بھٹکل نامدھاری سنگھا اپنے لیڈروں کی حمایت میں۔۔کیا ہم ایسا نہیں کرسکتے؟! )دوسری اور آخری قسط)۔۔از: ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........
بھٹکل اسمبلی حلقے کا نامدھاری طبقہ بحیثیت مجموعی ایک زمانے سے بظاہر ہی سہی کانگریس، جنتا دل اور اس طرح کی دوسری سیکیولر پارٹیوں سے وابستگی کے لئے جاناجاتارہا ہے۔لیکن پولیس کے ہاتھوں اس طبقے کے چند نوجوان قائدین کی گرفتاری اوران پر لگائے گئے سنگین الزامات کے خلاف جس طرح سڑک اورسرکاری دفاترپرنامدھاریوں نے متحدہ مورچہ سنبھالا اوراپنی سیاسی وسماجی قیادت کے سلسلے میں جس سنجیدگی اور مؤثر حکمت عملی کا مظاہرہ کیا ہے وہ یقیناًلائق ستائش ہے۔کیونکہ جن نوجوان لیڈران کی گرفتاری کے خلاف پوری نامدھاری برادری نے متحدہ موقف اپنایا ویسے تووہ سب کے سب بی جے پی اورسنگھ پریورا کے شدت پسند نمائندوں کے طور پر جانے پہچانے جاتے ہیں۔لیکن جب ان پر آفت آئی تو پورا سماج ایک ہو کر ان کی رہائی اور پشت پناہی کے لئے میدان میں کود پڑا۔
ہم مسلمان ایسا کیوں نہیں کرسکتے؟!: اس پس منظر میں عام افراد کا یہ سوال بالکل فطری اور حق بجانب ہے کہ ہم مسلمان ایسا کیوں نہیں کرسکتے؟ یا پھرہمارے اندر ایسی نوجوان لیڈر شپ کیوں پیدا نہیں ہوئی؟ اس طرح کے سوالات کا تجزیہ اگر چہ کچھ تلخ اور ناگوار تو ہوسکتا ہے مگر بیماری کے علاج کے لئے کڑوی دوا پینا یا پلانا ضروری ہوجاتا ہے۔اور کبھی کبھار انجکشن کی سوئی سے یا پھر آپریشن کے نشتر سے بھی کام لینا پڑتا ہے۔ اس لیے جیسا کہ میں نے اس موضوع پر اپنے مضمون کی سابقہ قسط میں پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ
رکھیو غالبؔ مجھے اس تلخ نوائی پہ معاف
آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے
یہ فسادات کے بعد کی لیڈرشپ ہے: آج ہمارے یہاں مسلمانوں کے مقابلے میں ہندوؤں اور خاص کر نامدھاری سماج میں جس ابھرتی قیادت کازور چلا ہے وہ بھٹکل کے1993 کے مسلم کش فسادات اور1996میں بی جے پی رکن اسمبلی ڈاکٹر چترنجن کے قتل کے بعد پیدا ہونے والی فسطائیت کے زہر سے بھری ہوئی لیڈرشپ ہے۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ ۹۳ء کے فسادات کے بعد ہم لوگوں نے نامدھاری سماج کے سینئر قائدین کے جس بڑے طبقے کوکانگریسی ، جنتادل یا سیکیولرسمجھ کراس پرمسلسل اعتماد کیا تھاان میں سے بیشتر وہ خود اب بی جے پی اور سنگھ پریوار کے کیمپ میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔سمجھنے کی بات بس یہ ہے کہ نامدھاری سماج کے پاس ووٹوں کی ایک بڑی قوت ہے اوروہ ہر حال میں اپنے اقتداراور مفاد کے لئے اس کااستعمال کرنے کے موقف میں آگئے ہیں، چاہے وہ بی جے پی کے سہارے ہی کیوں نہ ہو۔
93 کے بعد ہماری لیڈرشپ بھی ابھری تھی: بھٹکل میں جب 1993 کے مسلم کش فسادات ہوئے تھے تو اس وقت ماشاء اللہ ہمارے یہاں بہت ہی سینئر ،سنجیدہ اور مخلص لیڈر شپ موجود تھی۔جن میں سے کچھ اہم ترین قائدین اب راہئ ملک عدم ہوچکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور بلندئ درجات سے انہیں سرفراز فرمائے (آمین )۔
