رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ

Bhatkallys

Published in - Other

12:22PM Sat 7 May, 2016
ڈاکٹرمحسن عثمانی ندوی تاریخ میں اسلامی تہذیب درخشاں تہذیب رہی ہے، اگر یہ تہذیب نہ ہوتی تو یورپ میں نشأۃ ثانیہ کا دور بھی شروع نہیں ہوتا ہے، اور قرون مظلمہ کے سائے دراز تر ہوگئے ہوتے، یہ اسلامی تہذیب تھی جس نے یورپ کو روشنی عطا کی ، اور وہاں علم وعقل اور نئے نظریات کا قافلہ جادہ پیما ہوا، آج بھی یورپ میں لوگوں کو اسلامی تہذیب سے خوف محسوس ہوتا ہے، اور وہاں کے بڑے بڑے مفکرین اندیشہائے دور دراز میں مبتلاء ہو جاتے ہیں اور یہ ببانگ دہل کہتے ہیں کہ مغربی تہذیب کو کمونیزم کے زوال کے بعد اگر کوئی خطرہ ہے تو اسلامی تہذیب سے خطرہ ہے، اس موضوع پر ایک نہیں متعدد کتابیں یورپ میں شائع ہوچکی ہیں، اور بڑی ۔تعداد میں فروخت ہوئی ہیں ، اور بڑی چالاکی کے ساتھ یورپ اورامریکا نے مسلم دنیا پر اپنا شکنجہ کس لیا ہے، اور بحیثیت مجموعی مسلم ممالک بے بس ہو چکے ہیں، یہ موضوع بڑا وسیع ہے، ہم اس وقت صرف اس تہذیبی یلغار کا ذکر کرنا چاہتے ہیں جس کا سامنا ہندوستا ن میں مسلمانوں کو کرنا پڑ رہا ہے ہند وستان میں دائیں بازو کی طاقتیں یہ غم نہیں بھول سکیں کہ مسلمانوں نے تقریباً ایک ہزار سال تک ہندوستان میں حکومت کی ہے، اور آج بھی اسلام میں اتنی طاقت ہے کہ وہ یہاں کی آبادی متأثر کرسکتا ہے، چنانچہ یہ دائیں بازو کی طاقتیں متحد ہو کرپچاس سال تک بتدریج کوشش کرتے کرتے بر سر اقتدار آگئیں، اور برسر اقتدار آنے کے بعد کھل کر کے مسلمانوں کے خلاف ان کی زبانیں چلنے لگیں، اور ان کے دل کے اندر جو ارادے ہیں وہ اور بھی خطرناک ہیں، اور صورت حال وہ ہے جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے’’قد بدت البغضاء من افواہہم وما تخفی صدورہم اکبر(آل عمران۱۱۸)‘‘ یعنی ’’ان کے دل کا بغض ان کے منہ سے نکلا پڑتا ہے اور جو کچھ اپنے سینے میں چھپائے ہوئے ہیں وہ اس سے شدید تر ہے‘‘، ہندوتو کے قائدین علی الاعلان یہ کہنے لگے ہیں کہ ۲۰۲۱ تک ہم ہندوستان کو مسلمانوں اور عیسائیوں سے خالی کرکے رہیں گے اور مسلم مکت اور عیسائی مکت بھارت بنائیں گے، کبھی ان کا زبان دراز پیشوا یہ کہتا ہے کہ تمام ہندو ستانیوں کو چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو ہندو کہیں، اور اس کے بعدیہ قائدین نہایت بے شرمی کے ساتھ حکومت سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے حق رائے دہی کو سلب کرلینا چاہیے اور کبھی گھر واپسی کے پروگرام منعقد کئے جاتے ہیں گویا شدھی سنگٹھن کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کر