ہمارے لیے پاکستان جیسے یوسف کے بھائی

حفیظ نعمانی
وزیر داخلہ شری راج ناتھ سنگھ اسلام آباد پاکستان میں ہونے والی سا رک چوٹی کانفرنس میں شرکت کرنے گئے اور چند تلخ یادیں لے کر واپس بھی آگئے، اگر ہم وزیر اعظم، وزیر داخلہ یا وزیر خارجہ سے جانے سے پہلے یہ کہتے کہ وہ کانفرنس میں شرکت کریں تو کس حیثیت سے کہتے؟ سارک بنانے میں ہندوستان کا اہم کردار رہا ہے، اور وہ اس کو اتنا اہم اور اپنے سے قریب مانتا ہے کہ ۲۶؍ مئی ۲۰۱۴ء کو جب شری نریندر مودی وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف لینے والے تھے تو انھوں نے سارک کے معزز ممبروں کو بلایا تھا، اس وقت پاکستان میں دہشت گردوں نے یہ آواز بلند کی تھی کہ نواز شریف کو نہیں جانا چاہیے، اور ہندوستان میں بھی ایسے ہی لوگوں نے کہا تھا کہ نواز شریف کو بلانے کی کیا ضرورت تھی، لیکن نریندر مودی جی اڑے رہے اور تمام ممبروں کو بلایا اور سب کو کلیجے سے بھی لگایا اور ان کی بلکہ ان میں سب سے زیادہ نواز شریف کی خاطر کی۔
ہم اس وقت اس لیے کسی کے بھی جانے کی مخالفت اس لیے کرنا چاہتے تھے کہ پاکستان میں صلاح الدین، مسعود اظہر اور سعید ہی نہیں اور بھی ایسے کئی دہشت گرد ہیں جو اپنے کو کہتے تو مسلمان ہیں، لیکن رحمت عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کھل کے نافرنی کرتے ہیں، جنھوں نے اپنے ماننے والوں کو بھی حکم دیا تھا اور خود بھی ہمیشہ اس پر عمل کیا کہ ’’اکرموا کریم قوم‘‘ اپنی قوم کے محترم حضرات کی تم بھی عزت کرو یہ حکم ان کے لیے تھا جو بغیر بلائے آتے تھے اور جو بلانے پر آتے تھے وہ تو معزز مہمان ہوتے تھے، ان کے لیے تو آقا مولاؐ پلکیں بچھا دینا چاہتے تھے، ہندوستان سے جو شری راج ناتھ سنگھ گئے تھے انھیںبلایا گیا تھا اور وہ ۱۲۵ کروڑ ہندوستانیوں کے اتنے ہی محترم تھے جتنے شری مودی ہیں، وزیر اعظم کی عدم موجودگی میں وہی قائم مقام ہوتے ہیں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار فرمایا ہے کہ جو اپنے ماں باپ اور اپنی جان سے زیادہ مجھ سے محبت نہیںکرتا وہ مسلمان نہیں ہے، اور حضور ؐ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں وہ ان کی طرف سے ہوتاہے، تو پھر ان کا حکم نہ ماننے والے کیسے مسلمان ہوسکتے ہیں؟ صلاح الدین جسے سب سید کہتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ حضور اکرمؐ کی نافرمانیاں کرتے کرتے اس کا چہرہ بھالو جیسا ہوگیا ہے، اور جو داڑھی خدا کا نور ہے اس کے چہرہ پر وہ شہد کی مکھیوں کا چھتا ہوگئی ہے۔اور سید جو سیدوں جیسے عمل کرتے ہیںان کے چہروںپر نور ہوتا ہے ، جبکہ صلاح الدین کے چہرہ پر وحشت برستی ہے، اسے سید کہنا آلِ رسولؐ کی توہین ہے۔