'لپ چھپ- لپ چھپ'— ہمیشہ کی طرح ،وہ دوڑتی بھاگتی ہوئ
اپنے ابو کے گھر گئ اور زوردار آواز کے ساتھ داخلی دروازہ کھولتی ہوئ 'امی –ابو' کو پکارتی گھر میں گھسی ہی تھی کہ داہنی طرف کے دالان سے ایک آواز آنے لگی ---'یہ کون آیا --- یہ کون آیا ۔''بے اختیار وہ ادھر دیکھنے لگی اور سوچنے لگی کہ' یہ کس کی مجال ہے کہ وہ اپنے ابو کے گھر یعنی اس کے 'میکے' میں اس سے پوچھے کہ 'یہ کون آیا ؟ ارے کون کون ؟ 'گھر کی مالکن آئ ہے ،،،،اسکا جی چاہا کہ وہ ' پوچھنے والے سے خود پوچھے کہ ' بھائ تم کون ہو؟'' مگر آواز انسانوں والی ہوتی تو وہ ضرور پوچھتی ،وہ تو خلاف توقع ایک زنگ آلود ،لوہے کے پنجرے میں 'ایک ہرا – ہرا ، من بھرا بلکہ ' غصہ بھرا ' طوطا 'تھا اور غصے بھری آنکھوں سے سخت ناگواری سے اسے گھور رہا اور پر پھڑپھڑا رہا تھا،وہ مسکرائ اور دل ہی دل میں سوچنے لگی کہ ضرور اسکے ابو نے اپنے دلارے پوتے کی محبت میں یہ طوطا پالا ہوگا ۔ وہ حیرانی اوردلچسپی سے 'طوطے صاحب کو دیکھنے لگی۔ جتنی دیر وہ گھر والوں میں گھری ، انکی محبتیں سمیٹتی رہی ،اتنی دیر طوطے میاں اسے اجنبی اور غصیلی نظروں سے گھورتے رہے،یہاں تک کہ خلاف توقع اسکے ابو نے اپنے ہاتھوں سے ' طوطے صاحب ' کو' کریک جیک' بسکٹ کھلا نا چاہے تو بڑے ناز و ادا سے طوطے صاحب نے منھ پھیر لیا – ابو مسکرا مسکرا کر بسکٹ کھلانے کی کوشش کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے --- 'ارے بھئ خفا مت ہو---ہماری پیاری بیٹی ہے یہ – یعنی طوطے کا یہ مرتبہ کہ ابو انکی مرضی کے بغیراپنے کسی بچے کو بھی گلے نہیں لگا سکتے ۔
ایک تو اسکے گھر میں طوطا ، بلی یا کوئ دوسرا جانور کبھی پالا نہیں گیا ،بس ایک بار ایک بلی کا بچہ ' خودبخود پل' گیا تھا –اور اب یہ طوطے صاحب – جو ایک ایسے خستہ حال پنجرے میں قید تھے کہ جسکا ' تلہ'تھا ہی نہیں ،زمین ہی زمین تھی ، بس ایک کٹوری مین پانی اور دوسری کٹوری میں کھانے کا زرا سا سامان سامنے رکھے بیٹھے تھے ، اس گھر میں کبھی کوئ شور شغف ہوتا ہی نہ تھا ،گھر میں لوگ ایسی دھیمی آواز میں بولتے اتنی آہستہ چلتے کہ خاموشی کا حصار برقرار رہتا، اسے یاد آیا کہ اسی خاموشی کے حصار کو توڑنے کے لۓ ایک بار اس نے دادی سے ضد کر کے 'چھن چھن' بجتی چاندی کی پائل اپنے لۓ خریدوائ تھی، ابو کے آفس جانے کے بعد وہ پائل پہن کر سارے گھر میں گھوما کرتی تھی ۔--- اب جب کوئ دروازے پر اطلاعی گھنٹی بجاتا یا کھٹکھٹاتا تو یہ طوطے میاں ضرور پوچھتے –'یہ کون آیا ---- یہ کون آیا؟