ہندوستان کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کا کردار

Bhatkallys

Published in - Other

08:59PM Sun 14 Aug, 2016
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے........... ؔاز:ڈاکٹر محمد حنیف شباب صاحب ہندوستان کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کاکردارتاریخ میں ایک سنہرے باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مسلمانوں کی حب الوطنی، جوش، ولولہ اور ایثارو قربانی کی لافانی داستان ہے۔تقریباً ایک صدی تک چلنے والی تحریک آزادی میں مسلمانوں نے ایک بے مثال کردار ادا کیا اور مادر وطن کو انگریزوں کے پنجہء غلامی آزاد کرنے کے لیے نہ صرف نا قابل بیان اذیتیں برداشت کیں، بلکہ جان و مال کی عظیم قربانیاں دینے سے بھی باز نہیں آئے۔ لیکن بد قسمتی سے انگریزوں کی طرف سے اپنی حکومت بنائے رکھنے کے لیے اپنائی گئی divide and rule پالیسی کی وجہ سے جہاں تقسیم ہند کا سانحہ پیش آیا، وہیں ہندوستان میں موجود مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان مضبوط اتحاد کو توڑنے اورنفرتوں کی خلیج وسیع کرنے کا بھی سبب نکل آیا۔مذہبی جنونیوں اور فسطائی قوتوں نے اس صورتحال کابھرپورناجائز فائدہ اٹھایا۔تاریخ کو یکطرفہ فرقہ وارانہ اور غیر منصفانہ انداز میں لکھنے کی مہم چلائی گئی۔جس کی وجہ سے ملک کا سیکیولر فریم ورک تباہ و برباد ہو گیا۔اس طرح ملک کے لیے مسلمانوں کی قربانیوں پرپردہ ڈالتے ہوئے انہیں ملک کے وفاداروں کے بجائے ملک کے غداروں کی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ جب بھی جنگ آزادی کے مجاہدین اور شہیدو ں کی بات ہوتی ہے تو مسلمانوں میں بس ایک مولانا ابوالکلام آزاد کا سرسری تذکرہ کرکے بات ختم کردی جاتی ہے۔واقعہ یہ ہے کہ جنگ آزادی کی تاریخ کو فرقہ وارانہ رنگ دینے والوں نے مسلم انقلابیوں، شاعروں اور مصنفین کے contribution کو جان بوجھ کر نظر انداز کر دیا جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ آج کی نسل اس پہلوسے با لکل لا علم ہے۔اورمنفی پروپگنڈہ کی وجہ سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان پائی جانے والی خلیج آئے دن وسیع ہوتی جارہی ہے۔ سب سے پہلا مردِ میدان : انگریزوں کے پوشیدہ عزائم کو سمجھنے اور ہندوستان میں ان کے ناپاک ارادوں کو بھاپنتے ہوئے ان کے خلاف سب سے پہلے جنگ چھیڑنے والا مرد میدان تھا بنگال کا نواب سراج الدولہ۔ لیکن اپنوں کی غداری سے پلاسی کی جنگ میں اسے شکست ہوگئی۔ اس کے بعد نواب میر قاسم نے مورچہ سنبھالا تو بکسر میں اس کوبھی شکست کامنھ دیکھنا پڑا۔یہی وہ موڑ تھا جہاں سے انگریزوں کی حکمرانی اور ہندوستانیوں کی غلامی کا سلسلہ تیز تر ہوتا گیا۔تاریخ کے صفحات اس بات کے بھی گواہ ہیں کہ 1857کی پہلی باقاعدہ جنگ آزادی سے تقریباً ایک صدی پہلے بنگال کے مسلم فقیروں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف مجنوں شاہ فقیر کی قیادت میں بغاوت کا جھنڈا بلند کیاتھا۔جسے اس وقت کے سنیاسی لیڈر بھوانی پھاٹک نے پورا تعاون دیا تھا۔اس لیے اس پہلی بغاوت کو ’’فقیر سنیاسی بغاوت‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔پھر مجنوں شاہ کی وفات کے بعد موسیٰ شاہ، چراغ علی اور نور محمد وغیرہ نے1800 ؁ تک اس تحریک کو زندہ رکھا۔ وہابی اور فراجیہ تحریک: 1820 ؁ میں حاجی سید احمدبریلویؒ کے افکار و خیالات سے متاثرہوکر ٹیٹو میر کی قیادت میں انگریزوں کے خلاف مسلح جدوجہد کاآغاز ہوا جسے وہابی تحریک کا نام دیا گیا۔اور یہ شاندار جد و جہد تقریباً پچاس سال تک چلتی رہی۔جس میں شاہ عبد العزیز، عنایت علی اور ولایت علی وغیرہ شخصیات ایسی تھیں جنہوں نے قائدانہ کردار ادا کیا۔