تبصرہ کتب ۔۔۔ تحریر : ملک نواز احمد اعوان

Bhatkallys

Published in - Other

11:34AM Sat 16 Sep, 2017

نام مجلہ :   سہ ماہی الصدیق صوابی

(اپریل تا جون 2017 ء)

تحقیق میں ندرت اور تنوع کا حامل علمی، تحقیقی اور اصلاحی مجلہ

مدیر مسؤل:    حضرت مولانا عبدالرؤف بادشاہ صاحب

مدیر: منفعت احمد

معاون مدیر: محمد اسلام حقانی

ناشر:سہ ماہی الصدیق

معہد الصدیق للدراسات اسلامیہ

بام خیل۔ صوابی۔ خیبرپختون خوا

ای میل:    Alsiddiq2016@gmail.com

سہ ماہی الصدیق کی جلد اوّل کا تیسرا شمارہ ہے جس میں گرانقدر مقالات اور مضامین شامل کیے گئے ہیں، جو علمی اور اصلاحی نقطہ نظر کے حامل ہیں اور اس قابل ہیں کہ ان کا بغور مطالعہ کیا جائے اور ان سے فائدہ اٹھایا جائے۔

اس شمارے میں جو مقالات و مضامین شامل کیے گئے ہیں وہ درج ذیل ہیں:

نعتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم۔ ۔ ۔  مولانا سید نفیس الحسینیؒ۔ امتِ مسلمہ کی حالتِ زار۔ ۔ ۔  مدیر۔ فہم قرآن کے مختلف مناہج میں منہج اعتدال ۔ ۔ ۔  مولانا عبدالحمید نعمانی۔ تفسیر: بیضاوی پر ایک نظر۔ ۔ ۔  مولانا محمد کامران ہوتی۔ فنِ خطابت اور علمی جستجو۔ ۔ ۔  مولانا سجاد الحجابی۔ تقسیم مقاصدِ شریعت۔ ۔ ۔  مولانا مدثر جمال تونسوی۔ خواتین کا مقام مغرب اور متجددین کی نظر میں۔ ۔ ۔  ڈاکٹر سید خالد جامعی۔ اسلام کے عائلی قوانین پر عمل ضروری کیوں؟۔ ۔ ۔ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی۔ دینی مدارس کا عصری نظام تعلیم سے اشتراک۔ ۔ ۔  مولانا محمد طفیل قاسمی۔ زمانۂ جاہلیت کی شاعری کا عمومی جائزہ۔ ۔ ۔  پروفیسر محمد انس حسان۔ سود ایک روحانی اور مادی وباء۔ ۔ ۔  مولانا عبدالرؤف بادشاہ۔ شرح مشکل الآثار، ایک تعارف۔ ۔ ۔  مولانا جواد علی شاہ حقانی۔ یومِ پیدائشِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی تحقیق۔ ۔ ۔  مولانا علی عمران۔ ادائیگی حقوق کی فکر کیجیے!۔ ۔ ۔  مولانا سید حبیب اللہ حقانی۔ بے سہاروں کی مدد۔ ۔ ۔  مولانا محمد اسلام حقانی۔ استشراق، آغاز و ارتقا، مقاصد و طریق کار۔ ۔ ۔  محترمہ آمنہ راشد۔ رمضان المبارک تقویٰ کے حصول کا ذریعہ۔ ۔ ۔  مولانا عبدالجیل بادشاہ۔ معہد الصدیق کے جلسہ دستاربندی۔ ۔ ۔  پروفیسر ظاہر گل۔ امتحانات میں نقل کرنا ایک شرعی و قانونی جرم۔ ۔ ۔  دارالافتاء۔ احوال و کوائف۔ ۔ ۔  مولانا محمد اسماعیل حقانی۔ کتاب شناسی ۔ ۔ ۔  مبصر کے قلم سے۔

جناب مدیر صاحب نے بڑے دردمند دل کے ساتھ طویل اداریہ لکھا ہے، اس کا کچھ حصہ ہم یہاں درج کرتے ہیں:

’’اس وقت صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ہم مسلمان جن حالات سے گزر رہے ہیں، اس کی سنگینی کا احساس ہر خاص و عام کو ہے۔ ہماری سیاسی قوت مدتوں سے ٹوٹ چکی ہے، اجتماعیت کا شیرازہ منتشر ہوچکا ہے، گروہی عصبیت ہماری رگِ جان میں پیوست ہوگئی ہے، گزشتہ دو صدیوں کی تاریخ ذلتوں، نکبتوں اور المناک مظالم سے بھری ہوئی ہے، ایک زخم پر مرہم نہیں رکھا جاتا کہ دوسرا زخم لگادیا جاتا ہے، کمزوری اور ذلت و بے چارگی روزافزوں ہے، مسلمان صرف دوسروں کے رحم و کرم پر ہیں، کوئی راہ حالات کے بہتر ہونے کی نظر نہیں آتی، مسلمان اپنی مظلومیت پر ماتم کرتے ہیں، اس سے فارغ ہوتے ہیں تو احتجاج کرلیتے ہیں، دیوانے چیخ لیتے ہیں، فرزانے فلسفیانہ غور و فکر میں مشغول ہوکر دل بہلا لیتے ہیں، اس سے مایوس ہوتے ہیں تو قیادت نہ ہونے کا شکوہ کرلیتے ہیں یا دشمنوں پر تبرا پڑھ لیتے ہیں، مگر حق یہ ہے کہ حالات کے بدلنے کی کسی کو کوئی راست تدبیر سمجھ میں نہیں آتی۔

یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ جس قوم کو جو مصیبت پہنچتی ہے، وہ ان کے کرتوتوں کا نتیجہ ہوتی ہے، اس لیے جو حالات پیش آرہے ہیں ان میں سب سے بڑا دخل ہماری کوتاہیوں، غفلتوں، بداعمالیوں اور بدکرداریوں کا ہے۔ بیماریاں بہت سی ہیں، جن کے علاج کی ہمیں ضرورت ہے۔ بظاہر ان بیماریوں کی سنگینی کا ہمیں احساس نہیں اور موجودہ حالات سے ان کا کوئی تعلق ہماری سمجھ میں نہیں آتا، لیکن یہ بات سمجھنے کی ہے کہ گناہوں کا ایک اثر ہوتا ہے جو ظاہر ہوکر ہی رہتا ہے، اور جب کوتاہی اور غفلت شعاری کسی ایسی امت کی طرف سے ہو، جسے انسانیت کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی گئی ہو، تو مسئلہ اور بھی سنجیدہ ہوجاتا ہے، اور پھر سُستی اور غفلت کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ اس طرح کے حالات پیدا کرتا ہے تاکہ وہ امت دوبارہ اس کی طرف پلٹ کر آئے اور اپنی مجرمانہ غفلت کا تدارک کرے۔

اس لیے اس حقیقت کا ادراک نہایت ضروری ہے کہ امتِ مسلمہ کا تعلق خدا تعالیٰ سے کمزور ہوچکا ہے اور خدا تعالیٰ کا یہ تعلق ہی اس کا معاون و محافظ ہوتا رہا ہے۔ اب جب ایسے محافظ سے ہی ہم محروم ہوجائیں تو پھر شکست و ریخت کا شکوہ کیوں کر؟ اس لیے ضروری ہے کہ امت اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق استوار کرے اور اپنے روگوں کا قرآن و سنت کی روشنی میں علاج کرے۔ جب تک ان بیماریوں کو دور نہ کیا جائے گا اور ان کا علاج نہ ہوگا اُس وقت تک حالات کے سدھرنے کا بھی کوئی امکان نہیں۔ یہاں صرف چند موٹی موٹی بیماریوں کا ذکر کیا جانا ضروری ہے جن میں ہماری اکثریت مبتلا ہے، اور جن کا موجودہ حالات کے پیدا ہونے میں بہت بڑا کردار ہے۔ یہ وہ بیماریاں ہیں جن کو دور کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں دیگر چیزوں پر توجہ نہیں دینی ہے۔ وہ چیزیں بھی ضروری ہیں، اور یہ بھی۔ دونوں میں توازن ہوگا تب ہی ہماری کوششیں نتیجہ خیز ثابت ہوں گی۔‘‘