---- اور وہ تو آئ بھی آندھی طوفان کی طرح تھی، ہلڑ مچاتی، دوڑتی بھاگتی،جیسے کسی قیدخانے سے چھوٹ کر آئ ہو،درا صل وہ ایسی ہی تھی ،اور پھر ہر ہر سال وہ جو کئ کئ مہینے اپنے لوگوں سے دور رہتی تھی تو چاہتی تھی کہ ایک لمحہ بھی ضائع نہ کرے اور دوڑ کر امی ابو سے لپٹ جاۓ اور انکی محبت کی وہ تمام کی تمام گرمی اپنے اندر جذب کرلے جسکو وہ مہینوں اپنے اطراف ڈھونڈھا کرتی اور امی ابو کی جانی پہچانی خوشبو سونگھنے کو ترسا کرتی تھی ،---- اب اسکا پرس کہیں پڑا تھا ، چپل کہیں اور وہ آرام سے ' آرام کرسی پر پیر چڑھاۓ بیٹھی بس برابر بولے جارہی تھی ،اور ' پریشر ککر' کی طرح اپنے اندربھرے تمام احساسات اور خیالات کی گیس ایک طویل سیٹی میں نکال دینا چاہتی تھی ،ابو امی سامنے بیٹھے اس کی لنترانی سن رہے تھے ،زرا کی زرا وہ رکی تو ابو نے امی سے مسکرا کر پوچھا ----کیا یہ وہی لڑکی ہے جو صرف کام کرنا اور مسکرانا جانتی تھی ؟ ------ وہ چونکی اور اسکا دھیان پھڑپھڑاتے پرندے کی پھڑپھڑاہٹ کی طرف گیا ،اور وہ گردن گھماکر زنگ لگے پنجرے کی طرف دیکھنے لگی ۔ابو جو مسکرا مسکرا کر اسکی ' تقریر ' سن رہے تھے ،موقع ملتے ہی گویا ہوۓ –' یہ مٹھو میاں ہیں ۔'آپ کے بھتیجے کی خواہش سے لاۓ گۓ ہیں اور اب خوشی خوشی قید ہیں ۔کسی سے بات نہیں کرتے ،بس مجھے یہ شرف حاصل ہے کہ میرے ہاتھ سے 'کریک جیک' بسکٹ کھاتے ہیں ،گھر میں خاموشی پسند فرماتے ہیں اور بے وقت کسی کی بے جا مداخلت برداشت نہیں کرتے،شام کو زرا دیر پنجرے سے باہر نکل کر چہل قدمی کرتے اور پھر 'مقید' ہو جاتے ہیں، ہم انکو نظر انداز کرکے ان کے سامنے کسی سے بات بھی نہیں کر سکتے ، آپ سے بھی نہیں ، آپکی والدہ سے بھی نہیں ۔۔۔۔' ابو مسکرا رہے تھے اور وہ حیرت سے انہیں دیکھ رہی تھی۔ اسے علم تھا کہ ابو کسی بھی جانور کو قید کرنا پسند نہیں کرتے ،گھر کے تمام لوگ ابو کے 'نظام الاوقات ' کے مطابق خود کو ڈھال چکے تھے ۔ابو کو پڑھنے لکھنے اور نماز کو آنے جانے اور زیر لب وظیفہ پڑھنے ہی سے کب فرصت تھی جو وہ ' آزاد رہنے والوں کو قیدی بنانے میں 'تضیع الاوقات ' کرتے ۔ جب ابو گھر میں ہوتے تو گھر پر پرسکون سناٹا چھایا رہتا۔۔۔ ناکہ گھر کے اندر داخل ہوتے ہی ابو محترم طوطے صاحب کی ناز برداریاں کریں اور ابو کے ہاتھ سے کریک جیک بسکٹ کھائیں اور اگر ابو کسی اور طرف متوجہ ہوں تو طوطے صاحب اپنے پنجرے میں الٹے لٹکے نظر آیئں ۔
بے زبان جانور ہو یا ' زبان دراز انسان' ----محبت کی نظر اور انسیت کی للک سے متاثر ضرور ہوتا ہے، طوطے صاحب پالے تو ضرور ابو کے پوتے کے لۓ گۓ تھے مگر بچہ تو پھر بچہ ،وہ بھی دادا میاں کا دلارا --- اس نے جو چند دنوں میں یہ احوال دیکھے کہ دادا میاں پوتے سے زیادہ طوطے سے مخاطب محسوس ہو رہے ہیں تو ' پوتے میاں طوطے میاں سے ناراض ہو گۓ'۔