غلطی ہائے مضامین۔۔۔اِس لیے فدوی کین ناٹ کم۔۔۔- احمد حاطب صدیقی 

Bhatkallys

Published in - Other

01:39PM Fri 10 Mar, 2023

حکیمِ حاذق حضرت مولانا محسن ترمذی کے درِ حکمت سے ہمیں حکم ہوا کہ ’’آج کل اُردو اخبارات اور اُردو نشریات میں انگریزی اصطلاحات دھڑلّے سے استعمال ہورہی ہیں۔ ذرا اس پر بھی کچھ لکھیے‘‘۔

’دھڑلّے‘ کا لفظ سن کر ہمارا تو دل ہی دھڑ دھڑ دھڑ دھڑ کرنے لگا۔ لغت نکال کر معنی دیکھے تو معلوم ہوا کہ ’اِزدحام، ہجوم، بھیڑ، یورش، زور، شور اور رعب دبدبہ‘ وغیرہ دھڑلّا کہلاتا ہے۔ کھلے بندوں، نڈر ہوکر، شدت سے، ادبدا کر، بے خوفی کے ساتھ یا علانیہ کیا جانے والا ہر کام ’دھڑلّے سے‘ کیا ہوا کام ہے۔ امیرؔ مینائی بھی ایک روز بڑے دھڑلّے سے اپنے آپ کو ڈانٹتے ہوئے پائے گئے تھے:۔

امیرؔ اُس جان کے دشمن سے تم کو ڈر نہیں لگتا؟

دھڑلّے سے تم اُس کے منہ پہ کہتے ہو کہ مرتے ہیں

حکیم صاحب کے منہ دیکھے کی بات نہیں، بالکل برحق بات ہے کہ اُردو اخبارات اور اُردو نشریات میں حکیم جی کا تشخیص کیا ہوا ’دھڑلّا‘ کسی پھوڑے کی طرح پھولتا جارہا ہے۔ انگریزی اصطلاحات ہی کی نہیں، سرخیوں میں انگریزی مخففات (Abbreviations) کی بھرمار بھی جا بجا بلکہ یوں کہیے کہ ہر جا، اور بالکل بے جا، نظر آنے لگی ہے۔ ہر مخفف رومن حروف میں لکھا جارہا ہے۔ مثلاً ایک بہت بڑے (اور بزعم خود پاکستان کے سب سے بڑے) اُردو اخبار کی شہ شرخی تھی: ’’فلاں جج کے خلاف SJC سے رجوع‘‘۔

اس سُرخی پر ہم نے ایک قاری کو بھنّاکر(اپنا ہی) سر پیٹتے دیکھا اور کہتے سنا:۔

’’بھائی تم کاہے کو اُردو اخبار نکالتے ہو؟ کیا کوئی تکلیف ہے؟‘‘۔

حضرت کو اس بات کی تکلیف بھی تھی کہ ذیلی سرخی میں قارئین کو اطلاع دی گئی ہے: ’’درخواست کے ساتھ جج صاحب کی مبینہ ’گفتگو کا ٹرانسکرپٹ‘ بھی شامل کیا گیا ہے‘‘۔ ورنہ اگر سرخی یوں ہوتی کہ ’’درخواست کے ساتھ ’گفتگو کا تحریری متن‘ بھی منسلک کیا گیا ہے‘‘ تو قارئین میں شدید غلط فہمی پھیل جانے کا خدشہ تھا۔ لوگ اس بدگمانی میں مبتلا ہوسکتے تھے کہ اِس اخبار کی ادارت پر ایسے لوگ مامور کردیے گئے ہیں جو اپنے کام میں مہارت رکھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ اُردو اخبار کی سرخیاں کیسے نکالی جاتی ہیں۔ جب کہ آج کل زندگی کے ہر شعبے میں مہارت کا معیار یہ ٹھیرا ہے کہ ’’سارے جہاں کا جائزہ، اپنے جہاں سے بے خبر‘‘۔ اُسی خبر میں مذکورہ جج کی طرف سے ’کوڈ آف کنڈکٹ‘ کی خلاف ورزی کا بھی ذکر ہے۔ ’سب سے بڑا اُردو اخبار‘ ہونے کے دعوے دار کو اب کون سمجھائے کہ اس قسم کی ’اینگلواُردو‘ سرخی نکالنا بھی اُردو زبان کے’ضابطۂ اخلاق‘ کی خلاف ورزی ہے۔ ایسی ہی کھلی خلاف ورزیاں تو آج کل خوب دھڑلّے سے کی جارہی ہیں!۔

