ملک بھی بد نصیب اور ملک والے بدقسمت

Bhatkallys

Published in - Other

12:54PM Wed 8 Feb, 2017
اس ملک سے زیادہ بد نصیب کون ہوگا جس کے وزیر اعظم یا صدر کی بات کا اس کے عوام کو بھروسہ نہ ہو؟ اب تک ملک میں دو باتیں اہم مانی جاتی تھیں کہ کوئی وزیر یا پارٹی لیڈر کوئی بات پارلیمنٹ سے باہر کہے تو اس پر اعتماد نہیں ہوتا اور مطالبہ کیا جاتا ہے کہ ہاؤس کے اندر کہئے اور وزیر کوئی بات کہے تو مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وزیر اعظم کہیں تب مانیں گے۔یعنی وزیر اعظم کہہ دیں گے تو وہ پتھر کی لگیر ہوگا اور اس کا پورا ہونا یقینی ہوجائے گا لیکن ۱۲۵ کروڑ انسانوں کی یہ کتنی بڑی بدقسمتی ہے کہ اس ملک کے وزیر اعظم کے منہ سے جو بات نکلتی ہے وہ جھوٹ ہوتی ہے اور انہیں ایک لمحہ کے لیے بھی خیال نہیں ہوتا کہ اگر میرے اوپر نہیں تو یہ سوا سو کروڑ کس پر بھروسہ کریں گے؟ ۲۰۱۴ء میں جو الیکشن ہوا تھا اس وقت بی جے پی کے صدر راج ناتھ سنگھ تھے اور انھوں نے ہی نریندر مودی نام کے لیڈر کو وزیر ا عظم کا امیدوار بنایا تھا، اس وقت مودی امیدوار تھے اور امیدوار چاہے کسی پارٹی کا ہو جھوٹ بولنا اس کا حق نہیں ہے لیکن وہ جھوٹ بولتا ہے۔ لیکن ہم نے اتنے بڑے لیڈروں کو جنھیں پورا ملک بڑا مانے یا وہ وزیر اعظم بننے والے ہوں جھوٹ بولتے نہیں دیکھا۔ پنڈت نہرو، اندرا گا ندھی یا اٹل جی کی بات تو الگ رہی ہم نے آچاریہ کرپلانی کا 1963میں سنبھل میں الیکشن لڑایا اور ایک مہینہ ان کے ساتھ رہے۔ انھوں نے ایک تقریر میں بھی یہ نہیں کہا کہ میں اگر کامیاب ہوگیا تو سنبھل امروہہ اور حسن پور کے ہر گھر میں خوش حالی آجائے گی۔ انھوں نے ہر تقریر میں نہرو کی پالیسیوں کی مخالفت کی اور بتایا کہ وہ اگر یہ نہ کرتے تو یہ ہوتا اور اگر یہ کرتے تو غربت اتنی نہ ہوتی۔ اور یہ بات سب کو معلوم تھی کہ اگر آچاریہ جی جیت گئے تو وہ حزب مخالف کی صف میں جا کر بیٹھ جائیں گے اور پنڈت نہرو پر اعتراض کریں گے۔ نریندر بھائی مودی نے تو نہ جانے کتنے اعلان کیے تھے کہ اگر ان کی حکومت بن گئی تو ہر گھر میں دولت برسے گی۔ ہندوستان کا روپیہ ڈالر کے برابر ہوجائے گا۔اور ہر وہ بات جس کی عوام کو ضرورت تھی کہہ دی تھی۔ اور سب سے زیادہ زور اس پر دیا تھا کہ سیاست میں جو بے ایمان اور بد کردار لوگ آگئے ہیں ان سب کو جیل بھیجا جائے گا اور آئندہ کوئی داغی سیاست میں آنے کی ہمت نہ کرے اس کا انتظام کیا جائے گا۔ 2014کے الیکشن میں انہیں یہ حق تھا کہ وہ کہہ دیں کہ ٹکٹ میں نے نہیں دئے۔ لیکن وزیر اعظم بننے اور امت شاہ کو صدر بنانے کے بعد انہیں یہ حق نہیں ہے کہ وہ یہ کہہ سکیں کہ ٹکٹ انھوں نے نہیں دئے، جبکہ راج ناتھ سنگھ کو وزیر داخلہ بنایا ہی اس لیے تھا کہ ا مت شاہ کو پارٹی کے صدر بنانے کا راستہ صاف ہوجائے۔ اور نریندر بھائی مودی نے اس امت شاہ کو بی جے پی کا صدر بنایا جس کے اوپر بے گناہ قتل کرانے کی سازش کا الزام ہے اور اگر ملک میں ۵۰۰ لیڈر مرکز اور صوبوں میں وزیر داخلہ بنے ہوں گے تو امت شاہ ایسے اکیلے گجرات کے وزیر داخلہ تھے جو فرضی انکاؤنٹر کے ذریعہ قتل کرانے کی سازش کے مجرم تھے اور وزیر داخلہ ہوتے ہوئے گرفتار کرکے جیل بھیجے گئے اور جب لاکھوں روپے خرچ کرنے اور سیاسی دباؤ ڈالنے کے بعد سپریم کورٹ سے ضمانت ملی تو اس شرط کے ساتھ کہ تم گجرات نہیں جاؤگے جہاں کے تم وزیر داخلہ تھے اور جہاں وزیر اعلیٰ مودی تمہارا انتظار