کیجروال حکومت اور ملی پالیسی۔۔۔۔ عبد المتین منیری

Bhatkallys

Published in - Other

02:02PM Tue 26 May, 2020

کیجروال حکومت اور ملی پالیسی

ودود ساجد بڑے منجھے ہوئے صحافی ہیں، اور اپنے کالموں میں امت اسلامیہ ہندیہ جذبات کی درست نمائندگی کرتے ہیں

 ودود ساجد نے کیجریوال کو اپنے ایک کالم میں جو آئینہ دکھایا ہےاسکی درستگی اپنی جگہ، لیکن الیکشن کے وقت مسلمانوں نے جو فیصلہ کیا تھا وہ بھی درست تھا، اگر دہلی میں مرکزی پارٹی نہ ہارتی تو صورت حال اس سے بہت زیادہ خراب ہوتی ، فرعونیت کا مزید بول بالا ہوتا، یہاں یوپی سے بد تر صورت حال ہوتی،کیونکہ تقسیم ہند کے فورا بعد نہرو اور پٹیل کی کیبینٹ نے فیصلہ کیا تھا کہ دہلی چونکہ ملک کا دارالحکومت ہے اسے مسلمانوں سے خالی کرکے خالص اکثریتی شہر بنایا جائے، لہذا نہرو جی نے براہ راست مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی اور مولانا احمد سعید دہلوی سے یہ بات کہی تھی، اس کا تذکرہ اس دور کے عینی شاہد ڈاکٹر محمد عابد اللہ انصاری غازی نے بھی ایک ویڈیو انٹرویو میں کیا ہے، توفیق یزدی اور ان بزرگوں کی ہمت اور رہنمائی کے بدولت مسلمانوں کے قدم دہلی میں ٹہرے، لیکن یہ بات نہیں بھولنی چاہئے  کہ تقسیم ہند کے وقت سے حکومت کی پالیسی سازسیکولر ہوں یا غیر سیکولر  سبھی اسی پالیسی پرگامزن ہوکر آگے بڑھنے کی کوشش میں ہیں ، مسلمانوں کو یہ زمینی حقیقت سامنے رکھنی چاہئے۔

دوسرے یہ مسلمانوں کے ووٹوں کو بے وقعت اور انہیں تنہا کرنے کی پالیسی بھی آج کی نہیں ہے، لوگ بھول رہے ہیں کہ تحریک خلافت کی ناکامی کے بعد مسلمان مکمل مایوسی کا شکار ہوگئے تھے، آزادی ہند میں ہم جن قربانیوں کا ذکر کرتے ہیں یہ زیادہ تر تحریک خلافت سے پہلے کی ہیں، جلیان والہ باغ کے وحشت ناک ظلم اور بھگت سنگھ کی پھانسی کے بعد حالات میں جب تحریک آزادی کو مہمیز ملی تو اس وقت  مخلص ملی قیادت کا اثر خود ملت میں کمزور ہوگیا تھا، اس وقت کے ایک مفکرنے جس کا تعلق مسلم لیک سے نہیں تھا، ان کا کہنا ہے کہ:

((اور ۱۹۲۹ تک پہنچتے پہنچتے گاندھی جی نے مسلمانوں کی اس کمزوری کو بھانپ لیا کہ یہ قوم بالکل پراگندہ ہوچکی ہے،اس میں کوئی قیادت باقی نہیں  رہی ہے،اس کے اندر کوئی تنظیم باقی نہیں رہی ہے،اور اب میں صرف ہندووں کو لے کر اور انگریزی حکومت سے لڑ کرآزادی حاصل کرسکتا ہوں،۱۹۲۹ میں پہلی مرتبہ اس نے مسلمانوں کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ

With you without you in spite of you

میں آزادی کی جنگ لڑوں گا تم ساتھ آو تو آو۔ نہیں آتے تمھارے بغیر لڑون گا۔مزاحمت کروگے تو تمہاری مزاحمت کےباوجود لڑوں گا۔  ۱۹۲۹ میں اس شخص نے پہلی بار یہ بات کہی))۔