جناب منفعت احمد صاحب مدیر مجلہ نے جو بیماریاں گنوائی ہیں وہ درج ذیل ہیں:

’’پہلی بیماری جو ہم کو لاحق ہے وہ ہے اتحاد کا فقدان، دوسری بیماری مادیت پرستی، تیسری بیماری آخرت فراموشی اور خود احتسابی کا فقدان، چوتھی بیماری خواہشات کی بندگی اور نفس کی پیروی، پانچویں بیماری مفاد پرستی، چھٹی بیماری بے حیائی، بے شرمی اور بیکاری۔‘‘

ان کی تفصیلات بھی موصوف نے عمدگی سے تحریر کی ہیں۔

مجلہ سفید کاغذ پر عمدہ طبع ہوا ہے۔ امید ہے مستقبل میں خوب سے خوب تر کا سفر تیزی سے طے کرے گا۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

نام کتاب:  وفیاتِ مشاہیر کراچی

(15 اگست 1947ء تا 31 دسمبر 2015 ئ)

مصنف:ڈاکٹر محمدمنیر احمد سلیچ

 صفحات 326      قیمت 1000 روپے

ناشر:قرطاس۔ فلیٹ نمبر A-15، گلشن امین ٹاور،

گلستان جوہر بلاک 15 کراچی

موبائل:

0092321-3899909

ایمیل :      saudzaheer@gmail.com

ویب گاہ:www.qirtas.co.nr

ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ پیشے کے لحاظ سے طبیب ہیں لیکن انہوں نے بڑی محنت سے تحقیق کے میدان میں بھی نام پیدا کیا ہے۔ مشاہیر کے بارے میں مفید اور ضروری معلومات بہم پہنچائی ہیں۔ ان کے قلم سے خفتگانِ خاکِ گجرات، اقبال اور گجرات، وفیاتِ نامورانِ پاکستان، وفیاتِ اہلِ قلم، تنہائیاں بولتی ہیں، اور یہ کتاب وفیاتِ مشاہیرِ کراچی جس میں مشاہیرِ کراچی کے متعلق معلومات فراہم کی ہیں۔ قرطاس نے ہمت کی ہے اور یہ کتاب بڑے سائز میں شائع کردی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ اور اس قسم کی کتابیں ہر مجلے اور اخبار کے دفتر میں موجود ہونی چاہئیں۔ کتاب کے شروع میں مرحوم رئیس امروہوی کا سید سلیمان ندویؒ کی وفات پر لکھا قطعہ دیا ہے:

مدفون ہوئے آخر آغوشِ کراچی میں

ملت کے بزرگانِ ذی قدر و فلک پایہ

تُو کچھ بھی نہ تھا پہلے اب تجھ میں سبھی کچھ ہے

اے شہرِ تہی دامن، اے خاکِ گراں مایہ

 ڈاکٹر معین الدین عقیل تحریر فرماتے ہیں:

