تازہ ادبی صفحہ۔۔۔۔

ندیم صدیقی
مطلع
’’
مَیں جب کوئی نظم کہتا ہوں تو اُس وقت وہ مجھے بہت اچھی لگتی ہے۔ ساتھ ہی ایسا بھی محسوس ہوتا ہے، جیسے ایک بہت بڑا بوجھ میرے سَر پر تھا جو اُتر گیا، ایک سکون اور تسکین کا احساس ہوتا ہے، لیکن نظم کہنے کے بعد جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے، (یہ)احساس کمزور ہوتا جاتا ہے، پھر ایک خلش سی ہونے لگتی ہے اور جی کہتا ہے جو کہنا چاہتا تھا وہ پھر رہ گیا، یہی احساس ہے جو میرے لئے آج بھی مہمیز بنا ہوا ہے۔۔‘‘
٭ اختر الایمان
خوشبو
ذہن کو ماؤف کر دیتا ہے لفظوں کا طلسم
مدعا کہہ دیجیے جادو بیانی پھر سہی
٭مغیث الدین فریدی
آگاہئ اسرار کا انجام جنوں تھا
دُنیا پَہ بڑا رحم کیا بے خبری نے
٭شارق اَیرَایَانی
مضمون
انجم فوقی بدایونی
کی نیک نفسی ، ودِیعتِ خدا وندی تھی جس نے اُنھیں تصوف کی راہ سے بزرگی بھی عطا کی اور شعری فتوحات کاسبب بھی بنی
٭ ندیم صدیقی
(تیسری قسط)
مولاناولانا سے ایک ملاقات میں خدا اور خودی پرگفتگو ہورہی تھی۔ اس گفتگو کا یہ جملہ ہم بھول نہیں سکے: میاں ندیم! جو خود شناس نہیں وہ خدا شناس کیا ہوگا۔ اور یہ بھی کہا کہ ذرا غور کیجئے کہ حضرت علیؓنے آخر یہ کیوں کہا کہ ’’میں نے اپنے اِرادے کے ٹوٹنے سے خدا کو پہچانا۔‘‘
جو اپنے اختیار کی حد تک خدا نہیں
وہ آدمی بھی ہو توکسی کام کا نہیں
٭
محبت دُکھ اُٹھا کر بھی محبت
مِرا کردار ہے عادت نہیں ہے
٭
صلۂ درد تو مقصود ہے لیکن انجمؔ
مجھ سے پہلے مِرے دشمن کو خدا شاد کرے
٭
میرے دشمن کی شرافت دیکھئے
وار کرتا ہے مجھے پہچان کر
اس طرح کے اشعار ہماری بات کی تصدیق ہی نہیں بلکہ دلیل بنے ہوئے ہیں کہ انسان دوستی اورخود شناسی جب باہم یکجاہو تی ہیں تو فکر کیسے کیسے جلوے بن کر سامنے آتی ہے ۔۔۔غالبؔ نے کہاتھا۔
بس کہ دشوار ہے ہرکام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
یہ زمین کتنی زرخیز ثابت ہوئی ذرا دیکھئے کہ داغؔ دہلوی سے ہمارے عہد تک مختلف شعرانے کیسے کیسے پھول کھلا دِئے ہیں اس ارض ِغالب پر :
’’کتنی آسان ہے احسان فراموشی بھی
کتنا دُشوار ہے شرمندۂ احساں ہونا‘‘
٭
’’کسی بوڑھے کو کھلونوں سے بہلتا پاکر
ایک بچے کا وہ انگشت بدنداں ہونا‘‘
٭
’’وہ مِرا وصل پَہ اصرار ، بہ اندازِ جدید
وہ بہ اندازِ قدیم اُن کا گریزاں ہونا‘‘
لیکن جب مولانا انجم فوقی کی فکرنے اس زمین پر قدم رکھاتو یہ نقش پارے سامنے آئے ۔
لوگ بچتے ہیں محبت کی پریشانی سے
میںنے سیکھا ہے محبت میں پریشاں ہونا
٭
اور کچھ روز میرا ساتھ گوارا کرلو
تم کو آجائے گا تنہا بھی نمایاں ہونا
یہ وصفِ پارس یوں ہی میسر نہیںہوا ،اس کے پیچھے برسوں کی رِیاضت اور خیالات و افکار کی پاکیزگی کے ساتھ درد مندی جب حلول ہوتی ہے تو لفظ معجزے کی نوید بن جاتے ہیں ۔
مولانا انجم فوقی اسی فکر و اظہار کے اعجاز کا ایک جیتا جاگتا نام ہے جو صرف کہتا نہیںبلکہ کرتا بھی ہے ۔ ان کے کردار اور ایثار کے گواہ کانپور سے احمدآباد ، مالیگاؤں ، دھولیہ ،بمبئی اور کراچی میں ہم نے دیکھے ہیں ۔
