریخ میں یزید بن معاویہ سے پہلے بھی کئی یزید گزرے ہیں مگر نواسۂ رسول کو قتل کرنے والے یزید کے بعد کہیں یہ نام نہیں ملتا ۔ دیکھیے یوں بھی ہوتا ہے کہ ایک لفظ کیسے مردودِ زمانہ قرار پاتا ہے اور دوسرا متبرک اور ایمان و عقیدے کے درجے پر فائز ہو جاتا ہے۔ احقر کایہ شعر بھی سنتے چلیں: طالبانِ بیعت کا نام تک نہیں ملتا اورعلیؓ کے بیٹے کو، دیکھ لو وہ گھر گھر ہے