یہ بات تو پرانی بات ہے، ہم نے صرف سنی ہے، لیکن ایمرجنسی کے بعد الیکش میں جب اندراجی کی ہار ہوئی اور جنتا پارٹی کی حکومت آئی تو اسے انداز ہوا کی آر یس یس کی جڑیں کہاں تک پہنچ چکی ہیں، تو غالبا ۱۹۸۱ء الیکشن کے موقعہ پر اغیار کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے اس نے مسلمانوں سے کہا تھا کہ مجھے تمہارے ووٹوں کی ضرورت نہیں، کہا جاتا ہے کہ آریس یس کے ووٹ بنک پر قبضہ کے لئے درپردہ وی ہچ پی کے قیام میں اندراجی کی سرپرستی حاصل رہی، خاص طور پر اس وقت کے وزیر اعلی اور اندرا کے مخلص ساتھی  نرائن دت تیواری اس کی کانفرنسوں میں آگے آگے رہے، اور شاید وی ہیچ پی کے پہلے یا کسی بڑے اجلاس میں اندراجی کے مہمان خصوصی بننے کی خبریں اس وقت پڑھنا یاد ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بھنڈران والے ان کے قریب تھے، لیکن قوم پرستوں کے ووٹ کھینچنے کے لئے سورن مندر کے مسئلہ کو اتنا خراب ہونے دیا گیا ۔

دہلی الیکشن کے موقعہ پر ہم تو وہاں نہیں تھے، لیکن بی بی سی پر رپورٹیں پڑھیں تھیں، کہ اکثریت کی ناراضگی سے بچنے کے لئے کیجروال نے الیکشن میں سی اے اے اور ین آر پی کو موضوع نہیں بنایا، اس نے اپنی کارگردگی کو سامنے رکھا تھا، اب ہمارے سامنے چار سال باقی ہے، اگر یہ صورت حال ہے کہ کیجروال کی مسلمانوں کی طرف سے شدید مخالفت پر اگر وہ مسلمانوں سے پلا جھاڑ دے تو پھر اس سے مسلمانوں کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا، اور نقصان زیادہ ہوگا۔ کیجروال کی بھی سیاسی مجبوریاں ہے۔ وہ نہیں چاہیں گے نجیب جنگ کے ساتھ جو صورت حال گزشتہ دور حکومت میں ہوئی اب کے بھی وہ صورت حال ہو۔ اس کی خواہش ہوگی کہ مرکز سے اسے خوب پیسہ ملے تاکہ وہ اپنے پروجکٹوں کو کامیابی سے ہمکنار کرے۔ ابھی اس کے پاس چار سال سے زیادہ عرصہ حکومت کے لئے باقی ہے، مسلمانوں کو حکومت سے دشمنی مول لینے کے بجائے اس سے منفعت حاصل کرنے کی راہیں نکالنی چاہئیں، ووٹ دینے کے بعد دشمنی مول لے کر فائدہ اٹھانے کی راہیں مسدود کرنا مصلحت نہیں ہے۔

ہمارے ایک مسلم قائد ہوا کرتے تھے، بڑے ہی مخلص، اب لوگ ان کا نام بھی بھول چکے ہیں، ابراہیم سلیمان سیٹھ، کوچین میں ان کا آبائی کاربار تھا، لیکن شاید وہ بنگلور کے تھے، ہمیں معلوم نہیں انہیں ملباری زبان کہاں تک آتی تھی، کیونکہ ان کی شہرت اردو خطیب کی حیثیت سے تھی، وہ کیرالا کی منجری سیٹ سے  مسلم لیگ کی ٹکٹ پر جیت کر آتے تھے،کنوینسنگ کے لئے انہیں کبھی اپنے حلقے میں جانا نہیں پڑتا تھا، آزادی کے بعد جب انڈین یونین مسلم لیگ قائم ہوئی تھی تو یہ مارکسٹ کیمونسٹ پارٹی کے ساتھ جیت کر آئی تھی، مارکسٹ پارٹی کانگریس کی سخت دشمن تھی، بعد میں لیگ نے مارکسٹوں کا ساتھ چھوڑ دیا، تو مارکسٹ لیگ کے جانی دشمن بن گئے، تب سے لیگ کانگریس کی اتحادی بن کر حکومت کے مزے لوٹ رہی ہے، جس سے مسلمانوں کی سیاسی قوت بھی مضبوط ہے، بابری مسجد کی شہادت کے وقت سلیمان سیٹھ انڈین یونین مسلم لیگ کے صدر تھے، ممبئی  اور چنئی کو چھوڑ کر لیگ کا ہندوستان بھر میں کہیں اثر نہیں تھا، اس کی اصل طاقت  ملبار میں تھی۔ اور سیٹھ صاحب کل ہند پلیٹ فارموں مسلم پرسنل لابورڈ وغیرہ میں اردو والوں کے ساتھ رہتے بستے تھے، ان کی قیادت والی لیگ کے کیرالا میں کانگریس کا اتحادی ہونے کی وجہ سے انہیں اپنے ساتھیوں میں بڑی شرمندگی کا سامنا پڑتا تھا، سیٹھ صاحب نے لیگ کو مجبور کیا کہ کانگریس کا اتحاد چھوڑدے۔ اور کمونسٹوں نے بھی انہیں گرین سگنل دیا کہ کانگریس سے اتحاد چھوڑدیا جائے تو ہم آپ کے اتحادی بنیں گے، کیرالا کی لیڈرشب اس کے لئے تیار نہ تھی، لیکن ان کے اصرار پر کانگریس کا اتحاد توڑ دیا گیا،لیکن اتحاد توڑنے کے بعد مارکسٹوں نے دھوکہ دے دیا، کہ ہم کسی مذہب سے جڑی پارٹی سے اتحاد نہیں کرتے، دھوبی کا گدھا نہ گھر کا رہا نہ گھاٹ کا، جس کے بعد لیگ کا شکار ہوئی، اور ملباری مسلمانوں کی بڑی جگ ہنسائی ہوئی، جس کے بعد سیٹھ صاحب کو لیگ سے نکالا گیا، اور دھوبی کا گدھا واپس ۔۔۔۔۔۔

سیاست میں ایسے مواقع آتے رہتے ہیں، کیجروال کی سیاست یہی رخ اختیار کرتی جارہی ہے، مسلمانوں کی توجہ آئندہ چار سال تک جذباتی مخالف ماحول بنانے کے بجائے، اس حکومت سے جتنا فائدہ اٹھا سکتے ہوں اس پر دینی چاہئے۔ یہ ہماری ناقص رائے ہے۔

عبد المتین منیری

۲۰۲۰۔۰۵۔۲۵

 

ودود ساجد بڑے منجھے ہوئے صحافی ہیں، اور اپنے کالموں میں امت اسلامیہ ہندیہ جذبات کی درست نمائندگی کرتے ہیں

 ودود ساجد نے کیجریوال کو اپنے ایک کالم میں  ان کی عید مبارک نہ قبول کرکے انہیں جو آئینہ دکھایا ہےاسکی درستگی اپنی جگہ، لیکن الیکشن کے وقت مسلمانوں نے جو فیصلہ کیا تھا وہ بھی درست تھا، اگر دہلی میں مرکزی پارٹی نہ ہارتی تو صورت حال اس سے بہت زیادہ خراب ہوتی ، فرعونیت کا مزید بول بالا ہوتا، یہاں یوپی سے بد تر صورت حال ہوتی،کیونکہ تقسیم ہند کے فورا بعد نہرو اور پٹیل کی کیبینٹ نے فیصلہ کیا تھا کہ دہلی چونکہ ملک کا دارالحکومت ہے اسے مسلمانوں سے خالی کرکے خالص اکثریتی شہر بنایا جائے، لہذا نہرو جی نے براہ راست مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی اور مولانا احمد سعید دہلوی سے یہ بات کہی تھی، اس کا تذکرہ اس دور کے عینی شاہد ڈاکٹر محمد عابد اللہ انصاری غازی نے بھی ایک ویڈیو انٹرویو میں کیا ہے، توفیق یزدی اور ان بزرگوں کی ہمت اور رہنمائی کے بدولت مسلمانوں کے قدم دہلی میں ٹہرے، لیکن یہ بات نہیں بھولنی چاہئے  کہ تقسیم ہند کے وقت سے حکومت کی پالیسی سازسیکولر ہوں یا غیر سیکولر  سبھی اسی پالیسی پرگامزن ہوکر آگے بڑھنے کی کوشش میں ہیں ، مسلمانوں کو یہ زمینی حقیقت سامنے رکھنی چاہئے۔