دادا میاں نے پوتے میاں کو سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ ' طوطا انکو محض اس لۓ عزیز ہے کہ پوتے میاں کا دل بہلاتا ہے، اور لیلیٰ کے کتے کا مقام رکھتا ہے ،مگر ننھا بچہ 'عشق ومحبت کے ہر فلسفے سے نابلد تھا ، سو وہ طوطے صاحب سے لاتعلق ہو گیا ، اب آئ گئ دادا میاں یعنی ابو کے سر ہوگئ ، چونکہ ابو ہی نے انہیں اسیر کیا تھا سو طوطے صاحب کے قیام و طعام کا انتظام ابو کے سر آپڑا ،گھر میں ویسے ہی گنتی کے لوگ رہ گۓ تھے جو منہ پر ' ٹیپ' چپکاۓ اپنے اپنے کاموں میں مگن رہتے تھے ،کسی کو طوطے سے دلچسپی تھی نہ اسکے قیام و طعام سے ۔ اب ابو ہی طوطے کے ' واحد کفیل' تھے اور ابو کے انے جانے کا حساب رکھنے والا طوطا –اور ابو کے ' قیمتی وقت میں سے اپنے لۓ 'لمحات' چرانے والا طوطا،--- عصر کی نماز کے بعد ابو اکثر پنجرے کا ' زنگ آلود 'اوپری جال' اٹھا دیتے اور طوطے میاں بڑی شاہانہ چال سے ' پھدکتے ہوۓ' سارے آنگن میں ٹہلا کرتے جیسے فلم مغل اعظم میں بادشاہ ' اکبر اعظم' ٹہلا کرتے تھے ۔' ابو سامنے کرسی یا تخت پر بیٹھے رہتے۔
اس نے ابو سے کہا بھی 'کہ یہ عجیب طوطا ہے، 'ٹہلا ' کرتا ہے ، اڑتا کیوں نہیں ؟ ابو ہنسے اور کہا ---' محبت اور خلوص کی گرفت ہی ایسی ہوتی ہے کہ 'آزاد ہوتے ہوۓ بھی 'آزاد ہونے کا جی نہیں چاہتا اور ' پر' ہوتے ہوۓ بھی پرواز کرجانے کو دل نہیں مانتا '---- اور پہر زرا دیر بعد ابو نے طوطے میاں سے کہا ---'چلۓ، اب پنجرے میں بند ہوجایۓ ،آج بہت چہل قدمی ہو گئ اور طوطے میاں پنجرے کی جانب روانہ ہوگۓ۔
امی اچانک 'افق کے اس پار چلی گیئں،ابو زندگی سے بیگانے ہو گۓ،اب ابو تھے اور یاد ماضی یا نماز وظائف۔ہم سب بھی دہل کر رہ گۓ، کون یقین کر سکتا تھا کہ یہی وہ گھر تھا جو جنت نظیر تھا اور جسپر امی کی حکمرانی تھی ،ابو کی بھرپور حمایت سے وہ نظام خانہ داری چلا رہی تھیں ۔وہ گھر جو ایک پرسکون گوشہ عافیت تھا ،جسکے مکینوں کا خمیر خلوص اور مروت سے گندھا تھا ،اچانک اپنی تصویر بدل ڈالے گا ، امی کے بغیر خالی خالی لگے گا ۔ابو تیسری منزل پر بنی اپنی لائبریری تک محدود ہو گۓ اذان کی آواز آتی تو دھیرے دھیرے زینہ اترتے،اتنی دیر میں طوطے میاں چیخنا چلانا شروع کر دیتے پھر ابو کی کمزور سی آواز آتی---' آرہا ہوں ،بھئ ،-ابو پر نظر پرتے ہی طوطے میاں خاموش ہوجاتے اور گردن جھکاکر بیٹھ جاتے ، جیسے اگر ابو نماز کو نہ گۓ تو تمام عذاب ثواب محترم طوطے صاحب کی گردن پر آجاۓ گا۔
