سفر حجاز۔۔۔(۳۰)عرفات ۰۲۔۔۔ از: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

08:02PM Mon 19 Jul, 2021

سفر حجاز۔۔۔(۳۰)عرفات ۰۲۔۔۔ از: مولانا عبد الماجد دریابادیـؒ

اس سلسلے کی تمام قسطیں یکجا پڑھنے کے لئے کلک کریں

http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid/

لکھو کھاکے مجمع میں لوگ سب ہی طرح کے ہیں، ہر مزاج، ہر مذاق، ہر مرتبہ کے نمونے موجود ہیں، ہزاروں ایسے ہیں، جو عرفات کی حاضری کو ایک طرح کی تفریحی تقریب سمجھے ہوئے ہیں اور چائے پینے پلانے کی دعوتوں میں مصروف ہیں، سینکڑوں ہزاروں ایسے ہیں جو سو سو کر اپنا وقت کاٹ رہے ہیں، کہیں کہیں دیگیں چڑھی ہوئی ہیں، اور اعلیٰ درجہ کی بریانی اور پلاؤ کا سامان ہورہا ہے، پھر بھی ہزاروں بندے اللہ کے ایسے بھی ہیں جو وقت کی قدر و قیمت کو پہچانے ہوئے اور مقام کی اہمیت کو پوری طرح جانے ہوئے، اس دوپہر کی ایک ایک گھڑی اور اس سہ پہر کا ایک ایک لمحہ اپنے رب کے آگے ہاتھ پھیلانے اور پیشانی رگڑنے، رونے اور گڑگڑانے استغفار و مناجات کرنے میں بسر کررہے ہیں، انھیں میں کیسے کیسے مخلص و متقی ہوں گے، قطب ہوں گے ابدال ہوں گے، اولیاء ہوں گے، کاملین ہوں گے، ان کی دعائیں کیا تنہا اپنے نفسوں کے لیے ہوں گی؟ ان کے رب کی رحمتوں کا نزول کیا صرف انھیں کے لیے ہوگا؟ اللہ اور اللہ والوں سے تنگ دلی کی بدگمانی! نعوذباللہ! آج تو وہ دن ہے کہ کسی کا کرم بےحساب اور رحمت بےپایاں اپنے سایہ دامن میں لینے کے لیے حیلہ ڈھونڈھتی ہے، اللہ والوں کی سفارش سے بڑھ کر اور کیا حیلہ ہوگا، ان مقبولوں کے طفیل میں خدا معلوم کتنے غیر مقبول آج مقبول بن جاتے ہیں اور کتنے مفلسوں اور تہی دستوں کا شمار آج سرمایہ داروں میں ہونے لگتا ہے، کریم جب دینے پر آئے اور کریم کے در کے بھکاری مانگنے میں کمی نہ کریں تو داد و دہش کی کیا کمی! ۔اہل و نااہل کس و ناکس حقدار اور بے حقے، کھرے اور کھوٹے سب ہی اپنی قسمتوں کے حصہ کے مطابق نعمتوں سے سرفراز اور دولتوں سے مالا مال ہورہے ہیں!۔

صوفیہ کے تذکروں میں آتا ہے کہ علی بن موفقؒ ایک بہت قدیم بزرگ گزرے ہیں، حج کے لیے حاضر ہوئے، نویں شب میں منیٰ میں خواب دیکھا کہ دو فرشتے باہم گفتگو کررہے ہیں۔ایک نے دوسرے سے پوچھا کہ اب کی کتنے حاجی آئے؟ جواب ملا کہ ۶ لاکھ، پھر پوچھا کہ حج مقبول کتنوں کا ہے؟ جواب ملا کہ ۶ کا، ۶ لاکھ میں کل ۶چھ! ۔ہول و دہشت سے آنکھ کھل گئی اور دل نے کہا کہ اپنا شمار ان چھ خوش نصیبوں میں تو بہرحال نہیں ہوسکتا، معلوم ہوتا ہے یہ ساری محنت و مشقت بے کار ہی گئی، دسویں شب میں عرفات سے واپسی کے بعد پھر اسی طرح  خواب میں انھیں دو فرشتوں کو دیکھا، ایک نے پوچھا کہ حج مقبول کل چھ کا ہوا؟  دوسرے نے جواب دیا کہ ان چھ کے طفیل میں پورے چھ لاکھ کے حج قبول ہوگئے!۔ العظمتہ للہ! ان نوازشوں اور سرفرازیوں کا کوئی ٹھکانہ ہے! ان رحمتوں اور بخششوں کی کوئی حد و انتہا ہے!۔

ان حکایتوں پر حیرت کیوں کیجئے، کیا روز مرہ آپ نہیں دیکھتے رہتے کہ غلہ کے انبار میں جو مٹی اور تنکے پڑجاتے ہیں، وہ بھی غلہ ہی کے حساب سے بکتے ہیں اور سونے میں گردوغبار کے جو ذرات شامل ہوجاتے ہیں، وہ بھی سونے ہی کے ساتھ تلنے لگتے ہیں!۔ کتا ایک نجس اور ناپاک جانور ہے، اصحاب کہف کے طفیل میں کہاں سے کہاں پہونچ گیا!۔ پھر انسان تو بہرحال انسان ہے اور جو عرفات میں حاضر ہوتا ہے وہ آخر اللہ اور رسول ﷺ کا نام لیوا تو ہوتا ہے، اس سے بڑھ کر بدنصیب اور کون ہوگا، جو آج اور یہاں کی حاضری کے وقت بھی رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد مبارک کو بھلائے رکھے، کہ  ۔″اعظم الناس ذنبا من وقف بعرفۃ فظن ان الله لم یغفرلہ″۔

سب سے بڑھ کر گناہ گار وہ ہے جو عرفات میں حاضر ہو اور پھر بھی یہ خیال رکھے کہ اللہ نے اسے نہیں بخشا۔

