سیرت نبوی سے متعلق کوئی سی کتاب اُٹھالیجئے، اور اس کے مطالعہ کے بعد یہ سوچئے ، کہ رسول خدا ﷺ کی زندگی کا مرکزی نقطہ کیاتھا؟ سب سے زیادہ عزیز حضورؐ کو کون سے شے تھی؟ سب سے زیادہ محبوب مشغلہ حضورؐ کا کیا تھا؟ اس کے جواب میں صرف ایک شے آپ کو ملے گی۔ ’’عبادت الٰہی‘‘ شب روز میںکتنی زائد نمازیں آپ پڑھتے تھے، رات کو کس ذوق وشوق کے ساتھ باربار بیدار ہوکر آپ نماز ومناجات میں مصروف ہوجاتے تھے، ہر سال اور ہرمہینے کتنے روزے آپ لگاتار رکھاکرتے تھے۔ صدقات وخیرات دینے پر آپ ہر وقت کیسے آمادہ ومستعد رہتے تھے، حج وعمرہ کی برکتیں آپ کو کس قدر عزیز تھیں، اُٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے، سونے جاگنے، چلنے پھرنے، اور اس طرح کی چھوٹی بڑی تمام بشری ضرورتوں کے شروع اور آخر میں آپ کس طرح دعا وذکر الٰہی کا اہتمام رکھتے تھے، خدمتِ خلق پر آپ کس درجہ حریص تھے، خوف خدا سے آپ کس بڑی حد تک لرزاں وترساں رہتے تھے، قناعت وایثار سے ذاتِ مبارک کیسی لبریزتھی، یہ تمام خصوصیات آپ کو سیرتِ اقدس کے ہرہر جزئیہ میں نمایاں نظرآئیں گے۔
یہ نہ تھا، کہ آپ کی زندگی، دنیا سے الگ بالکل گوشہ نشینی کی ہو۔ آپ کے سر تو اس قدر کام رہتے تھے ، کہ بڑے سے بڑے کاروباری شخص کے پاس بھی اس سے زائد کام نہیں ہوسکتے۔ ایک نہیں، متعدد بیویاں تھیں، کئی کئی اولادیں تھیں، دوستوں اور دشمنوں دونوں کی بہت بڑی تعداد سے ہر وقت سابقہ رہتاتھا،فوج کے انتظامات کرنا ہوتے تھے، مالی معاملات کا انصرام کرناہوتاتھا، غیر قوموں اور سلطنتوں کے ہاں سے قاصدوں کی آمدورفت رہتی تھی، بڑے بڑے سفر کرنے ہوتے تھے۔ غرض جو کام بہت سے لوگوں کی ایک جماعت مل کر انجام دے سکتی ہے وہ بنفس نفیس حضورؐ اپنی ذات سے انجام دیتے تھے، لیکن بایں ہمہ عبادات الٰہی میں کبھی فرق نہیں پڑنے پاتاتھا، ذوق وشوق، شغف وانہماک کی شے وہی یاد الٰہی رہتی تھی۔ بلکہ کہنا یہ چاہئے، کہ سفر وحضر، خلوت وجلوت، کے تمام مشغلوں ، ساری مصروفیتوں، اور کُل کاروبار کی اصلی کنجی صرف طاعت باری ویاد خدا تھی۔ رسول خدا ﷺ کی حیات مبارک اس ’’عبدیت‘‘ کی کامل ترین مظہر تھی، باقی صحابۂ کرام ، اور دیگر بزرگان ملت کی زندگیاں ، ہرزمانہ میں ، کم وبیش اسی نمونہ کے مطابق رہی ہیں۔
اس کے بعد آپ اپنی زندگی پر غور فرمائیے۔ آپ کی رغبت ودلچسپی ، آپ کے ذوق وشوق، آپ کی توجہ وکوشش کی مرکز کون سی چیزیں ہیں؟ خوشنما کپڑے ، لذیذ کھانا، آراستہ مکان، بیوی، اولاد، بڑی تنخواہ، نام ونمود، دھوم دھام کے جلسے ، نوکر چاکر، ساز وسامان، بس یہی، یا وہ چیزیں جواسی قبیل سے ہیں۔ ہم میں سے ایک بڑی تعداد تو ایسی ہے ، جو عبادت کو سرے سے غیر ضروری ہی سمجھے ہوئے ہے، لیکن جولوگ بظاہر نماز وروزہ کے پابند ہیں، وہ بھی اپنی جگہ پر سوچیں، کہ آیا ان فرائض کو ادا کرنا، ، اپنے سرسے محض، ایک بار کا اُتارنا خیال کرتے ہیں، یا ان اعمال کو دلی ذوق وشوق سے بھی اداکرتے ہیں؟ کھانا رسول ؐ بھی نوش فرماتے تھے، اگر محض اس لئے اور اس لحاظ سے ، کہ بغیر غذا کے جسم انسانی زیادہ عرصہ تک قائم نہیں رہ سکتا ، آپ کی اصلی راحت ومسرت کی شے آپ کی آنکھ کی ٹھنڈک نماز تھی۔ ہم لوگوں نے اس ترتیب کوبالکل اُلٹ دیا، ہم اگر نماز پڑھتے بھی ہیں، تو گویا دل پر جبر کرکے ، اور س کی ادائی میں زیادہ سے زیادہ آسانیاں تلاش کرکے۔ اور ہماری اصلی جی لگنے کی چیزیں دنیوی کاروبار ہیں۔ پھر جب ہم اسلامی زندگی کے صحیح مرکز سے اس قدر دور جاپڑے ہیں ، جب ہم میں خدا کی بتائی ہوئی ترتیب زندگی کو اس قدر پلٹ دیاہے جب بجائے عبادت کے ہم نے لذات اور مادیت کو اپنا مقصد زندگی قرار دے لیاہے تو ایسی حالت میں اگر ہم اسلام کی دینی ودنیوی دونوں قسم کی برکتوں سے محروم ہوگئے ہیں تو اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