تنظیم اور سیاسی میدان کے کھیل (دوسری قسط) ۔۔۔۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ

Bhatkallys

Published in - Other

04:00AM Wed 19 Oct, 2016
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے……….. سابقہ قسط میں اس طرف اشارہ کیا گیا تھا کہ تنظیم کے اجتماعی سیاسی فیصلے کی خلاف ورزی اور تنظیم کے حمایت یافتہ یا مجوزہ امیدوار کے خلاف باغی امیدواروں کا میدان میں آنا یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا ہے۔ اور ایسے امیدوار ماضی میں کبھی ہارسے دوچار ہوئے ہیں تو کبھی جیت بھی درج کی ہے۔مگر اس مرتبہ کے واقعے کو لے کر سوشیل میڈیا میں جو طوفان مچا اور جس قسم کا hypeپیدا کیا گیا وہ ماضی میں دیکھنے کو نہیں ملا۔ کیا اس سے پہلے تادیبی کارروائی نہیں ہوئی ؟: یہ بات اپنی جگہ ریکارڈ پر موجود ہے کہ بعض دفعہ ایسے باغیوں کے خلاف تنظیم کے دستور کے تحت تادیبی کارروائی ہوئی اور کبھی مصلحت اور کبھی قانونی پیچیدگیوں کے تحت ایسے معاملات کو ان دیکھابھی کرنا پڑا ۔تنظیم کے موقف کے خلاف میدان سنبھالنے والوں میں سے فی الحال چند اپنے اعمال کے ساتھ سفرآخرت پر روانہ ہوچکے ہیں۔ان کامعاملہ ان کے رب کے ساتھ ہوگیا۔لیکن ان میں سے چندابھی بقید حیات ہیں ۔اور کمال یہ ہے کہ تنظیم مخالف کردار کی کوئی چھاپ اب ان کے ساتھ لگی ہوئی نہیں ہے اور بظاہر وہ بڑے محترم بن کر سماجی زندگی میں پھر سے سرگرم ہو گئے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایسے وقتی موضوعات پر بائیکاٹ اور غداری وغیرہ کا لیبل لگانے سے قلیل مدتی اثر تو ہوسکتا ہے، مگر اس کے دور رس نتائج نہیں نکل پاتے ہیں۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے یہی دیکھاجائے کہ ماضی میں جن لوگوں کے خلاف تادیبی کارروائیاں ہوئی تھیں، ان کا حشردیکھنے کے بعد کیا دیگر افراد نے کوئی سبق لیا؟ کیا اس کے بعد تنظیم کے باغی کے طور پر ہمارے معاشرے کا کوئی فرد سرگرم نہیں ہوا؟یقیناًاس کا جواب حالیہ واقعات میں مل جاتا ہے کہ تنظیم کی تادیبی کارروائی کا خوف کسی کو اپنے مفاد پرستانہ رویہ سے روکنے میں کامیاب نہیں ہوتا۔کبھی اپنی علاقائی انفرادی چپقلش، کبھی ذاتی مفاد،کبھی پارٹی کی وفاداری اور کبھی کسی دوسری پارٹی سے مخاصمت کے علاوہ اپنے آپ کو سیاسی لیڈر باور کرانے کا شوق ہر الیکشن میں کسی نہ کسی کو بے نقاب کر ہی دیتا ہے ۔بالآخر ان کا اصلی چہرہ سامنے آہی جاتا ہے اور ان کی نیت ان کے بلند بانگ دعوؤں کے برخلاف ان کے کردار سے ظاہر ہوجاتی ہے۔ مکاری کا دوسرا نام سیاست!: کسی بھی معاملے میں انتہا پسندانہ رویہ اختیار کرنے اور شدید رد عمل کا مطالبہ کرنے سے پہلے ہمیں اس معاملے اور اس سے متعلقہ امور کا حدود اربعہ سمجھنا چاہیے۔ اس لحاظ سے دیکھیں توموجودہ سیاسی میدان ایک ایسی بساط ہے جہاں ہرگندی چال چلنی پڑتی ہے اوروہ بھی مکاری اور عیاری کے ساتھ چلنی پڑتی ہے۔ جھوٹ، دغابازی اور فریب اس کے بنیادی اصول بنادئے گئے ہیں۔اس پس منظر میں بالفرض سیاست سے وابستہ کوئی شخص اگراپنی پارٹی کے مفاد کے مقابلے میں قوم و ملت کے لئے مخلص اور وفادارنکلے تو پہلی بات یہ سمجھئے کہ اس پر خدا کا خاص فضل ہے۔ اور دوسری بات یہ کہ وہ سیاست کے میدان میں اپنے بے داغ کردار کے ساتھ بہت زیادہ دن ٹکنے اور بہت زیادہ دور چلنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔یا تو اس کو اسی بہتی گنگا میں نہانا ہوتا ہے یا پھر سیاسی زندگی کے حاشیہ پر چلا جانا پڑتا ہے۔ لہٰذا چیلنج کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ سیاست کی گندگیوں سے اپنے کردار کو پاک اور شفاف رکنے والی شخصیات کانام اگر آپ لینا چاہیں گے تو بات چند انگلیوں سے آگے نہیں بڑھے گی۔یہی وجہ ہے کہ فی زمانہ یہ فقرہ زبان زد خاص وعام ہوگیا ہے کہ سیاسی حمام میں سب ننگے! کوئی فریب نہ کھائے سفید پوشی سے نہ جانے کتنے ستارے نِگل گئی ہے سحر سیاست کے گندے کھیل: یوں توانتخابی میدان میں تنظیم سیاسی رہنمائی کا کردار ادا کرتی ہے ۔