لیکن ان فسادات کے پس منظر میں جس طرح نامدھاری اور دیگر ہندوطبقات کی لیڈرشپ سامنے آئی ہے اسی طرح ہمارے مسلم سماج سے بھی ایک نئی اور تازہ دم لیڈر شپ ابھر ی تھی۔ یہ تازہ دم قیادت سر اٹھانے کی اصل وجہ فسادات کے دوران سینئر قیادت کی طرف سے کیے گئے اقدامات اور طریقۂ کار سے نوجوانوں کی بے اطمینانی تھی۔پھر دیکھتے ہی دیکھتے مجلس اصلاح و تنظیم کے بینر تلے ایک نوجوان قیادت عملی میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے لگی۔ بدلتے ہوئے حالات کے پس منظر اور وقت کے تقاضوں کے تحت پرجوش اور پر اثر انداز میں قیادت کے محاذ پر ان کی سرگرمیاں اپنا رنگ دکھانے لگیں۔جو زبان حال سے یہ کہہ رہی تھی:
ہم کو طوفان سے لڑنے میں مزا آتا ہے
ورنہ بہہ جاتے ہیں سیلاب کے رُخ پر کتنے
اس کانتیجہ یہ ہوا کہ مدمقابل قوموں اور طبقات کے علاوہ پولیس اور ایڈمنسٹریشن پربھی ہماری اجتماعی قوت اور نمائندہ مرکزی ادارے کا سکہ بٹھانے میں یہ ٹیم کامیاب ہوتی گئی۔ سنگین حالات کا پامردی سے مقابلہ: 93ءکے بعد ابھرنے والی تنظیم کی اس قیادت نے فسادات کی تحقیقات کے لئے قائم جگن ناتھ شیٹی کمیشن میں پیروی ، فسادات کے تعلق سے عدالتوں میں قانونی پیروی، چترنجن مرڈ ر کے بعد کے پیچیدہ اور کشیدہ حالات کا سامنا، ریپیڈ ایکشن فورس کے چھاپے اوراس کے منفی اثرات کے علاوہ چترنجن مرڈر کیس کی تحقیقات کے نام پر سی بی آئی کی کارروائیوں کے سلسلے میں پیدا ہونے والے سنگین حالات کا جس پامردی سے مقابلہ کیااورسخت بحرانی دور میں اس ٹیم نے جس جرأت مندی کے ساتھ جدوجہد کی تھی ، وہ اپنی مثال آپ ہے۔سچائی یہ ہے کہ آج بھی لوگ اسے فراموش نہیں کرپارہے ہیں اور رہ رہ کر اس گزرے زمانے کی یادیں تازہ کرلیتے ہیں۔ بے مثال عوامی حمایت اور پشت پناہی: خوش بختی کی بات یہ تھی کہ ہمارے مرکزی ادارے کے تحت مسلمانوں کی اس ابھرتی قیادت کوبے مثال اور بے پناہ عوامی حمایت حاصل تھی۔صرف مقامی نہیں ہی بلکہ ملکی اور عالمی ملّی مسائل اور مسلمانوں کے ایشوز پر محض دو تین دن کی نوٹس پر دس دس پندرہ پندرہ ہزار افراد کوخاموش احتجاجی مظاہروں کے لئے جمع کرنا اس وقت ایک عام سی بات تھی۔اور اگریہ کہا جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا کہ آج ہمارے نوجوان غیروں کے جن تازہ مظاہروں اوران کی قوم کی طرف سے انہیں ملنے والی جس حمایت کودیکھ کر حیران ہو رہے ہیں ، اس سے کئی گنا زیادہ پشت پناہی ہماری نئی لیڈر شپ کو حاصل تھی۔ کاش ایسا نہ ہواہوتا!: بدبختی کی بات یہ ہوئی کہ کچھ ہی عرصے بعدہمارے اندر سے ہی مختلف زاویوں سے اس نوجوان قیادت کے ہاتھ پیر باندھنے اور گلاگھونٹنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس میں پولیس اور دیگر محکمہ جات کے افسران کی اپنی حکمت عملی بھی کام کرگئی اوردھیرے دھیرے اس قیادت کے کچھ اہم کرداروں کومنظر سے ہٹانے کاکام پوری طرح مکمل کرلیا گیا۔اس مکروہ سرگرمی میں انفرادی طور پر بعض لوگوں نے جو رول ادا کیا اس کی تفصیلات میں جانے سے تو کچھ حاصل نہیں ہے ، لیکن یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہونا چاہیے کہ وقت اور حالات کے ساتھ قانون اور انتظامیہ کے ساتھ آنکھ سے آنکھ ملا کر دو ٹوک بات کرنے والوں کو اپنے شخصی مفادات کے تحت یا پھرکسی کے من چاہے طریقۂ کارسے اتفاق نہ کرنے کی جو سزا دی گئی اور انہیں کنارہ کش ہونے پرجس طرح مجبور کیا گیا، اگر ایسا نہ ہوا ہوتا توشایدآج ہماری قیادت کا رنگ ہی کچھ اور ہوتا۔اپنی آنکھوں سے لہو اپنا جگر دیکھ لیا
جو کچھ آیا تری محفل میں نظر دیکھ لیا
یہ شکوہ بھی درست نہیں ہے : البتہ بعض لوگ یا گروہ یہ جو تنظیم کی موجود ہ قیادت سے بیزار نظر آتے ہیں اور ہر موقع پر اس کی بے عملی یا بے اثری کا گلہ شکوہ کیا کرتے ہیں ، یہ یوں بھی درست نہیں ہے کہ بہرحال یہ بھی عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر آنے والی قیادت ہے۔ اس میں سابقہ ٹیم کے بعض متحرک اور فعال ارکان بھی شامل ہیں۔ضروری نہیں ہے کہ ہر بار اور ہر مسئلے میں عوام کی سوچ اور توقعات کے مطابق ہی کوئی بھی قیادت کارروائی انجام دے۔ مسائل کو دیکھنے اور سمجھنے کا اپنا اپنا زاویۂ نظرہوتا ہے۔افراد کے بھی اپنے اپنے مفادات اور تحفظات ہوتے ہیں۔ نتائج اور خدشات کو پرکھنے اور قبول کرنے کاہر کسی کا اپنا معیارہوتا ہے ۔ اوراس بنیاد پر کسی بھی منتخب قیادت کو ان کی اپنی سوچ اور طریقۂ کارسے ہٹ کر نئی راہ اپنانے کے لئے مجبور کرنا آسان نہیں ہوتا۔کیونکہ اس سے نکلنے والا اختلاف کا راستہ مخالفت کی شاہراہ سے ہوتے ہوئے افتراق کے چوراہے پر جاکر ختم ہوتا ہے، جوکسی بھی اجتماعیت کے لیے زہر ہلاہل سے کم نہیں ہوتا۔ اورشاید۔۔ ایساہورہا ہے : بات بس اتنی سی ہے کہ عوام کی توقعات سے ہم آہنگ ہونے اوروقت کے تقاضوں کوپورا کرنے کے لئے عملی طور پر سرگرم ٹیم کاپہلے آپس میں ہم آہنگ ہونالازمی ہے۔اگرسرگرم عمل ٹیم کے اندر ہی مسائل کو سمجھنے کے انداز اورسوچ کے زاویے میں اختلاف ہوتو پھروہ نتائج نہیں نکلتے جس کی فی الواقع ضرورت ہوتی ہے۔ جس پرانی ٹیم کو لوگ یاد کرتے ہیں ، اس کا سب سے اہم اور مثبت پہلو یہی تھا کہ وہ ٹیم ذہنی طور پر پوری طرح یکسو ئی، ہم آہنگی اور بے جگری کے ساتھ اقدامات کیا کرتی تھی۔اور شاید اسی زاویے سے موجودہ قیادت عوام اور نوجوانوں کے سامنے اپنے آپ کو منوانے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوئی ہے۔جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ نوجوانوں کے اندر پائی جانے والی بے چینی اور اضطراب کوکچھ افراد یا گروہ اپنے حق میں استعمال کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں۔ کاش ایسا ہوجائے !: اب بھی وقت ہے کہ کاش ہماری موجودہ قیادت اپنی حکمت عملی کا ازسر نو بھرپور جائزہ لے۔زمانہ جوچال چل رہاہے اس کی غضب ناکی کو پھر سے جانچے اور پرکھے۔ نوجوانوں کی امنگوں اور آشاؤں کو سمجھے یا پھر اپنی حکمت عملی کے پراثر اور کارآمد ہونے کے سلسلے میں انہیں مطمئن کرنے کی سعی وجہد کرے۔تاکہ ہمارے صد سالہ مرکزی ادارے کے عوامی اعتماد پر کوئی حرف نہ آنے دیتے ہوئے اس کے اثر و نفوذ کو کسی بھی قسم کے بحران یا نقصان سے بچانے میں کامیاب ہوجائے ۔احساس عنایت کر آثارِ مصیبت کا امروز کی شورش میں اندیشۂ فردا دے
اللہ کرے کہ ہماری اجتماعیت کی یہ بیش بہا نعمت تا قیامت محفوظ اور تیز گام رہے۔ (آمین) haneefshabab@gmail.com (نوٹ : مندرجہ بالا تحریر مضمون نگار کی ذاتی آراء اور خیالات پر مشتمل ہے۔اس سے ادارہ بھٹکلیس کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ادارہ)