کررہا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی جب اتنے گہرے داغ والے کو حکمراں پارٹی کا صدر بناسکتے ہیں اور جب اترپردیش کے لیے پارٹی کے صدر کے نام کا مسئلہ آیا تو انھوں نے اس موریہ کے نام کو پسند کیا جس کے ا وپر قتل، اغوا اور ہر طرح کے ۱۱ مقدمے چل رہے ہیں اور مودی کو ایک دن بھی نہ 2014کے ا لیکشن میں کیے ہوئے وعدے یاد آئے اور نہ وہ تقریر جو سنٹرل ہال میں پہلی تقریر تھی جس میں کہا تھا کہ ان ممبروں میں جتنے داغی ممبر ہیں انہیں سال بھر کے اندر جیل بھیجا جائے گا اور جو پاک صاف ہیں وہ لوک سبھا کی عزت بڑھائیں گے لیکن ہوا یہ ہے کہ ان میں سب سے زیادہ بی جے پی کے ہیں اور مودی کی ناک کا بال وہی داغی ممبر ہیں۔ اور اس کے بعد جتنے صوبوں میں الیکشن ہوئے اور ہورہے ہیں ان سب میں جو ٹکٹ دئے گئے ہیں ان میں اکثریت وہ ہے جو مودی جی نے دئے ہیں اور اس وقت اترپردیش کے پہلے راؤنڈ میں ۷۰ سیٹوں کا الیکشن ۱۱ فروری کو ہوگا اس میں سماج وادی، کانگریس، بی ایس پی سب کے مقابلہ میں سب سے زیادہ داغی امیدوار بی جے پی کے ہیں۔ جنھیں ووٹ دلوانے کے لیے وزیر اعظم اپنا گلا پھاڑ رہے ہیں اورالیکشن کمیشن دیکھ رہا ہے کہ ایک ایک ریلی پر پارٹی کا جو بھی خرچ ہو سرکار کے کروڑوں روپے خرچ ہورہے ہیں۔ ہر جگہ جہاں وزیر اعظم آتے ہیں وہاں مقامی پولیس کے سیکڑوں جوانوں کے علاوہ وزیراعظم کی حفاظت میں لگے تمام افسر اور کمانڈوز اور سیکڑوں جوان صبح سے آکر قبضہ کرلیتے ہیں اور گھروں میں گھس کر نگرانی کرتے ہیں۔ مودی جب ایک پارٹی لیڈر بن کر تقریر کرتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ وہ وزیر اعظم ہیں تو پھر وہ مراعات بھی نہیں دینا چاہئیں جو وزیر اعظم کے لیے مخصوص ہیں۔ ۵ ریاستوں کے الیکشن سے پہلے بی جے پی کی ورکنگ کمیٹی میں مودی نے کہا تھا کہ کوئی بیٹے بیٹی بھتیجا بھتیجی کے لیے ٹکٹ نہ مانگے اور جب ٹکٹ دینے کا وقت آیا تو سب سے زیادہ بلکہ ۷۵ فیصدی ٹکٹ بیٹوں اور بیٹیوں اور پوتوں کو بی جے پی میں دئے گئے ہیں۔ انتہا یہ ہے کہ وہ موریہ جو مایاوتی کو چھوڑ کر آئے ان پر مایاوتی نے الزام لگایا کہ وہ اپنے بیٹے کے لیے بھی ٹکٹ مانگ رہے تھے اور مودی نے ایک ٹکٹ ان کو اور ایک ان کے بیٹے کو دے دیا اور ہر اس بے وفا کو دیا جو اپنی پارٹی چھوڑ کر آیا جس کی وجہ سے پارٹی میں بغاوت کی آگ بھڑک اٹھی ہے۔ تین سال کے اقتدار میں مودی جی نے یہ دکھایاہے کہ انہیں جو جتنا بڑا بدمعاش ہے اتنا ہی پیارا ہے۔ انھوں نے دیکھا کہ پارلیمنٹ کے کسی ایک ممبر کو بھی عدالت نے طلب نہیں کیا اور جب سے امت شاہ پارٹی کے صدر ہوئے ہیں کسی عدالت نے انہیں سمن بھیجنے کی ہمت نہیں کی۔ انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ پارٹی میں جتنے غنڈے بدمعاش ہیں انہیں اگر وزیر نہ بنا سکیں تو ایم ایل اے بنادیں تاکہ تھانے اور چھوٹی عدالتیں ان کی طرف آنکھ اٹھانے کی ہمت نہ کرسکیں۔ اخباروں کی حد تک سماج وادی پارٹی نے سب سے کم داغی امیدوار کھڑے کیے ہیں۔ اکھلیش یادو نے عتیق احمد اورمختار انصاری کی جیتنے والی سیٹیں چھوڑ دیں اور افضال انصاری کی وجہ سے غازی پور کو خطرہ میں ڈال دیا۔ ہم جیسوں کو شکایت ہے کہ انھوں نے صرف مسلمانوں کو دیکھا اور یہ ہمت نہیں کی کہ راجہ بھیا اور دوسرے ہندوؤں کا ٹکٹ کاٹ دیتے لیکن یہ صحیح ہے کہ انھوں نے خطرہ مول لیا اور جو مودی سب سے زیادہ شور مچارہے تھے وہ جھوٹے بن گئے۔ موبائل نمبر:9984247500