سچی باتیں ۔۔۔ضابطہ عمل ۔۔۔تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی مرحوم

Bhatkallys

Published in - Other

07:20PM Thu 28 Dec, 2017

سورۂ مائدہ کے شروع میں  ایک بڑی سی آیت ہے اس کے پہلے ٹکڑے میں  مسلمانوں  کو شعائر اللہ کی تعظیم پر توجہ دلائی ہے دوسرے جزء میں  یہ ارشاد ہوتا ہے کہ  وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا۔ اور یہ نہ ہو کہ کسی قوم کی دشمنی اس بنا پر کہ اس نے تمھیں  مسجدحرام میں  داخل ہونے سے روک دیا تمھیں  اس بات پر آمادہ کردے کہ تم اس کے ساتھ زیادتی کرنے لگو۔ یعنی دشمن کے بھی اور پھر ایسے دشمن کے جو خانۂ کعبہ کی راہ روکے ہوئے ہے،حقوق ہوتے ہیں  مسلمانوں  کو نہ چاہیے کہ غصہ میں  آکر ایسے موذی دشمن سے بھی کسی معاملہ میں  نا انصافی کا برتاؤ کر بیٹھیں! اللہ اللہ دنیاکی کو ن سی کتاب بجز کتاب اللہ کے ہے جس میں جان کے دشمنوں  اور ایمان کے دشمنوں  تک کے ادائے حقوق کی یہ تاکید اور اہتمام ہے خیر یہ ذکر تو یہاں  ضمناً آگیا اس وقت مقصود آیت کے تیسرے جزء پر توجہ دلانا ہے ارشاد ہوتا ہے وَتَعَاوَنُوْاعَلٰی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلٰی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَان۔ اور نیکی اور پارسائی کے کام میں  ایک دوسرے کی مدد کرتے رہو اور گناہ اور زیادتی کے کام میں  ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔ مسلم قوم کے باہمی برتاؤ اور آپس کی معاملت ومعاشرت کے لیے کتنا بہتر کتنا اعلیٰ ضابطۂ عمل دیا گیا ہے ارشاد ہوتا ہے کہ کسی مسلمان سے خواہ مخواہ علیٰحدگی ،مخالفت، بیگانگی جائز ہے نہ اندھا دھند اس کی موافقت، تائید وحمایت ، دیکھنے کی چیز اشخاص نہیں اعمال ہیں، اگر کسی کا کوئی عمل اچھا ہے نیک ہے،مفید ہے، تو بلا تأمل اس کا ساتھ دینا چاہیے ، بلا لحاظ اسکے کہ وہ شخص کون ہے ،اور اگر کوئی عمل بد ہے، مضر ہے ناجائز ہے تو اس میں  شر سے بچنا چاہیے، اس سے علیٰحدہ رہنا چاہیے، خواہ اس عمل کا پیش کرنے والا کوئی بھی ہو اگر آج اس قانون پر عمل ہونے لگے تو یہ ہماری قائم کی ہوئی امت کی تفریقیں  اور تقسیمیں  باقی رہ جائیں؟ ان گروہ بندیوں  اور ٹولیوں  اور ٹکڑیوں  کا وجود کہیں رہ جائے! آج ڈاکٹر انصاری اگر دو اور دو چار کامجموعہ کہیں  تو اس کی تردید حلقۂ محافظین حقوق مسلمین کی طرف سے عین فرض ، اس لیے کہ انصاری ’’نہروانی‘‘ ہیں کانگریسی ہیں؟ اورمولانا شوکت علی اگر دن کو دن اور رات کو رات بتلائیں  تو اس کی مخالفت آزاد خیال گروہ کی طرف سے ہونی فرض قطعی اس لیے کہ شوکت علی ٹوڈی ہیں،گورنمنٹی ہیں! ’’احرار ‘‘’’مسلم کانفرنس‘‘ کے بخیہ ادھیڑ کر رکھ دیں  گے اور مسلم کانفرنس ، احرا کو نیچادکھا کر رہے گی! وہابی ، بدعتی کے پیچھے نماز نہ پڑھے گا ، اور بدعتی ،وہابی کے سلام کا جواب نہ دے گا! علیگڑھ ،دیوبند کا ساتھ نہیں دے سکتا اور فرنگی محل ، علیگڑھ کی قیادت قبول نہیں کرسکتا! یہ ساری تفریق وانتشاری اسی خدائی قانون کو بھلادینے کا نتیجہ بنے ، نفسِ تقسیم میں  مضائقہ نہیں ، ،کروڑوں  افراد اپنی اپنی طبیعت یا اپنے اپنے دائرہ عمل کی مناسبت سے مختلف گروہوں  میں تقسیم ہوجانا قابلِ اعتراض نہیں بالکل قدرتی ہے ، لیکن ایک گروہ کا دوسرے سے اس درجہ کدورت رکھنا کہ اس کی ہر بات قابلِ تقلید ٹہر جائے ایک دوسرے کی خوبیوں  سے انکار محض اس بنا پر کہ مخا لف  کیمپ سے کوئی مفید آواز بلند ہوسکتی ہی نہیں  یہ آخر کسی اسلامی تعلیم کے موفق ہے؟ چھوٹی چھوٹی جماعتوں  اور پارٹیوں  کے مذہبی یا سیاسی حیثیت سے کچھ نام رکھ لیے گئے ہیں  اور ان ناموں  کی بنا پر ایک دوسرے سے مستقل عداوتیں ، مستقل نفرتیں، پیدا کر لی گئی ہیں  آخرت میں  تو خیر جو کچھ پیش آنا ہے، پیش آکر رہے گا ہی، اسی دنیا میں  اس طرزِعمل کا جو نتیجہ نکلا ہے ، کیا وہ کسی سے مخفی ہے ؟ کسی معاملہ میں  نہ کوئی ایک آواز قوم کی ہے، نہ کوئی ایک سردار، نہ کسی قسم کا نظام باقی رہ گیا ہے، بھیڑوں  کا گلہ بھی ایک ساتھ چلتاہے لیکن یہ کروڑوں  کا انسانی گلہ ایساہے کہ ہر فرد کی راہ دوسرے سے جدا گانہ ، ہندو اگر ہم پر ہنسیں اور انگریز ہم پر تالیاں  بجائیں  تو اس پر حیرت کیوں  ہو؟