اک زندہ بزرگ کا۔ (خدا انھیں مدتوں زندہ و سلامت رکھے) ۔معمول یہ سننے میں آیا کہ وہ ۸/کی صبح کو مکہ سے منیٰ پاپیادہ آجاتے تھے اور پھر ۹/کی صبح کومع اپنے تین چار ہم مشرب و ہم مذاق یارانِ سلسلہ کے منیٰ سے عرفات بھی پیدل ہی آتے تھے، ایک ایک جانماز، پانی کی ایک ایک بوتل اور بسکٹ وغیرہ کی قسم سے مختصر سا ناشتہ بس اس قدر سامان ہر ہر رفیق کے ہاتھ میں عرفات پہونچے، ذرا دم لیا، غسل فرمایا، ظہر و عصر کی نماز جمع کرکے جماعت کے ساتھ مسجد نمرہ میں ادا کی، اور اس کے بعد جبل عرفات کے دامن میں جو خشک جھاڑیاں ہیں، ان میں سے ایک ایک جھاڑی ہر بزرگ نے اپنے اپنے لیے مقرر کرلی اور پوری یکسوئی و فراغ خاطر کے ساتھ اپنی اپنی عبادتوں میں مصروف ہوگئے۔جھاڑیاں نہ اتنی قریب قریب کہ ایک شخص کی آواز دوسرے کی توجہ میں مخل ہو اور نہ اتنی دور دور کہ فراغت کے بعد ساتھیوں کی تلاش کرنے میں وقت ہو، ۔۔۔۔۔یہ انتظام اگر کسی سے بن پڑے تو کیا کہنا، یکسوئی و سکون خاطر کا بہترین نسخہ اور بہترین نقشہ ہے، اس سفرنامہ کے مصنف کی تقدیر بھلا ایسی رسا کب تھی، اپنا تو سارا وقت کہنا چاہیئے کہ محض ضائع ہی ہوا، اور نفس بہانے یہ کرتا رہا کہ قافلہ کی ضروریات اور مستورات کے آرام وغیرہ کا انتظام کرنا ہے! کئی فرلانگ طے کرکے اس کڑی دھوپ میں ایسے پست ہمت کو مسجد نمرہ تک جانے کی توفیق کیوں نصیب ہونے لگی تھی، یہی غنیمت ہوا کہ اپنے خیمہ ہی میں مختصر سی جماعت مل گئی، مولانا مناظر صاحب ہر موقع کی طرح آج بھی ہمارے قافلہ میں سب سے زیادہ نصیبہ ور رہے، نماز پڑھنے مسجد نمرہ گئے، واپسی میں خیمہ کا راستہ بھول کر خدا جانے کہاں کہاں بھٹک گئے اور ساتھیوں سے گم ہوکر یہاں کی تنہائیوں اور خلوتوں میں خدا معلوم کیا کیا پالیا! ۔″ذلك فضل الله يؤتيه من يشاء″ ۔کی تصدیق ایک بار پھر ہوکر رہی۔ہدایت شاید ایسے ہی کھوئے ہوؤں کے نصیب میں آتی ہے ووجدك ضالا فهدىٰ۔

ہم لوگ یہاں قبل دوپہر پہونچ گئے تھے، دوپہر ہوتے ہوتے جنھیں غسل کرنا تھا وہ غسل سے اور باقی وضو کرکے تیار ہوگئے، سولہ آدمیوں کے لیے دو خیمے تھے ایک خیمہ میں خاص میرے قافلہ کے آٹھ آدمی (زن و مرد) آگئے۔ دوسرے میں بقیہ آٹھ آدمی رہے۔معلم صاحب نے جو خیمے دیئے ہیں، وہ آٹھ آٹھ آدمیوں کے رہنے کے قابل تو کسی پر بھی نہیں لیکن خیر چند گھنٹوں کا معاملہ ہے، کسی نہ کسی طرح گزر ہوجائے گی، اپنے اپنے شعذف بھی خیموں سے بالکل متصل رکھوالیے، عورتیں زیادہ تر شعذفوں ہی کے اندر ہیں، شعذف خیمہ سے زیادہ آرام دہ ثابت ہوئے، بڑی وجہ یہ ہے کہ پلنگ کی طرح زمین سے خاصے بلند ہوتے ہیں، اس لیے ان میں بیٹھ کر کم از کم زمین کی تپش سے تو امن رہتا ہے، خیمہ اگر ہر طرف سے بند رہتے ہیں تو بڑی امس پیدا ہوجاتی ہے، دم گھٹنے لگتا ہے، پسینہ کی حد نہیں، لیکن اگر خیمہ کی قناتیں دو طرف سے کھول کر دروازہ سے بنا دیئے جائیں تو پھر خاصی ہوا آنے لگتی ہے، زمین خوب جلتی اور تپتی ہوتی ہے، اس پر بچھانے کے لیے موٹا فرش ہمراہ لانا ضروری ہے اور اگر کپڑے کی کرسی یا ٹوٹ کا پلنگ ہمراہ آسکے تو یقیناﹰ زیادہ آرام ملے گا۔ بمبئی سے ڈک چئیر (کپڑے کی کرسی) اگر ہمراہ لے جایئے تو جہاز میں بھی بہت کام دے گی اور عرفات و منیٰ میں بھی اسی قدر مفید ثابت ہوگی، پانی کی بابت بہت سی ڈراؤنی روایتیں سننے میں آئی تھیں، سنا تھا کہ عرفات میں پانی بہت مشکل سے اور بہت کم اور بہت گراں اور بہت خراب ملتا ہے، اب کی سال تو خدا کے فضل سے کوئی ایسی دقت نہیں پیش آئی، پانی بیچنے والے کثرت سے پکارتے پھررہے ہیں اور پانی کچھ ایسا گندلا بھی نہیں، خاصا صاف ہے۔زیادہ گراں بھی نہیں۔ایک کنسٹر یا اوسط درجہ کی مشک آٹھ آنے میں یا اگر زیادہ نہ چکایا جائے تو چھ آنے میں بھی مل جانا ممکن ہے۔بعض پچھلے سالوں البتہ سنا ہے کہ پانی بہت کم ملا تھا، اور دو دو روپیہ فی مشک کے حساب سے ملتا تھا اور اور بہت گندلا ملا تھا، اب کے سال اللہ کا بڑا فضل رہا، اللہ ٹھنڈا رکھے زبیدہ خاتون کی تربت کو۔ اسی کی تعمیر کرائی ہوئی نہر سے صدہا سال سے اللہ کی بیشمار مخلوق سیراب ہوتی چلی آرہی ہے، اور آئندہ بھی خدا معلوم کب تک اسی طرح سیراب ہوتی رہے، البتہ ضرورت اس کی ہے کہ نہر کی صفائی، پابندی اور انتظام کے ساتھ ہوتی رہے۔ سفری چولھا  (یا ککر) اگر ہمراہ ہوتو بہتر ہے، ہم لوگوں کے ساتھ انگیٹھی اور کوئلے تھے، ان سے بھی کام چل سکتا ہے۔مختصر کھانا بطور ناشتہ کے پک گیا، ستو ایسے موقع پر خاص طور سے کام آتے ہیں، غذا کی غذا اور پیاس کی تسکین الگ، اور پھر بغیر کسی دشواری و اہتمام کے دم بھر میں تیار، مرمرے (لائے) کے ستو سب سے بہتر ہیں، تال مکھانے کے ستو مناسب نہیں نقصان کا احتمال ہے خصوصاً جبکہ طبیعت پیچش کی طرف ازخود آمادہ ہورہی ہو۔