اگر ہمارے ورقی اور برقی صحافتی اداروں کے مالکان کا گمان ہے کہ اُردو نشریاتی ادارہ قائم کرنا یا اُردو اخبار نکالنا ’کرنے کے لائق کام‘ ہے، تو اِس کام کو ’خوبی اور خوش اُسلوبی سے کرنے کے لائق کام‘ بھی سمجھنا چاہیے۔ چوہے بلی جیسی بھاگا دوڑی سے دولت کما لینا اور مال بنالینا کون ساکمال ہوا؟ دولت تو اسمگلروں اور کسبیوں کنے بھی بہت ہوتی ہے۔ آپ کے پاس بھی ایسی دولت آگئی کہ ’تن لاگے نہ من لاگے‘ تو آپ دونوں میں فرق کیا ہوا؟ قومی مفاد، اخلاق، تہذیب، شائستگی اور قومی زبان کا سودا کرکے کمائی گئی دولت، آپ سے زیادہ کون تجربہ رکھتا ہوگا کہ سکون و راحت اور خیرو برکت کا باعث نہیں بنتی۔ ایسی دولت کا دولت مند انگاروں کے بسترہی پر لوٹتا رہتا ہے۔ پس کچھ پیسہ عملے کی لسانی شائستگی اور اخلاقی تربیت پر بھی لگا دیکھیے کہ کسبِ دولت میں قومی خدمت شامل کردینے سے کچھ قلبی سکون ملتا ہے یا نہیں۔

ہمارے لڑکپن کے دور تک اخبارات اور نشریاتی اداروں کو زبان پر سند سمجھا جاتا تھا۔ اُس زمانے میں یہ ملغوبہ زبان صرف طنز و مزاح اور ہنسی مذاق کے لیے استعمال ہوتی تھی، مثلاً:۔

لیگ ہمارا پھسلا، گِر پڑے ہم

اس لیے فدوی کین ناٹ کم

اور مثلاً: ’’سٹی سٹیشن پر سکول کا لڑکا سٹول پر چڑھ کر سلولی سلولی سپیچ کررہا تھا‘‘۔ اب یہی مضحکہ خیز زبان خبروں، کالموں، مضامین اورسنجیدہ گفتگو کی زبان بنا لی گئی ہے۔ پہلے کے لوگوں کو ایسی باتوں پر ہنسی آتی تھی۔ اب کسی بات پر نہیں آتی۔

اِسکول کے زمانے میں ہمارے اساتذہ ہمیں تلقین کیا کرتے تھے کہ اخبارات پڑھا کرو تاکہ زبان کو برتنے کا سلیقہ آئے۔ کراچی میں ہمارے تعلیمی ادارے (سرکاری مدرسۂ ثانویہ برائے طلبہ، سعود آباد) کا قاعدہ تھا کہ ہر منگل کو صبح ساڑھے گیارہ بجے ہر کمرۂ جماعت میں ریڈیو پاکستان کراچی کا وہ نشریہ سنوایا جاتا جو صرف ثانوی مدارس کے طلبہ و طالبات کے لیے ہوتا تھا۔ اِس ‘School Broadcast’ میں سائنسی علوم سمیت تمام نصابی موضوعات پر آسان، سلیس اور دلکش اُردو میں دلچسپ نشریات پیش کی جاتی تھیں۔ ان نشریوں سے حصولِ علم کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنا لب و لہجہ اور تلفظ درست کرنے میں بھی مدد ملتی تھی۔ صاحبو! یہ پچھلی صدی کی ساتویں دہائی کا ذکر ہے، جو 1961ء سے شروع ہوئی تھی۔ آج تو ہمارے نشریاتی اداروں کو ماضی سے کہیں بہتر اور پچھلی صدی سے کہیں زیادہ وسائل میسر ہیں۔ آج قومی مستقبل کی تعمیرکا کام پہلے سے اعلیٰ معیار کا، پہلے سے بہتر پیمانے پر اورنسبتاً زیادہ مؤثر طریقے سے کیا جا سکتا ہے۔کوئی تو اُٹھ کر کھڑکی کھولے۔