جارہی ہے ، کبھی گورنر اور حکومت کا ذمہ دار یہ کہتے ہوئے نہیں شرماتا ہے کہ جو شخص گأئے کو ذبح کرے اسے ذبح کر ڈالنا چاہیے ، مہاراِشٹرا کے وزیر اعلی کو یہ کہنے میں باک نہیں کہ جو بھارت ماتا کی جے نہیں کہتا اسے پاکستان چلاجاناچاہئے ، بابا رام دیو کہتے ہیں کہ اگر مجھے قانون کا پاس ولحاظ نہیں ہوتا تو بھارت ماتا کی جے نہ کہنے والے لاکھوں انسانوں کے سر کاٹ دیتا ،مسلم کش فسادات کا سلسلہ جو آزادی کے بعد سے مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے سے شروع ہوا ہے وہ رکا نہیں ہے ، دادری میں گائے ذبح کرنے کے جھوٹے الزام کی تحت ’’اخلاق ‘‘کا خون کردیا گیا ،، اسکولوں میں سوریہ نمسکار اور یوگا کو لازمی قرار دیا جاتا ہے، وندے ماترم اور سرسوتی وندنا پر اسکو ل کے طلبہ کو مجبور کیا جاتا ہے ، تعلیم کا بھگوا کرن کیا جاتا ہے، گیتا کو قومی کتاب قرار دینے کی آواز بلند کی جاتی ہے، یہاں تک کہ حج سے روکنے کی بھی بات کی جاتی ہے، اور اب بھارت ماتا کی جے کہنے پر اس درجہ مجبور کیا جارہا ہے کہ جو شخص اس نعرے کو بلند کرنے سے انکار کرے وہ گویا قوم پرست اور محب وطن نہیں ہے، ہردوار اور گول والکر اور ساورکر کے جارحانہ نظریات اب بہ تدریج عملی شکل اختیار کرنے لگے ہیں۔اس تہذیبی جارحیت پر سب کاساتھ سب کا وکاس کا پردہ ڈال دیا گیا ہے مسلم پرسنل لا کو ختم کرکے مسلمانوں کے تشخص کو ختم کرنے کی کوشش اب پہلے سے زیادہ تیز اور شدید ہو گئی ہے عدالتوں کے کئی فیصلے مسلم پرسنل لا کے خلاف ہوچکے ہیں۔ اردو زبان کے سلسلہ میں معاندانہ رویہ اختیار کیا گیا ہے اور اب مسلمانوں کی دو تین نسلیں اردو زبان سے ے بہرہ ہوکر رہ گئی ہیں ، قانوں حق معلومات کے تحت ایک مسلم نوجوان کو آرمی میں صرف اسلئے معلومات نہیں دی گئیں کہ اس کا تعلق مذہب اسلام سے تھا ، مرکزی حکومت میں ایک وزارت ایورویدک ، ہومکیو پیتھک ، یونانی، نیچروپیتھی کے فروغ کیلئے قائم کی گئی تھی اس میں ملازمت کیلئے تین ہزار آٹھ سو اکتالیس مسلمانوں نے درخواست دی تھے لیکن ایک بھی مسلمان کا تقرر نہیں ہوا، ایک معروف صحافی پشپ شرما نے آر ٹی آئی میں جواب مانگا تو جواب دیا گیا کہ حکومتی پالیسی کی تحت کسی مسلم امیدوار کو انٹر ویو کے لئے نہیں بلایا گیا ، یہ سب دستور کی دفعہ ۱۴ ( مساوی حقوق )کی کھلی خلاف ورزی ہے ، صورت حال یہاں تک پہونچ گئی ہے کہ مہاتما گاندھی کے قاتل گوڈ سے کو شہید کا درجہ دیا جارہا ہے ، ہندو خواتین کو مشورہ دیاجارہا ہے کہ بھارت میں ہندو مذہب کو بچانے کیلئے چار چار بچے پیدا کریں، مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے الکشن کے موقعہ پر کہا تھا کہ جو لوگ نریندر مودی کو وزیر اعظم کی حیثیت سے نہیں دیکھنا چاہتے ہیں انہیں ملک چھوڑ دینا چاہئے، اب تعلیمی اداروں پر قبضہ کرنے کی کوشش ہورہی ہے جواہر لال نہرو یونیورسیٹی مشہور یونیورسیٹی ہے جہان کی اکثریت ہندو تو کی مخالف ہے وہاں کے بارے میں زی ٹی وی نے یہ خبر اڑائی کہ وہان ملک دشمن نعرے لگائے گئے تھے ، جواہر لال نہرو یونیورسیٹی کو تخریب کاری کااڈاثابت کرنے کی کوشش ہورہی ہے ۔ فروغ وسائل انسانی کی مرکزی وزیر نے تمام تعلیمی اداروں میں قومی پرچم کا لہرانا ضروری قرار دے دیا ہے ، تعلیمی اداروں کی آزادی اور خود مختاری ختم کی جارہی ہے جھوٹی حب الوطنی کے ایسے حالات پیدا کئے جارہے ہیں کہ آج پورے ملک میں طلبہ برادری کے اندر خوف وہراس پایا جارہا ہے حکومت اساتذہ اور طلبہ کے حوصلوں کو پست کرنا چاہتی ہے تاکہ کوئی سیکولرزم اور جمہوریت اور آزادی رائے کی بات نہ کرے ، آر اس اس کے سربراہ موہن بھاکوت کہتے آئے ہیں ہندوستان کے تعلیمی نظام کو ہندووں کے عقائد پر مبنی ہونا چلہئے، فلم میں بہت سے نام کے مسلمان ایکٹر بھی ہیں ، ان پر عدم رواداری کا الزام ہے ۔اب مسلمانوں کی صف سے ایک خاص مسلک ومشرب کے لوگوں کی کانفرنس کرکے مسلمانوں کے درمیان میں دراڑ ڈالنے کی کوشش بھی ہونے لگی ہے اور ایسے لوگوں کو پورے طور پر کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہوگئی ہے ۔ مسلمان معاشی اعتبار سے خستہ حال ہیں ، مسلمان تعلیمی اعتبار سے پسماندہ ہیں ، مسلمانوں کا سرکاری نوکریوں میں وجود نہیں کے برابر ہے ، فوج اور پولیس میں مشکل سے ان کا کوئی نشان ملتا ہے البتہ جیلوں میں وہ سب سے زیادہ ہیں اور اسپتالوں میں ان کا تناسب زیادہ ہے ، اب یہ کمزور اور بے وسیلہ مسلمان کیا کریں اور کہاں جائیں اب صورت حال یہ ہے کہ پورے ملک کو ایک خاص کلچر میں ضم کردینے کی کوشش ہورہی ہے یہ مشرکانہ کلچر ہے جسے مسلمان کسی حال میں قبول نہیں کرسکتے اس لئے نشانہ کے زد پرخاص طور پر مسلمان ہیں چنانچہ مسلمانوں سے انتقام لینے کیلئے مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے نام پر گرفتار کیا جارہا ہے اور بسا اوقات فرضی انکاوٹر کے ذریعہ انہیں ہلاک بھی کیا جاتا ہے ۔اسی مسلم دشمنی کا شاخسانہ ہے کہ مسلم یونیورسیٹی اور جامعہ ملیہ کے اقلیتی کردار کو چھیننے کی کوشش ہور ہی ہے اب ملک میں عدم رواداری اپنے شباب پر ہے اور اس کا احساس صرف مسلمانوں کو نہیں بلکہ انصاف پسند اور صاف ذہن کے برادران وطن کو بھی ہے اسی لئے انہوں نے بڑی تعداد میں احتجاج کے کے طور پر حکومت کو اپنے ایوارڈ بھی واپس کردئے ۔