رہے مسعود اظہر اور سعید جن کو مولانا اور حافظ کہا جاتاہے یہ دونوں وہ ہیں جو ہندوستان میں بے گناہوں کو قتل کرانے کا اعتراف بھی کرتے ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں، دنیا میں اسلام کا وہ کون مفتی ہے جو اعلانیہ جہاد کے علاوہ کسی کو قتل کرنے کو جائز قرار دیتا ہے، یہ دونوںوہ ہیں جو فخر کے ساتھ کہتے ہیں کہ وہ دھماکے ہم نے کرائے، اور یہ دونوںوہ شیطان ہیں جنھوں نے نہ جانے کتنے نوجوان، جاہل، مسلمان لڑکوںکو جنت میں بھیجنے کے لیے انھیں وہ بتایاجو شیطان بھی شاید نہ بتایا ہوگا۔اور لڑکوں نے خود کو بھی اڑایا اور دس پانچ کو اپنے ساتھ لے گئے۔
ہمارے ہندو بھائی نہیں جانتے کہ مولاناکہلانے کے قابل وہ ہوتے ہیں جو دنیا چھوڑ کر صرف اللہ کے ہوجاتے ہیں، یعنی وہ جو بھی کرتے ہیں وہ اللہ کو خوش کرنے کے لیے کرتے ہیں اور اللہ کی بنائی ہوئی دنیا کا سب سے شاہ کار انسان ہے، اسے موت کی نیند سلانے والے مولانا نہیں اللہ کے دشمن ہوتے ہیں، سعید جیسے شیطان کو حافظ کہنا دنیا کے کروڑوں حافظوں کی توہین ہے، ہر حافظ قرآن پاک کی حفاظت کا چوکیدار ہے، پروردگار نے دنیا بنانے سے لے کر لاکھوں پیغمبر ہدایت دینے کے لیے بھیجے، ان میں اکثر کو زبانی بتایا کہ وہ اللہ کے بندوں سے کیا کرنے کو کہیں؟ اور نہ جانے کتنی ہدایتیں لکھوادیں، پھر خود ہی دنیا کو بدلتے رہے اور دوسرے پیغمبر بھیجتے رہے، زبور، توریت، انجیل بھی وہ کتابیں ہیں جن کا علم ہے لیکن زمانہ گذرتا رہا اور یہ کتابیں بھی گذر گئیں، البتہ ان کی کچھ باتیں باقی ہیں۔ سب سے آخر میں قرآن عظیم نازل فرمایا اور یہ بھی خوشخبری سنا دی کہ یہ قیامت تک کے لیے ہے۔یہ اعزاز صرف قرآن عظیم کو حاصل ہوا کہ فرمایا ہم نے ہی اسے نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کریںگے اور کہیںحکم نہیںدیا کہ اس کی حفاظت کے لیے اسے حفظ کرو۔ یہ اللہ کے بندوں کی فرمانبرداری ہے کہ انھوں نے حفظ کیا اور وہ قبریں جانے تک اس کی چوکیداری کرتے رہے جس کا انعام انشاء اﷲ اتنا ملے گا جس کا تصور بھی نہیںکیا جاسکتا، جو اللہ کے بندوں کا خون بہاتا ہے اسے جہنم کے علاوہ کچھ نہیںملے گا۔
وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ جب اسلام آباد اترے تو سنا ہے کہ کوئی بھی وزیر انھیں لینے نہیں آیا، اورجو افسر آئے ان کا رویہ بھی انتہائی سرد تھا، وزیر داخلہ نے جب تقریر شروع کی تو ہندوستانی میڈیا کو اس کی رپورٹنگ کی اجازت نہیں دی، اس کے بعد اگر وزیر داخلہ نے سب کے ساتھ دوپہر کا کھانا نہیںکھایا یا ۱؍ بجے واپس آگئے تو یہ اس کا ثبوت ہے کہ ہم جو برسہا برس سے کہہ رہے ہیںکہ پاکستان کی قیادت کتے کی دم ہے، وہ بنی ہی ٹیڑھی ہے تو اسے کون سیدھا کرسکتا ہے؟ جس پاکستان کی بنیاد اس پر ہو کہ ہم ہندوئوںکے ساتھ نہیں رہ سکتے ہیںپورا ملک نہیں بس اتنا دے دو کہ مسلمان اپنی نسلوں کا ایمان بچا سکیں، جو ہندوئوں کے ساتھ رہ کر خطرہ میں پڑ جائے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ پاکستان میں اتنا بھی نہیں رہا جتنا ہندوستان میں ہے۔
