سچی باتیں۔۔۔ نماز کی پرسش۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

08:24PM Sat 11 Feb, 2023

1931-07-17

وأقیموا الصلاۃ وآتوا الزکاۃ وأطیعوا الرسول لعلکم ترحمون۔  (نور، ع ۸)

نمازوں کے پابند رہو، اور زکوۃ اداکرتے رہو، اور رسولؐ  کی اطاعت کرتے رہو، کہ ان سے تم پر رحم کیاجائے گا۔

رحمت حق کا تعلق صرف عالَم آخرت ہی سے نہیں، اِس مادّی وناسوتی دنیا سے بھی ہے۔ اور رحمتِ حق کے مفہوم میں، وہاں کی مغفرت ونجات کے علاوہ ، یہاں کا چَین اور آرام ، فلاح اور بہبود، ترقی واقبال مندی، سب کچھ داخل وشامل ہے۔ ارشاد ہوتاہے، کہ اس رحمتِ حق کی کشش کا ذریعہ اور نسخہ یہ ہے، کہ نمازیں پابندی کے ساتھ اداکی جاتی رہیں، زکوٰۃ اداہوتی رہے، اور احکام رسولؐ  کی تعمیل ہوتی رہے! عبادت کی دوہی صورتیں ہوسکتی ہیں، بدنی اور مالی۔ عباداتِ بدنی کا خلاصہ نماز ہے، اور عبادتِ مالی کا زکوٰۃ ۔ ان دو اہم ترین اعمال کی صراحت کے بعد مطلق اور عمومی صورت میں یہ ارشاد ہوا، کہ احکام رسولؐ  کی اطاعت کی جائے۔

خوب غور فرمالیجئے، فلاح وبہبود کی صورتیں کس کو بتائی جارہی ہیں؟ صرف عرب کے مسلمانوں کو نہیں، صحرائے حجاز کے بدویوں کو نہیں۔ چین وجاپان، روس وانگلستان،مصر وہندوستان سب کہیں کے مسلمانوں کو! صرف پہلی صدی ہجری والوں کو نہیں، دوسری صدی والوں، اور چودہویں صدی والوں، قیامت تک کے لئے ہرزمانہ اور عہدہ والوں کو، صرف جاہلوں کو نہیں، عاقلوں کو اور عالمون کو، حکیموں کو اور فلسفیوں کو، شاعروں کو اور ادیبوں کو، سائنس کے اُستادوں کو اور آرٹ کے نقادوں کو، بڑوں اور چھوٹوں، امیروں اور غریبوں، سب کو۔ اور بتانے والا کون ہے؟ کوئی خاطی بندہ، کوئی محدود علم وبصیرت رکھنے والا انسان نہیں، بلکہ وہ، جو حاضر وغائب، حال ومستقبل، آج اور کل، یہاں اور وہاں، اِن کی ، اور اُن کی، گورے اور کالے، سب کی ضروریات اور سب کے حالات کا علیم وخبیر ہے؟ وہ ترقی کا راستہ کیا فرماتاہے؟ یہ کہ نمازیں، بہ حفظِ اوقات والتزامِ جماعت ادا کرتے رہو، زکوٰۃ دیئے جاؤ ، اور رسولؐ  کی اطاعت میں سرگرم رہو!۔

قرآن حکیم کے اگر آپ (خدانخواستہ) منکر ہیں، تو روئے سخن ہی آپ کی طرف ، نہیں، لیکن اگر آپ قرآن مجید پر ایمان رکھتے ہیں، تو للہ فرمائیے، اور اپنی عقل وسنجیدگی سے مشاورت کے بعد فرمائیے، کہ اس میں کہیں ذِکر آپ کے نئے نئے ’’تعمیری پروگراموں‘‘ کا ، آپ کی نئی نئی کانفرنسوں، لیگوں، انجمنوں، رزولیوشن سازیوں، اور جلسہ بازیوں کا ہے؟ نہ کونسل، نہ اسمبلی، نہ کانگرس نہ لیگ، نہ یونیورسٹی ، نہ اکاڈیمی، نہ سائنس نہ آرٹ، نہ بینک نہ ہوائی جہاز، صاف او رسیدھا راستہ، رحمتِ حق کی کشش کا، ہر قسم کی فلاح وترقی کا، صرف ایک ہی ہے، اور وہ راستہ غیروں کی تقلید کا نہیں، یورپؔ اور جاپانؔ اور امریکہؔ کی ریس کرنے کا نہیں، بلکہ مسجدیں آبادرکھنے، نماز پابندی کے ساتھ پڑھتے رہنے ، خلاق ومخلوق کے حقوق اداکرتے رہنے، اور رسولؐ  کے بتلائے ہوئے طریقوں پر چلتے رہنے کا ہے۔ کہتے ہیں، کہ یہ زمانہ عقیدہ کا نہین، تجربہ کا ہے، خدا کے واسطے آخر اِس راہ کا تجربہ کیوں نہیں کیاجاتا؟

  (مولانا دریابادی کی ادارت میں سنہ ۱۹۲۵ء تا ۱۹۷۷ئ جاری سچ، صدق، صدق جدید  لکھنؤ کے ادارتی کالم سچی باتیں سے انتخاب )