خیموں کے اس جنگل میں اپنے خیمے سے باہر نکل کر کچھ دور تک جانا غضب کا سامنا کرنا ہے، خیموں کے نصب کرنے میں کوئی خاص ترتیب نہیں ہوتی یا اگر ہوتی ہو بھی تو کم از کم حاجی غریب کو تو اس کا علم ہوتا نہیں، نہ خیموں پر کوئی نمبر یا اور کوئی خاص علامت، سینکڑوں ہزاروں خیمے، بس ایک ہی رنگ کے ایک ہی وضع قطع کے ہر طرف مسلسل چلے گئے ہیں، بے پڑھوں، بوڑھوں اور بوڑھیوں کا ذکر نہیں، اچھے خاصے جوان جہان، ہوشیار، پڑھے لکھے چکرا جاتے ہیں، اپنے خیمہ سے نکل کر چند قدم چلے کہ راستہ گم ہوگیا، اب نہ جہاں جانے کے لیے نکلے تھے وہاں پہنچ سکتے ہیں، نہ واپس ہونے کے لیے اپنا خیمہ کا راستہ پاتے ہیں، عجیب مصیبت و بے کسی کا وقت ہوتا ہے، راستہ پوچھیں تو کس سے، اور کوئی بتانا چاہے بھی تو کیا بتائے سب انھیں جیسے ناواقف۔ہم لوگ نماز کے لیے کسی بڑی جماعت کی تلاش میں ایک بار اپنے خیموں سے باہر نکلے لیکن چند قدم چلنے کے بعد عافیت واپسی ہی میں نظر آئی۔حکومت اگر چاہے تو ان دشواریوں کا سدباب بہت آسانی سے کرسکتی ہے۔ اول تو موجودہ حالت انتشار و بے نظمی کے بجائے خیموں کے مختلف محلے (کیمپ) مختلف ملکوں کے اعتبار سے قائم کردینے چاہیئں، مثلاﹰ ایک محلہ مصریوں کا ایک ہندیوں کا، ایک حجازیوں کا، ایک جادیوں کا وغیرہ وغیرہ، پھر بڑے ملکوں کے محلوں کے اندر صوبہ وار تقسیم کردینی چاہیئے، مثلاﹰ پنجاب کیمپ، بنگال کیمپ و قس علی ہذا اور پھر اس کے بعد خود ان صوبہ وار محلوں کے اندر خیموں پر نمبر ڈال دینے چاہیئں۔ہر کیمپ کا بھی الگ الگ نمبر ہونا چاہیئے اور علاوہ نمبروں کے مختلف رنگ کے بلند جھنڈوں اور جھنڈیوں کے ذریعہ سے مختلف کیمپوں کو ممتاز و نمایاں کرنا چاہیئے۔ عارضی سڑکوں اور روشوں کو بنا کر اور ان پر نمبر ڈال کر بھی بہت کچھ سہولت پیدا کی جاسکتی ہے، صوبہ وار کیمپوں کے اندر مختلف معلموں کے نام بھی ان معلموں کے حاجیوں کے خیموں کے گردا گردا گر نمایاں کر دیئے جائیں تو دقتیں اور زیادہ گھٹ سکتی ہیں، ان سب تدبیروں کے علاوہ، چار پانچ سو کی تعداد میں مختلف زبانیں جاننے والے رضاکار یا پولس کے رضاکاروں کے کیمپ کسی خاص نمایاں رنگ کے ساتھ میدان عرفات کے مختلف حصوں میں ہونے چاہیئں اور ان میں ایک دوسرے سے فوری پیام رسانی کے لیے عارضی ٹیلیفون کا انتظام بآسانی ہوسکتا ہے، حکومت حجاز لکھوکھا روپیہ ان حاجیوں سے موسم حج میں وصول کرتی ہے، اگر اس میں سے دس بیس ہزار روپیہ انھیں کی سہولت و آسائش کے سامان پر لگا دیا جائے تو حکومت کے خزانہ پر ہرگز کوئی بار نہیں پڑسکتا۔

حکومت کے نظم و انتظام کی افسوس ناک کمی صرف اسی ایک حیثیت سے واضح نہیں ہورہی تھی۔عرفات سے واپسی کے بعد سننے میں آیا کہ وہاں پانی، برف، شربت، فالودہ، چائے اور قہوہ کی دوکانیں بھی موجود تھیں۔خدا معلوم کہاں تھیں، عرفات کے دوران قیام میں تو ہمارے قافلہ کو ان کا پتہ کہیں چلا نہیں، ظاہر ہے کہ میلوں کے وسیع رقبہ میں کسی ایک گوشہ میں یا عین وسط میں بھی اگر چند دوکانیں ہوئیں تو دور والوں کو ان کی کیا خبر ہوسکتی ہے۔