ایک گواہی یہ بھی درج ہوجائے جو، اُن کے کردار کی ایک جھلک ہے کہ وہ دوسرے بزرگوں کی طرح چھوٹوں سے کبھی خائف یا دور نہیںرہے ۔ بلکہ ہم نے خود دیکھاہے کہ کوئی چھوٹا اگر کسی سطح پر معمولی سی بھی کشش کا حامل ہے تو مولانا کی نگاہ ِتوجہ سے وہ بچ نہیں سکا۔
حسن سوزؔ جو مولانا کے تلامذہ میںسے تھے اور جن کا یہ شعر مشہور ہے کہ
دونوںہی سے رشتہ رکھو ، دونوں سے ہشیار رہو
انسانوں کی جان کا دشمن لوہا بھی ہے سونا بھی
مولانا سے شعر و ادب پرگفتگو کے دوران حسن سوز اکثر فراقؔ کے شعری محاسن کو یوں بیان کرتے کہ جیسے دوسرے شعرا کچھ بھی نہیں ہیں۔ مولانا انجم فوقی کو حسن سوزؔ کا یہ اندازِ نقدو نظر، ظاہر ہے گراں گزرتا تھا ۔مگر وہ حسن سوزؔ کو کبھی ٹوکتے نہیں تھے ۔ ایک دن حسن سوز رُخصت ہوئے تو مولانا نے اپنے آپ سے کہا کہ ’’حسن سوزؔ جس طرح فراق ؔکو سمجھ رہے ہیں ذرا اس زاویے سے بھی فراق کی شاعری کامطالعہ کیاجائے ‘‘… انہوںنے اب فراقؔ کو سوزؔ کے تناظر میں پڑھا۔ مولانا نے لکھا ہے کہ اُس دن مجھ پر فراقؔ کی شعریات کے کئی مخفی پہلو ظاہر ہوئے اوریہ بھی احساس جاگاکہ ُاستاد اگر ’’ خود پرستی ‘‘ اور نرگسیت میںمبتلانہیںتو اسے یہ بھی معلوم ہوسکتاہے کہ ہوش مند اُستاد وہی ہے جو شاگرد کو سکھاتا ہی نہیں بلکہ اُس سے خود بھی کچھ سیکھتاہے ۔ مولانا کے دوسرے مجموعۂ کلام ’’ مہرو ماہ‘‘ میںپہلی غزل کی زمین یوںہے ۔
آؤ ایک دوسرے کو پیار کریں
پیار کرنا بڑی عبادت ہے
اس زمین میں ہم نے ایک نعت کہی اور مولانا سے ملاقات پر اُنھیں سنائی جس میں ایک قافیے پر وہ یکدم چونکے اور برجستہ کہنے لگے کہ’’ ندیم میاں ! حیرت ہورہی ہے کہ مجھ سے یہ قافیہ کیسے چھوٹ گیابلکہ سچ تویہ ہے کہ میرے ذہن ہی میں یہ قافیہ نہیں تھا ، اللہ آپ کواور نوازے … واہ … آپ نے خوب کہہ لیا ۔‘‘۔۔۔ (نعت کا)وہ شعریوںتھا:
اب نبی دوسرا نہ آئے گا
آنے والی یہاں قیامت ہے
مولاناچھوٹوں کی حوصلہ افزائی میںبہت فراخ دِل واقع ہوئے تھے۔ ان کے خطوط اورمضامین اس کے گواہ ہیں اور سب سے بڑھ کر اُنہی کا یہ شعر شہادت بنا ہوا ہے:
چھوٹے نہ ہوں توکیسے بڑے، کس کا احترام
کلیوںکے دَم سے لالۂ و گل کا شباب ہے
ایک بار نئے شعراپرگفتگو ہو رہی تھے، مو لاناکہنے لگے:
’’ بعض نوجوان ایسے مل جاتے ہیںکہ جی چاہتا ہے کہ خود کچھ نہ کہو انہی کو سنتے رہو۔‘‘۔۔۔ مولانا نے( اپنے شعری مجموعے) ’ مہروماہؔ ‘ کے دیباچے میں کراچی کےجدید شاعر نسیمؔ عباسی کا یہ شعر درج کیا تھا :
مٹنا پڑے گا اگلے سوالات کےلئے
ہم لوگ ہیں سلیٹ کے اوپر لکھے ہوئے‘‘
ایک بار ہم نے اپنی تازہ غزل کے کچھ شعر سنائے جس میں یہ شعر بھی تھا:
آتشِ نفس کی یاری نے مجھے خاک کیا
دیکھیں! اس خاک سے کیا نفس کی صورت نکلے
مولانا نے مکرر سنا اور پھر’ آتش ِنفس کی یاری ‘کا ٹکڑا دُہرا کر سرگوشی کے انداز میں دو بار ’ اُف اُف‘ کہا، پھر ہم نے دیکھا کہ اُن کی پلکیں نم تھیں اور اُنہوں نے اس شعر کا مصرعۂ ثانی بہ آواز پڑھا:
دیکھیں! اس خاک سے کیا نفس کی صورت نکلے!!