جہاں تو ممکن ہوسکا میں نے اختصار کے ساتھ حالات کا جائزہ لیا ہے حالات بہت سخت اور سنگین سہی لیکن ان ہی جانگسل حالات میں ہمیں اپنی تمام کوششیں بھی جاری رکھنی ہیں بقول شاعر ’’ رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ‘‘ پس چہ باید کرد ان حالات میں مسلمانوں کے لئے راہ عمل کیا ہے ؟ میں یہاں صاف طور پرکہنا چاہتاہوں جو راہ عمل میں پیش کرنے جارہاہوں نہ یہ اہل علم سے مخفی ہے اور نہ یہ حالات جن کا ذکر اوپر آیا ہے وہ کوئی پردہ خفا میں ہیں ۔ان کا بار بار دہرانا تحصیل حاصل ہے ، صرف سوال یہ ہے کہ عملی اقدام کیسے کیا جائے اور نظریہ کو عمل کا جامہ کیسے پہنایاجائے سستی کاہلی بے عملی کیسے دور کی جائے ، مسلمانوں کے اندر قوت ارادی کیسے پیدا کی جائے تمام مسئلوں کا اصل مسئلہ ، تمام مشکلات کا سرچشمہ یہ ہے کہ قوت ارادی اور قوت عمل ہم سے چھن گئی ہے۔ہم حالات بھی جانتے ہیں اور حل بھی جانتے ہیں اور اس حل تک پہنچنے کا شوق بھی رکھتے ہیں ، لیکن منزل کی طرف قدم آگے نہیں بڑھاتے ہیں ہماری تمام نکبت اور ناسازگاری اور حرماں نصیبی کا سبب بس یہی ہے ہم گفتار کے غازی ہیں کردار کے غازی نہیں ہیں، مسلمانوں کو اس ملک میں کیا کرنا ہے تعلیم کے محاذ پر کیا کرنا ہے سیاسی محاذ پر کیا کرنا ہے یہ باتیں سوبار دہرائی جاچکی ہیں اور آئیندہ بھی سوبار دہرائی جائیں گی ۔لیکن کوئی فائدہ نہیں ، ایک شخص بڑے سے بڑے عالم مفکر صاحب قلم کے فکر انگیز مضمون کو اس طرح پڑھتا ہے جیسے دسترخوان پر رسگلا کھاتا ہے پھر سب فراموش کردیتا ہے وہی عیش وطرب کی محفلیں وہی باتوں اور حکایتوں کی مجلسیں ، اس وقت مسلمانوں کو ایسی غذ ا ایسی دوا ایسی دعاء کی ضرورت ہے جو ان کے اندر قوت اردای اور قوت عمل کوٹ کوٹ کر بھر دے ۔ قوموں کی زندگی کا سب سے بڑا جانگسل روگ یہی ہے اور کوئی مسیحا اور طبیب اس کا علاج نہیں کرسکتا جب تک کہ مریض خود اپنے آپ کو ٹھیک کرنے کا عزم مصمم نہ کرلے ،علم نفسیات کے اعتبار سے ترتیب یہ ہوتی ہے کہ پہلے مرض کا علاج معلوم کرنا ہوتا ہے پھر علاج اور صحت کی خواہش پیدا ہوتی ہے شاید ملت مسلمہ صرف اسی خواہش کے مرحلہ پر رکی ہوئی ہے اگر صرف بے نام سی دھندھلی سی خواہش پیدا ہوکر رہ گئی تو کوئی فائدہ نہیں جب تک یہ خواہش جذبہ سے، بلکہ جذب دروں سے نہ بدل جائے اس کے بعد وہ قوت اردای درکار ہوتی ہے جو جذبہ کو قوت فیصلہ سے یعنی عزم سے نہ بدل دے پھر اس کے بعد عزم کو قوت عمل سے بدلنا ہوتا ہے ، منزل کی تلاش اور منزل تک پہونچنے کی خواہش اور پھر قوت اردای اوراس کے بعد قوت عمل ، ان سب کی حیثیت سنگ میل کی ہےٍ ان سب مرحلوں سے گذرنے کے بعد کامیابی کی منزل ملتی ہے ۔عمل کے بغیر صرف خواہش کا پایا جاناکسل مندی کاوہ مرض ہے جس سے پناہ مانگی گئی ہے اللہم انی اعوذ بک من العجز والکسل اگر صرف خواہش پیدا ہو کررہ جائے اور عمل کا حوصلہ نہ ہو تو خون آرزو انسان کا نصیبہ بن جاتاہے بقول شاعر غم آرزو کا حسرت سبب اور کیا بتاوں مرے حوصلہ کی پستی مرے شوق کی بلندی قرآن کی آیت ہے أنتم الاعلون ان کنتم مؤمنین( آل عمران آیت ۱۳۹) یعنی تم ہی سربلند ہوگے اگر تم صاحب ایمان ہوگے ۔ اگر ہم قرآن پر ایمان رکھتے ہیں تو ہمیں اس حل پر بھی ایمان لانا ہوگا ۔ قرآن نے کہا ہے کہ ’’ بدو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ان سے کہدو کہ تم ایمان نہیں لائے بلاکہ یہ کہو ہم مسلمان ہوگئے ، ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا ‘‘ یہ قرآن کی آیت( الحجرات ۱۴) کا ترجمہ ہے ۔ ہماری حالت زار بھی ان بدووں کی طرح ہوگئی ہے جن کے بارے یہ آیت نازل ہوئی تھی ہمارے دلوں کے اندر بھی ایمان داخل نہیں ہوا ہے کیونکہ ایمان جب داخل ہوتا ہے تو انسان کے اندر ایک بھونچال کی کیفیت پیدا ہوتی ہے وہ اعمال واخلاق میں بالکل دوسرا انسان ہوجاتا ہے اس کا کردار بلند ہوتا ہے، اس کا دل خدا کے خوف سے اور خلق خدا کی محبت سے لبریز ہوتا ہے حالات کو اگر بدلنا ہے تو اس بنیادی کام پر ہمیں توجہ مبذول کرنا چاہئے اور اگر یہ بنیادی تبدیلی ہم اپنےٍ اندر نہیں پیدا کرسکے تو اسباب کی سطح پرہماری تمام کوششیں نا کامی سے دوچار ہوجائیں گی مسلامان جو کئی سو سال حکومت کر چکے ہیں دلتوں سے بدتر ہوگئے ہیں ،اور آر اس اس نے ہندو طاقتوں کومتحد کرکے اپنے نمائندے نریندر مودی کے سر پر حکومت کا تاج رکھ دیا ہے ، مرکزی حکومت نے آراس اس کی پالیسی کا نفاذ بھی شروع کردیا ہے، یہ تو واقعی صورت حال ہے ، اب سوال یہ ہے مسلمانوں کی بے کسی اور کسمپرسی کیسے ختم کی جائے اور ظلم کے طوفان اور طغیان سے ان کو کیسے بچایا جائے ،کچھ امید کی سلور لائین بھی موجود ہے ۔ دہلی اور بہار میں بی جے پی کی شرمناک شکست ہوچکی ہے مہاراشٹرا گجرات اور تلگانہ کے بلدیاتی انتخابات میں بھی بی جے پی کی رسوائی ہوئی ہے ہندوستان میں اقتدار سے بی جے پی کو دور کرنا اس وقت خالص دینی کام ہے، کیونکہ اگر لوک سبھا کے بعد راجیہ سبھا میں بھی بی جیہ پی کو اکثریت حاصل ہوگئی تو وہ ملک کے دستورکو بدلنے اور ملک کو ہندو راشٹربنانے کی کوشش میں کامیاب ہوجائیں گے پھر یہ ملک مسلمانوں کے لئے دوسرا اسپین بن جائے گأ۔ضرورت اس بات کی ہے مسلمان قائدین آپس میں رابطہ قائم کریں اور اس کے لئے لائحہ عمل تیار کریں ۔