بجائے ایک جگہ کے چاہیئے یہ تھا کہ مختلف ملکوں کے کیمپوں میں الگ الگ دوکانیں ہوتیں۔دوکانیں ہوتیں چاہے چھوٹی ہی، لیکن ان کا متعدد ہونا اور مختلف حصوں میں پھیلا ہونا لازمی تھا۔ہندوستان میں جن لوگوں نے کانگریس کے یا خلافت کمیٹی کے زمانہ عروج میں اس کے سالانہ جلسوں کے انتظامات میں حصہ لیا ہے، وہ عرفات میں اپنی رضاکارانہ خدمات بخوشی پیش کر سکتے تھے اور سعودی حکومت اگر انھیں موقع دیتی تو ان خدمات کو وہ اپنے لیے وسیلہ نجات و باعثِ سعادت خیال کرتے، پچھلے سالوں میں جو کچھ ہونا تھا ہوچکا، آئندہ کے لیے اب بھی کچھ نہیں گیا ہے، حکومت لاکھ نیک نیتی کے ساتھ کوئی انتظامی کمیٹی قائم کرے لیکن جب تک اس میں مختلف زبانیں جاننے والوں اور مختلف ممالک کے مذاق طبیعت سے واقفیت رکھنے والوں کو شریک نہ کرے گی، کوئی بڑی کامیابی ممکن نہیں، جو کچھ لکھا جا رہا ہے۔حاشا۔اس سے موجودہ حکومت حجاز کی تنقیص یا اس پر مخالفانہ نکتہ چینی مقصود نہیں بلکہ صرف آئندہ کے لیے اصلاح حال ہے، جس سے حاجیوں کو بھی راحت پہونچے اور حکومت بھی اجر اور نیک نامی حاصل کرے۔

اعمال حج کا رکن اعظم یہی وقوف عرفات ہے جس وقت سہ پہر کو (اندازہ کے لیے اوسط وقت عصر سمجھئے) امام خطبہ پڑھ چکتا ہے تو وہ وقت عجیب مسرت کا ہوتا ہے ”حج“ہوگیا ”حج“ہوگیا کی صدائیں ہر طرف سے آنے لگتی ہیں اور ایک دوسرے کو گرمجوشی کے ساتھ مبارک باد دی جانے لگتی ہیں، معلمین خیموں پر آ آ کر اپنے اپنے حاجیوں کو کچھ دعائیں پڑھاتے ہیں، جو نہ اس وقت یاد آتی ہیں اور نہ کسی دوسری کتاب میں نظر سے گزری ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ وہ خود اور ان کے ملازمین اور کارندے کچھ نہ کچھ وصول بھی کرتے جاتے ہیں۔ لیجئے دیکھتے ہی دیکھتے عصر کا وقت آخر ہونے لگا، آفتاب میں زردی آنے لگی اور خیمے اکھڑنے شروع ہو گئے۔ سبحان اللہ و بحمدہ کیا خدا کی قدرت ہے، اب تھوڑی ہی دیر میں یہ ساری آبادی ویرانی سے بدل جائے گی، اور جہاں آج دن بھر لکھو لکھا انسانوں کا مجمع رہا وہاں اب ایک متنفس بھی نہ نظر آئے گا اور سال بھر کی ویرانی کے بعد پھر آج ہی کی تاریخ اسی طرح کی آبادی اور چہل پہل ہوگی۔آج کے دن جس طرح یہاں نماز عصر اپنے وقت سے پہلے ہٹ کر نماز ظہر کے ساتھ پڑھ لی گئی۔ اسی طرح حکم ہے کہ آج نمازِ مغرب بھی اپنے وقت سے پیچھے ہٹادی جائے اور بجائے یہاں پڑھنے کے مزدلفہ پہونچ کر رات گئے نماز عشاء کے ساتھ ملاکر پڑھی جائے۔بعض ناواقف بیچارے جلدی جلدی یہیں نمازِ مغرب ادا کرنے کے لیے نیت باندھ رہے ہیں، ناواقفیت کی بنا پر مواخذہ سے تو غالباً بچ جائیں، لیکن اتباع سنت کا اجر تو بہرحال اپنے ہاتھوں سے کھو رہے ہیں۔ ہزار ہا ایسے ہیں جو جلد بازی کرکے کچھ دن رہے ہی راونہ ہوجاتے ہیں، مسنون وقت روانگی کا غروب آفتاب کے بعد ہے۔ لیجئے آفتاب غروب ہونے لگا، سب کے خیمے اکھڑ چکے، ہمارے خیمے اکھڑ ہی رہے تھے کہ بے شان و گمان بغیر کسی موسمی توقع و تغیر کے دفعتاً آسمان پر ایک طرف سے ابر کا ٹکڑا آتا نمودار ہوا، دو چار بار بجلی چمکی، بوندیں شروع ہوئیں اور چند ہی لمحوں میں اچھی خاصی بارش ہونے لگی! کریم کی کریمی اور مولا کی رحمتوں کی تھاہ کون پاسکتا ہے! احرام پوشوں کے جسم کہاں تو ابھی چلچلاتی ہوئی دھوپ میں تپ رہے تھے اور کہاں ابھی پانی میں لت پت ہونے لگے۔ بارش ہوئی اور خوب اچھی طرح ہوئی، لوگ بھیگے اور خوب بھیگے، بارانِ رحمت کا لفظ سنا بار ہا ہے۔ حقیقتاً ”باران رحمت“کا مشاہدہ آج ہی ہوا! لوگ کہتے تھے اتنی بارش عرفے کے دن سالہا سال کے بعد ہوئی ہے۔ بزرگوں نے کہا ہے کہ عرفات کی بارش حج کی قبولیت کی علامت ہے۔ یہ اگر سچ ہے تو خدا ہی کو علم ہے کہ اب کی حج میں کون اللہ کا شیر شریک تھا۔ بارش پانی کی کیوں تھی، یوں کہیے کہ عفو و مغفرت کی بارش تھی اور جو جو بوند جسم پر گرتی تھی بس یہ معلوم ہوتا تھا کہ معاصی کی سیاہیاں دھل رہی ہیں!

