کیا اسلامی ما لیاتی نظام ممکن ہے یاجہالت نے اس نظام کی تصویرکو تحریف کیاہے؟

Bhatkallys

Published in - Other

11:16AM Sat 19 Oct, 2013
کیا اسلامی ما لیاتی نظام ممکن ہے یاجہالت نے اس نظام کی تصویرکو تحریف کیاہے؟ Dr.Saeed-Shengariڈاکٹر محمد سعید شنگیری اللہ تم میں سےانہی لوگوں کوعزت بخشےگا اوراگلی صفوں میں شمار کریگا جو ایمان لائے اورجنہیں علم عطا کیا گیا(القرآن) ۔طلب علم ہر مسلمان (مرد اور عورت) پر واجب ہے۔ (حدیث) قرآن محید میں 6666/آیات کا خلاصہ تین اقسام میں کیاجائے تو پہلا حصہ اللہ تعالی کے بارے میں درج ہے اسکی حقیقت،عظمت،کبریائی،تمام ترحمد وثنا،ہرچیزپرقادرھونا وغیرہ وغیرہ جبکہ ديگر دو پہلوؤں میں انسان کا تعلق درج ہے۔ اقامۃ الصلاۃ اور ‘ایتاء الزکاۃ یا المودہ المالیہ اورالمودہ غیرالمالیہ ۔ ان تین پہلوؤں کے بغیردین اسلام پرمکمل عمل ناممکن ہے یا ان میں سے کسی ایک پہلو کوبھی نظراندازکریں دنیا میں مسلمانوں کو اقتدارکبھی حاصل نہیں ہوسکتا۔ المودہ غیرالمالیہ (اقامۃالصلاۃ) توحید ورسالت،نماز، روزہ،حج،تعلیم وتعلم (القرآن و تفسیرا ور حدیث) معاشرتی زندگی،سیاسی زندگی، فیملی لا، شادی و طلاق وغیرہ موضوعات کی طرف توجہ دلاتےہیں جبکہ المودہ المالیہ(ایتا ءالزکاۃ) یہ سکھاتاہےکہ کیسے ہم دوسروں کی ضرورتوں کو پورا کریں ۔ یہ پہلوالمودہ المالیہ پورے دنیا کےمسلمانوں اور مدرسوں سمیت صدیوں سے نظراندازکرچکے ہیں۔ المودہ المالیہ اورالمودہ غیرالمالیہ دو پہلو پرندے کےدوبازؤں کےمانند ہیں جسکے بغیر پرندہ من پسند رخ کی طرف اڑنہیں سکتا آج دنیا میں وہی حال مسلمانوں کا ہے نہ اپنا کوئی اسلامی اقتصادی نظام نہ سیاسی نظام ۔ اقتصادی نظام میں کلی طور پر ہم مغربی مما لک کے غلام ہوچکے ہیں اور بے بنیادامیدیں لگائےبیٹھےہیں کہ کیسے ہم سود کے بغیرکاروبار کریں؟ایک ترقی پذیر ملک کے مالیاتی پالیسی نظام میں مرکزی بینک کا ایک بڑا رول یا کردار ہوتا ہے۔ مالیاتی پالیسی کامقصد ملک میں اقتصادی ترقی اور استحکام کو فرغ دینا ہوتا ہے مغربی مالیاتی نظام میں سودی شرح کو خاص اہمیت حاصل ہے سود وہ عنصرہے جسمیں سودی شرح کی ہدف بندی سے اورکرنسی کی فراہمی یا تخفیف سے حکمت کےمقا صدکے تحت عام طور پرملک کے اقتصادی نظام کو مستحکم کرنا، اشیاء کی ‍قیمتوں کوکم کرنا،روزگار کےموقعوں کو فراہم کرنا اور بعض وسیع مقصد کے تحت ملک کی ترقی کی بحالی کے لئے کرنسی فراہمی اور قیمت سے متعلق ہے جوہندوستان میں ریزرو بینک آف انڈیا مالیاتی پالیسی کے تحت کنٹرول کرتا ہے۔ موجودہ معاشی اور مالیاتی نظام، کرنسی فراہمی یا پیسوں کا اسٹاک منجملہ ملک کی کل معیشت کے اعتبارسے ایک مخصوص وقت میں مالیاتی اداروں یا بینکوں سے دستیاب ہوتا ہےاور کرنسی کی گردش جو ملک میں پائی جاتی ہے۔کرنسی کی فراہمی کا اعدادوشمارعام طور پرملک کے مرکزی بینک کی طرف سے رکارڈرکھا جاتا ہے اور شائع کیا جاتا ہے سرکاری اور پرائیویٹ تجزیہ کاروں کی مد د سے اشیاء کی قیمتوں کے نظریہ کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے اورپیسوںکی قیمت کی سطح، افراط زر کی شرح،کرنسی کی قیمت کا تبا د لہ اور کارباری سائیکل وغیرہ کل اثرات ملک کی کرنسی پرپڑتے ہیں جو کہ سودی شرح کو کم یا زیادہ کر کےیا کرنسی فراہمی کو کم یا زیادہ کر کے مرکزی بینک ملک کی اقتصادی اور مالیاتی نظام کا توازن برقرار رکھتا ہے۔ اقامۃالصلاہ یعنی المودہ غیرالمالیہ پرہی کما حقہ مسلمان عمل کررہے ہیں لیکن ‘ایتا الزکاہ یا المودہ المالیہ میں اسکےعلم وعمل سے مسلمان کوسوں دور ہیں اور اسلامی ما لیاتی نظام دنیا کے کسی حصے یا ملک میں رائج نہیں ہے اس موضوع کو مسلمان بھول ہی چکا ہے حبکہ مالیاتی پہلو ہماری زندگی کا ایک اہم ترین حصہ ہے۔ آج مغربی ممالک اپنےہی نظام سے تباہی کے موڑ پر ٹہرے ہیں ۔ باہر نکلنے کی ہرکوششیں ناکام ہیںاسلئے کہ ان کا مالیاتی نظام غیر اسلامی اصولوں پر مبنی ہے۔ ماہرین اقتصادیات ‘را بین کا کہنا ہے کہ:اقتصادیات ہرانسانی طرزعمل کا وہ مطالعہ ہے جوخواہشات کے حصول پرمبنی ہے حبکہ حصول وسائل کم اورمتبادل بھی ہیں ۔ را بین کا یہ نظريہ آج دنیا کے تمام ا قتصادی نظام میں گھرا ہوا ہے۔ اس نظام میں اخلاقی بنیادوں کا کوئی تصورنہیں ہے یہاں تک کہ طوائف کے عمل کوبھی ا قتصادی (تجارتی) سرگرمی قراردیاگیاہے ۔ ہم سب ملکر مغربی مالیاتی نظام کے امریت کی مذمت کریں۔ پیسہ یا کرنسی اسلامی شریعت کے مطابق انسای زندگی کے تحت خدمت کرنا مقصد ہے جبکہ مغربی مالیاتی نظام میں پیسہ حکمرانی کرتا ہے موجودہ اقتصادی بحران نے خوف اور مایوسی پیدا کیا ہے ، تشد د اوربے روزگاری کو بڑھا دیا ہے، غربت یا کم خوشیاں پیدا کیاہے۔ موجودہ مالیاتی اور تجارتی منڈیوں میں پوشیدہ ظلم ہے،ایک طرفہ طورپر اسکے اپنے ظالمانہ قونین اورقواعد عائدکیے گیے ہیں جسکی وجہ سے لاکھوں لوگ بے روزگار اور غیر محفوظ حالا ت میں لٹک رہے ہیں اورعا لمی اقتصادی بے چینی میں گرفتار ہیں، نئے نئے طریقے حل کیلئے اختیار کئے جاتے ہیں، وہ سب بے اثر بن کر ظاہرہوتے ہیں۔