تبصرات ماجدی۔۔ ۱۲۲۔ لہو ترنگ۔۔۔۱۲۳۔ نقش امرورز۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

07:51PM Sat 13 Mar, 2021

*(122) لہو ترنگ* از سکندر علی وجد عبد الحق اکیڈمی، حیدر آباد (دکن)۔

وجد صاحب حیدر آبادی جامعہ عثمانیہ کے بہترین فرزندوں میں سے ہیں اور خود تو پرانے نہیں لیکن ان کی شاعری کی عمر خاصی پرانی ہوچکی ہے، کلام ان کا عرصہ سے دیکھنے میں آرہا ہے ------ شاعری کی فطرت لے کر آئے ہیں، وجد خود ہیں تو کلام وجد آفریں۔ ‘‘لہو ترنگ’’ کا لفظ اقبال کے ایک شعر سے لیا گیا ہے اور خود اقبال کا رنگ ہے کہ کتاب کے صفحے صفحے سے پھوٹا نکلتا ہے ------ کتاب کلیات وجد ہے یعنی ان کی غزلوں اور نظموں کا مجموعہ ہے، نظمیں صفحہ 128 تک اس کے بعد غزلیں، کل اشعار کا مجموعہ ایک ہزار سے زائد، دیباچہ تک منظوم ہے۔ نظمیں کوئی 55-50 کی تعداد میں ہوں گی۔ عنوانات کسان، ایک قلی سے لے کر اقبال اور محمد علی تک ہیں۔ اقبال والی نظم تو معمولی ہے البتہ شاعر کے پورے جوہر محمد علی والی نظم میں کھلے ہیں۔ دو ایک بند ملاحظہ ہوں: نفرت ازلی تھی تجھے دینار و درم سے جھپکی نہ کبھی آنکھ تری جاہ و حشم سے سر جھک نہ سکا سطوتِ اسکندر و جم سے بجلی تھی زباں آگ برستی تھی قلم سے تحریر سے تھا رنگ عیاں قلب تپاں کا تقریر میں تھا سوز مجاہد کی اذاں کا یہ تیسرا بند تھا اب پانچواں بند ملاحظہ ہو: کرتے ہی رہے نیش زنی ارزل و اشرار غازی ہوا سامان سفر باندھ کے تیار اسباب تھا قرآن و دلِ ریش و تنِ زار مونس تھی و لائے خلفِ حیدر کرّار در پیش نیا معرکۂ کرب و بلا تھا بے خوفِ اجل مرد خدا مست چلا تھا غزلوں کی تعداد کوئی چالیس کے قریب ہوگی اکثر چلی ہوئی شگفتہ بحروں میں اور استادوں کی زمین میں۔غزلوں کا مرقع نظموں سے کم تر نہیں کچھ بڑھا ہی ہوا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاعر اپنے جوش و مستی کے سیلاب کو بار بار روک کر حدود و قیود کے اندر رکھنا چاہ رہا ہے۔ کہیں کہیں کسی لفظ یا ترکیب پر ممکن ہے نکتہ چیں انگلی رکھ دے مثلاً صفحہ 62 پر ‘‘دوستانہ پیدا کرنا’’ یا صفحہ 110 پر ‘‘دل پر دم’’۔ لیکن معصوم کون سا شاعر اور ادب ہوا ہے یا ہوسکتا ہے؟ شاعر کی داد کے لیے یہ کافی سے زائد ہے کہ وہ شاعر فطری ہے، آورد نہیں آمد کے بل پر چل رہا ہے اور اس کا دل و دماغ دونوں مسلمان ہیں اور اس کی زبان اہل زبان کی ہے۔ صدق نمبر 2، جلد 11 ، مورخہ 16؍ مئی 1945 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ *(123) نقش امروز* مجموعہ کلام علی اشرف صاحب عبد الحق اکیڈمی، حیدر آباد (دکن)۔