اور اس کام کو خالص دینی کام سمجھیں روہیت مومیلا کی موت کے بعد دلت اور مسلم اتحاد نے بی جے پی کو حواس باختہ کردیا ہے لیکن ان باتوں پر بہت خوشی منانے کی ضرورت نہیں بی جے پی نے پسماندہ طبقات کوساتھ لینے کی کوششیں بھی شروع کردی ہیں اور پسماندہ طبقات میں ایسے بہت سے لیڈر ہیں جنہیں سستے داموں پر بھی خریدا جاسکتا ہے اب یہ مسلمانوں کا کام ہے کہ وہ دلتوں سے اس قدر قریب ہوں کہ بی جے پی کا جادو ان پر نہیں چل سکے مسلمانوں کے لئے یہ کام اس لئے بھی ضروری ہے کہ مظلوموں کا دفاع اور ظلم کا قلع وقمع اور ظالم کو ظلم سے روکنا مسلمانوں کی مذہبی ذمہ داری بھی ہے اس لئے بہت بڑے پیمانہ پر مسلمانوں کو یہ کام شروع کرنا چاہئے اور ہر شہرہر گاوں میں بلا تاخیر مسلمانوں کو اس کام کے لئے انصاف اور انسانیت کے نام سے منظم ہونا چاہئے اپنے محلہ اور اپنے علاقہ سے اس کام کو شروع کردینا چاہئے اور برادران وطن میں جو مظلوم ہیں ان کے ساتھ مل کر ایک پلیٹ فارم بنانا چاہئے ملک کو فاشزم سے بچانا اور برہمنزم کے بڑھتے ہوئے قدم کو روکنا مسلمانوں اور پسماندہ طبقات دونوں کے مفاد میں ہے ۔ سماجی کاموں میں خدمت خلق کا میدان بھی ہے ۔ مسلمانوں کو خدمت خلق کے میدان میں بھی اترنا ہوگا اور اپنی شرافت اور شائستگی اور خیر پسندی کا نقش غیر مسلموں پر بالخصوص پس ماندہ طبقات کے دلوں پر بٹھانا ہوگا غیر مسلموں سے تعلقات قائم کرنے کی مہم شروع کرنی ہوگی ، اسلام اور مسلمانوں کے سلسلہ میں جو غلط فہمیاں ہیں ان کو دور کرنے کی کوشش کرنی ہوگی اور ان سب کا موں کیلئے یعنی طوفان کا مقابلہ کرنے کیلئے میدان میں اترنا ہوگا اور اس زبان میں گفتگو کرنی ہوگی جو برادران وطن کی زبان ہے ٹکنیکل اور پیشہ ورانہ تعلیم اور آی آی ٹی کے کورسز مسلمانوں کی مضبوطی کے لئے بہت ضروری ہیں اب روایتی تعلیم بی اے بی اس سی وغیرہ بے فیض اور بے فائدہ ہوگئی ہے اور جولوگ یہ روایتی تعلیم حاصل کرتے ہیں ان کو اعلی تعلیمی اداروں میں ملازمت کے لئے اور حکومت کے انتظامی عہدوں کیلئے مقابلہ کے امتحانات آی اے اس اور آئی پی اس کے لئے تیار کرنا بھی مسلم قیادت کی ذمہ داری ہے اور مسلم قیادت میں ایسے لوگ ہیں جنہیں اس کا تجربہ ہے۔پیشہ ورانہ تعلیم کو ایک تحریک کی شکل دینے کی ضرورت ہے مسلمانوں کو اس میدان میں آگے بڑھنا چاہئے اور تمام رکاوٹوں کے باوجود مسلمانوں کو خود اپنے ادارے دلتوں اور اقلیتوں کے ساتھ مل کر قائم کرنا چاہئے ۔یہ وہ تعلیم ہے جس میں وہ ملک کے اندر اور باہرمسلمان اپنی جگہ بناسکتے ہیں اور معاشی استحکام لا سکتے ہیں ۔ تعلیمی اور معاشی اعتبار سے خود کو مستحکم بنانے کے لئے دوسروں سے زیادہ محنت کرنے کی عادت ڈالنی ہوگی اس بات کی ضرورت ہے کہ مسلمان کی یہ شناخت بن جائے کہ وہ زیادہ محنتی زیادہ ایمان دار اور اپنے پیشہ میں پختہ کار ہوتا ہے پیشہ وراہ پختگی اور لیاقت ( پرفکشن) کی تعلیم ہمیں اس حدیث میں ملتی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ اس بندے سے محبت کرتا ہے جو کوئی کام کرتا ہے تو اسے بہت اچھی طرح انجام دیتاہے( اذا عمل عملا اتقنہ) ۔مثال کے طور پر ایک انسان برتن بناتا ہے اور اس میں نفاست اور پختگی اور مہارت کا ثبوت دیتا ہے تو وہ اللہ کی محبت کا مستحق بن جالتا ہے ۔ہمیں اپنے پیشہ اور میدان کار میں سخت محنت کرنا ہے اور برادران وطن سے ممتاز ہونا ہے ، اس لئے کہ یہ دین بھی ہے اور دنیا میں عزت کا ذریعہ بھی ہے، اور اس کے بعد اپنے اولاد کی اچھی تعلیم وتربیت پر وقت صرف کرنا ہے وقت کو ضائع کرنے سے بچانا ہے ہمارا ایک منٹ بھی ضائع نہیں ہونا چاہئے ، وقت کے تلوں سے ہمیں سارا تیل نکال لینا ہے ۔ یہ ہے کامیابی اور سرخروئی کا راستہ۔ورطہ مشکلات سے باہر نکلنے کے لئے جادو کی کوئی چھڑی موجود نہیں ہے، یہ گویا عرصہ محشر ہے اور آواز آرہے ہے کہ ع ’’پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے‘‘۔مسلمان اگر ایسی قوم بن جائیں جو وقت کی بہت قدر شناس ہو تو سارا مسئلہ حل ہوسکتا ہے ۔ ان تمام تدبیروں کے ساتھ اس بات کی ضرورت ہے کہ مسلمان یہاں مسلمان بن کر رہیں ان کا عقیدہ درست ہو ، ان کا عمل صالح ہو، وہ باعمل مسلمان ہوں ان کے اخلاق بلند ہوں ، ان کا ایمان قوی ہو ، ان میں اتحاد ہو،وہ شرافت اور شائیستگی میں ممتاز ہوں ، ان کی رحم دلی خیر خواہی اور ایمانداری کانقش لوگوں کے دلوں میں بیٹھ گیا ہو ،یہ سب اسی صورت میں ممکن ہے جب مسلمان اپنے مستقبل کو روشن بنانے کے لئے سنجیدہ ہوجائیں ۔ ایک صور اسرافیل کی ضرورت ہے جو مسلمانوں کو خواب غفلت سے جگا دے جو ان کے اندر زبونی کا احسا س پیدا کردے ، جو مردہ انسانوں کو زندہ کردے جو انہیں حرکت و عمل پر آمادہ کردے۔ کاش کہ ایسا ہو کہ یہ اطلاعات ملنے لگیں کہ مختلف علاقوں کے مسلمان اس آواز پر لبیک کہنے کے لئے تیار ہوگئے ہیں حوادث اور مشکلات نے ان کے ایمان کو اور قوی کردیا ہے ، اور انہوں نے سنجیدہ قائدین کے ساتھ مل کر خیر سگالی کا وفد بنا کر دلتوں اور پسماندہ طبقات سے اجتماعی طور ملاقاتوں کا اور ان سے مستقل رابطہ قائم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔ الطاف حسین حالی نے اکتساب علم اور وقت کی قدر کرنے اور انسانی اقدار و اخلاق سے مزین ہونے کی جو نصیحتیں کی ہیں وہ آج بھی تیر بہدف نسخہ کی حیثیت رکھتی ہیں کرو علم سے اکتساب شرافت نجابت سے یہ ہے شرافت زیادہ فراغت سے دنیا میں دم بھر نہ بیٹھو اگر چاہتے ہو فرا غت زیادہ فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