سچی باتیں۔۔۔ قرآن کا اعجاز۔۔۔ از: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

01:25PM Fri 11 Jun, 2021

1941-11-17

پارسی مذہب دنیا کا ایک مشہور مذہب ہے۔ ٹاٹاؔ اور مہتہؔ اور نوروجیؔ کے نام سے انگریزی پڑھے لکھوں میں کون ناواقف ہے؟ قرآن مجید میں ذکر مجوس کا آیاہے۔ اور فارسی شعروادب تو کنشت اور بغمچہ اور پیر مغاں اور گبر کی تلمیحات سے بھرے پڑے ہیں۔ ان کی مقدس اور الہامی کتاب ادستا آپ جانتے ہیں کس طریقہ پر محفوظ ومدوّن ہوئی ہے؟ پارسی عقیدہ یہ ہے کہ

’’زرتشت کی تعلیمات کو جو لکھی ہوئی شکل میں محفوظ نہیں، سکندر نے جلاکر تباہ کردیاتھا۔ جب اردشیرؔ اول کو دوبارہ اُن کے لکھوانے کا خیال آیا تو اُس زمانے میں ا،ااویرافؔ ایک نہایت باخدا اور متقی شخص تھا۔ اور صاحبِ کشف وکرامات تھا۔ اُس کو اس کام کے لئے منتخب کیاگیا۔ اُس نے مناسب غسل وطہارت کے بعد ایک نہایت قوی نیند آور دواکھائی، اور سات دن تک سوتارہا۔ اس عرصہ میں اُس کو عالم رؤیا میں زرتشت کے تمام مواعظ حفظ کرادئیے گئے، جواُس نے بیدار ہوکر لفظ بہ لفظ لکھوادئیے۔ اور وہی اب کتاب مقدس ادِستاؔہے‘‘۔

سوال ادِستاؔ کی الہامیت کا نہیں، وہ تو بہت بعد کا سوال ہے، گفتگو صرف اُس کی محفوظیت کا ہے۔ بالفرض وہ الہامی ہی سہی ،بہرحال ہم تک پہونچی کن ذریعوں سے ہے؟……راویوں کے ذریعہ سے نہیں، اور جب روایت کا وجود ہی سرے سے نہیں، تو اُس پر جرح کیوں، اورراویوں کے ثقہ وغیر ثقہ ہونے کی بحث ہی کیا؟……وہ کتاب جس پر مذہب کا دارومدار ہے، صِرف خواب کے ذریعہ سے پہونچی! خواب صرف ایک شخص کا! اور خواب بھی قدرتی نہیں، مصنوعی، اور دوا کے زور سے پیداکیاہوا!۔

آگے چلئے۔ دُنیا کے مشہور ترین مذہب مسیحیت کو لیجئے۔ کلیسا کی مسلَّم اور معتبر چاروں انجیلیںبجائے خود جیسی بھی سہی، آخر بیسیوں جعلی اور غیرمستند انجیلوں میں سے بھی چار، کیوں اور کس معیار سے معتبر اور مستند قرارپائیں؟

’’اناجیل کا شوق پیداہوتے ہی لوگ ہرجگہ جھوٹی سچی ہرقسم کی انجیلیں لکھنے لگے……نیقیہؔ کی کونسل (۳۲۵ء  ) میں جو پہلی کوشش ہوئی وہ یہ تھی کہ مستند وغیر مستند جتنی بھی انجیلیں ملیں سب گرجے کے صدر مقام پر رکھ دی گئیں، اور بزرگانِ دین نے بڑے خضوع وخشوع سے دعا مانگنی شروع کی کہ جتنی کتابیں روح القدس کے الہام کے مطابق ہوں اوپر رکھی رہیں، جو غیر مستند ہوں نیچے گرپڑیں۔ بس اس موقع پر جو کتابیں نیچے گر پڑیں وہ تو مسترد کردی گئیں، اور جو اوپر رکھی گئین، واجب العمل مانی گئیں……کونسل کے ممبروں میں سے دو بشپ عین انعقادِ کونسل کے زمانہ میں مرگئے۔ کونسل کی کارروائیوں کے استناد کے لئے ان دونوں کے بھی دستخطوں کی ضرورت تھی۔ کونسل کے فیصلوں کی سلیں اُن کی قبروں پر لے جاکر رکھ دی گئیں، اور پہرہ مقرر کردیاگیا کی کوئی اندر نہ جانے پائے۔ محترم بزرگان کلیسا رات بھر دعا مانگتے رہے۔ صبح کو قبروں پر جاکر دیکھا تو سلوں پر دونوں مرحومین کے دستخط موجود تھے‘‘۔

کہئے!ہے مسلم غریب کے پاس اِن کرامات، اِن عجائبات، ان معجزات کے مقابلہ کی کوئی چیز؟ بڑا دعویٰ اُسے تواتُر کا ہے۔ یعنی اپنے قرآن کے ہر ہر لفظ ، ہرہرحرف، ہرہر نقطہ، ہرہر اعراب سے متعلق، ہر زمانہ میں ،ہرقرن میں، ہر عہد میں، بے شمار اور بے حساب تعداد میں راویوں کی مسلسل اور بلا انقطاع سلسلۂ روایت کا، سند متصل کا! اور قرآن تو خیر بہت بڑی چیز ہے، اس کے تو ضخیم دفتر حدیث تک کا ایک ایک لفظ جنچاہواہے، تُلا ہواہے، جرح کیا ہواہے! اُس کے حریف آج ایسے ایسے ہیں، جنھیں ضرورت سرے سے نہ کسی جرح کی، نہ کسی سند کی، نہ کسی تحقیق ثقہ وغیر ثقہ کی، معتبر وغیر معتبر کی۔ سلامت رہیں خوش عقیدگیاں، کہ بس ایک رات کی تاریکی، ایک ریلی دوکی کافی ہے ہر رات کو دن بنادینے کے لئے، ہر باطل کوحق میں تبدیل کردینے کے لئے، ہر بندہ میں نمودِ خدائی پیداکردینے کے لئے!۔