ابو واپس آتے ،جیب میں 'کریک جیک' بسکٹ کا پیکٹ لۓ،اور طوطے میاں کو کھلاتے جاتے اور انہیں سمجھاتے جاتے کہ ' بھئ چیخا مت کرو ،اب میں اوپر ہی نماز پڑھ لیتا ہوں ،بار بار زینہ نہیں اتر چڑھ سکتا ،ہاں، تمہارا بسکٹ تو کوئ بھی کھلا سکتا ہے'—یہ سنتے ہی طوطے میاں اپنی چونچ میں دبا بسکٹ تھوک دیتے اور ابو سے خفا ہوکر ' بے تلے ' کے پنجرے میں الٹے لٹک جاتے ۔۔۔ اللہ اللہ ، ایسی ناز برداریاں ، اسے یاد تھا کہ اسے خود ریڈیو پر گانے سننا کتنا پسند تھا ، پسندیدہ گانے کی آواز زرا سی بھی تیز کرتی تو امی کہتیں ----' اوپر کمرے میں تمہارے باپ موجود ہیں ، آواز سنیں گے تو خفا ہوں گے، بند کرو یا دھیرا کرو –'اتنے دھیرے کہ وہ کان ریڈیو میں لگا دیتی تب بھی اسے سنائ نہ دیتا ۔
ایک روز ابو کی طبیعت اچانک خراب ہو گئ ، جس نے سنا ، دوڑا چلا آیا ۔اچانک اتنا مجمع دیکھ کر اور ابو کو غیر موجود پاکر طوطے میاں ہراساں ہو گۓ اور بے تحاشا چیخنے لگے جیسے ابو کو اپنی مدد کے لۓ پکار رہے ہوں ،کھانے کی کٹوری الٹ دی، پانی کی پیالی لڑھکا دی اور پنجرے کی تیلیاں چبانے لگے ۔اذان کے بعد اذانیں ہوتی رہیں ، ابو اوپر سے اتر کر نہیں آۓ اور جب آۓ تو دوسروں کے کاندھوں پر--------طوطے میاں بلبلا بلبلا کر چیختے رہے اور ابو کی روح ' قفس عنصری ' کو توڑ کر پرواز کر گئ، ایک قیامت تھی جو برپا تھی ، اوپر سے طوطے میاں کا بین---- ابو تو چلے گۓ ، بہت دور کہ نہ وہاں طوطے میاں کی آواز پہنچ سکتی تھی نہ ہم سب کی آہ و بکاکی۔ لیکن وہ دن اور اسکے بعد طوطے میاں نے نہ کریک جیک کھایا اور نہ ایک لفظ منھ سے بولے۔ ایسا لگا جیسے یہ ناسمجھ جانور سب کچھ سمجھ رہا ہو اور یہ بھی کہ اسکا کیا گم ہو گیا ہے، اور ہم سب کی تو جیسے ریڑھ کی ہڈی ہی ٹوٹ گئ،ہماری دنیا اندھیری ہوگئ،وہ روشنی ہی چلی گئ جس کی 'ضیا'سے ہم سب چمکا کرتے تھے ۔ہفتوں گزر گۓ لیکن کسی نے بھی طوطے میاں کی آواز سنی اور نہ انکے ناز نخرے دیکھے۔ اب جو کوئ انکو کچھ بھی دیتا ،کھالیتے اور پنجرے میں الٹے لٹکے رہتے ۔ہم میں سے کوئ انکے پاس جاتا تو اجنبی نظروں سے دیکھتے اور منھ موڑ لیتے۔
ایک صبح جب وہ سوکر اٹھی تو سوچا کہ وہ خود جاکر طوطے میاں کو کھانا دے آۓ ،مضمحل قدموں سے وہ پنجرے کے پا س گئ ۔لیکن پنجرہ تو الٹا پڑا تھا اور خالی بھی۔آنگن خالی تھا مگر دالان کے ایک کونے میں طوطے میاں کے نچے کھچے پر پڑے تھے، اسکا جی چاہا کہ وہ چیخ چیخ کر روۓ ۔ہوا یہ کہ بے دھیانی میں کسی نے بیرونی دروازہ کھلا چھوڑ دیا اور موقع پا کر ایک بلی اندر آگئ ۔طوطے میاں کا پنجرہ تو ویسے ہی ' بے تلے' کا تھا اور اب ابو بھی نہیں تھے جو خیال رکھتے کہ باہر کا دروازہ بند رہے اور دھیان رکھا جاۓ کہ رات کو کوئ بلی گھر کے اندر نہ رہ جاۓ ۔
وہ زار و قطار رونے لگی ،اسے لگا کہ جیسے وہ بھی طوطے میاں کی طرح ' زندگی کے زنگ آلود پنجرے میں غیر محفوظ ہے، ایسا پنجرہ کہ جسکا تلہ بھی نہیں اور اسے ناگہانی اور مصیبت سے بچانے والے ابو بھی نہیں -----
ہاں ---- سچ ہی تو ہے ---- زندگی خود ایک زنگ آلود کمزور سا پنجرہ ہی تو ہے ۔