مگر اب بقولِ پروین شاکر ’پھول اتنے بڑھ آئے کھڑکیاں نہیں کھلتیں‘۔ قارئین و ناظرین کی تعداد میں کمی کا رونا رونے کے باوجود اخبارات اور نشریاتی اداروں کی تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے۔ جن اداروں نے اُردوکو اپنا ذریعۂ ابلاغ ٹھیرایا ہے اور جن افراد نے اُردو کو اپنا ذریعۂ اظہار بنایا ہے، کیا وہ نہیں چاہتے کہ شستہ، شائستہ اور دل کش ’غیرملغوبہ‘ زبان اُن کی شناخت اور ان کی عوامی مقبولیت کا سبب بنے؟

اپنی جامعہ میں ابلاغیات کے طلبہ و طالبات سے ہم ایک مشق کروایا کرتے ہیں۔ ان سے کہا جاتا ہے کہ کمرۂ جماعت میں گفتگو کرتے ہوئے یا خبروں کا متن تحریر کرتے وقت اور نشری اظہاریوں کی عکس بندی کے دوران میں اس بات کا خیال رکھیے کہ جب اُردو لکھیں اور اُردو بولیں تو اُردو ہی کے الفاظ استعمال کریں۔آپ کی گفتگو اور تحریر دل کش ہوجائے گی۔ چناں چہ تھوڑی سی مشق اور مشقت کے بعد نئی نسل کے اِن صحافیوں کی تحریر اور گفتگو میں جو الفاظ پڑھنے اور سننے کو ملنے لگتے ہیں، اُن سے ہم سب مدتوں سے مانوس ہیں۔ گو کہ ابلاغیات کی عملی دنیا سے ان الفاظ کو شاید شعوری طور پر نکال دیا گیا ہے: خبرنامہ، خبریں، خاص خاص خبریں، مختصر خبریں، خبروں کی سرخیاں، تازہ خبر، خبروں کا پس منظر اور خبروں کا تجزیہ۔ اسی طرح متن میں استعمال کیے جانے والے الفاظ بھی ہمارے لیے تو اجنبی نہیں ہیں، مگر اخبارات و نشریات سے ان کو دھکیل دھکیل کر باہر کیا جارہا ہے: صدر،وزیراعظم، وزیر خارجہ، وزیر خزانہ، افواجِ پاکستان، سپہ سالار، وفاقی حکومت، صوبائی حکومت، وزیراعلیٰ، حزبِ اختلاف، عدالتِ عظمیٰ، عدالتِ عالیہ، کابینہ، کابینہ کا اجلاس،رکن قومی اسمبلی، رکن صوبائی اسمبلی، انتخابات، انتخابی اُمیدوار،معیشت، بینک دولتِ پاکستان، افراطِ زر اورروپے کی قدر میں اضافہ یا کمی وغیرہ۔ہمارے ہاں گورنر سندھ اور گورنر پنجاب وغیرہ کے لیے والیِ سندھ، والیِ پنجاب جیسی اصطلاحات استعمال ہوتی رہی ہیں۔ حکومت چاہے تو نفاذِ اُردو کرتے ہوئے ان اصطلاحات کو بحال کر سکتی ہے۔ قومی اداروں کے اُردو نام زندہ کر سکتی ہے۔ اس سے عالمی سطح پر ہماری کوئی سُبکی ہوگی نہ ہمیں کسی قسم کا قومی نقصان پہنچے گا۔

ہمارے ماہرینِ ابلاغیات بھی اگر تھوڑی سی توجہ کریں، ذرا سی مشق و مشقت سے اُردو بولنا سیکھ لیں اور دھڑلّے سے اُردو بولا کریں (’ملغوبہ‘ نہیں) تو اُن کا شمار بھی قریش پُور، عبیداللہ بیگ اور ضیاء محی الدین جیسے شگفتہ اُردو بولنے والے مرحومین میں جلد ہی ہونے لگے گا۔

بہ شکریہ فرائیڈے اسپیشل