ناقل: محمد بشارت نواز

لکھو کھاکے مجمع میں لوگ سب ہی طرح کے ہیں، ہر مزاج، ہر مذاق، ہر مرتبہ کے نمونے موجود ہیں، ہزاروں ایسے ہیں، جو عرفات کی حاضری کو ایک طرح کی تفریحی تقریب سمجھے ہوئے ہیں اور چائے پینے پلانے کی دعوتوں میں مصروف ہیں، سینکڑوں ہزاروں ایسے ہیں جو سو سو کر اپنا وقت کاٹ رہے ہیں، کہیں کہیں دیگیں چڑھی ہوئی ہیں، اور اعلیٰ درجہ کی بریانی اور پلاؤ کا سامان ہورہا ہے، پھر بھی ہزاروں بندے اللہ کے ایسے بھی ہیں جو وقت کی قدر و قیمت کو پہچانے ہوئے اور مقام کی اہمیت کو پوری طرح جانے ہوئے، اس دوپہر کی ایک ایک گھڑی اور اس سہ پہر کا ایک ایک لمحہ اپنے رب کے آگے ہاتھ پھیلانے اور پیشانی رگڑنے، رونے اور گڑگڑانے استغفار و مناجات کرنے میں بسر کررہے ہیں، انھیں میں کیسے کیسے مخلص و متقی ہوں گے، قطب ہوں گے ابدال ہوں گے، اولیاء ہوں گے، کاملین ہوں گے، ان کی دعائیں کیا تنہا اپنے نفسوں کے لیے ہوں گی؟ ان کے رب کی رحمتوں کا نزول کیا صرف انھیں کے لیے ہوگا؟ اللہ اور اللہ والوں سے تنگ دلی کی بدگمانی! نعوذباللہ! آج تو وہ دن ہے کہ کسی کا کرم بےحساب اور رحمت بےپایاں اپنے سایہ دامن میں لینے کے لیے حیلہ ڈھونڈھتی ہے، اللہ والوں کی سفارش سے بڑھ کر اور کیا حیلہ ہوگا، ان مقبولوں کے طفیل میں خدا معلوم کتنے غیر مقبول آج مقبول بن جاتے ہیں اور کتنے مفلسوں اور تہی دستوں کا شمار آج سرمایہ داروں میں ہونے لگتا ہے، کریم جب دینے پر آئے اور کریم کے در کے بھکاری مانگنے میں کمی نہ کریں تو داد و دہش کی کیا کمی! ۔اہل و نااہل کس و ناکس حقدار اور بے حقے، کھرے اور کھوٹے سب ہی اپنی قسمتوں کے حصہ کے مطابق نعمتوں سے سرفراز اور دولتوں سے مالا مال ہورہے ہیں!۔

صوفیہ کے تذکروں میں آتا ہے کہ علی بن موفقؒ ایک بہت قدیم بزرگ گزرے ہیں، حج کے لیے حاضر ہوئے، نویں شب میں منیٰ میں خواب دیکھا کہ دو فرشتے باہم گفتگو کررہے ہیں۔ایک نے دوسرے سے پوچھا کہ اب کی کتنے حاجی آئے؟ جواب ملا کہ ۶ لاکھ، پھر پوچھا کہ حج مقبول کتنوں کا ہے؟ جواب ملا کہ ۶ کا، ۶ لاکھ میں کل ۶چھ! ۔ہول و دہشت سے آنکھ کھل گئی اور دل نے کہا کہ اپنا شمار ان چھ خوش نصیبوں میں تو بہرحال نہیں ہوسکتا، معلوم ہوتا ہے یہ ساری محنت و مشقت بے کار ہی گئی، دسویں شب میں عرفات سے واپسی کے بعد پھر اسی طرح  خواب میں انھیں دو فرشتوں کو دیکھا، ایک نے پوچھا کہ حج مقبول کل چھ کا ہوا؟  دوسرے نے جواب دیا کہ ان چھ کے طفیل میں پورے چھ لاکھ کے حج قبول ہوگئے!۔ العظمتہ للہ! ان نوازشوں اور سرفرازیوں کا کوئی ٹھکانہ ہے! ان رحمتوں اور بخششوں کی کوئی حد و انتہا ہے!۔

ان حکایتوں پر حیرت کیوں کیجئے، کیا روز مرہ آپ نہیں دیکھتے رہتے کہ غلہ کے انبار میں جو مٹی اور تنکے پڑجاتے ہیں، وہ بھی غلہ ہی کے حساب سے بکتے ہیں اور سونے میں گردوغبار کے جو ذرات شامل ہوجاتے ہیں، وہ بھی سونے ہی کے ساتھ تلنے لگتے ہیں!۔ کتا ایک نجس اور ناپاک جانور ہے، اصحاب کہف کے طفیل میں کہاں سے کہاں پہونچ گیا!۔ پھر انسان تو بہرحال انسان ہے اور جو عرفات میں حاضر ہوتا ہے وہ آخر اللہ اور رسول ﷺ کا نام لیوا تو ہوتا ہے، اس سے بڑھ کر بدنصیب اور کون ہوگا، جو آج اور یہاں کی حاضری کے وقت بھی رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد مبارک کو بھلائے رکھے، کہ  ۔″اعظم الناس ذنبا من وقف بعرفۃ فظن ان الله لم یغفرلہ″۔

سب سے بڑھ کر گناہ گار وہ ہے جو عرفات میں حاضر ہو اور پھر بھی یہ خیال رکھے کہ اللہ نے اسے نہیں بخشا۔