چند لمحے گزرے ہوںگے کہ اُن کا ہاتھ ہماری طرف بڑھا اور ہمیں کھینچ کر اپنے سینے سے لگا لیا۔
اس واقعے کو دو دَہے تو گزر گئے ہوں گے مگر محسوس یہ ہوتا ہے کہ کل کی بات ہے اور جیسے مولانا کہہ رہے ہوں کہ ندیم ؔمیاں! ذرا ’حیرت‘ کے قافیے والا شعر بھی سنانا:
تم تحیّر کی حقیقت پَہ پریشان نہ ہو
کیا عجب کل جو حقیقت سے بھی حیرت نکلے
( ان واقعات کے بیان کو خود ستائی نہ سمجھا جائے، ہمارا مقصد چھوٹوں کے تئیں مولانا موصوف کے خاص رویے کو واضح کرنا ہے، کیونکہ ہمارے
ہاں چھوٹوں کو عموماً خاطر میں نہ لانے کے روایت رہی ہے۔)
اسی حوالے سے ایک واقعہ ہمیں اور یاد آتا ہے کہ 1982 میں جب مولانابمبئی آئے تو یہاں اُن کے اعزاز میںایک نہیں کئی نشستیں منعقد ہوئیں۔ انہی میں سے کسی نشست میں عزیزم سید ریاض بِن رحیم سے بھی ان کی ملاقات ہوئی۔ ریاؔض نے مولانا کو اپنے گھر ظہرانے پر مدعو کیا، ریاؔض کے شعر بھی انہوں نے سنے اور شعرو ادب پرگفتگو بھی سوال و جواب کی صورت میںہوئی۔ دوسری ملاقات پر مولانا نے رِیاؔض کواپنی کتابوں کا ایک سیٹ بھی دِیا۔ اسی دوران قیصر الجعفری سے بھی ملاقات ہوئی۔ اسی زمانے میں قیصر مرحوم کا شعری مجموعہ’ دشتِ بے تمنا ‘شائع ہونے والاتھا، قیصر مرحوم نے مولاناسے اپنے مجموعے پر دیباچہ لکھنے کی درخواست کی اور مولانا نے دیباچہ لکھا بھی۔ جس نشست میں ریاض کو اُنہوں نے کتابیں دی تھیں اس میں قیصر مرحوم بھی شریک تھے۔ بعض حضرات کو یہ عجب لگا کہ ایک نو مشق کو تومولانا نے اپنی تصانیف سے نوازا مگر کہنہ مشق قیصر الجعفری کو ایک کتاب بھی نہیں دی۔۔۔ یہ شکوہ ہم نے کسی خط میں مولانا کو لکھ بھیجا۔ انہوں نے جواباً جو کچھ لکھا وہ بھی ادب کے نوواردان کیلئے ایک درس سے کم نہیں۔
’’۔۔۔ اس میں شک نہیں کہ ندیمؔ صدیقی نے جو کچھ لکھا، حرف حرف صحیح ہے لیکن صرف الفاظ، کلمۂ با معنی اور جملوں کی حد تک۔۔۔ ’افہام و تفہیم‘ کی مد میں لوگوں کا یہ تاثر عامیانہ ہے۔ خصوصاً اس لئے اور بھی کہ قیصر صاحب۔۔۔’ مجھے‘۔۔۔ پڑھنے والوں میں ہیں۔
سید ریاؔض کو اس کی ضرورت تھی کہ وہ ابھی میری تصانیف پڑھیں، لہٰذا یہی کہتا بھی ہوں کہ جو لوگ مصنف کو پڑھنے کے اہل نہیں ہوتے، تصنیف اُنہی کو دِی جاتی ہے۔۔۔ ہاں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو مصنف کو پڑھنے کے اہل تو ہوں لیکن نہ ملاقاتی نہ مصنف کے سابقہ مطالعہ نگار۔۔۔ تو ان حضرات کیلئے کتاب فراہم کرنا ضروری ہے ورنہ تصانیف کے مستحق وہی، جنہیں آگے بڑھنا ہو۔‘‘
( انجم فوقی بدایونی ۔انکشاف۔ص:۳۵۹)