جد ید بینکاری موجودہ مالیاتی نظام کے تحت آج کے کاروبار میں ایک بہت اہم کردار ادا کرتا ہے،اگرچہ یہ نظام حقیقت میں، استحصال اور بھتہ خوری کے ذریعے بنی نوع انسان کا خون چوستا ہے جوسرمایہ دارانہ نظام کے شرکی نمائندگی. اور دوسری طرف، افراط زر (کرنسی کے ڈھیر سارے مصنوعی طور پرمقدار پیدا کرتا ہے) اور یہ انسان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کو توڑ د یتا ہے۔. لیکن موجودہ زندگی میں بینک کاروبار میں ایک سرخیل ہے. کیوں؟ تمام تجارتی سرگرمیاں بینک کے ارد گردگھومتی رہتی ہیں.اس نظام میں ایک خصوصیت یہ ہےکہ رقم کی طاقت کا اختیارخود بخود بینکوں کے ہا تھ میں آتا ہے جس کے ذریعے اس طاقت کو اسلامی اصولوں کی بنیاد پر ہم یقینی طور پر دنیا کے ایک سرے سے تجارت، صنعت کو فروغ دینے اور مقامی اور بین الاقوامی حدود پر تجارت کے دائرہ کار میں توسیع اور تمام تجارتی سرگرمیوں جو انسان کی ترقی کے لئے مفید اور ضروری ہیں استعمال کرسکتے ہیں. تو بینکنگ نظام ایک ادارے کی ایجنسی کی طرح دنیا کے انسانوں کے لئے آج ناگزیر ہے۔. اسی حالات میں اسلامی ماہرین ما لیا ت کو آگے آنے کی ضرورت ہیے اور دنیا بھرمیں ریا ستوں کی معاشی ومالیاتی تصحیح کے لئے اسلامی مالیاتی نظام کا تعارف کریں، کمزوروں کی حفا ظت کریں اور اسلامی مالیاتی سسٹم کے فوائد بیان کریں، ہم ہمیشہ لوگوں ‎کے پاس لینے کیلئے جاتے ہیں کیا ہم لوگوں کوکبھی دینے کیلئے جاتے ہیں؟ اسلامک بینکنگ کاروائیوں کے حوا لے سے یہ نشاندہی کرنامقصود ہے کہ آئین کے دفعہ نمبر25 کے تحت ہرانڈ ین ریا ست کی ذمہ داری ہےکہ ہر مذہب پر عمل وپیروی کرنے کیلئے ہر شہری کو سہولتیں مہیا کریں۔ کیا مسلما ن جہالت میں ہیں یا غفلت میں؟ اب تک کیو ں اس طرف پیش رفت نہیں ہوئی؟ اب کون ہے جو انہیںاس ظالمانہ سودی نظام سے محفوظ رکھے گا اور اسلامک بینکنگ کوفروغ دیگا ؟لہذا اسلامک بینکنگ کانظام تقوی فائنا نس کی طرف سے شروع ہوچکا ہے ۔ بیشک قانونی دشواریاں ہیں بحرحال جلد قابو پایاجاسکتاہے اگرعوام سےتعاو ن حاصل رہے۔ (بشکریہ : بین الاقوامی معیشت )کیا اسلامی ما لیاتی نظام ممکن ہے یاجہالت نے اس نظام کی تصویرکو تحریف کیاہے؟ Dr.Saeed-Shengariڈاکٹر محمد سعید شنگیری اللہ تم میں سےانہی لوگوں کوعزت بخشےگا اوراگلی صفوں میں شمار کریگا جو ایمان لائے اورجنہیں علم عطا کیا گیا(القرآن) ۔طلب علم ہر مسلمان (مرد اور عورت) پر واجب ہے۔ (حدیث) قرآن محید میں 6666/آیات کا خلاصہ تین اقسام میں کیاجائے تو پہلا حصہ اللہ تعالی کے بارے میں درج ہے اسکی حقیقت،عظمت،کبریائی،تمام ترحمد وثنا،ہرچیزپرقادرھونا وغیرہ وغیرہ جبکہ ديگر دو پہلوؤں میں انسان کا تعلق درج ہے۔ اقامۃ الصلاۃ اور ‘ایتاء الزکاۃ یا المودہ المالیہ اورالمودہ غیرالمالیہ ۔ ان تین پہلوؤں کے بغیردین اسلام پرمکمل عمل ناممکن ہے یا ان میں سے کسی ایک پہلو کوبھی نظراندازکریں دنیا میں مسلمانوں کو اقتدارکبھی حاصل نہیں ہوسکتا۔ المودہ غیرالمالیہ (اقامۃالصلاۃ) توحید ورسالت،نماز، روزہ،حج،تعلیم وتعلم (القرآن و تفسیرا ور حدیث) معاشرتی زندگی،سیاسی زندگی، فیملی لا، شادی و طلاق وغیرہ موضوعات کی طرف توجہ دلاتےہیں جبکہ المودہ المالیہ(ایتا ءالزکاۃ) یہ سکھاتاہےکہ کیسے ہم دوسروں کی ضرورتوں کو پورا کریں ۔ یہ پہلوالمودہ المالیہ پورے دنیا کےمسلمانوں اور مدرسوں سمیت صدیوں سے نظراندازکرچکے ہیں۔ المودہ المالیہ اورالمودہ غیرالمالیہ دو پہلو پرندے کےدوبازؤں کےمانند ہیں جسکے بغیر پرندہ من پسند رخ کی طرف اڑنہیں سکتا آج دنیا میں وہی حال مسلمانوں کا ہے نہ اپنا کوئی اسلامی اقتصادی نظام نہ سیاسی نظام ۔ اقتصادی نظام میں کلی طور پر ہم مغربی مما لک کے غلام ہوچکے ہیں اور بے بنیادامیدیں لگائےبیٹھےہیں کہ کیسے ہم سود کے بغیرکاروبار کریں؟ایک ترقی پذیر ملک کے مالیاتی پالیسی نظام میں مرکزی بینک کا ایک بڑا رول یا کردار ہوتا ہے۔ مالیاتی پالیسی کامقصد ملک میں اقتصادی ترقی اور استحکام کو فرغ دینا ہوتا ہے مغربی مالیاتی نظام میں سودی شرح کو خاص اہمیت حاصل ہے سود وہ عنصرہے جسمیں سودی شرح کی ہدف بندی سے اورکرنسی کی فراہمی یا تخفیف سے حکمت کےمقا صدکے تحت عام طور پرملک کے اقتصادی نظام کو مستحکم کرنا، اشیاء کی ‍قیمتوں کوکم کرنا،روزگار کےموقعوں کو فراہم کرنا اور بعض وسیع مقصد کے تحت ملک کی ترقی کی بحالی کے لئے کرنسی فراہمی اور قیمت سے متعلق ہے جوہندوستان میں ریزرو بینک آف انڈیا مالیاتی پالیسی کے تحت کنٹرول کرتا ہے۔ موجودہ معاشی اور مالیاتی نظام، کرنسی فراہمی یا پیسوں کا اسٹاک منجملہ ملک کی کل معیشت کے اعتبارسے ایک مخصوص وقت میں مالیاتی اداروں یا بینکوں سے دستیاب ہوتا ہےاور کرنسی کی گردش جو ملک میں پائی جاتی ہے۔کرنسی کی فراہمی کا اعدادوشمارعام طور پرملک کے مرکزی بینک کی طرف سے رکارڈرکھا جاتا ہے اور شائع کیا جاتا ہے سرکاری اور پرائیویٹ تجزیہ کاروں کی مد د سے اشیاء کی قیمتوں کے نظریہ کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے اورپیسوںکی قیمت کی سطح، افراط زر کی شرح،کرنسی کی قیمت کا تبا د لہ اور کارباری سائیکل وغیرہ کل اثرات ملک کی کرنسی پرپڑتے ہیں جو کہ سودی شرح کو کم یا زیادہ کر کےیا کرنسی فراہمی کو کم یا زیادہ کر کے مرکزی بینک ملک کی اقتصادی اور مالیاتی نظام کا توازن برقرار رکھتا ہے۔ اقامۃالصلاہ یعنی المودہ غیرالمالیہ پرہی کما حقہ مسلمان عمل کررہے ہیں لیکن ‘ایتا الزکاہ یا المودہ المالیہ میں اسکےعلم وعمل سے مسلمان کوسوں دور ہیں اور اسلامی ما لیاتی نظام دنیا کے کسی حصے یا ملک میں رائج نہیں ہے اس موضوع کو مسلمان بھول ہی چکا ہے حبکہ مالیاتی پہلو ہماری زندگی کا ایک اہم ترین حصہ ہے۔ آج مغربی ممالک اپنےہی نظام سے تباہی کے موڑ پر ٹہرے ہیں ۔ باہر نکلنے کی ہرکوششیں ناکام ہیںاسلئے کہ ان کا مالیاتی نظام غیر اسلامی اصولوں پر مبنی ہے۔ ماہرین اقتصادیات ‘را بین کا کہنا ہے کہ:اقتصادیات ہرانسانی طرزعمل کا وہ مطالعہ ہے جوخواہشات کے حصول پرمبنی ہے حبکہ حصول وسائل کم اورمتبادل بھی ہیں ۔ را بین کا یہ نظريہ آج دنیا کے تمام ا قتصادی نظام میں گھرا ہوا ہے۔ اس نظام میں اخلاقی بنیادوں کا کوئی تصورنہیں ہے یہاں تک کہ طوائف کے عمل کوبھی ا قتصادی (تجارتی) سرگرمی قراردیاگیاہے ۔ ہم سب ملکر مغربی مالیاتی نظام کے امریت کی مذمت کریں۔ پیسہ یا کرنسی اسلامی شریعت کے مطابق انسای زندگی کے تحت خدمت کرنا مقصد ہے جبکہ مغربی مالیاتی نظام میں پیسہ حکمرانی کرتا ہے موجودہ اقتصادی بحران نے خوف اور مایوسی پیدا کیا ہے ، تشد د اوربے روزگاری کو بڑھا دیا ہے، غربت یا کم خوشیاں پیدا کیاہے۔ موجودہ مالیاتی اور تجارتی منڈیوں میں پوشیدہ ظلم ہے،ایک طرفہ طورپر اسکے اپنے ظالمانہ قونین اورقواعد عائدکیے گیے ہیں جسکی وجہ سے لاکھوں لوگ بے روزگار اور غیر محفوظ حالا ت میں لٹک رہے ہیں اورعا لمی اقتصادی بے چینی میں گرفتار ہیں، نئے نئے طریقے حل کیلئے اختیار کئے جاتے ہیں، وہ سب بے اثر بن کر ظاہرہوتے ہیں۔جد ید بینکاری موجودہ مالیاتی نظام کے تحت آج کے کاروبار میں ایک بہت اہم کردار ادا کرتا ہے،اگرچہ یہ نظام حقیقت میں، استحصال اور بھتہ خوری کے ذریعے بنی نوع انسان کا خون چوستا ہے جوسرمایہ دارانہ نظام کے شرکی نمائندگی. اور دوسری طرف، افراط زر (کرنسی کے ڈھیر سارے مصنوعی طور پرمقدار پیدا کرتا ہے) اور یہ انسان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کو توڑ د یتا ہے۔. لیکن موجودہ زندگی میں بینک کاروبار میں ایک سرخیل ہے. کیوں؟ تمام تجارتی سرگرمیاں بینک کے ارد گردگھومتی رہتی ہیں.اس نظام میں ایک خصوصیت یہ ہےکہ رقم کی طاقت کا اختیارخود بخود بینکوں کے ہا تھ میں آتا ہے جس کے ذریعے اس طاقت کو اسلامی اصولوں کی بنیاد پر ہم یقینی طور پر دنیا کے ایک سرے سے تجارت، صنعت کو فروغ دینے اور مقامی اور بین الاقوامی حدود پر تجارت کے دائرہ کار میں توسیع اور تمام تجارتی سرگرمیوں جو انسان کی ترقی کے لئے مفید اور ضروری ہیں استعمال کرسکتے ہیں. تو بینکنگ نظام ایک ادارے کی ایجنسی کی طرح دنیا کے انسانوں کے لئے آج ناگزیر ہے۔. اسی حالات میں اسلامی ماہرین ما لیا ت کو آگے آنے کی ضرورت ہیے اور دنیا بھرمیں ریا ستوں کی معاشی ومالیاتی تصحیح کے لئے اسلامی مالیاتی نظام کا تعارف کریں، کمزوروں کی حفا ظت کریں اور اسلامی مالیاتی سسٹم کے فوائد بیان کریں، ہم ہمیشہ لوگوں ‎کے پاس لینے کیلئے جاتے ہیں کیا ہم لوگوں کوکبھی دینے کیلئے جاتے ہیں؟ اسلامک بینکنگ کاروائیوں کے حوا لے سے یہ نشاندہی کرنامقصود ہے کہ آئین کے دفعہ نمبر25 کے تحت ہرانڈ ین ریا ست کی ذمہ داری ہےکہ ہر مذہب پر عمل وپیروی کرنے کیلئے ہر شہری کو سہولتیں مہیا کریں۔ کیا مسلما ن جہالت میں ہیں یا غفلت میں؟ اب تک کیو ں اس طرف پیش رفت نہیں ہوئی؟ اب کون ہے جو انہیںاس ظالمانہ سودی نظام سے محفوظ رکھے گا اور اسلامک بینکنگ کوفروغ دیگا ؟لہذا اسلامک بینکنگ کانظام تقوی فائنا نس کی طرف سے شروع ہوچکا ہے ۔ بیشک قانونی دشواریاں ہیں بحرحال جلد قابو پایاجاسکتاہے اگرعوام سےتعاو ن حاصل رہے۔ (بشکریہ : بین الاقوامی معیشت )[:fa]کیا اسلامی ما لیاتی نظام ممکن ہے یاجہالت نے اس نظام کی تصویرکو تحریف کیاہے؟ Dr.Saeed-Shengariڈاکٹر محمد سعید شنگیری اللہ تم میں سےانہی لوگوں کوعزت بخشےگا اوراگلی صفوں میں شمار کریگا جو ایمان لائے اورجنہیں علم عطا کیا گیا(القرآن) ۔طلب علم ہر مسلمان (مرد اور عورت) پر واجب ہے۔ (حدیث) قرآن محید میں 6666/آیات کا خلاصہ تین اقسام میں کیاجائے تو پہلا حصہ اللہ تعالی کے بارے میں درج ہے اسکی حقیقت،عظمت،کبریائی،تمام ترحمد وثنا،ہرچیزپرقادرھونا وغیرہ وغیرہ جبکہ ديگر دو پہلوؤں میں انسان کا تعلق درج ہے۔ اقامۃ الصلاۃ اور ‘ایتاء الزکاۃ یا المودہ المالیہ اورالمودہ غیرالمالیہ ۔ ان تین پہلوؤں کے بغیردین اسلام پرمکمل عمل ناممکن ہے یا ان میں سے کسی ایک پہلو کوبھی نظراندازکریں دنیا میں مسلمانوں کو اقتدارکبھی حاصل نہیں ہوسکتا۔ المودہ غیرالمالیہ (اقامۃالصلاۃ) توحید ورسالت،نماز، روزہ،حج،تعلیم وتعلم (القرآن و تفسیرا ور حدیث) معاشرتی زندگی،سیاسی زندگی، فیملی لا، شادی و طلاق وغیرہ موضوعات کی طرف توجہ دلاتےہیں جبکہ المودہ المالیہ(ایتا ءالزکاۃ) یہ سکھاتاہےکہ کیسے ہم دوسروں کی ضرورتوں کو پورا کریں ۔ یہ پہلوالمودہ المالیہ پورے دنیا کےمسلمانوں اور مدرسوں سمیت صدیوں سے نظراندازکرچکے ہیں۔ المودہ المالیہ اورالمودہ غیرالمالیہ دو پہلو پرندے کےدوبازؤں کےمانند ہیں جسکے بغیر پرندہ من پسند رخ کی طرف اڑنہیں سکتا آج دنیا میں وہی حال مسلمانوں کا ہے نہ اپنا کوئی اسلامی اقتصادی نظام نہ سیاسی نظام ۔ اقتصادی نظام میں کلی طور پر ہم مغربی مما لک کے غلام ہوچکے ہیں اور بے بنیادامیدیں لگائےبیٹھےہیں کہ کیسے ہم سود کے بغیرکاروبار کریں؟