اک زندہ بزرگ کا۔ (خدا انھیں مدتوں زندہ و سلامت رکھے) ۔معمول یہ سننے میں آیا کہ وہ ۸/کی صبح کو مکہ سے منیٰ پاپیادہ آجاتے تھے اور پھر ۹/کی صبح کومع اپنے تین چار ہم مشرب و ہم مذاق یارانِ سلسلہ کے منیٰ سے عرفات بھی پیدل ہی آتے تھے، ایک ایک جانماز، پانی کی ایک ایک بوتل اور بسکٹ وغیرہ کی قسم سے مختصر سا ناشتہ بس اس قدر سامان ہر ہر رفیق کے ہاتھ میں عرفات پہونچے، ذرا دم لیا، غسل فرمایا، ظہر و عصر کی نماز جمع کرکے جماعت کے ساتھ مسجد نمرہ میں ادا کی، اور اس کے بعد جبل عرفات کے دامن میں جو خشک جھاڑیاں ہیں، ان میں سے ایک ایک جھاڑی ہر بزرگ نے اپنے اپنے لیے مقرر کرلی اور پوری یکسوئی و فراغ خاطر کے ساتھ اپنی اپنی عبادتوں میں مصروف ہوگئے۔جھاڑیاں نہ اتنی قریب قریب کہ ایک شخص کی آواز دوسرے کی توجہ میں مخل ہو اور نہ اتنی دور دور کہ فراغت کے بعد ساتھیوں کی تلاش کرنے میں وقت ہو، ۔۔۔۔۔یہ انتظام اگر کسی سے بن پڑے تو کیا کہنا، یکسوئی و سکون خاطر کا بہترین نسخہ اور بہترین نقشہ ہے، اس سفرنامہ کے مصنف کی تقدیر بھلا ایسی رسا کب تھی، اپنا تو سارا وقت کہنا چاہیئے کہ محض ضائع ہی ہوا، اور نفس بہانے یہ کرتا رہا کہ قافلہ کی ضروریات اور مستورات کے آرام وغیرہ کا انتظام کرنا ہے! کئی فرلانگ طے کرکے اس کڑی دھوپ میں ایسے پست ہمت کو مسجد نمرہ تک جانے کی توفیق کیوں نصیب ہونے لگی تھی، یہی غنیمت ہوا کہ اپنے خیمہ ہی میں مختصر سی جماعت مل گئی، مولانا مناظر صاحب ہر موقع کی طرح آج بھی ہمارے قافلہ میں سب سے زیادہ نصیبہ ور رہے، نماز پڑھنے مسجد نمرہ گئے، واپسی میں خیمہ کا راستہ بھول کر خدا جانے کہاں کہاں بھٹک گئے اور ساتھیوں سے گم ہوکر یہاں کی تنہائیوں اور خلوتوں میں خدا معلوم کیا کیا پالیا! ۔″ذلك فضل الله يؤتيه من يشاء″ ۔کی تصدیق ایک بار پھر ہوکر رہی۔ہدایت شاید ایسے ہی کھوئے ہوؤں کے نصیب میں آتی ہے ووجدك ضالا فهدىٰ۔

ہم لوگ یہاں قبل دوپہر پہونچ گئے تھے، دوپہر ہوتے ہوتے جنھیں غسل کرنا تھا وہ غسل سے اور باقی وضو کرکے تیار ہوگئے، سولہ آدمیوں کے لیے دو خیمے تھے ایک خیمہ میں خاص میرے قافلہ کے آٹھ آدمی (زن و مرد) آگئے۔ دوسرے میں بقیہ آٹھ آدمی رہے۔معلم صاحب نے جو خیمے دیئے ہیں، وہ آٹھ آٹھ آدمیوں کے رہنے کے قابل تو کسی پر بھی نہیں لیکن خیر چند گھنٹوں کا معاملہ ہے، کسی نہ کسی طرح گزر ہوجائے گی، اپنے اپنے شعذف بھی خیموں سے بالکل متصل رکھوالیے، عورتیں زیادہ تر شعذفوں ہی کے اندر ہیں، شعذف خیمہ سے زیادہ آرام دہ ثابت ہوئے، بڑی وجہ یہ ہے کہ پلنگ کی طرح زمین سے خاصے بلند ہوتے ہیں، اس لیے ان میں بیٹھ کر کم از کم زمین کی تپش سے تو امن رہتا ہے، خیمہ اگر ہر طرف سے بند رہتے ہیں تو بڑی امس پیدا ہوجاتی ہے، دم گھٹنے لگتا ہے، پسینہ کی حد نہیں، لیکن اگر خیمہ کی قناتیں دو طرف سے کھول کر دروازہ سے بنا دیئے جائیں تو پھر خاصی ہوا آنے لگتی ہے، زمین خوب جلتی اور تپتی ہوتی ہے، اس پر بچھانے کے لیے موٹا فرش ہمراہ لانا ضروری ہے اور اگر کپڑے کی کرسی یا ٹوٹ کا پلنگ ہمراہ آسکے تو یقیناﹰ زیادہ آرام ملے گا۔ بمبئی سے ڈک چئیر (کپڑے کی کرسی) اگر ہمراہ لے جایئے تو جہاز میں بھی بہت کام دے گی اور عرفات و منیٰ میں بھی اسی قدر مفید ثابت ہوگی، پانی کی بابت بہت سی ڈراؤنی روایتیں سننے میں آئی تھیں، سنا تھا کہ عرفات میں پانی بہت مشکل سے اور بہت کم اور بہت گراں اور بہت خراب ملتا ہے، اب کی سال تو خدا کے فضل سے کوئی ایسی دقت نہیں پیش آئی، پانی بیچنے والے کثرت سے پکارتے پھررہے ہیں اور پانی کچھ ایسا گندلا بھی نہیں، خاصا صاف ہے۔زیادہ گراں بھی نہیں۔ایک کنسٹر یا اوسط درجہ کی مشک آٹھ آنے میں یا اگر زیادہ نہ چکایا جائے تو چھ آنے میں بھی مل جانا ممکن ہے۔بعض پچھلے سالوں البتہ سنا ہے کہ پانی بہت کم ملا تھا، اور دو دو روپیہ فی مشک کے حساب سے ملتا تھا اور اور بہت گندلا ملا تھا، اب کے سال اللہ کا بڑا فضل رہا، اللہ ٹھنڈا رکھے زبیدہ خاتون کی تربت کو۔ اسی کی تعمیر کرائی ہوئی نہر سے صدہا سال سے اللہ کی بیشمار مخلوق سیراب ہوتی چلی آرہی ہے، اور آئندہ بھی خدا معلوم کب تک اسی طرح سیراب ہوتی رہے، البتہ ضرورت اس کی ہے کہ نہر کی صفائی، پابندی اور انتظام کے ساتھ ہوتی رہے۔ سفری چولھا  (یا ککر) اگر ہمراہ ہوتو بہتر ہے، ہم لوگوں کے ساتھ انگیٹھی اور کوئلے تھے، ان سے بھی کام چل سکتا ہے۔مختصر کھانا بطور ناشتہ کے پک گیا، ستو ایسے موقع پر خاص طور سے کام آتے ہیں، غذا کی غذا اور پیاس کی تسکین الگ، اور پھر بغیر کسی دشواری و اہتمام کے دم بھر میں تیار، مرمرے (لائے) کے ستو سب سے بہتر ہیں، تال مکھانے کے ستو مناسب نہیں نقصان کا احتمال ہے خصوصاً جبکہ طبیعت پیچش کی طرف ازخود آمادہ ہورہی ہو۔