آدمی کا نفس اگر نیک ہے تو اس کے فکر و عمل میں انسانی درد مندی کا ظہور۔۔۔ ہرگز عجب نہیں ہو سکتا۔
مولا نا انجم فوتی بدایونی کی نیک نفسی ، ودِیعتِ خدا وندی تھی جس نے انہیں تصوف کی راہ سے بزرگی بھی عطا کی اور ان کی شعری فتوحات کاسبب بھی بنی ۔ وہ بہت مشہورقسم کے شاعر و ادیب تو نہیں مگر انصاف پسند اہل نقد و نظر اصغرؔ گونڈوِی، مولانا حسرتؔ موہانی کے قبیل کے شعرا کی فہرست میں ان کا شمار یقینا ًکریں گے ۔ رہی شہرت کی بات تو ہم نے نہ جانے کتنے شور سمُندَر قسم کے لوگوں کو دیکھا ہے کہ جب اُن پر مٹّی پڑی توپھر شہرت بھی خاک بن کر اُڑگئی ۔
مولانا انجم فوقی 11جنوری1911 کو بدایوں میں جنمے اور 11اگست 1995کو اُنہوںنے کراچی میں بظاہر آخری سانس لی مگر مہروماہ، اُجالے ،معاملات، انکشاف،ایقاظ اور فکروفن(عروضی اصطلاحات) جیسی کتابیں جب بھی پڑھی جائیں گی، ان میں نہ صرف وہ سانس لیتے ہوئے بلکہ پڑھنے والوں کو زندگی کی دعوت دیتے بھی محسوس ہوںگے ۔ ہماری اس بات کو غلونہ سمجھا جائے کہ مولانا انجم فوقی بدایونی کے معترفین میں علامہ نیاز فتح پوری ، مولانا عبد الماجد دریا بادی اور پروفیسر احتشام حسین سے لے کر فراق گورکھپوری جیسے اکثر اکا برِ ادب شامل ہیں ۔ اس سلسلے کی ایک کتاب ’جواز ‘ بھی شائع ہوچکی ہے ۔ جس میں اِن اکابر ادب کے تفصیلی اور اِجمالی مضامین انجم شناسی کی راہ منور کئے ہوئے ہیں ۔
یہاں یہ واقعہ بھی اندراج چاہتا ہے کہ1992 میں ناگپور یونیورسٹی نے (ڈاکٹر بدر جمیل کی چھوٹی بہن) عزیزہ فرزانہ خان کو مولا نا انجم فوقی بدایونی کے فکروفن پرڈاکٹر آف فلاسفی کی ڈگری تفویض کی اور یہ تحقیقی مقالہ، کتابی شکل میں پاکستان سے شائع بھی ہوا۔
اس تحریر کے اِختتام پر مولانا کے یہ اشعار ذہن سے خود نکل کر زبان پر آگئے ہیں:
چوم کر اُن کے آستانے کو
میں نے ٹھکرا دِیا زمانے کو
٭
اُس نے مجبورِ وفا جان کے منہ پھیر لیا
مجھ سے یہ بھول ہوئی پوچھ لیا، کیسے ہو؟
٭
یہ پسینہ ہے میری آنکھوں کا
غم کے آنسو کچھ اور ہوتے ہیں
٭
تاریخِ وفا میں کیا ملے گا
آنکھوں میںجو وقت کٹ چکا ہے
٭
نظر اپنی جگہ رُک جائے، جلوہ اپنے مرکز پر
یہ ممکن ہو تو سکتا ہے مگر ایسا نہیں ہوتا
٭
آج سے عشق کی تاریخ بدل جائیگی
آئینہ لاؤ مجھے دیکھ رہا ہے کوئی
٭
روز اخبار دیکھتے رہنا ٭پھر تصور ہے آشیانے کا
٭
بات طولِ سفر کی نہیں ہے
جیب خالی تھی گھر لوٹتا کیا
٭
قناعت باسلیقہ ہو تو انجمؔ
پھلوں کا کام دے جاتے ہیں چِھلکے
٭
جاگنا تھا ہمیں بہ کارِ حیات
