جناب اب کتابیں کون پڑھتا ہے ۔۔۔۔ تحریر : ندیم صدیقی

Bhatkallys

Published in - Other

08:03PM Wed 6 Sep, 2017

غالب اکادیمی(دہلی) کے ایک سمینارسے فارغ ہوکر ہم اسی کے دفتر میں اکادیمی سیکریٹری عقیل صاحب کے ساتھ بیٹھے تھے ، ہم سے پہلے الہ ٰ آباد کے ایک ادیب اور  میرٹھ کے ایک  پروفیسر وہاں سے اٹھ کر گئے تھے۔ کرسی پر ہماری نظر پڑی تو  وہاں ایک کتاب دیکھی جو الہ آباد والے ادیب کی تصنیف تھی  اور میرٹھ کے پروفیسر صاحب کو ہدیہ کی گئی تھی نیچے  الہ آباد والے ادیب کے  دستخط نے  سارا راز کھول دیا۔ ہم نے عقیل صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے عرض کی کہ۔۔۔

’’ پروفیسر صاحب تو  یہ کتاب یہاں بھول گئے۔ ‘‘

عقیل صاحب نے  پہلے توسُنی ان سُنی کی اور کچھ دیر بعد ہماری طرف دیکھا اور نہایت سپاٹ چہرے اور روکھے  لہجے کے ساتھ کہا: ۔۔۔’’جنابِ والا ! اب کتاب کون پڑھتا ہے۔‘‘۔۔۔

ہم نے اُن کا یہ جملہ سننے کو تو سُن لیا ، سال بھر سے زیادہ مدت ہورہی ہوگی مگر محسوس ہوا کہ یہ جملہ ہمارے ذہن و قلب میں کانٹے کی طرح کہیں کھٹک رہا ہے۔ یہ جو اسی ہفتے بھوپال کی مشہور عالم اقبال  لائبریری کی  ناگفتہ بہ  حالت کی خبر  وائرل ہوئی ہے۔ وہ بیشک ہے تو تکلیف دِہ مگر اس کے پیچھے بڑی داستان بھی ہے۔ اقبال لائبریری کی ایک اپنی تاریخ ہے جو اکثر پڑھے لکھے لوگ جانتے ہیں ۔ اس  لائبریری میں بڑی قیمتی کتابیں ہیں۔   یہ لائبریری تہہ خانے میں واقع ہے جہاں گزشتہ دنوں برسات کے پانی  نے راہ دیکھ  لی اور  بزرگوں کے  اس  ورثے کو اپنے انداز سے داد دی۔  جو تصویر ہم نے دیکھی وہ ہمارے علمی ورثے کی کیسا تباہ کن منظر پیش کر ر ہی ہے وہ علم  اور کتاب دوست ہی تصور کرسکتے ہیں۔  اکثر افراد نے فیس بک وغیرہ پر اس منظر نامے کو دیکھ کر افسوس کا اظہار کیا۔  افسوس تو ہمیں بھی ہوا مگر ہم نے اس افسوس کا اظہار نہیں کیا وہ کیوں ۔؟     اقبال لائبریری کی یہ تباہی تو ایک طرح کی ناگہانی ہی ہے مگر وہ جو ہم اپنے دور قریب، چہار طرف کتابوں  سے  دوری، ناقدری ایک مدت سے دیکھ رہے ہیں اس نے  ہماری حس کو ناکارہ کر دیا ہے۔ ممبئی میں جہاں ہم کو  آدھی صدی سے زیادہ مدت گزر رہی ہے  ہم نے اپنی نو عمری میں یہاں کیسے کیسے کتب خانے اور لائبریریاں دیکھی ہیں کہ اگر ان کی روداد لکھنے بیٹھیں تو  اس کالم کی جگہ کم  ہوگی۔ بھنڈی بازار کے علاقے میں ایک  جاملی محلہ  ہےجہاں ہمارا بچپن گزرا ہے وہاں حاجی اسماعیل یوسف کھتری لائبریری ہوا کرتی تھی، جس میں ہمارے ذوقِ اخبار بینی کو جِلا ملی۔  یاد آتا ہے کہ یہ لائبریری صبح و شام باقاعدگی سے کھلتی تھی اور اکثر اوقات یہاں کرسیاں  بھری رہتی تھیں۔ میز پر انگریزی اور دیگر زبانوں کے اخبار  و رسائل  موجود ہوتے تھے۔ جس کے پڑھنےوالے دونوں وقت(  واضح رہے کہ اُس زمانے میں انگریزی سمیت دیگر  زبانوں  او ربالخصوص اُردو کے بھی شام نامے شائع ہوتے تھے۔) صرف اُردو میں کوئی چھ  سات اخبار شہر سے نکلتے تھے ۔ ظاہر ہے اس کے پڑھنے والے تھے ۔ مذکورہ لائبریری میں  چاروں طرف الماریوں میں   طرح طرح کی کتابیں سلیقے سے سجی ہوئی تھیں۔  جن کے پڑھنے والے بھی ہم دیکھتے تھے۔ شہر میں وہی ایک لائبریری نہیں تھی اگر اسے مبالغہ نہ سمجھاجائے تو عرض ہے کہ کم وبیش ہر محلے میں لائبریریاں تھیں  جہاں پڑھنے والے بھی اکثر رہتے تھے۔   ہم دوسروں کی کیا کہیں اپنی عرض کرتے ہیں کہ کوئی ہم سے پوچھ لے کہ’’ یہ لائبریریاں کہاں چلی گئیں ؟     ‘‘۔۔۔توہمارے پاس کوئی  خبر نہیں ۔۔۔مگر ہیں ہم اخبارچی!! کہہ دیجیے ۔۔۔’’لعنت ہے تم پر اور تمہاری صحافت پر!‘‘ کانپور گزشتہ دَور میں اترپردیش کا ممبئی تھا تمام اضلاع کے کیا خواندہ کیا ناخواندہ سب تلاشِ معاش میں  اسی شہر کا رُخ کرتے تھے اور اس شہر کی  سمائی ایسی تھی کہ یہ سب کو سمیٹ لیتا تھا۔ اسی شہر میں ہماری  نال گڑی ہوئی ہے اسی شہر میں ہم نے پہلا سنہرا خواب دیکھا، اسے بس اتفاق کہیے کہ کانپور میں بھی ایک لائبریری تھی جو (علامہ)اقبالؔ ہی سے منسوب تھی ، اُردو کے جاں نثار، ادب دوست اور کانپور کے مشہور ایڈوکیٹ مصطفےٰ حسین نیّر اس لائبریری کے موسس و مہتمم تھے۔ پوری ایک عمارت تھی جس کےہال میں ہم نے کیسے کیسے شعرا کو سنا بلکہ یہیں شعر و ادب کی فہم وہم ہمارے ہاں  شروع ہوئی۔۔۔۔۔  ابھی ہم نے  کانپور فون کر کے( تہہ خانے میں واقع) اس اقبال لائبریری کا حال معلوم کیا تو پتہ چلا کہ وہاں پانی تو نہیں گھسا مگر حال وہی ہے جواُردو والوں کے اکثر علاقوں میں ہے۔ کانپور میں حسرت موہانی مارگ ہے جس کے بارے میں ہماری حسرت ہی رہ گئی کہ کسی اُردو والے سے حسرت موہانی مارگ سنتے، جب بھی سُنا تو وہی مسٹن روڈ۔۔۔ خیر ۔۔۔

