امیتابھ بچن اور عامر خان میں فرق

Bhatkallys

Published in - Other

04:23PM Sat 16 Jan, 2016
363625-KuldipNayarnew-1433443210-396-640x480 از: کلدیپ نیئر میں فلموں کا زیادہ شوقین نہیں ہوں لیکن مجھے عامر خان جیسے اداکاروں کی فلمیں دیکھنا پسند ہے کیونکہ اس کی اداکاری خاصی فطری ہوتی ہے اور مجھے لگتا ہے جیسے میں فلم نہیں دیکھ رہا بلکہ اپنی طبیعت کو راحت پہنچا رہا ہوں۔ مجھے اعتراف ہے کہ مجھے ’’ترکنڈی سالانہ لیکچر‘‘ کے موقع پر عامر کا یہ ریمارک پسند نہیں آیا کہ اس کی بیوی نے اکثر اس سے کہا ہے کیا وہ کسی اور ملک میں ہجرت نہیں کر سکتے۔ تاہم بالآخر اس نے معافی مانگ لی اور ملک میں پیدا ہونے والی اس بدنما اختلافی بحث کو ختم کر دیا۔ لیکن نریندر مودی حکومت نے سیاحت کے فروغ کے لیے اس کی برانڈ ایمبیسڈر کی مدت میں اضافہ کرنے سے انکار کر کے اس اختلافی بحث کو از سر نو شروع کرا دیا ہے۔ آخر بی جے پی اس حرکت سے کیا پیغام پہنچانا چاہتی ہے یہ میری فہم سے بالاتر ہے۔ لیکن یہ بات صاف ہے کہ حکمران جماعت عامر خان کو اس تبصرے کی سزا دے رہی ہے۔ اس تقریب میں بھی موجود تھا، جہاں مجھے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دیا گیا۔ عامر خان کے تبصرے کو بے محل تو قرار دیا جا سکتا ہے لیکن اس میں کسی پر الزام نہیں لگایا گیا۔ ویسے بھی عامر خان تحمل و برداشت کے حوالے سے ایک پہچان رکھتے ہیں۔ لیکن اس موقع پر ان کی اس خوبی کو یکسر نظرانداز کر دیا گیا۔ اس موقع پر آزاد خیال حلقوں کی طرف سے حکومت سے استفسار بھی کیا گیا کہ آخر اس معاملے کو ایک ایشو بنانے کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ مودی حکومت نے عامر خان کو ایک سزا دی ہے مگر اس امر کی کوئی وضاحت نہیں کی کہ ان کی بطور برانڈ ایمبیسڈر عامر کی مدت میں اضافہ کیوں نہیں کیا گیا جو بصورت دیگر ایک روٹین کا معاملہ ہوتا ہے۔ اس سے تو خود مودی حکومت کی ساکھ پر بھی ایک سوالیہ نشان لگ گیا جس نے کہ اقلیتوں کو مطمئن کرنے کے لیے نعرہ لگایا تھا ’’سب کا ساتھ‘ سب کا وکاس‘‘ لیکن لگتا ہے کہ انتہا پسند آر ایس ایس نے حکومت پر غلبہ پا لیا ہے۔ حتیٰ کہ پراشر بھارتی جس کو بصورت دیگر کوئی نہیں جانتا‘ اس نے آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھگوت کو اجازت دیدی ہے کہ وہ اس کا ریڈیو نیٹ ورک استعمال کر کے اپنے مافی الضمیر کو براڈ کاسٹ کر سکتا ہے۔ یہ ایسی بات ہے جو آزادی کے بعد سے پہلی دفعہ ہو رہی ہے۔ مودی حکومت کو یہ احساس نہیں ہے کہ شاید وہ قانونی طور پر درست ہو لیکن اخلاقی طور پر بالکل غلط ہے۔ اقلیتیں جو پہلے ہی حکومت پر شبہ کرتی ہیں کہ وہ ہندوتوا کی پالیسی پر عمل کر رہی ہے جس کے نتیجے میں اقلیتیں دہشت زدہ ہیں اور وہ محسوس کرتی ہیں کہ وہ اس ملک میں دوسرے درجے کے شہری ہیں۔ حالانکہ ملک کا آئین یہ ضمانت دیتا ہے کہ قانون کے سامنے سارے شہری برابر ہیں۔ جو تعیناتیاں بی جے پی حکومت کر رہی ہے وہ سب معاشرے کو تقسیم در تقسیم کرنے والی ہیں۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی دہلی کے طلبا نے آر ایس ایس کے حامیوں کو امتحان میں ٹاپ پوزیشنیں لینے سے زبردستی روک دیا ورنہ مودی حکومت جو پیغام دے رہی تھی کہ تعلیمی ادارے بھی خود مختار نہیں ہیں بلکہ ان پر بھی انتہا پسندوں کا غلبہ ہے۔ فلم اینڈ ٹیلی وژن انسٹیٹیوٹ آف انڈیا (FTII) جو پونے میں واقع ہے وہ گزشتہ ایک سال سے کوئی کام نہیں کر رہا کیونکہ آر ایس ایس کے پرچارک گجندرا چوہان کو اس کا چیئرمین تعینات کر دیا گیا تھا۔ چوہان صرف ایک تیسرے درجے کا ایکٹر ہے لیکن اس کو بہت سے ممتاز افراد پر ترجیح دیکر انسٹیٹیوٹ کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ فلم انڈسٹری کے بعض چوٹی کے فنکاروں نے چوہان کی تعیناتی کی مخالفت کی ہے لیکن حکومت اصلاح احوال کے لیے تیار نہیں۔ ایک اور بڑی واضح مثال پنکھج نہلانی کی ہے جس کو سنسر بورڈ کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ اگرچہ پنکھج ایک اچھے فلم میکر ہیں لیکن آر ایس ایس کے ساتھ ان کے روابط کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ حتٰی کہ جب سے انھیں سنسر بورڈ کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے‘ ہندوتوا کی سرگرمیوں میں اضافہ ہو گیا ہے لیکن یہ اچھی بات ہے کہ پنکھج کے خلاف بڑھتی ہوئی تنقید نے حکومت کو مجبور کر دیا کہ وہ اس کو ہٹا کر ان کی جگہ لیجنڈری فلم میکر شیام بینیگل کو مقرر کرے۔ البتہ پونے فلم انسٹی ٹیوٹ کے حوالے سے حکومت کسی تبدیلی پر تیار نہیں۔ آخر میں میں تسلیم کرتا ہوں کہ عامر خان کو وہ ریمارک نہیں دینا چاہیے تھا کیونکہ وہ اس وقت حکومت کی Incredible,india compaign کے برانڈ ایمبیسڈر تھے۔ اگر ان کا حکومت کے خلاف کچھ کہنا ضروری تھا تو بہتر ہوتا کہ وہ پہلے برانڈ ایمبیسڈر کی ذمے داری سے مستعفی ہو جاتے۔ مجھے تو بلکہ اس بات پر بھی حیرت تھی کہ آخر انھوں نے یہ پوزیشن قبول ہی کیوں کی تھی کیونکہ ان کو پتہ تھا کہ مودی حکومت کے عزائم کیا ہیں اور یہ بھی کہ اصل حکمرانی تو آر ایس ایس کر رہی ہے۔ لیکن سب سے زیادہ دکھ مجھے امیتابھ بچن کی طرف سے یہ پوزیشن قبول کرنے پر ہوا۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ جو بھی حکومت اقتدار میں ہو‘ امیتابھ کا موقف اسٹیبلشمنٹ کی حمایت پر مبنی ہوتا ہے۔ امیتابھ نے الہ آباد سے لوک سبھا کی نشست کے لیے کانگریس کے امیدوار کے طور پر انتخاب میں حصہ بھی لیا لیکن اس کے بعد سے انھوں نے کسی موقف پر اسٹینڈ نہیں لیا اور ہر وزیراعظم کی ہاں میں ہاں ملائی خواہ وہ کانگریس کی حکومت ہو یا بی جے پی کی۔ امیتابھ کو بس اتنا پتہ ہے کہ سلائس کی کس جانب مکھن لگا ہوا ہے۔ اتفاق کی بات ہے کہ جب مودی گجرات کے وزیراعلیٰ تھے تو امیتابھ گجرات کا برانڈ ایمبیسڈر تھا۔ جب عامر خان کو برانڈ ایمبیسڈر کی پوزیشن سے محروم کر دیا گیا تو امیتابھ بچن کو بھی اپنی پوزیشن چھوڑ دینی چاہیے تھی جس سے یہ پیغام جاتا کہ وہ اصولوں پر سمجھوتے کے لیے تیار نہیں لیکن میں امیتابھ سے جس چیز کی توقع کر رہا تھا وہ اس میں تھی ہی نہیں۔ آپ ان کی اہلیہ جیا بچن کا معاملہ دیکھیں جسے ملائم سنگھ کی سماج وای پارٹی نے دو مرتبہ راجیہ سبھا (ایوان بالا) کا رکن نامزد کیا۔ اصل میں ملائم سنگھ کی پارٹی چاہتی تھی کہ جیا بچن 2014ء میں لوک سبھا کی نشست کے لیے انتخاب لڑیں لیکن اس نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے باوجود ملائم سنگھ نے اسے دوسری مدت کے لیے پھر راجیہ سبھا میں نامزد کر دیا۔ یہ ساری بات ظاہر کرتی ہے کہ امیتابھ بچن کو سیاسی صورت حال سے فائدہ اٹھانا خوب آتا ہے۔ امیتابھ نے اس بات کا قطعاً کوئی خیال نہیں کیا کہ عامر خان نے بی جے پی کی تقسیم در تقسیم کرنیوالی پالیسی کے خلاف جراتمندانہ موقف اختیار کیا جس کے نتیجے میں اسے زبردستی اس کی پوزیشن سے ہٹا دیا گیا۔ اس ساری صورت حال میں قوم کے لیے ایک سبق موجود ہے۔ ایک سیکولر جمہوری ملک کو چاہیے کہ وہ ہر ایک کو برداشت کرے خواہ اس میں اس پر تنقید کرنیوالے بھی کیوں نہ ہوں۔ کیونکہ بھارت ایک اجتماعیت کے فلسفے پر یقین رکھنے والی ریاست ہے جس میں اظہار رائے کی آزادی کی ضمانت آئین میں دی گئی ہے اور اقلیتوں کو اپنی بات کہنے کا پورا حق حاصل ہے۔ یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ اسد الدین اویسی جیسے لوگ آزادی اظہار کے حق کا غلط استعمال کرتے ہوئے ہندوؤں اور مسلمانوں میں خلیج کو بڑھا رہے ہیں۔ اس وقت گیند بی جے پی کی کورٹ میں ہے۔ اس پارٹی کو تحمل اور برداشت کی فضا پیدا کرنی چاہیے کیونکہ میرے جیسا شخص بھی یہ محسوس کر رہا ہے کہ قوم پر ہندوتوا کا فلسفہ ٹھونسا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں وہ اجتماعیت کے راستے سے بھٹک رہی ہے۔ آزادی کی جدوجہد صرف برطانیہ کے خلاف نہیں تھی بلکہ اس فرقہ وارانہ تقسیم کے بھی خلاف تھی جو برطانیہ کی 150 سالہ حکمرانی کے نتیجے میں پیدا ہوئی۔ ہمیں ایسا ماحول پیدا کرنا چاہیے جس میں عامر خان یا ان جیسے دوسرے لوگوں کو کوئی ایسی بات کرنے کی ضرورت ہی نہ رہے‘ جس سے کوئی غلط مطلب لے سکے۔ (ترجمہ: مظہر منہاس)