جگر مرادآبادی حضرت تھانوی کے دربار میں۔۔۔۔ تحریر: مولانا ازہر شاہ قیصر

Bhatkallys

Published in - Other

07:41PM Thu 9 Apr, 2020

جگر مرادآبادی حضرت تھانوی کے دربار میں

ابن الانور ازہرشاہ قیصر سابق مدیر مجلہ دارالعلوم دیوبند

 

          حضرت جگر مرادآبادی اپنی زندگی کے ایک بڑے حصہ میں ایک رند لا ابالی اورشاعر بادہ بد مست رہے ہیں، خود انہوں نے اس دور میں کسی دینی اجتماع میں اپنی شرکت کے موقع پر کہا تھا۔

ہر طرف غل ہے کہ وہ آیا جگر بادہ پرست

اثر نشۂ صہباسے سراپا بدمست

شعر حافظ بزبان جام بکف شیشہ بدمست

بے خبر از ہمہ عالم چہ بلند است و چہ پست

شرر مستانہ کہاں اور سخن و وعظ کہاں

آج یہ رند کہاں اور انجمن وعظ کہاں

          اس دور رندی و سرشاری میں جگر کا کسی دینی اجتماع میں شریک ہونا یا کسی بزرگ کے قریب جانا واقعی دشوار بھی تھا اور حیرت ناک بھی؛ مگر  یہ حقیقت ہے کہ اس دور میں بھی اس بد عملی اور ذہنی آوارگی کے ساتھ ان کے ذہنی عقائد بالکل صحیح تھے او رانہیں اپنے اضطراری حالات پر شرمندگی تھی،پھر وہ وقت آیا کہ غزل کا یہ مشہور شاعر اس رندی و ہوسناکی سے تائب ہوا او ران کی زندگی کافی حد تک قاعدہ قرینہ میں آ گئی او رانہیں گاہے گاہے بزرگوںکی مجالس میں حاضری کابھی شوق ہوا۔

          مشہور شاعر اور بزرگ خواجہ عزیز الحسن مجذوب مرحوم کی تحریک پر جگر کئی دفعہ تھانہ بھون حضرت تھانوی کے یہاں گئے، تھانہ بھون ان کی حاضری کا آغازاس طرح ہوا کہ کسی موقع پر خواجہ مجذوب نے ان کا یہ شعر حضرت مولانا تھانوی ؒکے سامنے پڑھا۔

مری طلب بھی کسی کے کرم کا صدقہ ہے

قدم یہ اٹھتے نہیں خو داٹھائے جاتے ہیں

          مولانا تھانوی ؒنے اس شعر کی تحسین فرمائی او رفرمایا اس شعر میں حق تعالیٰـ کی عنایات کا ذکر بڑے اچھے انداز میں کیا گیا ہے، خواجہ مجذوب کو حضرت مولانا کی تحسین سے جرأت ہوئی، ادھر جگر صاحب دینی اعتبار سے کافی حد تک سنبھل گئے تھے،خواجہ مجذوب نے اس خیال سے کہ جگر حضرت کی صحبت میں بیٹھیں گے تو ان کی اصلاح ہوگی،حضرت تھانویؒ سے جگر صاحب کی سفارش کی او رانہیں تھانہ بھون آنے کی دعوت دی؛چنانچہ جگر صاحب کئی مرتبہ تھانہ بھون گئے۔

          تھانہ بھون کے کسی قیام کا ایک واقعہ خود جگر صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں خانقاہ اشرفیہ سے باہر کسی دوسری جگہ ٹھہرتا تھا،او رخود مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے اس بات کی اجاز ت دی تھی،ایک مرتبہ سردی کی رات میں ۱۱۔ ۱۲ بجے تک جگر اپنے ہم نشینوں کے ساتھ گپ شپ میں لگے جب سب دوست اٹھ کر چلے گئے تو جگر صاحب کو یاد آیاکہ ا ن کے پاس سگریٹ نہیںہے، سردی شدید تھی او رتھانہ بھون ایسے معمولی قصبہ میں بجلی وغیرہ کا بھی کوئی انتظام نہیں تھا،جگر سگریٹ کی طلب میں گھر سے نکل پڑے کہ کوئی دوکان کھلی ملی تو لے لیںگے۔

