آسام کا الیکشن بھی کشمیر کی طرح امتحان

Bhatkallys

Published in - Other

05:42AM Fri 15 Apr, 2016
حفیظ نعمانی ملک کی تقسیم سے پہلے آسام مسلمانوں کا قلعہ سمجھاجاتا تھا۔ اس کا شہر سلہٹ وہ شہر تھا جہاں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی پورا رمضان شریف گذارتے تھے۔ اور یہی وجہ تھی کہ پاکستان کے مطالبہ کے وقت سلہٹ اور آسام کے مسلمانوں کا بہت کم رجحان پاکستان کی طرف ہوا۔ بورڈماؤنٹ بیٹن کی تقسیم کی مخالفت کی ہر کوشش ناکام ہو گئی اور جناح صاحب کی ضد کے بعد سردار ولبھ بھائی پٹیل بھی تقسیم کے لئے اڑ گئے تو ایک تجویز ملک کی تقسیم کے ساتھ صوبوں کی تقسیم کی تجویز بھی سامنے رکھ دی گئی۔ جس میں بنگال اور پنجاب کے وہ اضلاع جہاں مسلمانوں کی تعداد کم تھی وہ ہند وستان میں رہیں گے۔ اور جن اضلاع میں مسلمان زیادہ ہیں وہ پاکستان میں شامل ہو جائیں گے۔ اس فارمولہ کے تحت سلہٹ کا آدھا ضلع بھی مشرقی پاکستان کے حصہ میں آیا۔ آسام میں کانگریس کی حکومت کے پورے دور میں غریب مسلمانوں کو اتنا ستایا گیا کہ وہ آج تک سنبھل نہیں پائے۔ اتفاق سے جمعیۃ علماء کے علاوہ کوئی مقامی قیادت بھی سامنے نہیں آئی۔ اس لئے کہ آسام کا مسئلہ اتنا سنگین ہے کہ اس کے لئے وہی لیڈر کام کر سکتا ہے جو آسامی ہو۔ مولانا بدرالدین اجمل صاحب حضرت مدنی ؒ کے شاگرد بھی ہیں اور خاندانی طور پر حضرت شیخ الاسلام کے مرید بھی۔ پروردگار کا کرم ہے کہ وہ بہت بڑے تاجر بھی ہیں جن کی تجارت ملک کے علاوہ دوسرے ملکوں میں بھی ہے۔ مولانا سید اسعد مدنی مرحوم نے انہیں آسام کی سیاست میں اپنے ساتھ لگایا۔ اور ان کے بعد وہ مولانا محمود مدنی کے ساتھ برابر آسام میں سر گرم رہتے ہیںَ انہوں نے کسی پارٹی سے رشتہ جوڑنے کے بجائے خود اپنی پارٹی بنا لی ہے جو اب تک کانگریس کو حمایت دیتی رہی لیکن آنے والے الیکشن سے پہلے اس نے پارلیمانی الیکشن اپنے بل پر لڑا اور تین سیٹوں پر کامیاب ہوئی۔ اور اب وہ اسمبلی کے الیکشن لڑ رہی ہے۔ جو صرف اپنے بل پر لڑے جا رہے ہیں۔ اور مولانا کا دعویٰ ہے کہ کانگریس ہو یا بی جے پی ان کی حمایت کے بغیر کوئی حکومت نہیں بنا سکتا۔ کل اتفاق سے ان کے ایک جلسہ کو ٹی وی نے دکھایا کہ ایک لاکھ کے قریب مرد اور عورتیں بے تابی سے انتظار کر رہی ہیں کہ اتنے میں ہی ایک سفید ہیلی کاپٹر فضا میں نظر آیا اور پورا مجمع ہاتھوں سے اشارہ کرنے لگا کہ یہاں اتار دو۔ اور جب مولانا تشریف لائے تو نعروں سے فضا گونج گئی۔ پھر دکھایا گیا کہ رنگ برنگی بوتلیں پانی کی رکھی ہیں اور مولانا ڈائس پر جاتے ہوئے بوتلوں میں پھونک ڈالتے چلے جا رہے ہیں۔ ہندو بھائی کہتے ہیں کہ مولانا کی پھونک چمتکار ہے اور مسلمان اسے ہر مرض کی دوا مانتے ہیں۔ مولانا نے جتنی دیر بھی تقریر کی انہوں نے ایک بار بھی بی جے پی یا ان کی حمایت کرنے والی کسی پارٹی کا نام نہیں لیا۔ وہ صرف یہ کہتے رہے کہ کانگرس نے 70برس تک مسلمانوں کے ووٹوں کے بل پر حکومت بنائی اور ان کے لئے کچھ بھی نہیں کیا۔ اور یہ ایسی حقیقت ہے جس کی سزا اسے یہ ملی ہے کہ ملک کے صرف سات صوبوں میں اس کی حکومت رہ گئی ہے۔ اور نئے الیکشن کے بعد ان میں بھی کمی ہو جائے گی۔ ہم ہزاروں کلو میٹر دور بیٹھے آئے دن دیکھتے رہے ہیں کہ لاکھوں کی تعداد میں مسلمان بے گھر ہو گئے۔ اور جن لوگوں نے ان کی زندگی برباد کی انہیں حکومت کی طرف سے دھمکیاں تو گیدڑ کی طرح ضرور دی گئیں مگر انہیں سزانام کو بھی نہیں دی گئی۔ اور یہ اس کا نتیجہ ہے کہ مولانا بدر الدین جو عالم دین ہیں اور عطریات کے بین الاقوامی تاجر ہیں انہیں میدان میں آنا پڑا۔ اور آسام کا ہر مسلمان جانتا ہے کہ مولانا ان سے کچھ نہیں لیں گے اس لئے کہ مولانا کو ضرورت نہیں ہے۔ اور وہ آسامی مسلمانوں کو اپنی جیب سے دیں گے اس لئے کہ دینے کے لئے انکو اللہ نے بہت کچھ دیا ہے۔ مولانا سے ایک رپورٹر نے معلوم کیا کہ کیا آپ کی پھونک میں جادو ہے؟ مولانا نے جواب دیا کہ حکومت مسلمانوں کے لئے اسپتال نہیں بنواتی جو اسپتال ہیں ان میں ڈاکٹر نہیں ہے۔ جو دو ائین ہیں وہ نقلی ہیں ۔ تو میں کیا کروں؟ اللہ کا کلام پڑھ کر پھونک دیتا ہوں اس کی برکت سے بیماری دور ہوجاتی ہے۔ یہ الیکشن مسلمانوں کے لئے بڑی آزمائش کا الیکشن ہے بی جے پی کو آسام گن پریشد اور بوڈولینڈ کی حمایت حاصل ہے۔ اگر ان کی حمایت سے بی جے پی کی حکومت بنتی ہے تو ہر اس مسلمان کی زندگی عذاب بن جائے گی جو بنگلہ بولتا ہے۔ آسام میں مسلمانوں کی تعداد بی جے پی کی حلق کی ہڈی بن گئی ہے۔ اس کا نعرہ ہی یہ ہے کہ یہ مسلمان بنگلہ دیش سے آئے ہیں۔ حالانکہ یہ ان کی نسل ہے جنہیں انگریز چائے کے باغات میں کام کرانے کے لئے لائے تھے۔ اور وہ آسام میں سو برس سے رہنے کے باوجود ایسے ہی بنگلہ بولتے ہی جیسے ملک کی تقسیم کے بعد مغربی بنگال والے بنگلہ بولتے ہیں۔ یا پنجاب میں ہرپنجابی گورمکھی بولتا ہے۔ بی جے پی نے آسام کے لئے یہ نعرہ دیا ہے کہ جو آسامی بنگلہ بولتا ہے، اگر اس کے باپ دادا 1951ء کی مردم شماری کے وقت آسام میں تھے تو وہ آسامی ہے یا 24مارچ 1971ء سے پہلے جس کا نام ووٹرلسٹ میں ہے یا کسی اور سرکاری کاغذ میں ہے وہ آسامی ہے۔ ان کے علاوہ جو بنگلہ بولتا ہو وہ بنگلہ دیش سے آیا ہوا مسلمان ہے۔ اسے واپس کیاجائے۔ جیسے یہ مسئلہ ہندوؤں کے لئے سنگین ہے ویسے ہی مسلمانوں کے لئے ہے۔ دشواری یہ ہے کہ جو طبقہ مزدوروں کے طورپر آیا ہے وہ بے علم وبے شعور ہے۔ وہ جانتا ہی نہیں کہ مردم شماری یا ووٹرلسٹ میں اپنے نام کی فکر کرے۔ اس کمزوری کو ہندو جانتا ہے اس لئے اس نے یہ دکھتی رگ پکڑ لی ہے۔ ابھی کوئی بات کھل کر سامنے تو نہیں آئی ہے لیکن مولانا کا کانگریس پر مسلسل حملے کرنا اور بی جے پی کے بارے میں خاموشی کا انجام یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مولانا بی جے پی سے ایسا ہی کوئی معاملہ کر لیں جیسا دفعہ 370 اور مرکز کے حملوں سے بچنے کے لئے کشمیر میں مفتی سعید صاحب اور اب ان کی دختر محبوبہ مفتی نے کیا ہے۔ اور یہ مطالبہ منوا لیں کہ 2005ء کی ووٹرلسٹ اور اس کے بعد موجودہ ووٹرلسٹ میں جس کا نام ہے وہ چاہے جو زبان بولتا ہو وہ آسامی ہے۔ اس الیکشن کو وزیر اعظم جس طرح لڑ رہے ہیں اس کے بارے میں بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنر جی کو کہنا پڑا ہے کہ وہ وزیر اعظم تو کہیں سے محسوس ہی نہیں ہوتے وہ تو آر ایس ایس کے ورکر لگ رہے ہیں۔ اور یہ حقیقت ہے کہ ان کی کوئی تقریر ایسی نہیں ہے جیسی وزیر اعظم کی ہم سنتے رہے ہیں۔ اگر اندراگاندھی نے 1967ء کے بعد یہ فیصلہ نہ کیا ہوتا کہ جس صوبہ کی حکومت گر جائیگی وہاں دوسرا الیکشن ہوگا تو نہ پہلے کانگرس کو اور نہ اب مودی صاحب کو ہر سال اپنی مقبولیت کا ٹیسٹ دینا پڑتا۔ انہوں نے دہلی میں جیسی آواز میں تقریر کی وہ ہریانہ سے زیادہ اونچی تھی پھر بہار میں اسے اور اونچا کرنا پڑا۔ اور اب تو وہ بنگال اور آسام میں جیسی تقریریں کر رہے ہیں اس سے توایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اگر انہیں کامیابی نہ ملی تو کہیں وہ بستر نہ پکڑ لیں؟ 2014میں 31فیصدی ووٹ پانے والے مودی کو دوسال کے بعد 50فیصدی پر آجانا چاہئے تھا۔ اب اگر وہ 11فیصدی پر آتے ہیں تو وہ اپنے ہم منصبوں سے کیسے آنکھ ملائیں گے۔؟؟؟ کاش وہ ہر صوبائی الیکشن کو اپنا ذاتی الیکشن نہ بناتے اور امت شاہ کے سر پر ٹھیکرا پھوڑتے رہتے تو وہ اسی مقام پر رہتے جس پر 27مئی 2014کو تھے۔ آسام میں تو ایسا محسوس ہورہا ہے کہ مودی اجمل اتحاد ہو جائے گا اور آسام کے غریب مسلمانوں کے لئے مودی کو اپنا ہاتھ پیچھے رکھنا ہی پڑے گا۔ دعا کرو جو مسلمانوں کے حق میں اچھا ہو وہ ہو جائے۔