ملک کی تقسیم کی تجویز ۲۳؍ مارچ ۱۹۴۰ء کو لاہور میں مسلم لیگ کے اجلاس میںپاس ہوئی تھی، یہ مسٹر جناح کی تجویز تھی، ہماری عمر اس وقت ۱۰ برس تھی، ۷ برس یعنی ۱۹۴۷ء تک مسلم لیگ نے جیسا ننگا ناچ ناچا ہے اس کی ایک ایک گالی اس لیے یاد ہے کہ ہم بریلی میںتھے، اور یوپی میںکانپور، الٰہ آباد بریلی اور آگرہ مسلم لیگ کا گڑھ تھے، ملک کی تقسیم کی مخالفت میں بریلی کے موتی پارک میں ہونے والے ہر اس جلسہ میں جس میں مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا حسین احمد مدنی اورملک کے چوٹی کے عالم دین تقریرکرنے آتے تے، ان پر پتھرائو کیا جاتا تھا، گالیاں دی جاتی تھیں اور وہ کیا جاتا تھاجو اسلام کے کسی دشمن نے نہ کیا ہوگا۔ اور ہر عالم دین کو برلا کا ٹٹو اور ٹاٹا کا پٹھو کہا جاتا تھا۔
جب ایسے لوگ کوئی ملک بنائیں تو وہ راج ناتھ سنگھ کو بلا کر کیا وہ نہ کریںگے تو کیا کریںگے؟ اگر یہ اللہ اور اس کے عظیم پیغمبر حضرت محمد ؐ کے ماننے والے ہوتے تو استقبال کرنے کے لیے وزیر داخلہ کو بھیجتے ، راستے میں ہورڈنگ اور پوسٹر لگاتے، جن میںسب سے بڑا فوٹو راج ناتھ سنگھ کا ہوتا اور دکھاتے کہ اسلام میں جو ا کرام ضیف کا حکم دیا ہے اوراس پر عمل کرنے والوں نے اس طرح کیا کہ روشنی بجھا دی، خود بھوکے رہے اورمہمان کو کھلایا، اس کا مظاہرہ کرتے، لیکن وہ تو ان سے بھی بدتر ہوگئے ہیں جو خدا کے پیغمبر اور قرآن سب کو نہیںمانتے۔
پنڈت نہرو سے لے کر ڈاکٹرمن موہن سنگھ تک سب نے اور ان کے علاوہ بزرگ لیڈر اٹل بہاری باجپئی سے لے کر وزیر اعظم نریندر مودی تک سب نے یہ کوشش کری کہ جو تقسیم ہو نا تھی وہ ہوگئی اب درمیان میں دیوار بھی رہے اور برادرانہ تعلق بھی رہے، وہ ہندوستانی مسلمانوں جو ہندوستان میں رہ گئے تھے وہ سمجھتے تھے کہ جس دن بی جے پی اقتدار میں آئے گی وہ پاکستان کو ختم کردے گی، لیکن کون ہے جو یہ تسلیم نہیں کرے گا کہ اٹل جی اور مودی جی نے جیسی دوستی چاہی ایسی تو نہرو اور راجیوگاندھی نے بھی نہیں چاہی اوراسلام کا منہ کالا کرنے کی جیسی کوشش ایوب خاں سے لے کر پرویز مشرف تک اور ان دنوں میں نواز شریف کررہے ہیں ایسی اور اتنے دنوں تک تو تاریخ میں کسی نے بھی نہیںکی، اس کے بعد اس کے علاوہ کون سا راستہ ہے کہ تقسیم کی اس دیوار کو لوہے کی دیوار بنا دیا جائے، اور اتنا اونچا کردیا جائے کہ ہندوستان اور پاکستان کا آسمان اور چاند بھی الگ ہوجائیں، اس لیے کہ جتنا نقصان ہم ہندوستانی مسلمانوں کا ہوگا اتنا کسی کا نہیں اور ان میں ہم جیسے کروڑوں ہی ہیں جو صرف اس لیے نہیں گئے کہ ہم ہندوستان کے مسلمانوں کے ساتھ ہی جئیںگے ا ور مریںگے جبکہ مہینوں ہمارے والد کے لیے لاہور میں گھروں کو خالی رکھا گیا۔