کتاب کا آغاز فہرست عنوانات کے بعد جوش ملیح آبادی کے پیش لفظ اور قاضی عبد الغفار صاحب مراد آبادی کے مقدمے سے ہوتا ہے، اس لیے ذہن میں قدرتاً یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ شاعر صاحب کوئی ترقی پسند قسم کے شاعر ہوں گے مع تمام ترقی پسندانہ خصوصیات کے، لیکن کتاب کے سرسری مطالعہ ہی کے بعد یہ بدگمانی دور ہوجاتی ہے۔ اشرف صاحب یقیناً اُس معنی میں ترقی پسند ہیں جس میں یہ لفظ عام طور پر چل رہا ہے نہ قدم قدم پر ‘‘بھوک’’، ‘‘پیٹ’’، ‘‘روٹی’’ کی تلمیحیں دیں نہ ‘‘جنسی بھوک’’ کی ناقابلِ ذکر و ناقابلِ نقل عریانیاں نہ بات بات پر ‘‘سرمایہ دار’’ مردود کو کوسنے اور گالیاں، نہ مذہب اور حق تعالی کی شان میں گستاخیاں ------ جب یہ کچھ بھی نہیں تو پھر آخر کوئی اس پر ‘‘ترقی پسندی’’ کا اطلاق کیسے کر دے۔ کتاب دو حصوں میں تقسیم ہے۔ نظمیں اور غزلیں۔ نظمیں 152 صفحہ تک آئی ہیں اور باقی صفحوں میں غزلیں، دو ایک غزلیں نظموں کے حصہ میں بھی گھس آئی ہیں ------ اشرف کی شاعری یقیناً شریفوں کی شاعری ہے، کلام شریفوں کی محفل میں پڑھے جانے کے قابل۔ طرز و انداز میں وہ جوش سے خاصے متاثر معلوم ہوتے ہیں (جوش کے الحاد اور مے نوازی سے نہیں جوش کے شاعرانہ کمالات سے) اور تغزل میں تو کہیں کہیں استاد جوش حضرت عزیز لکھنوی کا بالکل پرتو پڑگیا ہے، مثلاً یہ شعر ؎ اٹھوا دیا تھا کل جسے محفل سے آپ نے آج آکے اس غریب کی میت اٹھائیے! حصۂ نظم میں اگر تاریخیں پڑی ہوتیں تو بہت خوب ہوتا، مثلاً نظم بنگال صفحہ 81-84 پر قحط بنگال کا سنہ درج ہونا ضروری تھا، نظم زمانہ صفحہ 46-49 میں جہاں یہ سب پیشگوئیاں ہیں کہ اب ‘‘زنجیرِ غلامی’’ کٹ جائے گی اور ‘‘طائر مجبور’’ اب دام سیاست میں پر افشاں نہ رہے گا اور ‘‘آئندہ یہ طنطنہ عظمت سلطاں نہ رہے گا’’ وہاں قطعہ کا آخری شعر یہ ہے ؎ ہوجائیں گے دل جلوہ عرفاں سے درخشاں دنیا میں کوئی منکرِ یزداں نہ رہے گا ایک نظم حسین ابن علی کی نذر ہے اور ایک سلطان الہند کے حضور میں۔ دو نظموں ایک دیوالی دوسری شہنشاہ اکبر سے طبیعت ذرا کھٹکی، خدا کرے یہ دونوں اشرف کے ابتدائی دور کے ہوں۔ زبان حتی الامکان بہت صحیح رکھنے کی کوشش کی ہے، کہیں کہیں بعض ترکیبیں اور بعض محاورے نظر ثانی کے محتاج رہ گئے ہیں، مثلاً مجھ پہ ستم کئے ہیں وہ عبرت و اعتبار نے اتنی بھی اب سکت نہیں بارِ غم اٹھاسکوں عبرت و اعتبار کا ستم کرنا سمجھ میں نہ آیا، یا مثلاً میں ہوں گدائے بے نوا مجھ کو وہ جام ہو عطا عقل سے پھر نہ جاسکوں ہوش میں پھر نہ آسکوں ‘ہوش میں آنا’ تو ٹھیک ہے، لیکن عقل سے جانا محل نظر ہے۔ بہرحال اشرف صاحب ہر طرح سے ہونہار ہیں اور اچھی ادنی صلاحیتوں کے مالک۔ اس طرح کی خامیاں سب کے کلام میں ہوتی ہیں اور رفتہ رفتہ مشق و فکر سے گھٹتی جاتی ہیں اور مٹتی جاتی ہیں۔ اقبال کے رنگ میں وہ ملت و امت کی بہترین خدمات انجام دے سکتے ہیں۔ اللہ کرے ان کا ‘‘فردا’’ ان کے امروز سے بہتر اور روشن تر و مبارک ہو۔ صدق نمبر 22، جلد 11 ، مورخہ یکم؍ ستمبر 1945 http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid