دہلی و اطراف کا ایک مختصر علمی سفر۔۰۵۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

دسمبر ۳ تاریخ کی نماز فجر جامع الرشید کے روح فرزا ماحول میں ادا ہوئی ، جس کے بعد ملتے ملاتے مہمان خانے پہنچے، جہاں بتایا گیا کہ مولانا عبد الخالق مدراسی صاحب نائب مہتمم دار العلوم صاحب سے ساڑھے سات بجے ناشتہ پر ملاقات طے ہے، اور مولانا کے پاس ساڑھے سات کا مطلب ہوتا ہے سات بج کر تیس منٹ، نہ ایک منٹ آگے نہ ایک منٹ پیچھے۔ دارالعلوم کی اہم شخصیات میں ابتک ہماری مولانا کی ملاقات سے محرومی چلی آرہی تھی، شاید اس کا سبب کچھ اپنی ہی طرف سے کوتاہی رہی ہوگی، کیونکہ مولانا انتظام و انصرام ، مالیات اور تعمیرات کے آدمی ہیں، لہذا مولانا کی اپنی مصروفیات رہی ہوں، یا اس کا سبب ان میدانوں کی شخصیات میں کچھ اپنی بھی دلچسپی میں کمی رہی ہو، لیکن اب کی بار ہمارا دیوبند آنا ہوا، تو ہمارے رہنما مفتی ساجد صاحب کو مولانا مدراسی سے ملاقات کروانے کی خاص درخواست کی تھی۔ اس دلچسپی کا ایک اہم سبب یہ بھی تھا کہ چند رو ز قبل بنگلور کے مولانا مفتی شعیب اللہ مفتاحی سے ہمیں معلوم ہوا تھاکہ آپ کے بھائی مولانا مفتاحی کے ہم زلف ہیں، اور مولانا مفتاحی وانمباڑی کی مشہور علمی و تاریخی شخصیت مولانا محمد جمیل خطیب مرحوم کے داماد ہیں، اب کی نسل مولانا خطیب کی شخصیت سے ناواقف ہے، ورنہ آپ کا سنہ ساٹھ اور ستر کی دہائی میں بنگلور اور وانمباڑی میں بڑا نام تھا، آپ کی ادارت میں بنگلور سے روزنامہ اور ہفت روزہ اخبار نکلتے تھے، جن میں اخبار روشنی کافی معروف تھا، اور آپ کی کتاب آئینہ وانمباڑی اس علاقے کی سماجی ، علمی اور تعلیمی تاریخ پر اہم دستاویز شمار ہوتی تھی، اور ہمارے لئے خطیب صاحب میں اس لئے بھی دلچسپی تھی کہ انہیں ہم اپنے مشفق استاد مولانا عبد الباری حاوی خطیب معدنی رحمۃ اللہ علیہ کا بھائی سمجھتے آرہے تھے۔آج کی نسل مولانا حاوی کو کیا جانے؟ بات تو کل کی لگتی ہے، ۱۹۷۲ء میں ہم درجے میں بیٹھے تھے،کہ خبر آئی تھی کہ ۱۶ /جنوری کوجدہ ایر پورٹ سے احرام باندھے مر الظہران کے راستے تلبیہ پڑھتے عازم حرم تھے ، کہ اوپر سے بلاوا آگیا، دل کا دورہ پڑا ، اور اللہ کو پیارے ہوگئے،ساتھ میں کوئی جان پہچان کا آدمی نہیں تھا، وطن سے تنہا گئے تھے، چھ سات دن کے بعد انتقال کی خبر گھر والوں تک پہنچی، ۴۷ سال کی مدت کسی کو حافظہ سے فراموش کردینے کے لئے کچھ کم تو نہیں ہوتی؟۔ اس وقت دارالعلوم دیوبند سے جن علاقوںکے مسلمانوں کو بہت زیادہ عقیدت ہے ان میں ارکاٹ کا علاقہ آمبور، میل وشارم،وانمباڑی بہت اہمیت رکھتا ہے، اور اسے دیوبند سے مربوط کرنے میں جن شخصیات نے کردار ادا کیا، ان میں ہمارے مولانا عبدا لباری حاوی اور ان کے والدماجد مولانا عبید اللہ خطیب رحمۃ اللہ علیہ کا بڑا نام آتا ہے، آخر الذکر حضرت مولانا مفتی رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ مولانا مفتی عبد المجید پنگنوری رحمۃ اللہ علیہ کو آندھرا کی ایک غیر معروف چھوٹی سی بستی سے بلواکر وانمباڑی میں لا بسایا تھا، اور ان کا گھر آباد کیا تھا، یہاں آپ کی سرپرستی میںمدرسہ معدن العلوم کا قیام عمل میں آیا ، مولانا حاوی اسی مدرسہ کے اولین فارغین میں تھے، اس زمانے میں حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کا بنگلور آنا ہوتا تھا، بنگلور میں آپ کے قیام کےد وران حضرت شیخ الاسلام سے بیعت و ارشاد کا تعلق قائم ہوگیا تھا،اسی تعلق سے مولانا حاوی ۱۹۵۱ء میں پہلی مرتبہ حضرت مدنی رحمۃ کو بنگلور سے وانمباڑی لائے تھے۔ مولانا مدراسی کے حجرہ شریفہ میں کئی گلیوں کو پار کرکے اور سیڑھیاں چڑھتے اترتے پہنچے، کواڑ پر پڑی کنڈی کو حرکت دی ،سامنے حقہ رکھا ہوا تھا، جس کی کئی گز لمبی نے آپ کے منہ تک پہنچ رہ کر بڑا خوش نما منظر پیش کررہی تھی، مولانا کا تعلق بھی ارکاٹ کے اسی علاقے سے ہے، مولانا نے گذشتہ نصف صدی کے دوران دارالعلوم میں اپنے بیش قیمت نقوش چھوڑے ہیں، دارالعلوم کی تعمیرات کے انتظام و انصرام سے وابستہ رہے جامع الرشید اور کتب خانہ کی عالیشان عمارتیں ان شاء اللہ جب تک قائم و دائم رہیں گی، آپ کا نام زندہ رہے گا، کیوں کہ یہ آپ کے عہد کی نشانیاں ہیں، مولانا دل کھول کر بات کرنے والی شخصیت ہیں، اس مختصر ملاقات میں بھی آپ نے اپنی زندگی کے مختلف مرحلوں پر روشنی ڈالی اور بڑے بے تکلفانہ انداز میں بات کی، مولانا بہت پر لطف انداز میں بولتے ہیں، اس میں مزاح کا عنصر حاوی رہتا ہے، آپ کی باتیں سن کر کئی دفعہ چہروں پر مسکراہٹ پھیل گئی، کبھی ہنسی بھی بے اختیار چھوٹ گئی، مولانا کی باتوں سے دور حاضر کے عظیم ترین مزاح گو شاعر انور مسعود کی یہ بات یاد آئی کہ جب شاعر کی آنکھوں میں شدت غم سے آنسو سمٹ آتے ہیں، تو وہ انہیں نچوڑ کر ہنس دیتا ہے، ایک مزاح نگار کے فن کی معراج یہی ہوتی ہے کہ وہ غم اور آلام کی انتہا پر قہقہے مارنے لگتا ہے۔ مولانا کی زندگی بڑی سبق آموز ہے، نئی نسلوں کے لئے اس میں ایسے درس چھپے ہوئے ہیں، جو ناکامیوں سے ڈولتی نیا کر کامرانی سے ہم کنار کرسکتے ہیں، مولانا نے جب اس دنیا میں آنکھ کھولی تھی ، تو والد ماجد نے آپ کی والدہ سے قطع تعلق کرکے دوسرا گھر بسا لیا تھا، اور دوبارہ انہوں نے کبھی ان کے بھائی بہنو ںپر نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا، مولانا نے بھی اپنے والد کی صرف میت ہی دیکھی تھی، آپ نے ایک یتیم کی حیثیت سے زندگی کے ابتدائی دن گزارے، بچپن کی خوشیوں اور لاابالیوں سے محروم رہے، گائوں کی ابتدائی تعلیم کے بعد دارالعلوم سبیل الرشاد بنگلور میں داخلہ لیا، یہاں سے تکمیل کرنے سے پہلے ۱۹۶۰ کی دہائی کے آواخر میں دارالعلوم پہنچ گئے، اور پھر یہیں کے ہورہے، والد نے آپ کی والدہ اور دوسری بیوی کے بطن سے نو بھائی بہن چھوڑے تھے ، جاننے والے جانتے ہیں کہ ٹامل ناڈو ، اور ملبار ، اور کرناٹک کے شمالی علاقوں میں لڑکیوں کی شادی کی ذمہ داری کتنی وبال جان ہوا کرتی ہے، گھوڑے جوڑے اور سونا لتا میں کتنا کچھ گروی رکھنا پڑتا ہے، مولانا نے اپنی بہنوں کا ہاتھ پیلے کرتے اور انہیں ڈولی پر بٹھاتے عمر گزار دی، اور جب ان کے سر پر سہر ا باندھ کر گاڑی پر بیٹھنے کا وقت آیا تو ان کی عمر کی گاڑی چھوٹ چکی تھی۔ اب تجرد کی زندگی ہی میں خوش ہیں، اور دوسروں میں بھی مسرتیں بانٹ رہے ہیں۔ جو افراد ہمارے قومی اور ملی اداروں میں درس وتدریس اور تصنیف و تالیف کے کاموں میں لگنے کا موقعہ نہیں پاتے، بلکہ وہ تعمیرات ، انتظام و انصرام اور وسائل کی فراہمی میں لگ جاتے ہیں، ان کی قدر وقیمت ، اعضاء کی مضبوطی تک ہوتی ہے، جہاں اعضاء و جوارح نے ساتھ چھوڑ دیا ، جسم میں سکت نہیں رہی، وہ طاق نسیان میں ڈال دئے جاتے ہیں، لیکن بہت کم لوگوں کو اس بات کا احساس رہتا ہے کہ جو حضرات وسائل اور انتظام وانصرام کی ذمہ داریوں سے لگ کر اہل علم حضرات کو علمی اور تحقیقی کاموں کے لئے یکسو کردیتے ہیں در اصل یہی افراد شخصیت ساز ہوتے ہیں، ان کی اہمیت کبھی کسی کتاب کی تصنیف و تالیف سے بڑھ جاتی ہے، بیسویں صدی میں ایسے کئی ایک نام سامنے آتے ہیں، جنہوں نے اداروں کے لئے وسائل کی فراہمی اور انتظام کے لئے وقف کیا، ان کی اس قربانی سے آسمان علم کے آفتاب و ماہتاب طلوع ہوکر علم و تحقیق کی فضائوں کو منور کردیا ، اور ان اداروں کو ایسی شخصیات مل گئیں جنہوں نے ان کی شہرت کو پر لگا دئے۔ ان ناموں میں بطور مثال آپ حضرت مولانا سید علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ کا نام لے سکتے ہیں، آپ کے رفقاء میں سے جس طرح مولانا معین اللہ ندوی رحمۃ اللہ اور مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتھم نےناظم ندوۃکو انتطام و انصرام کے جھمیلوں سے آزاد کردیا ،اس سےآپ تصنیف وتالیف اور اسفار اور ملی کاموں کے لئے فارغ ہوگئے، جس کے نتیجے میں مولانا کے قلم سے ایسے گہرپارے نکلے جن سے ندوے کی شہرت کو چار چاند لگ گئے، مسلم مجلس مشاورت اور مسلم پرسنل بورڈ جیسے ملی پلیٹ فارموں کی قیادت ندوے کی طرف ہونے لگی، کچھ اسی طرح دارالمصنفین اعظم گڑھ نے بھی علمی دنیا میں جو نام کمایا وہ اظہر من الشمس ہے، یہاں پر علامہ سید سلیمان ندوی کی قیادت میں ایسا علمی و تصنیفی کام ہوا کہ ندوہ، دارالمصنفین اور ملت اسلامیہ ہندیہ کا سر فخر سے بلند ہوگیاا، لیکن بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ ان اہل علم کو انتظامی امور کے بوجھ سے آزاد رکھنے کے لئے مولانا مسعود علی ندوی رحمۃ اللہ نے کتنے پاپڑ بیلے تھے، جاہلوں کو چھوڑئے پڑھے لکھے بھی مولانا مسعود علی کے نام سے ناواقف ہیں، جب تذکرہ آتا ہے، تو آپ آپ کے ایک خورد ہم نام معروف مصنف مولانا مسعود عالم ندوی کے ناموں کو گڈ مڈ کرجاتے ہیں، لیکن انسان اس دنیا میں جو اچھے کام کرتا ہے وہ ضائع نہیں جاتا، اللہ تعالی نے ایسے ہی قربانی دینے والوں کی آنکھین بند ہونے کے بعد انعام اکرام کی نوید سنائی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مولانا مدراسی کی باتوں نے ہمیں بہت حوصلہ دیا ، بعض جگہ تو ایسا محسوس ہونے لگا کہ کچھ میری ہی آب بیتی کے کچھ ابواب پڑھ کرسنا رہے ہیں، کیوں کہ جو حالات مولانا پر گذرے ہیں، ویسے سو فیصد تو نہیں ، لیکن ان کا تھوڑا بہت پرتو اس ناچیز کی زندگی کے مختلف پڑا ہے، مولانا مدراسی سے اس مختصر سی ملاقات میں ہم نے بہت کچھ سیکھا، اللہ آپ کا سایہ تادیر قائم رکھے، آمین۔ مولانا سے کئی ایک باتوں پر تبادلہ خیال ہوا، مجوزہ کتب خانے پر ہیلی پیڈ کی تعمیر کے بارے میں استفسار پر مولانا نے فرمایا کہ دارالعلوم کے منتظمین کا ہیلی پیڈ بنانے میں نقصان ہی نقصان ہے، دیوبند میں کہیں ہیلی پیڈ بنانے کی جگہ نہیں، اب اگر دارالعلوم میں بن جائے گا تو ہر روز سرکاری مہمانوں کا تاتنا لگ جائے گا، جس سے سیکوریٹی کے اہلکاروں کی مسلسل آئو جائو لگی رہے گی،ان انتظامات میں دار العلوم کا تعلیمی ماحول تاراج ہوجائے گا۔ اور یہاں پڑھنے پڑھانے والوں کی یکسوئی تاراج ہوجائے گی واپسی پر دار العلوم کی مختلف عمارتوں ، جدید دار الحدیث اور لائبریری وغیرہ کی عمارت دیکھنے کا موقعہ ملا، راہ چلتے دارالعلوم کے ویب ایڈیٹر مفتی محمد اللہ خلیلی، اور گروپ ممبر مولانا اشرف عباس قاسمی وغیرہ سے علیک سلیک کا موقعہ ملا۔ ۔ جاری۔۔۔ 4/1/2020