’’علمی و تحقیقی دنیا میں، خصوصاً ہماری اپنی دنیا میں اور حالیہ عرصے میں عمدہ تحقیقی مطالعات کے ساتھ ساتھ عصری تقاضوں کے تحت، یہ خوش آئند صورتِ حال بھی عام ہورہی ہے کہ مطالعات و تحقیقات کو معیاری اور مستند بنانے کے لیے بنیادی و ثانوی ہر طرح کے مآخذ ومصادر کے تعین اور ان سے رجوع کرنے کا شعور بھی عام ہورہا ہے اور ان سے کماحقہٗ استفادے کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے۔ شخصی موضوعات پر مطالعے کے لیے، جو اس وقت ہمارا موضوع ہے، جہاں عصری و علاقائی تاریخیں، معاصرین کے سوانحی و شخصی کوائف، ذاتی اسناد و مکاتیب، متعلقہ شخصی موضوعاتِ دلچسپی پر مشتمل فہارسِ مطبوعات اور کتابیات اور ساتھ ہی عصری صحافتی وسائل۔ ۔ ۔  جیسے مآخذ و مصادر اب زیادہ ناگزیر سمجھے جارہے ہیں اور ان سے مناسب استفادہ کرتے ہوئے جو مطالعات و تحقیقات منظرعام پر آرہی ہیں، اپنے معیار و استناد کے لحاظ سے انہیں بجا طور پر ایک ستائش اور اعتبار حاصل ہورہا ہے۔ یہ عمل بے حد خوش کن اور قابلِ اطمینان ہے۔ ایسے ہی مآخذ و مصادر یا معاون وسائل میں، جو اگرچہ ثانوی حیثیت کے حامل بھی ہوتے ہیں، ان میں ’وفیات‘ نے بھی اپنی ایک ناگزیر جگہ بنالی ہے۔ جب کہ ’وفیات‘ سے استفادے کی روایت بھی کچھ کم نہیں۔ عالمی تناظر سے قطع نظر، مشرق اور بالخصوص مسلم معاشرے میں یہ ہزار سال سے بھی زائد پر محیط ہے۔ ہمارے اپنے ماحول یا جنوبی ایشیا اور اردو میں ہونے والی تحقیقات کے زمرے میں بھی ہم نے اس ماخذ سے استفادے کی روایت کو قائم کیے ہوئے سو سوا سو سال سے زیادہ کی مدت گزار دی ہے اور بے حد وقیع اور مفید و ناگزیر مثالیں اس مد میں پیش کی ہیں۔ اس ضمن میں عہدِ سید احمد خاں سے شبلی تک، اور ان کے مکتبِ علم و دانش سے وابستہ علماء: سید سلیمان ندوی اور عبدالماجد دریا بادی، اور ان سے قطع نظر ماضیٔ قریب میں مالک رام نے اس روایت کو ایسا استحکام اور فروغ دیا کہ ’وفیات‘ نے بطور ثانوی ماخذ، اپنی اپنی ضرورتوں کے تحت، مصنفین اور محققین کی ایک مستقل توجہ حاصل کرلی۔ ان سب پر مستزاد پاکستان میں اس روایت کو جو ایک مثالی اہمیت و توجہ اور فروغ قدرے ڈاکٹر محمد اسلم اور اُن سے بڑھ کر ڈاکٹر منیر احمد سلیچ نے بخشا ہے، وہ کم از کم پاکستان میں ایک مثال ہے اور معاصر علمی دنیا کے لیے بھی ایک نظیر سے کم نہیں۔‘‘

ڈاکٹر رؤف پاریکھ شعبہ اردو کراچی یونیورسٹی کی رائے ہے:

’’مسلمانوں میں تاریخ نویسی اور تحقیق کا ذوق خاصا قدیم ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی تدوین کے ضمن میں مسلمانوں نے جو دادِ تحقیق دی وہ تاریخ نویسی اور اصولِ تحقیق کا روشن باب ہے۔ بلکہ حدیث اور سیرت کی تحقیق ہی سے تحقیق کے بنیادی عمومی اصول منضبط ہوئے۔ اسی سے روایت، درایت اور استناد کے علاوہ اسماء الرجال کے علم کی بھی بنیاد پڑی، مسلمانوں میں علمی سوانح نگاری کا آغاز ہوا، اور مسلمان تاریخ نویسوں نے سیرت نگاری اور تاریخ میں حزم و احتیاط کی قابلِ فخر مثالیں قائم کیں۔ وفیات دراصل تاریخ نگاری اور علمی سوانح نویسی ہی کی ایک صورت ہے۔

