دھوبی سے نہ بن پڑے تو گدھے کے کان اینٹھنا(از حفیظ نعمانی)

Bhatkallys

Published in - Other

03:47PM Mon 30 Nov, 2015
از حفیظ نعمانی پارلیمنٹ ایسی جگہ نہیں تھی جہاں عامر خان کے مسئلہ کو بحث کا موضوع بنایا جاتا۔ ایک تو اس بات پر حیرت ہوئی کہ وزیر داخلہ جیسے سب سے ذمہ دار نے وہ نہیں کہا جو عامر خان نے کہا تھا۔ عامر نے کہا تھا کہ ’’میں جب گھر میں جاتا ہوں تو میری بیوی مجھ سے کہتی ہے کہ ’’کیا ہمیں یہ ملک چھوڑ دینا چاہئے؟‘‘ عامر خان نے کبھی نہیں کہا کہ میں اب ملک کو چھوڑنے پر غور کررہا ہوں۔ وزیر داخلہ کا یہ کہنا کہ دستور ساز اسمبلی کے صدر ڈاکٹر امبیڈکر نے بہت کچھ برداشت کیا لیکن انہوں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ میں ملک چھوڑنے پر غور کررہا ہوں۔ شری راج ناتھ سنگھ کی یہ بات 100 فیصدی صحیح ہے کہ بابا صاحب امبیڈکر نے ملک چھوڑنے کے لئے کبھی نہیں کہا لیکن وزیر داخلہ نے یہ کیوں نہیں بتایا کہ ڈاکٹر امبیڈکر کو ذلیل ہندوؤں نے کیا تھا اور وہ ہندوؤں کے برتاؤ سے اتنا دُکھی ہوگئے تھے کہ انہوں نے کہہ دیا تھا کہ میں زندہ تو ہندو بن کر رہا مگر ہندو رہ کر مرنا نہیں چاہتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں ہندو دھرم سے نفرت ہوگئی تھی اور انہوں نے باقاعدہ اعلان کیا تھا کہ وہ ہندو دھرم چھوڑکر کوئی دوسرا مذہب اختیار کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ اور یہ تو ہمیں بھی معلوم ہے کہ مولانا علی میاں کے برادر بزرگ مولوی حکیم ڈاکٹر عبدالعلی صاحب نے علی میاں کو ڈاکٹر امبیڈکر کے پاس بھیجا تھا کہ وہ ان کے سامنے اسلام کو پیش کریں۔ اور مولانا علی میاں تشریف بھی لے گئے تھے اور ان کے سامنے اسلام پیش کیا تھا اور یہ بھی یقین ہے کہ عیسائی عالم بھی گئے ہوں گے لیکن انہیں بودھ دھرم نے زیادہ متاثر کیا اور وہ لاکھوں دلتوں کے ساتھ ہندو دھرم کو چھوڑکر بودھ ہوگئے تھے۔ انسان کے لئے مذہب کی تعلیم ہی سب کچھ ہوتی ہے۔ ہم مسلمان ہیں اور ہماری سب سے بڑی تمنا یہ ہے کہ ہم پوری طرح مسلمان ہوکر مریں۔ یہ شری موہن بھاگوت کو سوچنا چاہئے اور ان کے نظریات سے بہت زیادہ قریب مانے جانے والے وزیر داخلہ صاحب کو سوچنا چاہئے کہ جس ڈاکٹر امبیڈکر کو ہندو دھرم سے اتنی نفرت تھی کہ ان کی تمنا یہ تھی کہ ان کی موت ہندو ہوتے ہوئے نہ آئے ان کا دھرم کو چھوڑنا زیادہ بڑی بات ہے یا عامر خان کا صرف یہ کہنا کہ میری بیوی ’’کرن راؤ ’’ہندو‘‘ کا یہ کہنا کہ کیا ہم اس ملک کو چھوڑنے کے بارے میں غور کریں؟ زیادہ شرم کی بات ہے اور حیرت ہے کہ مسلمانوں کو گھر واپسی کا سبق پڑھانے والے اعلان کے ساتھ اور لاکھوں ہندوؤں کے ساتھ ہندو دھرم چھوڑکر جانے والے بابا سے گھر واپسی ہونے کی بات نہ کہہ سکے۔ وزیر داخلہ نے بڑے جذباتی لہجہ اور انتہائی جذباتی انداز میں کہہ دیا کہ سیکولرازم کا مطلب لامذہب نہیں ہے بلکہ عقیدے کی آزادی ہے اور یہ بھی کہا کہ اگر یہ ضروری ہوتا تو ڈاکٹر امبیڈکر دستور کے مقدمہ میں اسے لکھ دیتے۔ لیکن یہ دستور میں 42 ویں ترمیم کے ذریعہ شامل کیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سیکولرازم جب بھی دستور میں شامل ہوا ہو لیکن اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ جب اٹل جی کی حکومت میں وزیر داخلہ اڈوانی جی تھے تو انہوں نے ہر دن کسی نہ کسی موقع پر کہا تھا کہ ملک کو سیکولرازم کے بغیر چلایا ہی نہیں جاسکتا اور ہم پوری طرح سیکولرازم کے پابند ہیں۔ اس وقت جو سیکولرازم کی بحث کو راج ناتھ سنگھ نے چھیڑا ہے وہ نہ مذہب میں رواداری ہے نہ عقیدہ کی رواداری بلکہ یہ ہے بہار کے الیکشن کا وہ زخم جس سے پوری بی جے پی لہولہان ہے۔ قارئین کرام حافظہ پر زور ڈالیں تو انہیں یاد آجائے گا کہ دہلی الیکشن میں شرمناک ہار کے بعد بی جے پی کے ریاستی صدر نے کہا تھا کہ دہلی میں بی جے پی کے جتنے ووٹ ہیں وہ سب ہمیں ملے۔ ہم ووٹ نہ ملنے کی وجہ سے نہیں ہارے بلکہ اس لئے ہارے کہ عام آدمی پارٹی کو اس کے ووٹ بھی ملے اور کانگریس کے تمام ووٹ مل گئے۔ یہی بات بہار کی شکست کے بعد کہی گئی کہ ہمارے ووٹوں میں تو دس فیصدی اضافہ ہوا ہے۔ ہم ہارے اس وجہ سے کہ لالو، نتیش، سونیا اور مسلمان سب ایک خیمہ میں چلے گئے اور انہوں نے اپنے اپنے ووٹ اپنے ساتھیوں کو خلوص سے دلوادیئے اور بی جے پی کے ساتھی پاسوان، مانجھی وغیرہ اپنے ووٹ دوسرے کو نہ دلاسکے۔ ہم ادب سے کہنا چاہتے ہیں کہ وزیر داخلہ وہ نہیں کہہ پارہے جو ہوا ہے بلکہ وہ کہہ رہے ہیں جو نہیں ہوا۔ ہوا یہ ہے کہ تمام سیکولر ہندو اور مسلمان ساتھ ہوگئے اور بی جے پی اور این ڈی اے کو غیرسیکولر یا کمیونل کہہ کر اچھوت بنا دیا۔ 2014 ء میں جو مودی کے نام پر یا ان کے سنہرے خوابوں پر یقین کرکے جو انہیں ووٹ ملے تھے وہ صرف 31 فیصدی تھے۔ اب 69 فیصدی ووٹوں نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ 31 فیصدی کا نام کمیونل رکھ دو اور 69 فیصدی کا سیکولر اور ہر جگہ بی جے پی کو اسی خنجر سے قتل کردو۔ 