ایک ترقی پذیر ملک کے مالیاتی پالیسی نظام میں مرکزی بینک کا ایک بڑا رول یا کردار ہوتا ہے۔ مالیاتی پالیسی کامقصد ملک میں اقتصادی ترقی اور استحکام کو فرغ دینا ہوتا ہے مغربی مالیاتی نظام میں سودی شرح کو خاص اہمیت حاصل ہے سود وہ عنصرہے جسمیں سودی شرح کی ہدف بندی سے اورکرنسی کی فراہمی یا تخفیف سے حکمت کےمقا صدکے تحت عام طور پرملک کے اقتصادی نظام کو مستحکم کرنا، اشیاء کی ‍قیمتوں کوکم کرنا،روزگار کےموقعوں کو فراہم کرنا اور بعض وسیع مقصد کے تحت ملک کی ترقی کی بحالی کے لئے کرنسی فراہمی اور قیمت سے متعلق ہے جوہندوستان میں ریزرو بینک آف انڈیا مالیاتی پالیسی کے تحت کنٹرول کرتا ہے۔ موجودہ معاشی اور مالیاتی نظام، کرنسی فراہمی یا پیسوں کا اسٹاک منجملہ ملک کی کل معیشت کے اعتبارسے ایک مخصوص وقت میں مالیاتی اداروں یا بینکوں سے دستیاب ہوتا ہےاور کرنسی کی گردش جو ملک میں پائی جاتی ہے۔کرنسی کی فراہمی کا اعدادوشمارعام طور پرملک کے مرکزی بینک کی طرف سے رکارڈرکھا جاتا ہے اور شائع کیا جاتا ہے سرکاری اور پرائیویٹ تجزیہ کاروں کی مد د سے اشیاء کی قیمتوں کے نظریہ کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے اورپیسوںکی قیمت کی سطح، افراط زر کی شرح،کرنسی کی قیمت کا تبا د لہ اور کارباری سائیکل وغیرہ کل اثرات ملک کی کرنسی پرپڑتے ہیں جو کہ سودی شرح کو کم یا زیادہ کر کےیا کرنسی فراہمی کو کم یا زیادہ کر کے مرکزی بینک ملک کی اقتصادی اور مالیاتی نظام کا توازن برقرار رکھتا ہے۔ اقامۃالصلاہ یعنی المودہ غیرالمالیہ پرہی کما حقہ مسلمان عمل کررہے ہیں لیکن ‘ایتا الزکاہ یا المودہ المالیہ میں اسکےعلم وعمل سے مسلمان کوسوں دور ہیں اور اسلامی ما لیاتی نظام دنیا کے کسی حصے یا ملک میں رائج نہیں ہے اس موضوع کو مسلمان بھول ہی چکا ہے حبکہ مالیاتی پہلو ہماری زندگی کا ایک اہم ترین حصہ ہے۔ آج مغربی ممالک اپنےہی نظام سے تباہی کے موڑ پر ٹہرے ہیں ۔ باہر نکلنے کی ہرکوششیں ناکام ہیںاسلئے کہ ان کا مالیاتی نظام غیر اسلامی اصولوں پر مبنی ہے۔ ماہرین اقتصادیات ‘را بین کا کہنا ہے کہ:اقتصادیات ہرانسانی طرزعمل کا وہ مطالعہ ہے جوخواہشات کے حصول پرمبنی ہے حبکہ حصول وسائل کم اورمتبادل بھی ہیں ۔ را بین کا یہ نظريہ آج دنیا کے تمام ا قتصادی نظام میں گھرا ہوا ہے۔ اس نظام میں اخلاقی بنیادوں کا کوئی تصورنہیں ہے یہاں تک کہ طوائف کے عمل کوبھی ا قتصادی (تجارتی) سرگرمی قراردیاگیاہے ۔ ہم سب ملکر مغربی مالیاتی نظام کے امریت کی مذمت کریں۔ پیسہ یا کرنسی اسلامی شریعت کے مطابق انسای زندگی کے تحت خدمت کرنا مقصد ہے جبکہ مغربی مالیاتی نظام میں پیسہ حکمرانی کرتا ہے موجودہ اقتصادی بحران نے خوف اور مایوسی پیدا کیا ہے ، تشد د اوربے روزگاری کو بڑھا دیا ہے، غربت یا کم خوشیاں پیدا کیاہے۔ موجودہ مالیاتی اور تجارتی منڈیوں میں پوشیدہ ظلم ہے،ایک طرفہ طورپر اسکے اپنے ظالمانہ قونین اورقواعد عائدکیے گیے ہیں جسکی وجہ سے لاکھوں لوگ بے روزگار اور غیر محفوظ حالا ت میں لٹک رہے ہیں اورعا لمی اقتصادی بے چینی میں گرفتار ہیں، نئے نئے طریقے حل کیلئے اختیار کئے جاتے ہیں، وہ سب بے اثر بن کر ظاہرہوتے ہیں۔جد ید بینکاری موجودہ مالیاتی نظام کے تحت آج کے کاروبار میں ایک بہت اہم کردار ادا کرتا ہے،اگرچہ یہ نظام حقیقت میں، استحصال اور بھتہ خوری کے ذریعے بنی نوع انسان کا خون چوستا ہے جوسرمایہ دارانہ نظام کے شرکی نمائندگی. اور دوسری طرف، افراط زر (کرنسی کے ڈھیر سارے مصنوعی طور پرمقدار پیدا کرتا ہے) اور یہ انسان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کو توڑ د یتا ہے۔. لیکن موجودہ زندگی میں بینک کاروبار میں ایک سرخیل ہے. کیوں؟ تمام تجارتی سرگرمیاں بینک کے ارد گردگھومتی رہتی ہیں.اس نظام میں ایک خصوصیت یہ ہےکہ رقم کی طاقت کا اختیارخود بخود بینکوں کے ہا تھ میں آتا ہے جس کے ذریعے اس طاقت کو اسلامی اصولوں کی بنیاد پر ہم یقینی طور پر دنیا کے ایک سرے سے تجارت، صنعت کو فروغ دینے اور مقامی اور بین الاقوامی حدود پر تجارت کے دائرہ کار میں توسیع اور تمام تجارتی سرگرمیوں جو انسان کی ترقی کے لئے مفید اور ضروری ہیں استعمال کرسکتے ہیں. تو بینکنگ نظام ایک ادارے کی ایجنسی کی طرح دنیا کے انسانوں کے لئے آج ناگزیر ہے۔. اسی حالات میں اسلامی ماہرین ما لیا ت کو آگے آنے کی ضرورت ہیے اور دنیا بھرمیں ریا ستوں کی معاشی ومالیاتی تصحیح کے لئے اسلامی مالیاتی نظام کا تعارف کریں، کمزوروں کی حفا ظت کریں اور اسلامی مالیاتی سسٹم کے فوائد بیان کریں، ہم ہمیشہ لوگوں ‎کے پاس لینے کیلئے جاتے ہیں کیا ہم لوگوں کوکبھی دینے کیلئے جاتے ہیں؟ اسلامک بینکنگ کاروائیوں کے حوا لے سے یہ نشاندہی کرنامقصود ہے کہ آئین کے دفعہ نمبر25 کے تحت ہرانڈ ین ریا ست کی ذمہ داری ہےکہ ہر مذہب پر عمل وپیروی کرنے کیلئے ہر شہری کو سہولتیں مہیا کریں۔ کیا مسلما ن جہالت میں ہیں یا غفلت میں؟ اب تک کیو ں اس طرف پیش رفت نہیں ہوئی؟ اب کون ہے جو انہیںاس ظالمانہ سودی نظام سے محفوظ رکھے گا اور اسلامک بینکنگ کوفروغ دیگا ؟لہذا اسلامک بینکنگ کانظام تقوی فائنا نس کی طرف سے شروع ہوچکا ہے ۔ بیشک قانونی دشواریاں ہیں بحرحال جلد قابو پایاجاسکتاہے اگرعوام سےتعاو ن حاصل رہے۔ (بشکریہ : بین الاقوامی معیشت )