خیموں کے اس جنگل میں اپنے خیمے سے باہر نکل کر کچھ دور تک جانا غضب کا سامنا کرنا ہے، خیموں کے نصب کرنے میں کوئی خاص ترتیب نہیں ہوتی یا اگر ہوتی ہو بھی تو کم از کم حاجی غریب کو تو اس کا علم ہوتا نہیں، نہ خیموں پر کوئی نمبر یا اور کوئی خاص علامت، سینکڑوں ہزاروں خیمے، بس ایک ہی رنگ کے ایک ہی وضع قطع کے ہر طرف مسلسل چلے گئے ہیں، بے پڑھوں، بوڑھوں اور بوڑھیوں کا ذکر نہیں، اچھے خاصے جوان جہان، ہوشیار، پڑھے لکھے چکرا جاتے ہیں، اپنے خیمہ سے نکل کر چند قدم چلے کہ راستہ گم ہوگیا، اب نہ جہاں جانے کے لیے نکلے تھے وہاں پہنچ سکتے ہیں، نہ واپس ہونے کے لیے اپنا خیمہ کا راستہ پاتے ہیں، عجیب مصیبت و بے کسی کا وقت ہوتا ہے، راستہ پوچھیں تو کس سے، اور کوئی بتانا چاہے بھی تو کیا بتائے سب انھیں جیسے ناواقف۔ہم لوگ نماز کے لیے کسی بڑی جماعت کی تلاش میں ایک بار اپنے خیموں سے باہر نکلے لیکن چند قدم چلنے کے بعد عافیت واپسی ہی میں نظر آئی۔حکومت اگر چاہے تو ان دشواریوں کا سدباب بہت آسانی سے کرسکتی ہے۔ اول تو موجودہ حالت انتشار و بے نظمی کے بجائے خیموں کے مختلف محلے (کیمپ) مختلف ملکوں کے اعتبار سے قائم کردینے چاہیئں، مثلاﹰ ایک محلہ مصریوں کا ایک ہندیوں کا، ایک حجازیوں کا، ایک جادیوں کا وغیرہ وغیرہ، پھر بڑے ملکوں کے محلوں کے اندر صوبہ وار تقسیم کردینی چاہیئے، مثلاﹰ پنجاب کیمپ، بنگال کیمپ و قس علی ہذا اور پھر اس کے بعد خود ان صوبہ وار محلوں کے اندر خیموں پر نمبر ڈال دینے چاہیئں۔ہر کیمپ کا بھی الگ الگ نمبر ہونا چاہیئے اور علاوہ نمبروں کے مختلف رنگ کے بلند جھنڈوں اور جھنڈیوں کے ذریعہ سے مختلف کیمپوں کو ممتاز و نمایاں کرنا چاہیئے۔ عارضی سڑکوں اور روشوں کو بنا کر اور ان پر نمبر ڈال کر بھی بہت کچھ سہولت پیدا کی جاسکتی ہے، صوبہ وار کیمپوں کے اندر مختلف معلموں کے نام بھی ان معلموں کے حاجیوں کے خیموں کے گردا گردا گر نمایاں کر دیئے جائیں تو دقتیں اور زیادہ گھٹ سکتی ہیں، ان سب تدبیروں کے علاوہ، چار پانچ سو کی تعداد میں مختلف زبانیں جاننے والے رضاکار یا پولس کے رضاکاروں کے کیمپ کسی خاص نمایاں رنگ کے ساتھ میدان عرفات کے مختلف حصوں میں ہونے چاہیئں اور ان میں ایک دوسرے سے فوری پیام رسانی کے لیے عارضی ٹیلیفون کا انتظام بآسانی ہوسکتا ہے، حکومت حجاز لکھوکھا روپیہ ان حاجیوں سے موسم حج میں وصول کرتی ہے، اگر اس میں سے دس بیس ہزار روپیہ انھیں کی سہولت و آسائش کے سامان پر لگا دیا جائے تو حکومت کے خزانہ پر ہرگز کوئی بار نہیں پڑسکتا۔

حکومت کے نظم و انتظام کی افسوس ناک کمی صرف اسی ایک حیثیت سے واضح نہیں ہورہی تھی۔عرفات سے واپسی کے بعد سننے میں آیا کہ وہاں پانی، برف، شربت، فالودہ، چائے اور قہوہ کی دوکانیں بھی موجود تھیں۔خدا معلوم کہاں تھیں، عرفات کے دوران قیام میں تو ہمارے قافلہ کو ان کا پتہ کہیں چلا نہیں، ظاہر ہے کہ میلوں کے وسیع رقبہ میں کسی ایک گوشہ میں یا عین وسط میں بھی اگر چند دوکانیں ہوئیں تو دور والوں کو ان کی کیا خبر ہوسکتی ہے۔