اسی راہ پر شہر کی کوتوالی اور عین بیچوں بیچ تاریخی مسجد ِمچھلی بازار واقع ہے اور اس کے سامنےایک مندر بھی ہے وہیں ایک لائبریری تھی جس میں اُردو کی بھی خاصی کتابیں تھیں۔ کانپور کے ایک ممتاز خانوادے  کے فردِ فرید اور شاعر و ادیب ہی نہیں بزرگ پروفیسر

ابو الحسنات حقی سے بات ہوئی تو انہوں  نے بتایا کہ برسوں قبل  اسی لائبریری سے مرزاہادی رُسواؔ کی ایک  نایاب مثنوی کو ہم نے خود نقل کر کے بھائی جان پروفیسر ابو الخیر کشفی کی طلب پر کراچی(پاکستان) بھجوائی تھی۔ اب اس لائبریری کا کیا  حال ہے، نہیں پتہ۔!! اسی طرح کانپور کا پھول باغ کہ اسکی بھی تاریخی حیثیت ہے  یہاں کے وسیع و عریض میدان میں کانپوریوں کے جمِ غفیر سے نجانے کیسے کیسے مؤقر  قائدین نے خطاب کیا ہے۔ یہاں بھی ایک بڑی لائبریری تھی جس میں ہمہ زبان، ہمہ موضوع پر کتابیں تھیں۔ کانپور کے مشہور حلیم مسلم  ڈگری کالج کے اُستاد اور مشہور ادیب خان احمد فاروق نے بتایا کہ پھول باغ کی  اس لائبریری کی کتابیں بھی  دھول و خاک کی نذر ہو رہی ہیں یا ہوگئیں۔ یہ تو حال لائبریریوں کا ہے اب ذرا ہم اپنے گریبان میں جھانکیں تو نظر آتا ہے کہ ہم خود اپنے گھروں میں کتابوں کے بس ڈھیر لگا رہے ہیں۔ کوئی چاربرس اُدھر کی بات ہے کہ ڈاکٹر ظ ؔانصاری کے فرزند ِاکبر خورشید حیدر نے بتایا کہ

’ وا لد ِمرحوم کی کتابوں کو کہیں دینا ہے۔‘

فوری طور پر ہم بھی کچھ نہیں کرسکے مختصر یہ کہ وہ کتابیں کچھ اِدھر کچھ اُدھر ہوگئیں مگر کدھر؟ ہم بے خبر ہیں۔ فخر کانپور علامہ ثاقبؔ کے فرزندِ سوئم اور اس شہر کی ممتاز شخصیت ابو البرکات نظمی سے ہم  نے پوچھا کہ’  اقبال لائبریری (کانپور) کی کتابوں کے کیا حال ہیں؟‘ تو انہوں نے بھی غالب اکادیمی کے عقیل صاحب والا جملہ  ہی دُہرا دیا کہ ’’میاں! اب کتابیں کون پڑھتا ہے۔!!‘‘ اب بتائیے کہ بھوپال کی اقبال لائبریری پر رویا جائے یا اِس صورت ِحال پر۔؟