سچی باتیں۔۔۔ بہادر شاہ ظفر کا دسترخوان۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

08:22PM Fri 14 Oct, 2022

 (تاریخ اشاعت : 19-12-1930ء )

کچھ روز ہوئے، اُردو اخبارات میں بہادرشاہؔ کے دسترخوان کی بعض تفصیلات شائع ہوئیں، اور بڑے شوق واشتیاق کے ساتھ ایک اخبار سے دوسرے میں نقل ہوتی رہیں۔ کھانے کے کُل انواع واقسام توکون بتاسکتاہے، البتہ یہ معلوم ہوا، کہ محض روٹی کی قسم کی کم از کم ۱۵چیزیں ہوتی تھیں، چپاتی، پراٹھے، شیرمال، باقرخانی، نانِ گلزار، نانِ بادام، نانِ پستہ ، وغیرہ۔ علیٰ ہذا پُلاؤ بھی پندرہ بیس قسم کے ہوتے تھے، یخنی پُلاؤ، نورمحلی پُلاؤ، مرغ پُلاؤ، بیضہ پُلاؤ، وغیرہ۔ قورمہ اور کباب، کم از کم گیارہ گیارہ بارہ بارہ قِسموں کے ہوتے تھے۔ اور سموسے ، بھُرتے، مربّے ، حلوے، چٹنی، اچار، وغیرہ کی ساری تفصیل تو شاید ’’خوانِ نعمت‘‘ و’’الوانِ نعمت‘‘ کے مولفوں کے خیال میں بھی نہ آئی ہوگی!

’’کیاکھاتے تھے؟‘‘ کا جواب ہوگیا‘‘۔ ’’کیونکر کھاتے تھے‘‘ کا جواب، خود مضمون نگار کے الفاظ میں سُن لیجئے:-

’’یہ انواع واقسام کے کھانے چھوٹی چھوٹی خوبصورت تشتریوں، قابوں، رکابیوںاور پیالیوں میں رکھ کر قرینے سے چُن دی جاتی تھیں۔ بادشاہ چوکی کے سامنے جلوہ افروز ہوتے تھے ۔ دائیں طرف ملکہ جہاں، اِدھر اُدھر بیگماتیں، اور بائیں طرف شہزادے اور شہزادیاں بیٹھتی تھیں۔

محل کا کمرہ طعام، مشک وعنبر، زعفران، اور کیوڑے گلاب اور چینی کی خوشبوؤں سے مہکتا ہوتاتھا۔ خاصہ دارنیاں اور اُن کی داروغہ حکم کے منتظر دست بستہ ایک طرف کھڑے رہتے تھے۔ یہ اہتمام ہاتھ دُھلانے اور منہ پوچھنے میں ہوتے تھے۔ رومال، زانوپوش، دست پاک، بینی پاک، اپنی اپنی جگہ رکھتے ہوتے تھے۔ چنبیلی کی کھَلی، گلاب کی کھَلی، اور صندل کی ڈبیاں، صابن کے بجائے موجود ہوتی تھیں‘‘۔

یہ ’’شاہانہ‘‘ دسترخوان تھا کِن کا؟ اور یہ بہادر شاہؔ تھے کون؟ یہ ’’جہاں پناہ‘‘ و’’ظل سبحانی‘‘ وہ تھے، جن کے حدودِ مملکت وحکمرانی ، برّاعظم ہندوستان سے گھٹتے گھٹتے ، شمالی ہند تک نہیں، کسی ایک صوبے تک بھی نہیں، صرف شہر دہلی کی شہر پناہ ، بلکہ کہنا چاہئے کہ صرف قلعہ معلی کی چار دیواری تک سمٹ کررہے گئے تھے! اور شاید جس نسبت بادشاہت سکڑتی اور سمٹتی گئی، اُسی نسبت سے جہاں بانی کے حوصلے، دسترخوان کی وسعت اور رنگارنگیوں سے پورے ہوتے رہے! یہ بہادر شاہؔ، اُس رسولؐ کے امتی تھی، جس نے بدرؔ وحُنین ؔکے معرکہ سرکئے تھے، جس نے اپنے سے کئی کئی گُنے بڑے لشکروں کو شکست دے دی تھی۔ جس نے مکہؔ فتح کیا، جس نے یہود کو پیس کررکھ دیاتھا۔ جس نے مشرکوں کی قوت وشوکت کو ملیا میٹ کردیاتھا، اور عمر بھر شاید ایک وقت بھی آسودہ شکم سیر ہوکر کھانا نہیں کھایاتھا! یہ بہادر شاہؔ اُسی عمر فاروقؓ کے نام لیوا تھے، جس نے قیصر وکسریٰ کے تخت اُلٹ دئیے تھے، اور ساری زندگی میں اِن ’’لذائذ‘‘ کے نام بھی نہیں سُنے تھے!