          اتفاقیہ راستہ مولانا تھانویؒ کے مکان کے سامنے سے گذرتا تھا،جگر مولانا کے مکا ن کے سامنے سے گذرے تو دیکھا کہ اس سردی کے عالم میں  مولانا اپنے دروازے پر کھڑے ہیں،جگر کو تعجب ہوا کہ اس وقت مولانا یہاں کیسے؟وہ جلدی میں مولانا کو سلام کرکے آگے بڑھے؛مگر مولانا نے انہیں آواز دی،جگر بڑے سہمے سمٹے ہوئے مولانا کے پاس آ کر کھڑے ہو گئے، مولانا نے دریافت کیا کہ اس وقت کہاں جا رہے ہیں، جگر نے سچ سچ کہہ دیا، حضرت میرے پاس سگریٹ نہیں ہے سگریٹ لینے نکلا ہوں۔

          مولانا نے فرمایا: اس وقت قصبہ کی سب دوکانیں بند ہوںگی، البتہ جامع مسجد کے سامنے ایک پنواڑی کی دوکان ہے، وہ رات کو اپنی دوکان میں سوتا ہے، اس کی دوکان کھٹکھٹا لیجئے گا، شاید کہ وہ جاگ جائے،اور آپ کو سگریٹ مل جائے، بس اتنی ذرا سی بات ہوئی تھی، میں نے دفعتاً مولانا ؒ کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا تو ان کے چہرے پر غیر معمولی جلال او رایک عجیب سی کیفیت پائی جس سے چہرہ دمک رہا تھا، حضرت اسی عالم میں بڑھے اور بڑی بے تکلفی سے میرا ہاتھ پکڑ لیا او رپھر فرمایا:

          جگر صاحب مجھے اس قسم کی باتیں کرنے کی عادت نہیں ہے؛ لیکن اس وقت آپ سے کہتا ہوںکہ آپ کو کسی چیز کی طلب ہو تو فرمائیے، میں حق تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کروں گا۔

          جگر صاحب کہتے تھے کہ مجھے اس وقت ساری کائنات گھومتی نظر آئی او ربجلی کی طرح ایک خیال میرے ذہن سے گذرا کہ یہ لمحہ میرے لئے دین او ر دنیا کی پسند اور طلب کا ہے او رمجھے ضرور اپنا دامان طلب صرف دین ہی کے لئے پھیلانا چاہیے۔

          میں نے بے ساختہ حضرت سے کہاحضرت میں دنیا تو ساری گذار چکا ہوں، دنیا کی کسی چیز کی مجھے طلب نہیں، حضرت تو میرے لئے دعا فرمائیںکہ اللہ عز و جل اپنی رحمت سے مجھے تین چیزیں نصیب فرمائے، ایک شراب سے پرہیز پر استقامت ، دوسرے حج اور زیارت مرقد نبی صلی اللہ عل یہ و آلہ وسلم تیسرے خاتمہ بالخیر او رمغفرت۔

          حضرت نے دونوں ہاتھ اٹھائے او رکافی دیر تک دعا فرمائی۔ دعا سے فراغت کے بعد میں نے دیکھا کہ حضرت کے چہرے پر وہ جلالی کیفیت نہیں ہے او راپنی اصلی حالت پر آ چکے ہیں۔

          حضرت نے مجھے جانے کی اجاز ت دی اور میں بڑی بدحواسی کے ساتھ آگے بڑھ گیا۔

          جگر صاحب کا کہنا تھا کہ بحمداللہ حضرت کی دعا اور توجہ کے طفیل حق تعالیٰ نے میری دو تمنائیں پوری فرما دیں، اوّل شراب سے بے رغبتی، دوئم حج کی سعادت او رمجھے اللہ کے فضل سے امید ہے کہ خاتمہ بالخیر او رمغفرت کی نعمت بھی مجھے ملے گی۔

          جگر صاحب نے فرمایا کہ اپنے مرشد قاضی عبدالغنی صاحب منگلوری کے بعد جن کے متعلق جگر نے کہا تھا۔

قاضیا یک نظر بسوئے جگر

آنکہ یک خادم است حلقہ بگوش

          حضرت تھانویؒ دوسرے بزرگ تھے جنہوں نے الطاف بزرگانہ سے مجھے نوازا۔