بجائے ایک جگہ کے چاہیئے یہ تھا کہ مختلف ملکوں کے کیمپوں میں الگ الگ دوکانیں ہوتیں۔دوکانیں ہوتیں چاہے چھوٹی ہی، لیکن ان کا متعدد ہونا اور مختلف حصوں میں پھیلا ہونا لازمی تھا۔ہندوستان میں جن لوگوں نے کانگریس کے یا خلافت کمیٹی کے زمانہ عروج میں اس کے سالانہ جلسوں کے انتظامات میں حصہ لیا ہے، وہ عرفات میں اپنی رضاکارانہ خدمات بخوشی پیش کر سکتے تھے اور سعودی حکومت اگر انھیں موقع دیتی تو ان خدمات کو وہ اپنے لیے وسیلہ نجات و باعثِ سعادت خیال کرتے، پچھلے سالوں میں جو کچھ ہونا تھا ہوچکا، آئندہ کے لیے اب بھی کچھ نہیں گیا ہے، حکومت لاکھ نیک نیتی کے ساتھ کوئی انتظامی کمیٹی قائم کرے لیکن جب تک اس میں مختلف زبانیں جاننے والوں اور مختلف ممالک کے مذاق طبیعت سے واقفیت رکھنے والوں کو شریک نہ کرے گی، کوئی بڑی کامیابی ممکن نہیں، جو کچھ لکھا جا رہا ہے۔حاشا۔اس سے موجودہ حکومت حجاز کی تنقیص یا اس پر مخالفانہ نکتہ چینی مقصود نہیں بلکہ صرف آئندہ کے لیے اصلاح حال ہے، جس سے حاجیوں کو بھی راحت پہونچے اور حکومت بھی اجر اور نیک نامی حاصل کرے۔

اعمال حج کا رکن اعظم یہی وقوف عرفات ہے جس وقت سہ پہر کو (اندازہ کے لیے اوسط وقت عصر سمجھئے) امام خطبہ پڑھ چکتا ہے تو وہ وقت عجیب مسرت کا ہوتا ہے ”حج“ہوگیا ”حج“ہوگیا کی صدائیں ہر طرف سے آنے لگتی ہیں اور ایک دوسرے کو گرمجوشی کے ساتھ مبارک باد دی جانے لگتی ہیں، معلمین خیموں پر آ آ کر اپنے اپنے حاجیوں کو کچھ دعائیں پڑھاتے ہیں، جو نہ اس وقت یاد آتی ہیں اور نہ کسی دوسری کتاب میں نظر سے گزری ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ وہ خود اور ان کے ملازمین اور کارندے کچھ نہ کچھ وصول بھی کرتے جاتے ہیں۔ لیجئے دیکھتے ہی دیکھتے عصر کا وقت آخر ہونے لگا، آفتاب میں زردی آنے لگی اور خیمے اکھڑنے شروع ہو گئے۔ سبحان اللہ و بحمدہ کیا خدا کی قدرت ہے، اب تھوڑی ہی دیر میں یہ ساری آبادی ویرانی سے بدل جائے گی، اور جہاں آج دن بھر لکھو لکھا انسانوں کا مجمع رہا وہاں اب ایک متنفس بھی نہ نظر آئے گا اور سال بھر کی ویرانی کے بعد پھر آج ہی کی تاریخ اسی طرح کی آبادی اور چہل پہل ہوگی۔آج کے دن جس طرح یہاں نماز عصر اپنے وقت سے پہلے ہٹ کر نماز ظہر کے ساتھ پڑھ لی گئی۔ اسی طرح حکم ہے کہ آج نمازِ مغرب بھی اپنے وقت سے پیچھے ہٹادی جائے اور بجائے یہاں پڑھنے کے مزدلفہ پہونچ کر رات گئے نماز عشاء کے ساتھ ملاکر پڑھی جائے۔بعض ناواقف بیچارے جلدی جلدی یہیں نمازِ مغرب ادا کرنے کے لیے نیت باندھ رہے ہیں، ناواقفیت کی بنا پر مواخذہ سے تو غالباً بچ جائیں، لیکن اتباع سنت کا اجر تو بہرحال اپنے ہاتھوں سے کھو رہے ہیں۔ ہزار ہا ایسے ہیں جو جلد بازی کرکے کچھ دن رہے ہی راونہ ہوجاتے ہیں، مسنون وقت روانگی کا غروب آفتاب کے بعد ہے۔ لیجئے آفتاب غروب ہونے لگا، سب کے خیمے اکھڑ چکے، ہمارے خیمے اکھڑ ہی رہے تھے کہ بے شان و گمان بغیر کسی موسمی توقع و تغیر کے دفعتاً آسمان پر ایک طرف سے ابر کا ٹکڑا آتا نمودار ہوا، دو چار بار بجلی چمکی، بوندیں شروع ہوئیں اور چند ہی لمحوں میں اچھی خاصی بارش ہونے لگی! کریم کی کریمی اور مولا کی رحمتوں کی تھاہ کون پاسکتا ہے! احرام پوشوں کے جسم کہاں تو ابھی چلچلاتی ہوئی دھوپ میں تپ رہے تھے اور کہاں ابھی پانی میں لت پت ہونے لگے۔ بارش ہوئی اور خوب اچھی طرح ہوئی، لوگ بھیگے اور خوب بھیگے، بارانِ رحمت کا لفظ سنا بار ہا ہے۔ حقیقتاً ”باران رحمت“کا مشاہدہ آج ہی ہوا! لوگ کہتے تھے اتنی بارش عرفے کے دن سالہا سال کے بعد ہوئی ہے۔ بزرگوں نے کہا ہے کہ عرفات کی بارش حج کی قبولیت کی علامت ہے۔ یہ اگر سچ ہے تو خدا ہی کو علم ہے کہ اب کی حج میں کون اللہ کا شیر شریک تھا۔ بارش پانی کی کیوں تھی، یوں کہیے کہ عفو و مغفرت کی بارش تھی اور جو جو بوند جسم پر گرتی تھی بس یہ معلوم ہوتا تھا کہ معاصی کی سیاہیاں دھل رہی ہیں!۔

ناقل: محمد بشارت نواز