55 برس کے بعد سیکولرازم کا لفظ جو مودی کو زہریلے خنجر جیسا لگنے لگا اگر لالو نتیش اور سونیا سیکولر ہوتے ہوئے الگ الگ الیکشن لڑتے اور مودی صاحب کی 26 ریلیوں کے نتیجہ میں 140 سیٹیں بی جے پی کو مل جاتیں تو سیکولرازم اڈوانی جی کی طرح راج ناتھ سنگھ کو بھی اتنا ہی پیارا لگتا اور وہ بار بار کہتے کہ یہ تو ملک کی شان ہے۔ اب بی جے پی نے ایسی بچکانہ باتیں شروع کردی ہیں کہ میڈیا میں انہیں مذاق کا موضوع بنا لیا گیا ہے۔ جیسے وزیر داخلہ کا یہ کہنا کہ سیکولر لفظ کا استعمال ہی بند ہوجانا چاہئے۔ یا آج کی سیاست میں سب سے زیادہ غلط استعمال سیکولر لفظ کا ہورہا ہے۔ یا اس سے بھی عجیب بات یہ ہے کہ راجیہ سبھا کے اختیارات کو کم کردینا چاہئے وہ جو لوک سبھا میں پاس کئے ہوئے بل کو دوبارہ پاس کرنے کی طاقت رکھتی ہے اس سے وہ واپس لے لینا چاہئے اور جب ان کے ترجمان سے یہ کہا گیا کہ ’تو پھر اس کی اس حیثیت کو بھی ختم کردینا چاہئے کہ اس کا ممبر پارلیمنٹ کا ممبر کہلائے اور اگر کوئی لوک سبھا کا الیکشن ہار جائے تو راجیہ سبھا کا ممبر بناکر اسے وزیر بنا دیا جائے۔‘ جیسے اٹل جی نے راجہ جسونت سنگھ اور پرمود مہاجن کو بنایا تھا۔ یا مودی صاحب نے ہارنے کے بعد ارون جیٹلی اور اسمرتی ایرانی کو بنایا اور دونوں کو انتہائی اہم محکمے بھی دیئے۔ اردو زبان میں ایک لفظ ’’نودولتیا‘‘ ان لوگوں کے لئے استعمال ہوتا ہے جنہوں نے کبھی دولت نہ دیکھی ہو اور پروردگار انہیں چھپر پھاڑکر دے دے تو وہ ایسی ہی مضحکہ خیز باتیں کرتے ہیں جیسے مرکزی حکومت کے ترسے ہوئے وزیر کررہے ہیں کہ اگر سر بڑا اور ٹوپی چھوٹی یا پاؤں بڑا اور جوتا چھوٹا ہے تو ٹوپی اور جوتے کو بڑا کرانے کے بجائے سر اور پاؤں کو کاٹ کر چھوٹا کرنے کی تجویز پیش کی جائے۔ اگر سیکولر طاقتیں یا سیکولر ذہن والے ایک نہ ہوجاتے اور دہلی نیز بہار دونوں جگہ کرن بیدی یا سوشیل مودی وزیر اعلیٰ بن گئے ہوتے تو سیکولر لفظ مودی اور راج ناتھ کو بھی اتنا ہی اچھا لگتا جتنا اٹل جی اور اڈوانی جی کو لگتا تھا۔ اور اگر راجیہ سبھا میں بی جے پی کی اکثریت ہوتی تو نہ سر کاٹنے کی ضرورت کی تجویز پیش کرنا تھی نہ پاؤں چھیل کر چھوٹا کرنے کی اور یہ بات موٹی عقل والا بھی سمجھ سکتا ہے کہ لوک سبھا میں منھ مانگی مراد سے بھی زیادہ 280 سیٹیں مل جانے کے بعد جو فتح کا نشہ چڑھا تھا اور ہر زعفرانی نیتا سمجھ رہا تھا کہ اب اگلے ساٹھ برس ہی ہمارے ہیں وہ اسی حقیقت سے واقف ہونے کے بعد کہ 2019 ء میں اگر دہلی اور بہار کا نسخہ آزمایا گیا تو ہمارا کیا حشر ہوگا؟ ؂ بک رہا ہوں جنون میں کیا کیا کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی فون نمبر: 0522-2622300