دوسرے یہ مسلمانوں کے ووٹوں کو بے وقعت اور انہیں تنہا کرنے کی پالیسی بھی آج کی نہیں ہے، لوگ بھول رہے ہیں کہ تحریک خلافت کی ناکامی کے بعد مسلمان مکمل مایوسی کا شکار ہوگئے تھے، آزادی ہند میں ہم جن قربانیوں کا ذکر کرتے ہیں یہ زیادہ تر تحریک خلافت سے پہلے کی ہیں، جلیان والہ باغ کے وحشت ناک ظلم اور بھگت سنگھ کی پھانسی کے بعد حالات میں جب تحریک آزادی کو مہمیز ملی تو اس وقت  مخلص ملی قیادت کا اثر خود ملت میں کمزور ہوگیا تھا، اس وقت کے ایک مفکرنے جس کا تعلق مسلم لیک سے نہیں تھا، ان کا کہنا ہے کہ:

اور ۱۹۲۹ تک پہنچتے پہنچتے گاندھی جی نے مسلمانوں کی اس کمزوری کو بھانپ لیا کہ یہ قوم بالکل پراگندہ ہوچکی ہے،اس میں کوئی قیادت باقی نہیں  رہی ہے،اس کے اندر کوئی تنظیم باقی نہیں رہی ہے،اور اب میں صرف ہندووں کو لے کر اور انگریزی حکومت سے لڑ کرآزادی حاصل کرسکتا ہوں،۱۹۲۹ میں پہلی مرتبہ اس نے مسلمانوں کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ

With you without you in spite of you

میں آزادی کی جنگ لڑوں گا تم ساتھ آو تو آو۔ نہیں آتے تمھارے بغیر لڑون گا۔مزاحمت کروگے تو تمہاری مزاحمت کےباوجود لڑوں گا۔  ۱۹۲۹ میں اس شخص نے پہلی بار یہ بات کہی۔

یہ بات تو پرانی بات ہے، ہم نے صرف سنی ہے، لیکن ایمرجنسی کے بعد الیکش میں جب اندراجی کی ہار ہوئی اور جنتا پارٹی کی حکومت آئی تو اسے انداز ہوا کی آر یس یس کی جڑیں کہاں تک پہنچ چکی ہیں، تو غالبا ۱۹۸۱ء الیکشن کے موقعہ پر اغیار کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے اس نے مسلمانوں سے کہا تھا کہ مجھے تمہارے ووٹوں کی ضرورت نہیں، کہا جاتا ہے کہ آریس یس کے ووٹ بنک پر قبضہ کے لئے درپردہ وی ہچ پی کے قیام میں اندراجی کی سرپرستی حاصل رہی، خاص طور پر اس وقت کے وزیر اعلی اور اندرا کے مخلص ساتھی  نرائن دت تیواری اس کی کانفرنسوں میں آگے آگے رہے، اور شاید وی ہیچ پی کے پہلے یا کسی بڑے اجلاس میں اندراجی کے مہمان خصوصی بننے کی خبریں اس وقت پڑھنا یاد ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بھنڈران والے ان کے قریب تھے، لیکن قوم پرستوں کے ووٹ کھینچنے کے لئے سورن مندر کے مسئلہ کو اتنا خراب ہونے دیا گیا ۔

دہلی الیکشن کے موقعہ پر ہم تو وہاں نہیں تھے، لیکن بی بی سی پر رپورٹیں پڑھیں تھیں، کہ اکثریت کی ناراضگی سے بچنے کے لئے کیجروال نے الیکشن میں سی اے اے اور ین آر پی کو موضوع نہیں بنایا، اس نے اپنی کارگردگی کو سامنے رکھا تھا، اب ہمارے سامنے چار سال باقی ہے، اگر یہ صورت حال ہے کہ کیجروال کی مسلمانوں کی طرف سے شدید مخالفت پر اگر وہ مسلمانوں سے پلا جھاڑ دے تو پھر اس سے مسلمانوں کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا، اور نقصان زیادہ ہوگا۔ کیجروال کی بھی سیاسی مجبوریاں ہے۔ وہ نہیں چاہیں گے نجیب جنگ کے ساتھ جو صورت حال گزشتہ دور حکومت میں ہوئی اب کے بھی وہ صورت حال ہو۔ اس کی خواہش ہوگی کہ مرکز سے اسے خوب پیسہ ملے تاکہ وہ اپنے پروجکٹوں کو کامیابی سے ہمکنار کرے۔ ابھی اس کے پاس چار سال سے زیادہ عرصہ حکومت کے لئے باقی ہے، مسلمانوں کو حکومت سے دشمنی مول لینے کے بجائے اس سے منفعت حاصل کرنے کی راہیں نکالنی چاہئیں، ووٹ دینے کے بعد دشمنی مول لے کر فائدہ اٹھانے کی راہیں مسدود کرنا مصلحت نہیں ہے۔

