اسکولوں کے نئے سال کاآغاز نئی امید! نئے ارادے !

Bhatkallys

Published in - Other

06:15AM Tue 26 May, 2015
از:عبدالحفیظ خان ندوی علم کی اہمیت و افادیت سے کسی کو انکار نہیں ،انسانی زندگی کا تعلیم سے ایک خاص رشتہ ہے گویا یہ ایک ایسا پل ہے جو ایک انسان کو صحیح انسان بناتا ہے ،تاریخ گواہ ہے کہ وہی قومیں بام عروج پر پہنچی ہیں جنکا تعلیم سے خاص تعلق رہا ہے ، اسلام نے بھی روز اول سے تعلیم کی اہمیت پر زوردیا ہے جس کا اظہار پہلی وحی الہٰی سے ہوتا ہے ،جس کی ابتداء "اقراء "سے ہو ئی ۔ دنیا میں اس وقت دو نظام تعلیم ہیں دینی وعصری ،مسلمانوں کی یہ خاصیت رہی ہے کہ وہ دونوں تعلیم کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ،بعض افراد تو ایسے ہیں جو ماحول کی وجہ سے عصری تعلیم کی طرف راغب ہوتے ہیں لیکن زیادہ تر اپنے معاش کے لئے جسکو سیدھے الفاظ میں کہا جائے (Future)اپنامستقبل بنانے کی فکر میں وہ اعلی سے اعلی ڈگریوں کے حصول کے لئے کوشش کرتے ہیں زیادہ تر یہی دیکھا جاتاہے کہ لوگ عصری تعلیم ہی کی طرف بھاگتے ہیں ،لیکن اسکے ساتھ دینی تعلیم سے لگاوبھی ہو تو نورٌ علی نور ہے ۔ آج کل اسکولوں میں نئے داخلے شروع ہوچکے ہیں اسی ماہ میں عصری اسکولوں میں نئے تعلیمی سال کاآغاز ہوتا ہے اور ہر والدین اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر میں جلد سے جلد بہتر سے بہتر اسکولوں میں داخل کرانے کی کوشش کرتے ہیں ،اور اس وقت ہر اسکول والے سرپرستوں کی توجہ اپنے اسکولوں کی طرف راغب کرانے کے لئے اشتہارات کے ذریعہ اپنی کارکردگی کو عام کرتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ بچے انکے ادارے میں داخل ہوں بہتر مستقبل ۔۔۔جدید نظام تعلیم ۔۔۔۔انگریزی میڈیم کی تعلیم ۔۔۔سی بی ایس سی ،آئی سی یس سی سلیبس ۔۔۔۔اسمارٹ بورڈ۔۔۔سوفیصد رزلٹ۔۔۔۔آنے جانے کے لئے سواری کا بہترین انتظام ۔۔۔۔کشادہ میدان ۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔۔۔یہ وہ سب طریقے ہیں جس سے والدین کی توجہ اپنی طرف مبذول کراتے ہیں ، ہر والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ انکی اولاد اچھے سے اچھے اسکول میں پڑھے بہتر سے بہتر نمبرات سے کامیاب ہو،انجینئر ،ڈاکٹر وغیرہ بنے اور والدین کانام روشن کرے ،والدین بھی انہی اسکولوں کا رخ کرتے ہیں جہاں اعلی سے اعلی تعلیم ملے ،اس بات سے انکار نہیں کہ بچوں کو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم نہ دی جائے بلکہ دینی چاہیئے لیکن اس اعلی تعلیم و اعلی اسکولوں کے انتخاب میں ہمیں ان اسکولوں کا انتخاب کرنا چاہیئے جس سے ہمارے نونہالوں کا دین وایمان بھی باقی رہے اور جن اسکولوں کی بنیاد و مقاصد اسلام مخالف ہوں ان اسکولوں سے پرہیز کریں ورنہ ہم اپنی اولاد کے مستقبل کو نکھارنے کی فکر میں اصل راستہ سے نہ ہٹ جائیں ،جو اس دنیا میں نہیں تو آخرت میں تو ضرور پچھتاوے کا سبب بنے گا ۔ ہمارے لئے بہت ہی خوشی کی بات ہے کہ ہم اور آپ جس ماحول میں رہتے ہیں وہ دیندار علاقہ کہلایا جاتا ہے ،جہاں الحمد للہ بڑے بوڑھے کیا بچوں تک کے اندر بھی دین موجود ہے ،عصری علوم حاصل کرنے کے علاوہ اسلامی تعلیمات سے محروم نہیں رہتے ،جس میں اسلامیات کا نصاب قابل رشک ہے جوصرف شہر بھٹکل ہی میں محدود نہیں بلکہ عالمی پیمانے پر بھی اسکے امتحانا ت ہوتے ہیں جس سے بچوں کے اندر پورا دین نہیں تو دین کی کچھ سمجھ بوجھ تو آجاتی ہے ،اسکے علاوہ بروج دینیات کانصاب بھی ہے ،لیکن ان سب کے باوجود ہمارے ہی شہر میں کچھ ایسے غیر اسلامی کام ہمارے ہی ان نونہالوں سے لئے جا رہے ہیں جو ہماری ان سب کارکردگی پر پانی پھیرنے کا کام کرتا ہے جسکو ہم "چراغ تلے اندھیرا" ہی کہہ سکتے ہیں ،یہ بات کچھ ان افراد کے بچوں کی ہے جو بھٹکل میں ددسرے علاقوں سے آبادہیں جنکو معاش نے یہاں کھینچ لایا ہے ،جو زیادہ تعلیم یافتہ نہ ہونے کی وجہ سے اپنے بچوں کی تعلیم کی زیادہ فکر نہیں کرتے یہ کہہ کر "پڑھ لکھ کر کیا کرو گے،کام میں لگو تو پیسے ملیں گے "زیادہ تر یہ بچے دسویں بھی پاس نہیں کرتے یا تو کام پر لگ جاتے ہیں ،جو پڑھتے ہیں تو بھی فیس ویس کے چکر میں نہ پڑ نے اعلیٰ اسکولوں میں داخل ہو نے کے بجائے سرکاری اسکولوں میں داخل ہوجاتے ہیں(اس بات سے انکار نہیں کہ کوئی ان کی مدد کرنے تیار نہیں مجلس اصلاح و تنظیم بھی بچوں کو فنڈ دیتی ہیں، لیکن انکے بھی کچھ شرائط ہیں ،جس میں وہ زیادہ تر ایک ہی گھر کے بچے کو دیتے ہیں زیادہ افراد ہونے کی وجہ سے بھیڑ میں کھڑے رہنا ٹوکن ملے نہ ملے اس جھنجھٹ میں پڑے ہی نہیں ایسے افراد اس طرف کارخ بھی نہیں کرتے اور جو پڑھانا چاہتے ہیں انکو ایک بچے کو ملا تو دوسرے کو نہیں )زیادہ تر اردو میڈیم یا کنڑا میڈیم اگر بات اردو میڈیم کی ہو تی تو ایک حد تک مشکل نہ تھی لیکن جب کنڑا میڈیم کی ہو تو پھر سوچنے کی ضروت ہوتی ہے لباس کے ناحیہ سے ہو یا پھر صبح میں دعا کے آغاز سے ،اس بات کا اندازہ اس وقت ہوا جب کسی صاحب خیر نے اس طرح کی رپورٹ مولانا انصار ندوی صاحب کو دی تو مولانا کو اس بات کی فکر لا حق ہو ئی کہ جس محلہ میں وہ قیام کرتے ہیں وہاں بھی کچھ افراد کے بچے ان اسکولوں میں پڑھتے ہیں ،تو بعدنماز مغرب مولانا نے ایسے بچوں کاسروے کراکے ان بچوں کو جمع کیا تو جو باتیں مولانا نے بتائی تھی وہ حرف بہ حرف ثابت ہو ئی یکے بعد دیگرے ان سے سوالات کئے گئے تو بچے شروع میں بیان کرنے میں جھجک محسوس کرنے لگے لیکن محبت سے انکو بات سمجھائی گئی تو انھوں نے اپنی زبان کھولی اور کہا کہ پکنگ کے نام پر ان اسکولوں میں غیروں کے معبد خانہ میں لے جایاجاتا ہے اور وہاں کا طواف کراکر پھر ان میں پرساد تقسیم کی جاتی ہے پرساد کیا ہوتا ہے و ہ تو گائے کا پیشاب ،اب خواہی ناخواہی ان بچوں کو پینا ہی پڑتا ،اسی طرح اکشراداسوہایوجنا کے تحت( بسی اوٹا) دوپہر کے کھانے کے وقت بھجن گاکر کھانا کھلایا جا تا ہے جو تمام بچوں کو پرھنا پڑتا ہے جس میں یہ بچے بھی ہوتے ہیں ،اسی سے جڑی ایک بات اور قلمبند کروں وہ یہ ہے کہ دو پہر کے کھانے کے لئے حکومت سے دال چاول وغیرہ کا اہتما م ہوتا ہے وہیں کئی ایسے غیر مسلم افراد اور انکے سنگھ ہوتے ہیں جو ان بچوں کے کھانے کے لئے سبزی وغیرہ کے لئے اپنے پیسے بھگوان کے نام پر دان کرتے ہیں جسکو وہ ان اسکولوں میں استعمال کرتے ہیں اگر ہمارے بچے غیراللہ پر دان کیا ہو ا کھاتے ہیں تو کیا ہوگا یہ تو آپ بحوبی جانتے ہیں ،اور تو اور اگر بچے ہومورک نہیں کرتے ہیں تو ان بچوں کو سزا دی جاتی ہے اگر مسلم بچہ نکلے تو اسکو سزادیگر بچوں کے مقابلے میں زیادہ ملتی اور اس پر طعنہ اس بات کا تم ہی لوگ ہو جو دہشت گردی پھیلاتے ہیں ،یہ حالات ہیں ان علاقوں کے جو ایک دیندار علاقہ کہلایا جاتا ہے آپ خود سو چیں اگر اسی طرح یہ سلسلہ جاری رہا تو اسکے ذمہ دار کون ؟