سو لئے موت کے بہانے سے
٭
مولانا حکیم انجم فوقی بدایونی کی ایک نظم جس کا عنوان ہی ’پیغام‘ ہے۔
جس کےمخاطَب آپ بھی ہیں :
دوستو! کرب کا احساس بھُلا دو کہ تمہیں
روز اَن گِنت مراحل سے گزرنا ہوگا
وقت کا زہر اگر تم سے سہارا نہ گیا
مسکراتے ہوئے یہ گھونٹ اُتارا نہ گیا
سُکھ تو کیا، سُکھ کی رمق کو بھی ترس جاؤ گے
جبرِ بے نام کی زنجیر میں کَس جاؤ گے
دِن وہ دوزخ ہے کہ ہر لمحہ جلائے گا تمہیں
رات آسیب ہے، آسیب ستائے گا تمہیں
لمحہ لمحہ عمَلی دِیپ جلائے رکھنا
جس طرح ہو سکے ماحول بنائے رکھنا
٭(ختم شد)
ایوان ِ نظم
خدا کے بندے
اسکول سے آتے ہوئے بچے گھروں تک آ نہیں پاتے
کبھی ٹرینوں کے چکّر میں
بڑے اسٹیشنوں کی لابیوں میں سو رہے بچے
اچانک خواب هو جاتے هیں اپنی ماؤں کی خاطر
کبھی بازار کها جاتا ہے بچوں کو
کبھی گارڈن میں گم ہو جاتے ہیں بچے
کہاں جاتے ہیں یہ بچے
سنا ہے شہروں میں کچھ کارخانے هو تے ہیں ایسےبھکاری بنتے ہیں جن میں
کسی کے هاتھ کٹتے ہیں کسی کے پاؤں کٹتے ہیں
مٹائی جاتی ہیں باتیںبجھائی جاتی ہیں آنکھیں
مہکتے پھولوں کو پتھربنا کر رکھ دیا جاتا ہے سڑکوں پر
ہر اک مندر ہر اک مسجد ہر اک درگاہ کے باہر یہ پتھر بیچے جاتے ہیں
خدا اور ایشور کے نام سے
بڑے آرام سے یہ بھیک کا بیوپار چلتا ہے
وہ ظالم لوگ جو، ان پھولوں کو پتھر بناتے ہیں
انہیں ماؤں کی آہیں بدعائیں کیوں نہیں لگتیں
زمینیں کیوں نہیں پھٹتیں
فلک کیوں ٹوٹ کر گرتا نہیں ان پر!
سمجھ میں میری کچھ آتا نہیں یہ کیسا قصہ ہے!!
٭شکیل اعظمی
( مقیم حال:بوسٹن، امریکہ)
رابطہ::shakeelazmi3@gmail.com>
ایوان ِغزل
میرے ساتھ چل کے بچھڑ گیا
وہ ہَوا کا جھونکا کدھر گیا
وہ کِھلا کِھلا ہُوا پھول تھا
ذرا چٗھو لیا تو بکھر گیا
تیرے ہجر، تیرے وصال کے
مَیں ہر ایک غم سے گزر گیا
ترا غم تھا اک مِرا ہمسفر
وہ بھی راستے میں اُتر گیا
وہ بھی اَڑ گیا کسی جھوٹ پر
مَیں بھی حرفِ حق سے مُکر گیا
٭ منصور اعجاز(ایوت محل)
رابطہ:09881613380
نواز دے جِسے چاہے اُسی کا حصّہ ہے
مگر وہ خواب جو ہر آدمی کا حصّہ ہے
چھلک پڑیں گے ابھی مُسکراتی آنکھوں سے
یہ آنسوؤں کا تسلسل خوشی کا حصّہ ہے
بھٹکتا رہتا ہوں بے نام راستوں کی طرف
مرا ہُنر میری آوارگی کاحصّہ ہے
حُضور! جھُک کے ملو روسیاہ لوگوں سے
کہ یہ اندھیرا بھی تو روشنی کا حصّہ ہے
کسی کسی پَہ ہی سجتا ہے اس مزاج کا رنگ
جو رکھ رکھاؤ تیری سادگی کا حصّہ ہے
سبھی کو ملتی نہیں یوں محبتیں بابرؔ
کہ اس خزانے میں کم ہی کسی کا حصّہ ہے
٭بابرشریف(ناگپور)
رابطہ:9890448379