چتونوں سے ملتا ہے کچھ سراغ باطن کا

Bhatkallys

Published in - Other

05:03AM Sat 23 Apr, 2016
حفیظ نعمانی اس بات کو اب تو شاید دس دن ہوگئے ہوں گے جب کبھی کے بابا رام دیو اور آج کے کاروباری رام دیو یادو نے اپنی اس گیروئی پوشاک میں کہہ دیا تھا کہ ہم اس ملک کے قانون کا لحاظ کرتے ہیں۔ ورنہ جو یہ کہے کہ ہم بھارت ماتا کی جے نہیں بولیں گے اس کی کیا ایک لاکھ کی گردن ہم کاٹ کر پھینک دیتے؟ ہمارے مسلمان دوستوں نے اسے بڑی سنجیدگی سے لیا اور ہم سے بھی کہا کہ آپ کو اس کے بارے میں لکھنا چاہئے۔ لیکن ہم نے اسے اس قابل نہیں سمجھا کہ اسے موضوع بنائیں اور ہم کچھ کہیں، اس پر کوئی دوسرا کچھ اور کہے۔ ہم جس وجہ سے چپ تھے اسے ڈاکٹر حمزہ بلال صاحب نے پھر چھیڑ دیا اور رام دیو یادو کو قانونی نوٹس بھیج دیا۔ اور ان کا یہ بھی ارادہ ہے کہ اگر انہوں نے جواب نہیں دیا۔ یا اپنی بات پر اصرار کیا تو وہ ان کے خلاف مقدمہ دائر کریں گے۔ افسوس ہے کہ ہم ڈاکٹر صاحب سے واقف نہیں ہیں لیکن یہ درخواست کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ وہ اگر کوئی خاص وجہ نہ ہو تو اسے طول نہ دیں۔ اس معاملہ میں ہمارا ایک لفظ بھی نہ لکھنا اس وجہ سے تھا کہ ہم اس موضوع کو چھیڑکر رام دیو یادو کو اہمیت نہیں دینا چاہتے تھے۔ محترم ڈاکٹر صاحب اور تمام قارئین کرام یہ سوچیں کہ ایک آدمی کی تین سال پہلے یہ حیثیت ہو کہ وہ جب ایک ہوائی اڈہ پر جہاز سے اترے تو مرکزی حکومت کے تین سینئر وزیر اس کے استقبال کے لئے موجود ہوں اور ایئرپورٹ پر ہی اعزاز و اکرام کے ساتھ اس سے گھنٹوں بات کرکے اسے منانے کی کوشش کریں۔ پھر بھی بات پوری نہ ہو تو اس دن کسی پانچ ستارہ ہوٹل میں وہی وزیر مزید بات کریں اور ان کی ہر بات تسلیم کرلیں۔ یا یہ حیثیت ہو کہ پریس کے بڑے بڑے صحافی اس سے سوال کرنے کے لئے ہر جگہ موجود رہیں اور وگیان پرکاش جیسے چوٹی کے صحافی ان کے آشرم میں ان سے بات کرنے جائیں اور بابا کھڑاؤں پہن کر پرکاش صاحب کے ساتھ پہلے ٹہل ٹہل کر بات کریں۔ اس کے بعد ایک انتہائی حسین چھپر کے اندر صوفے پر بیٹھ کر بات مکمل کریں اور موضوع ہو غیرملکوں میں چار لاکھ کروڑ بلیک منی۔ جس کے ملک میں آنے کے بعد کوئی غریب نہیں رہے گا اور روپیہ ڈالر کے برابر ہو جائے گا اور وہی بابا جب رجت شرما کے چینل آپ کی عدالت میں ایک بار نہیں کئی بار بلائے جائیں اور جب ان سے سوالات کی جھڑی لگادی جائے تو ہم جیسے معاشیات اور اقتصادیات سے نابلد بابا رام دیو کی معلومات کو سن کر عش عش کرنے لگیں۔ اور وہی آدمی جب کہے کہ میں اپنے دیش باسیوں کو مشورہ دوں گا کہ وہ بوتلوں میں بند ٹھنڈے مشروب پینا بند کریں یہ میٹھا زہر ہے۔ انہیں پینا ہے تو وہ دودھ پئیں مٹھا پئیں یا لسّی پئیں۔ اور جب وہ صحت اور وزن کم کرنے کے لئے مشورہ دیں کہ لوکی اور کریلے کا جوس صبح نہار منھ پئیں تو بازار میں لوکی اور کریلا مہنگا ہوجائے اور کوکا کولا جیسے مشروب سے ایسی توبہ کی جائے جس میں توبہ مکہ اور مدینہ میں شراب کے حرام ہونے پر کی گئی تھی۔ اور جب وہ لوک سبھا کے الیکشن میں اشارہ دے دے کہ اس کالے دھن کو نریندر مودی واپس لاسکتے ہیں۔ اور وہ خود اس کا کیا کریں گے۔ کیونکہ ان کی تو نہ جورو ہے نہ جاتا؟ اور کروڑوں ہندوستانی صرف بابا رام دیو کا اشارہ پاکر مودی کو اتنے ووٹ دے دیں جتنے اٹل جی جیسا ان سے دس گنا بڑا لیڈر بھی نہ لے سکا۔ اور آج وہ آدمی ایسا ہوگیا ہو کہ کوئی ٹی وی پر اس کی صورت بھی دیکھنا نہیں چاہتا اور وہ بھول گیا کہ قوم سے کیسے کہا جاتا ہے کہ تم کیا کرو صرف اس لئے کہ رہے مودی صاحب نے کہیں کا نہ چھوڑا۔ اور اب وہ میگی، صابن، تیل، کریم، پاؤڈر، کھانے کا تیل، گائے کا گھی‘ دانتوں کا پیسٹ، آٹا، چاول، دال، گھی کوارکا جوس غرض کہ اسے جو بتادے کہ بازار میں اس چیز کی مانگ زیادہ ہے۔ وہی بنانے لگتا ہے۔ اور وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ مکیش امبانی، انل امبانی اور ٹاٹا کی اس لئے عزت نہیں ہے کہ وہ قابل ہیں بلکہ اس لئے ہے کہ ان کے پاس پیسے بہت ہیں۔ اس لئے اب رام دیو یادو صرف پیسے کمانے پر لگ گئے ہوں۔ اور وہ عزت کے ان دنوں کو یاد کرکے جنہیں مودی صاحب کے فریب اور دھوکوں نے مٹی میں ملا دیا چڑچڑے ہوگئے ہیں۔ اور ہونا بھی چاہئے۔ کہاں وہ بابا کہ مرکزی وزیر ہاتھ باندھے پیچھے پیچھے پھریں اور کہاں وہ رام دیو یادو کہ معمولی افسر ان کے بنائے ہوئے سامان کا نمونہ بھریں۔ کہ اگر معیار پر پورا نہ اترے تو انہیں سزا دی جائے گی۔ زمین اور آسمان کے اس فرق کے بعد وہ اگر گالیاں بھی بکیں تو اس لئے نظر انداز کردینا چاہئے کہ ان کا نشانہ مودی ہیں۔ مودی صاحب کی چالاکی یہ ہے کہ انہوں نے رام دیو کے ساتھ وہ کیا جو شوقین مسلمان قربانی کے لئے برسوں بکرے کو چنے اور خشک میوے کھلاکر پچاس کلو کا بنا دیتا ہے اور پھر اسے قربان کرتا ہے۔ نریندر مودی نے یہی کیا۔ اب مودی رام دیو یادو کو انل امبانی تو بنا سکتے ہیں لیکن بابا رام دیو نہیں بنا سکتے۔ اور وہ اپنے اس زوال کے بعد کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ کسی کی جان بھی لے سکتے ہیں اور خودکشی بھی کرسکتے ہیں۔ اس لئے ڈاکٹر بلال جیسے محترم حضرات کو اثر نہ لینا چاہئے۔ بعض باتیں وہ ہوتی ہیں جو ضد کے خانہ میں آتی ہیں۔ ہم سن رہے تھے کہ جب آر ایس ایس کے ایک بڑے نیتا یہ ہدایتیں دے رہے تھے کہ حکومت کو کیا کرنا چاہئے اور کارسیوکوں کو کیا کرنا چاہئے؟ اس میں انہوں نے کہا تھا کہ بچوں کو سکھائیں کہ وہ بھارت ماتا کی جے کہا کریں۔ ہمیں یقین ہے کہ ان کے ذہن میں الفاظ نہیں جذبہ ہوگا کہ بچے اپنے ملک سے محبت کریں۔ وہ بابا رام دیو ہوں یا کوئی دوسرا سنگھ کے لیڈر اسے اتنی عقل تو ہونا چاہئے کہ وہ جن مسلمانوں کو ملک سے محبت کا سبق پڑھا رہے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا‘ کوئی بھی تعلیم یافتہ ہندو سمجھ سکتا ہے کہ بھارت ماتا کی جے سے صرف اپنے بھارت سے محبت ظاہر ہوتی ہے۔ اور سارے جہاں سے اچھا کہنے سے صرف محبت ہی نہیں یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا کا اور کوئی بھی ملک اس سے اچھا نہیں ہے۔ اب سوچئے کہ سنگھی نیتا نے جو کہا وہ بڑی بات ہے یا جو اقبال نے کہا وہ بڑا ہے؟ اس میں آگے ہے کہ ’ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا‘ اس کے بعد جو وہ کہے جو رام دیو یادو کہہ رہے ہیں تو وہ سوچنے کی نہیں۔ ان کی عقل پر ترس کھانے کی بات ہے۔ ایسی باتوں پر وہ بھی نہ کہنا چاہئے جو اویسی صاحب نے کہا اور وہ بھی نہیں جو رام دیو نے کہا اس لئے اب خاموش ہوجانا چاہئے۔