ہمارے ایک مسلم قائد ہوا کرتے تھے، بڑے ہی مخلص، اب لوگ ان کا نام بھی بھول چکے ہیں، ابراہیم سلیمان سیٹھ، کوچین میں ان کا آبائی کاربار تھا، لیکن شاید وہ بنگلور کے تھے، ہمیں معلوم نہیں انہیں ملباری زبان کہاں تک آتی تھی، کیونکہ ان کی شہرت اردو خطیب کی حیثیت سے تھی، وہ کیرالا کی منجری سیٹ سے  مسلم لیگ کی ٹکٹ پر جیت کر آتے تھے،کنوینسنگ کے لئے انہیں کبھی اپنے حلقے میں جانا نہیں پڑتا تھا، آزادی کے بعد جب انڈین یونین مسلم لیگ قائم ہوئی تھی تو یہ مارکسٹ کیمونسٹ پارٹی کے ساتھ جیت کر آئی تھی، مارکسٹ پارٹی کانگریس کی سخت دشمن تھی، بعد میں لیگ نے مارکسٹوں کا ساتھ چھوڑ دیا، تو مارکسٹ لیگ کے جانی دشمن بن گئے، تب سے لیگ کانگریس کی اتحادی بن کر حکومت کے مزے لوٹ رہی ہے، جس سے مسلمانوں کی سیاسی قوت بھی مضبوط ہے، بابری مسجد کی شہادت کے وقت سلیمان سیٹھ انڈین یونین مسلم لیگ کے صدر تھے، ممبئی  اور چنئی کو چھوڑ کر لیگ کا ہندوستان بھر میں کہیں اثر نہیں تھا، اس کی اصل طاقت  ملبار میں تھی۔ اور سیٹھ صاحب کل ہند پلیٹ فارموں مسلم پرسنل لابورڈ وغیرہ میں اردو والوں کے ساتھ رہتے بستے تھے، ان کی قیادت والی لیگ کے کیرالا میں کانگریس کا اتحادی ہونے کی وجہ سے انہیں اپنے ساتھیوں میں بڑی شرمندگی کا سامنا پڑتا تھا، سیٹھ صاحب نے لیگ کو مجبور کیا کہ کانگریس کا اتحاد چھوڑدے۔ اور کمونسٹوں نے بھی انہیں گرین سگنل دیا کہ کانگریس سے اتحاد چھوڑدیا جائے تو ہم آپ کے اتحادی بنیں گے، کیرالا کی لیڈرشب اس کے لئے تیار نہ تھی، لیکن ان کے اصرار پر کانگریس کا اتحاد توڑ دیا گیا،لیکن اتحاد توڑنے کے بعد مارکسٹوں نے دھوکہ دے دیا، کہ ہم کسی مذہب سے جڑی پارٹی سے اتحاد نہیں کرتے، دھوبی کا گدھا نہ گھر کا رہا نہ گھاٹ کا، جس کے بعد لیگ کا شکار ہوئی، اور ملباری مسلمانوں کی بڑی جگ ہنسائی ہوئی، جس کے بعد سیٹھ صاحب کو لیگ سے نکالا گیا، اور دھوبی کا گدھا واپس ۔۔۔۔۔۔

سیاست میں ایسے مواقع آتے رہتے ہیں، کیجروال کی سیاست یہی رخ اختیار کرتی جارہی ہے، مسلمانوں کی توجہ آئندہ چار سال تک جذباتی مخالف ماحول بنانے کے بجائے، اس حکومت سے جتنا فائدہ اٹھا سکتے ہوں اس پر دینی چاہئے۔ یہ ہماری ناقص رائے ہے۔

عبد المتین منیری

۲۰۲۰۔۰۵۔۲۵