حج و قربانی کیا چاہتے ہیں؟

Bhatkallys

Published in - Other

03:16PM Sat 4 Oct, 2014
از:عبدالحفیظ خان ندوی حج اسلام کے ارکان خمسہ میں سے ایک اہم رکن ہے جو مالی و بدنی دو نوں عبادت ہے اللہ نے انہی افراد پر یہ اعمال فرض فر مائے ہیں جو استطاعت رکھتے ہوں اور یہ بابرکت ایام شروع ہو چکے ہیں جس کے لیے دنیا کے چپہ چپہ سے لو گ اس فریضہ کو اداکرنے کے لیے جمع ہو رہے ہیں ،حج اسلام کا وہ فریضہ ہے جو ہمیں حضرت ابراہیم ؑ اور انکے اہل خانہ کی یاد دلاتا ہے جنھوں نے اپنی خواہشات کی قربانی دیتے ہوئے اللہ کے احکام کو بجالاتے ہو ئے وہ اعمال کیا جس سے اللہ خوش ہو کر رہتی دنیا کے لئے جاری کر دیا درحقیقت حج و قربانی یہ وہی اعمال ہیں جو حضرت ابراہیم ؑ ،حضرت اسماعیل ؑ و حضرت ھاجرہ نے اللہ کو خوش کرنے کے لئے ادا کئے تھے اور اللہ نے ان سے خوش ہو کر ہر حاجی کے لئے لازم قرار دیا ،گویا حج و قربانی ہمیں بھی ہمارے اندر اللہ کے لیے قربان ہو نے کا ،اپنی خواہشات کو ترک کرنے کا، دین اسلا م کے لئے مر مٹنے کا ،اور اللہ کے لئے اپنی عزیز سے عزیز تر چیز کو قربان کرنے کاسبق دیتا ہے ۔ آج ہم نے حقیقی قربانی کو بھلا دیا ہم نے قربانی کو صرف جانوروں کی قربانی تک محدود رکھا اور حج و قربانی کر کے یہ سمجھ لیا کہ ہم نے اللہ کو خوش کر نے والا عمل کیا ،لیکن ان اعمال سے ہم نے کیا سیکھا ،کیا سبق حاصل کیا اس پر ہم نے کبھی غورکیا ہے؟اسلئے کہ ہم نے حقیقی قربانی کو بھلا دیا اسی لئے اللہ نے صاف فرما دیا (لن ینال اللّٰہ لحومہا ولا دماؤہا، ولکن ینالہ التقویٰ منکم)نہ تمہا راگوشت مجھے پہنچتا ہے نہ خون ،بلکہ تمہا را تقوی پہنچتا ہے اس سے معلوم ہو اکہ اللہ کو مقصود قربانی نہیں ہے بلکہ اسکے دل کی کیفیت کو جا ننا چاہتے ہیں کہ اس کے اند ر کتنا اخلاص ہے ،اس قربانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمارے ہر کا م میں اخلاص ہو نا چاہیئے، اگر اخلاص کے بغیر سمندر کے برابر بھی عمل کریں گے وہ نا قابل قبول ہے ،عمل تھوڑا ہی کیو ں نہ ہو اس کے اندر اخلا ص پو شیدہ رہنا چاہیئے ،ہم بڑے سے بڑے قیمتی سے قمیتی جانور اللہ کے لئے ذبح کریں اگر اخلاص نہ ہو ریا ،شہرت ہو وہ عمل اللہ کو ناپسند ہے اسلئے ہمیں اس ناحیہ سے بھی سوچنے کی ضرورت ہے ۔ ہم حضرت ابراہیم ؑ کی حیات مبارکہ پر نظر ڈالیں کہ اللہ نے انکو کن کن آزمائشوں سے گذارا،خدا کی معرفت میں سورج ،چاند ،ستاروں کی طرف غور کیا ،پھر بتوں کی مخالفت میں گھر ،وطن سے نکالاگیا ،توحید کی دعوت کے نتیجے میں آگ میں ڈالا گیا ،پیرانہ سالی میں اولا د عطا کی اور وہ بھی لڑکا عطا کیا کئی مدتوں بعداللہ کی طرف سے اسکو بھی قربان کرنے کاحکم ہو ا،اپنے علاقے سے میلوں دور بیا با ن وچٹیل میدان ،تپتے پہاڑ وں پر ،جہاں نہ آدم نہ آدم زاد تھا ،آبادی کا کو ئی نام ونشان نہ تھا ایسے جگہ پر آپ چھوڑ کر چلے گئے،بیوی بھی ایسی فرمانبردار کہ اللہ کے حکم کے آگے قربان ہو نے کے لئے تیار ،بیٹا بھی ایسانیک و صالح کہ شیطان کے بہکاوے میں آئے بغیر اللہ کے حکم پر قربان ہونے تیا ر ، ان مرحلوں میں حضرت ابرہیم ؑ و انکے اہل خانہ نے صبر کے دامن کو تھامے رکھا اور اللہ کے ہر حکم کو بجا لاتے ہو ئے، ہر آزمائس میں ثابت قدم رہے ، ان واقعات سے ہمیں بھی یہ سبق ملتا ہے کہ آزمائشیں ہوتی رہتی ہیں لیکن ایک مومن کا شیوہ یہ ہے کہ ان مرحلوں میں صبر کے دامن کو تھامے رکھے لیکن ہما را المیہ یہ ہے کہ ہم تھوڑا سا عمل کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے بہت کچھ کر لیا اور ہم ہی دنیا کے اندر بہت زیا دہ قربانی ،صدقہ ،عبادت کرتے ہیں ،اور جہاں کہیں آزمائش ہو تی ہے تو اس پر واویلامچاتے ہیں کہ مصیبتیں ہم پر ہی نازل ہو تی ہیں ؟لیکن قربان جائیے اللہ کے نبی و انکے اہل خانہ پر جو ہر مصیبت پر ثابت قدم رہے ،یہی ثابت قدمی اللہ کو اتنی پسند آئی کہ اللہ نے حج جیسا مبارک عمل انکی یا د میں جاری کر دیا جو ان اعمال سے ہمیں انکی یا د دلاتا ہے ۔ اللہ ہمیں حج و قربانی سے یہ سبق دینا چاہتے ہیں کہ دنیا کے اندر حج کے ذریعہ سے امیر و غریب کا فرق مٹا دیا کہ حج میں گورے ،کالے امیر ،غریب سب ایک ہی لبا س میں اللہ کے فریضہ کو ادا کر رہے ہیں ایک طرف حشر کا واقعہ یا ددلاتا ہے تو دوسری طرف مساوات کا ،امن کا پیغام بھی دیتا ہے تو ان اعمال حج و قربانی سے یہی مقصود ہے کہ بندہ ان اعمال کے بعد اپنی زندگیوں میں تبدیلی لائے اور حقیقی قربانی جانور کے قربان کرنے سے افضل اللہ کے احکامات کو صحیح بجا لائے ،مساوات کو قائم رکھے ،زندگی میں ایک دوسرے کے ساتھ معاملات کو درست رکھے وغیرہ وغیرہ ،اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں مقدس گھر کی زیارت نصیب فر مائے ،اور حج و قربانی کی صحیح حقیقت و مصلحت کو سمجھنے کی تو فیق عطا فرمائے ۔آمین