یہ ہندوستانی جنگ آزادی کا ایک تابناک دور رہا ہے۔اس وقت دکن میں شہزادہ مبارزالدولہ نے وہابی تحریک سے ہاتھ ملایاتو دوسری طرف حاجی شریعت اللہ نے ’’فراجیہ جد وجہد‘‘ کے نام پر انگریزوں کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے، جسے 1830سے 1900 تک بڑی شہرت ملی۔دُوددُومیاں، نویا میاں، امیرمیا ں وغیرہ نے بڑی کامیابی سے فراجیہ تحریک کو تقریباً پچاس سال تک جاری رکھا۔اس طرح مسلم فقیر، فراجیہ اور وہابی تحریکات نے انگریزوں کے خلاف محاذ آرائی کا آغاز کرتے ہوئے ہندوستان کی جنگ آزادی کے بیج بوئے اور آنے والوں کے لیے مشعل راہ بن گئے۔ شیر میسور ٹیپو سلطان: انگریزوں کی استعماریimperialistic نفسیات کو پہچاننے اور ملک کے حکمرانوں کوان کے خطرہ سے آگاہ کرتے ہوئے غیر ملکی تسلط کے خلاف انہیں یکجا کرنے میں جس نے سب سے بڑا رول ادا کیاہے اسے دنیا کی تاریخ شیر میسور ٹیپو سلطان کے نام سے یاد رکھتی ہے۔ٹیپو کی شہادت کے بعد جنر ل ویلسلی کہتا ہے کہ ہندوستانی ریاستوں کے حکمرانوں نے اگرٹیپو کا ساتھ دیا ہوتا توہمیں کبھی بھی ہندوستان پر حکمرانی کرنے کا موقع نہیں ملا ہوتا۔جبکہ جنرل ہیرس Harrisنے اعلان کیاتھا کہ ’’آج سے ہندوستان ہمارا ہے!‘‘اس سے ٹیپو کی قوت اور جدوجہد کی اہمیت اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ حقیقی معنوں میں شیر میسور کو اولین جنگ آزادی کا بگل بجانے کا شرف حاصل ہے۔ٹیپو کی شہادت کے بعد تقریباً نصف صدی تک ملک میں کوئی ایسا شیر نہیں تھا جو انگریزوں کے سامنے دھاڑنے کی ہمت کرتا! بیگم حضرت محل اور دیگر بیگمات: ٹیپو سلطان کے بعد 1857میں مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں لڑی گئی پہلی جنگ آزادی کے نام سے مشہور ملک گیر بغاوت میں ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں نے اپنی جانیں قربان کردیں۔اس موڑ پر بیگم حضرت محل نے اودھ میں تقریباً چودہ مہینوں تک انگریزو ں کا جو مقابلہ کیا، اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ صرف یہی نہیں بلکہ خواتین فوجیوں کی قیادت کرتے ہوئے بیگم عزیزون، بیگم حبیبہ، بیگم رحیمہ اور اصغری بیگم وغیرہ نے اپنی جانیں وطن عزیز پر نچھاور کردیں۔اس پہلی جنگ آزادی کے بعدانگریزوں نے مسلمانوں کوبری طرح نشانہ بنایا۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اس کے نتیجہ میں ستائیس 27ہزار سے زیادہ مسلمانوں کو شہید کردیا گیا۔زندہ جلایا گیا۔ پھانسیوں پر چڑھایا گیا۔یہاں تک کہ توپوں سے باندھ کر اڑادیا گیا۔ مسلمان انقلابی : تاریخ کے صفحات پر یہ دردناک واقعہ بھی محفوظ ہے کہ مولوی احمداللہ شاہ فیض آبادی جن کے سر پر برٹش سرکار نے پچاس ہزار روپیوں کا انعام رکھا تھا، پووائن کے راجا نے انعام کی خاطر ان کا سرکاٹ کربرٹش حکومت کو پیش کیا تھا۔جبکہ دوسری طرف نانا صاحب آف کانپور کے وکیل عظیم اللہ خاں نے خطوط لکھ کر ملک بھر میں حب الوطنی کا جذبہ بیدار کرنے کی کوشش کی تھی۔ مسلمان انقلابیوں کی فہرست بڑی طویل ہے۔ اس میں مولانا لیا قت علی خاں، حکمت اللہ خاں، خان بہادر خاں، محمد بخت خاں، شہزادہ فیروز شاہ اور جھانسی کی رانی کوانگریزوں کے خلاف بغاوت پر اکسانے والے بخشی علی وغیرہ کا نام سنہرے حرفوں میں لکھنے کے قابل ہے۔ علمائے کرام کا رول: جنگ آزادی کی تاریخ علمائے ہند کی عظیم قربانیوں کے تذکرہ کے بغیر نامکمل رہ جاتی ہے۔ دیو بند، شاملی اور فرنگی محل جیسے مراکز سے علماء کو فتوؤں کے ذریعہ انگریزوں کے خلاف جنگ پر اکسایا گیا۔ایسے فتاویٰ کا مجموعہ ’’نصرت الابرار ‘‘ کے نام سے شائع بھی ہو چکا ہے۔ مولوی فضل حق اور مولانا سرفراز علی نے اس راہ میں بڑی جد وجہد کی۔ جبکہ حاجی امداداللہ نے مجاہدوں کی کمان سنبھالتے ہوئے انگریزوں کو شاملی کے محاذ پر ناکوں چنے چبوائے۔دوسری طرف یو پی میں مولانا قاسم نانوتوی اور مولانا رشید احمد گنگوہی جیسے علمائے کرام نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا محاذ سنبھالا۔مولانا حسین احمد مدنی، مولانا عبیداللہ سندھی، مولانا سیف اللہ ، مولانا محمد شیرو جی وغیرہ نے جد و جہد آزادی میں بھر پور حصہ لیا اور حکومت کے عتاب کا شکار بھی ہوتے رہے۔ جنوبی ہند کے مسلم مجاہدین آزادی: جنوبی ہندوستان میں صوبیدار احمد، پٹھان طرّے باز خان ، مولوی علاؤالدین وغیرہ نے انگریزوں کے خلاف صف آرائی کی۔ مولوی علاؤ الدین کو انڈومان میں کالے پانی کی سزا دی گئی تو طرّے باز خان کو سرعام پھانسی پر لٹکایا گیا۔اسی طرح بنگال میں بیرسٹر عبد الرشید، لیاقت حسین، عبد الحکیم غزنوی ، یوسف خان، بہادر محمد وغیرہ صف اول کے مجاہدین آزادی میں شمار کیے جاتے ہیں۔اخبارات میں اپنے قلم کے ذریعہ مورچہ سنبھالنے اور انگریزوں کا عتاب جھیلنے والوں میں دہلی اخبارکے محمد باقراور امروز کے شعیب اللہ خان، کو اپنی جان سے ہی دھونا پڑا تھا۔ مسلم کانگریسی قائدین: سن 1857کی پہلی جنگ آزادی کے بعد انڈین نیشنل کانگریس قومی تحریک بن گئی۔ اس کی ابتدا سے انتہا تک مسلمانوں نے ہر موڑ اورہر قدم پر اپنا پورا رول نبھایا۔ بد رالدین طیب جی، رحمت اللہ سایانی، مولانا شبلی نعمانی، مولانا حسرت موہانی، سر سید احمد خاں، میر ہمایون کبیر، علی بھیم جی، ڈاکٹر انصاری، مولانا محمد علی،مولانا شوکت علی، مولانا ابولکلام آزاد، حکیم اجمل خان، مولانا عبد الباری، سیف الدین کچلو،رفیع حمد قدوائی، ڈاکٹر ذاکر حسین، مولانا مظہر الحق،مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری،بیگم نشاط النساء، امجدی بیگم، شفاعت النساء بیگم وغیرہ جنگ آزادی کے روح رواں رہے ہیں۔ ریشمی رومال تحریک اور دیگر قائدین: مادر وطن کی آزادی کے لئے سر سے کفن باندھ کر سوئے منزل نکلنے والے قافلۂ سخت جان میں خان عبد الغفار خان کی خدائی خدمتگار تحریک، خاکسار تحریک کے علمبردار، غدر پارٹی کے ڈاکٹر برکت اللہ بھوپالی، جو کابل میں بنی جلا وطن ہندوستانی حکومت کے وزیرا عظم تھے،ان کے ساتھی ڈاکٹر مصور، عبدا لوہاب،ریشمی رومال تحریک کے مولانا محمودالحسن، حیدر آباد کے شیخ عبد الرحمن، رسول اللہ خان، امتیاز علی یا پھر موت کی سزا پانے والے رکن الدین، مصطفی حسین، اشفاق اللہ خان،علی احمد ، ایسے مزید سینکڑوں نام گنائے جا سکتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وقتاًفوقتاًمسلم قلمکار اور دانشور بطور خاص اس موضوع کواپنی تحریر اور تقریر میں نمایاں کرتے رہیں اور اسے عوام کے روبرو رکھتے ہوئے ہندوستان اوردنیا بھر کے فرقہ پرستو ں کوآئینہ دکھائیں کہ مسلمان اس ملک پر صرف اپنا حق جتاتے نہیں ہیں بلکہ جب بھی اس پر کڑا وقت آیا ہے توکسی بھی قوم اور فرقہ سے زیادہ بڑھ چڑھ کر اس سر زمین کی عزت اور لاج بچانے کے لیے ہم نے اپنی جان کی بازیا ں کھیلی ہیں۔ہمارے ہی خون سے یہ زمین لالہ زار ہوئی ہے، تب جا کر غلامی کا اذیت ناک دور ختم ہوا ہے اورچاروں طرف موسم بہاراں کا رنگ بکھراہے۔حقیقت یہی ہے کہ: مٹی کی محبت میں ، ہم آشفتہ سروں نے وہ قرض چکائے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے ! haneefshabab@gmail.com ************** ضروری وضاحت: اس مضموں میں پیش کئے گئے خیالات مضمون نگار کی ذاتی رائے پر مبنی ہیں۔ اس میں پیش کردہ مواد کی صحت کے سلسلہ میں ادارہ بھٹکلیس ذمہ دار نہیں ہے۔ ادارہ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