حمیت نام ہے جس کا، گئی تیمور کے گھر سے! (پھلی قسط)

Bhatkallys

Published in - Other

03:13PM Wed 19 Apr, 2017

حمیت نام ہے جس کا، گئی تیمور کے گھر سے

پھلی قسط آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........  ملک کی موجودہ صور ت حال کا تجزیہ کرتے وقت جہاں مسلم قوم کی بہت سی دوسری کوتاہیوں یا محرومیوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے، وہیں پر ایک مؤثر سیاسی لیڈرشپ کے فقدان کا ذکر بڑے اہتمام سے ہوتا ہے اوربجا طور پر اس خلاء کو پُر کرنے کی شدید ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔اس لئے کہ ملک کے سیاسی سمندرمیں جو طوفان اٹھ رہا ہے اس کے انتہائی تباہ کن ہونے کے صاف اشارے مل رہے ہیں اور ظاہری عوامل اس بات کا بھی اشارہ کررہے ہیں کہ یہ طوفان جلد تھمنے والا بھی نہیں ہے۔دیکھنے والی آنکھوں اور سوچنے والے ذہنوں کو یہ محسوس ہورہا ہے کہ :

تیز آندھی کے رویہ سے تو لگتا ہے شبابؔ اب کے دستار نہیں ، آپ کے سر جائیں گے

ہمارا علاقہ بھی جدا نہیں ہے: ہمارا پنا شہر بھٹکل اور اطراف کا علاقہ بھی اسی ملک کے کا حصہ ہے اور ہم بھی اسی ملت کے شیرازے میں شامل ہیں۔لہٰذاملکی سطح پر ملت کی جو کیفیت ہے،کسی نہ کسی حد میں اس سے ہم بھی جدا نہیں ہیں۔لیکن اب پچھلے کچھ عرصے سے ہمیںیہاں صوبائی سطح پربھی سیاسی یتیمی کا سامنا ہے۔ماضئ قریب میں ریاستی سطح پر جناب شمس الدین جوکاکو اور جناب ایس ایم یحییٰ صاحبان جیسے مخلص سیاسی رہنماؤں کی موجودگی میں بھٹکل و اطراف کے مسلمانوں نے بڑی حد تک بے فکری کے دن دیکھے تھے۔ مگر ان کے بعد مقامی اجتماعی پلیٹ فارم مجلس اصلاح و تنظیم کے تحت اس خلاء کو پرُ کرنے کی تدبیریں تو کی جارہی ہیں، مگر چنا بھاڑ پھوڑتا ہوا نظر نہیں آتا۔ تنظیم کی موجودہ قیادت اور سیاسی شطرنج پر کھیلی جانے والی چالوں کا شعور ایک الگ مسئلہ ہے ۔ جس پر منفی و مثبت پہلوؤں سے گفتگو ہوسکتی ہے اور ہونی بھی چاہیے۔ (حالیہ بلدی ادارے کے انتخابات میں تنظیم کی قیادت نے جو پالیسی اختیار کی تھی،اور جس طرح ہتک آمیز نتیجہ نکلا تھا اس پر اس سے قبل میں نے "تنظیم اور سیاسی میدان کے کھیل"کے عنوان سے اسی کالم میں سلسلہ وارتجزیاتی مضمون لکھا تھا۔) لیکن تازہ صورتحال میں زیادہ غور طلب اورزیادہ سنگین مسئلہ جو ابھر کرسامنے آرہا ہے وہ سیاسی قیادت کے دینی کردار اور ملی حمیت کا ہے۔ کیا حمیت کاسودا ضروری ہے؟!: یہ سوال اس لئے اٹھ رہا ہے کہ قوم و ملت کی قیادت اور سیادت کا دم بھرنے والی شخصیات ملک کے بدلتے حالات میں اپنا وجود بنائے رکھنے اور اپنی خوفزدہ نفسیاتfear psychosisکو چھپانے کے لئے باطل اور فسطائی طاقتوں کے تقاضے پورے کرنے میں اس حد تک آگے بڑھ گئی ہیں کہ انہیں اپنی تہذیب اور دینی و ملّی حمیت کا سودا کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں ہوتا۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ رجحان بس ابھی ابھی چل پڑا ہو۔ آزادی کے بعد ماضئ قریب میں کچھ نامور ہستیاں ایسی گزری ہیں جوسیکیولرازم کے نام پراقلیتی طبقے کو خوش کرنے کے لئے گاہے بگاہے عقیدۂ توحید کے برخلاف اعمال انجام دے چکی ہیں، یا پھر ستیہ شودھک منڈل جیسی تحریکات کے ذریعے دین و شریعت کے خلاف ہی محاذ قائمکرنے سے بھی گریز نہیں کیا ہے۔لیکن سچائی یہ ہے کہ اس زمانے میں عوامی جذبات ایسی شخصیا ت کے خلاف ہوا کرتے تھے او ر ان کے قول و عمل کو کراہت اور تنفر بھری نظروں سے دیکھا جاتا تھا۔جبکہ آج کے دور میں اس طرز عمل کے خلاف کوئی خاص ردعمل دکھائی نہیں دیتا اور ایک طرف عوام اسے" سیاسی ضرورت "سمجھ کر انگیز کر رہے ہیں تو دوسری طرف قائدین اسے اپنا قد اور ووٹ بینک بڑھانے کا زینہ سمجھ کر بے غیرتی کے ساتھ اس سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔

تمیز کیسے ہو رندانِ با صفا کی تجھے رُخِ ہوس پہ وفا کا نقاب ہے ساقی

بھٹکل کی تنظیم کا شاندار ماضی: ہمارے علاقے میں مجلس اصلاح و تنظیم کے تحت سیاسی و سماجی قیادت کو پروان چڑھانے کی منظم کوششیں ایک زمانے سے مسلسل ہو رہی ہیں۔ جیسا کہ میں نے بتایا ماضئ قریب میں جناب جوکاکو شمس الدین اور جناب ایس ایم یحییٰ جیسی باکردار اور بے داغ سیای شخصیتیں اسی پلیٹ فارم سے نصیب ہوئیں۔ سماجی قیادت کے لئے بھی اسی تنظیم سے ایسی باحمیت اور دین و ملت کی خیر خواہ ہستیوں نے جنم لیا جنہوں نے پورے شہر اور اطراف کے مسلمانوں کواپنے دینی تشخص کے ساتھ باہم مربوط اور متحد رکھنے کے لئے مخلصانہ جدوجہد کی اور وہ اس میں کامیاب بھی رہے۔یقیناًاس میں تنظیم کے اس دستور کا بنیادی کردار رہا ہے جس کے اغراض ومقاصد اور طریقۂ عمل کی اساس قرآن وسنت پر رکھی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھٹکل کی تنظیم جیسے پلیٹ فارم اور اس کی ثمر آور خدمات کی صوبائی سطح پر ہی نہیں بلکہ قومی سطح پر بھی معروف سیاسی و سماجی ہستیوں نے اور اکابر علمائے کرام نے بے انتہاستائش کی ہے، الحمدللہ! ہمارے قائدین کو آخر ہوکیا گیا ہے!: لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہمارا وہ شاندار ماضی اب دھندلانے لگا ہے۔ ادھر پچھلے کچھ عرصے سے ہماری سمت بدلتی اور ہمارا کردار بگڑتا محسوس ہونے لگا ہے۔ ہمیں اب" سیاسی ضرورت" پر" دینی شعائر اور ملی حمیت "کی پرواہ نہ کرنے والوں سے سابقہ پڑنا شروع ہوگیا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک مستحکم معاشرے اور پر امن باہمی بقاء کے لئے سیکیولرازم، برادران وطن سے آپسی تعلقات، رواداری اور خیر سگالی جیسے عناصرپسندیدیدہ اور مطلوب ہیں۔مگر اس کی قیمت اور حدود تو طے رہنے چاہئیں۔چند روزہ فانی زندگی اور وقتی شہرت کے لئے ملی حمیت اور دینی شعائر کا سودا تو نہیں کیا جاسکتا!۔مگربدقسمتی اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ سیاسی مفادکی ہوس میں اب تنظیم کے ذمہ دارانہ منصب پر فائز بعض شخصیات سے ایسی لغزشیں سرزد ہورہی ہیں جو عقیدۂ توحیداور دینی شعائر کے بالکل منافی ہیں۔ اس پر مزید آفت یہ ہے کہ باحمیت اور پابند شرع سمجھی جانے والی بعض سماجی شخصیات بھی ایسے ناعاقبت اندیش سیاسی شعبدہ بازوں کے ساتھ سرُ میں سُر ملاتی ہوئی نظر آنے لگی ہیں۔ان کے پیچھے تالیاں بجانے اور نعرے لگانے والوں کا ٹولہ کورس گانے کے لئے جو تیار رہتا ہے ، وہ ایک الگ مصیبت ہے۔دل کے شیشے کو کرچیوں میں بدلنے والی صورتحال یہ ہے کہ:

جن پاک سروں کی عظمت پر اعزاز ملا سرداری کا اک لذّت فانی کی خاطر وہ سر ہیں درِ اغیار پہ خم

مندروں کی خاص پوجا پاٹ اور ہمارے لیڈر: باہمی مروت اور خیر سگالی کے نام پر اب ہم اس قدر آگے بڑھنے لگے ہیں کہ مندروں میں گربھ گڑھیsanctum sacntorum(حجرۂ مقدس، جہاں سب سے بڑابت براجمان ہوتا ہے) کی تعمیر، بتوں کی تنصیب، رام نومی کی پوجا، رتھ یاترا کی خصوصی تقاریب وغیرہ میں بے جھجک ہمارے سیاسی اور سماجی لیڈر نہ صرف شریک ہونے لگے ہیں ،بلکہ اسے اپنا بڑا کارنامہ قرار دیتے ہوئے اس پر اعتراض جتانے والوں کو تنگ دل و تنگ نظر ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔حد تو یہ ہے کہ علمائے دین کی سرپرستی کا دعویٰ کرنے والی بعض دینی جماعتوں کے کارکنان کو بھی بڑی فراخدلی کے ساتھ ان مشرکانہ اعمال کے لئے مخصوص مجالس میں 'پیامِ خیرسگالی'کے ساتھ شریک ہونے کا شوق چرّا نے لگا ہے۔ (۔۔۔لائق مبارکباد ہیں ، علمائے بھٹکل۔۔۔۔سلسلہ جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط ملاحظہ فرمائیں!)   (مضمون نگار کی رائے سے ادارہ بھٹکلیس کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ادارہ)