لیکن اپنے اجتماعی اور متحدہ فیصلے کو لاگو کرنے کے لئے اسے عملاً میدان میں اترنا ہی پڑتا ہے۔ اس طرح کہیں براہِ راست اور کہیں بالواسطہ اسے سیاست کے گندے کھیل کاحصہ بن جانا پڑتا ہے۔ اس میں سب سے پہلے پارٹی پولیٹکس ہوتی ہے۔تنظیم کے ذمہ دار چاہے کتنے ہی مخلص ہوکر عوامی مشوروں سے کیوں نہ فیصلے کریں، مگرجس بڑی سیاسی پارٹی کے حق میں فیصلہ نہیں ہوتا، ہمیشہ اس پارٹی اور اس کے حامیوں کی طرف سے تنظیم پر جانب داری کا الزام لگتا رہا ہے۔کبھی کبھی فیصلہ کن مقام پر بیٹھے ہوئے تنظیم کے اعلیٰ لیڈروں کی کسی نہ کسی پارٹی سے وابستگی بھی عوام کے اندر شکوک وشبہات کو جنم دینے کاباعث بنتی ہے۔سیاسی پارٹیوں میں شامل تنظیم اور سماج کے بعض ذمہ داران کی طرف سے تنظیم کے پورے طریقۂ کار پر پارٹی پولیٹکس کا دباؤ بنانے اور فیصلے کو متاثر کرنے کی کوشش بھی ہوتی رہی ہے۔اوراپنی پارٹی کے حق میں فیصلہ نہیں ہونے پر کبھی کھلے عام اور کبھی ڈھکے چھپے انداز میں تنظیم کے فیصلے خلاف ماحول بنانے یا اپنی پارٹی کے لئے مہم چلانے کے واقعات بھی ماضی میں ہوچکے ہیں۔یہاں تک کہ بعض افراد یا گروہ کی جانب سے تنظیم میں کسی پارٹی کے حق میں فیصلہ کروانے کا بھروسہ دلانے اور اپنا مفاد پورا کرنے کے واقعات بھی سننے میں آتے رہے ہیں۔ پھر تنظیم کو کیا کرنا چاہیے؟: اس کے علاوہ عین انتخابات کے دنوں میں ہرپارٹی اور امیدوار کی طرف سے جس طرح کی غیر اخلاقی ، غیر شرعی اور غیر قانونی چالیں چلی جاتی ہیں ، اس کا جائزہ لیا جائے تو فطری طور پر ایک سوال ابھر تا ہے کہ جس تنظیم کی اساس قرآن وسنت کے اصولوں پر ہو ، کیا اسے اس گندے سیاسی دلدل میں عملاًاترنا چاہیے؟یا پھر محض رہنمائی کا حق اداکرتے ہوئے عملی کام کو پارٹیوں اور عوام کی صوابدید پر چھوڑ دینا چاہیے؟یقیناًاس سوال کا جواب مختلف زاویوں سے دیا جا سکتا ہے اور اس پر بحث کے بہت سارے پہلو ہوسکتے ہیں۔ لیکن کسی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے ان سیاسی چالبازیوں کے بارے میں کچھ زمینی حقائق پر نظر ضرور رکھنی چاہیے ۔اورانتہائی سنجیدگی کے ساتھ ہمیں اپنے اجتماعی رول کا محاسبہ کرنا چاہیے۔ الیکشن جیتنے کے غیر شرعی حربے : مثلاًاسمبلی اور پارلیمنٹ کے الیکشن میں سیاسی پارٹیوں اور امیدواروں کی طرف سے بڑے پیمانے پر دھاندلیاں اور غیر شرعی وغیر اخلاقی حربوں کا استعمال عام بات ہے۔ بلکہ یہ سب الیکشن مہم کا جز وے لاینفک بن گئے ہیں۔اب ہم جس سیاسی پارٹی کے امیدوار کو حمایت دینے کا اعلان کرتے ہیں اس کے لئے ہمارے اپنے غیر سیاسی نوجوانوں کے علاوہ پارٹی سے منسلک مسلم اور غیر مسلم کارکنان بھی میدان میں اترتے ہیں۔ اگرچہ ہمارے اپنے علاقوں میں تنظیم کی آواز پر دل و جان سے رضاکارانہ خدمات انجام دینے والے نوجوان نہ سہی ،مگر پارٹی کے فل ٹائم کارکنان اپنے امیدوار کو جتانے کے لئے (جن کی اچھی خاصی کمائی کا بھی یہ موسم ہوتا ہے!) اپنی اپنی پارٹی کی ہدایت اور ذرائع کے ساتھ ہر جائز و ناجائز حربہ ا ستعمال کرتے ہیں۔ ایسے وقت میں تنظیم کے اجتماعی فیصلوں میں شامل اس کے ذمہ داران کی سیاسی وابستگی فطری طورپر داؤ پر لگ جاتی ہے ، اور دیکھا گیا ہے کہ کبھی کبھار ان کی سیاسی امنگیں قومی و ملّی مفاد پر بھی کسی حد تک حاوی ہوجاتی ہیں۔ کیونکہ:

سنائی پھر نہیں دیتی ضمیر کی آواز دلوں پہ جب سر و ساماں سوار ہوتے ہیں

(تنظیم کے خلاف الیکشن کمیشن میں شکایت! ۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔اگلی قسط ملاحظہ کریں) haneefshabab@gmail.com ضروری وضاحت: اس مضمون میں پیش کئے گئے خیالات مضمون نگار کی ذاتی رائے پر مبنی ہیں۔ اس میں پیش کردہ مواد کی صحت کے سلسلہ میں ادارہ بھٹکلیس ذمہ دار نہیں ہے۔ ادارہ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