تاریخی واقعات اور وفیات کو قلم بند کرنے کے ضمن میں تاریخ گوئی کو بھی شامل کرنا چاہیے۔ قطعۂ تاریخِ وفات دراصل وفیات کی ایک شکل ہے۔ اردو، فارسی، عربی اور ترکی میں تاریخ گوئی اور وفیات نگاری کی ایک طویل روایت ہے جس کے بیان کا یہ موقع نہیں ہے۔ ڈاکٹر عارف نوشاہی نے اس پر خوب روشنی ڈالی ہے(دیکھیے مقدمہ ’’وفیاتِ نامورانِ پاکستان‘‘ از ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ۔ مطبوعہ: اردو سائنس بورڈ، لاہور۔2006ئ)۔ مختصراً یہ کہ اردو شعرا کے فارسی اور اردو میں لکھے گئے تذکروں اور قطعاتِ تاریخِ وفات کے بعد بعض اخبارات اور رسائل نے بھی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کیا۔ معروف علمی جریدے ’’معارف‘‘ نے اردو میں وفیات کی روایت میں اہم اضافے کیے اور مشاہیر کی تاریخِ وفات کے علاوہ تعزیتی شذرے بھی شائع کیے۔

حال ہی میں ڈاکٹر سہیل شفیق نے ’’معارف‘‘ کی وفیات کو مرتب کرکے ایک اہم خدمت انجام دی ہے۔ البتہ ’’معارف‘‘ میں بھی کبھی کبھی بعض مشاہیر کی تاریخِ وفات مکمل طور پر نہیں دی جاتی تھی اور تعزیتی شذرے میں صرف یہ لکھنا کافی سمجھا جاتا تھا کہ ’’اس ماہ وفات پانے والے فلاں صاحب۔ ۔ ۔ ‘‘ حالانکہ معاصر وفیات نویس کے لیے استناد اور تفصیلات فراہم کرنا نسبتاً آسان ہوتا ہے اور معاصر شہادت کی اہمیت بھی زیادہ ہوتی ہے۔ وقت گزرنے کے بعد تو اہم باتیں بھی نسیاً منسیا ہوجاتی ہیں یا ان میں بہت کچھ خلط ملط ہوجاتا ہے۔ لیکن اتنا ذکر مل جانا بھی غنیمت ہے، کیونکہ ایک اشارے کی مدد سے بھی تحقیقِ مزید کا در کھلتا ہے۔ ’’معارف‘‘ کی وجہ سے کئی اہم شخصیات کی مختصر سوانح اور مستند تاریخِ وفات محفوظ ہوگئی۔ ورنہ اردو کے کئی اہلِ قلم اور معروف قومی شخصیات کی درست تاریخ وفات اور ان کی سوانحی تفصیلات مشکل ہی سے ملتی ہیں۔

پروفیسر محمد اسلم، زاہد حسین انجم اور بعض دیگر لکھنے والوں کی کتابیں بھی شخصیات پر تحقیق یا ان کی وفیات تلاش کرنے والوں کے لیے ممدومعاون ہیں۔ ’’الرشید‘‘،’’الحق‘‘ اور بعض دیگر جرائد میں شائع ہونے والی وفیات اور تعزیتی شذرات بھی مرتب کردیے گئے ہیں۔ ہندوستان میں شخصیات کی سوانحی تفصیلات، تعزیتی شذرات یا وفیات پر عبدالماجد دریا آبادی، ابوالنصر خالدی، مالک رام، وہاب اشرفی، بشارت علی خاں فروغ اور سنجیدہ خاتون کی کتابیں وہ مآخذ ہیں جو فوری طور پر ذہن میں آتے ہیں۔ لیکن ہندوستان سے چھپنے والی کتابوں میں کراچی سے متعلق اہلِ قلم اور مشاہیر کا ذکر قدرتاً کم ہی ملتا ہے۔

اردو ادب اور زبان پر تحقیق کرنے والے طلبہ و طالبات اکثر شکوہ کرتے ہیں کہ کراچی کی فلاں فلاں شخصیات کے بارے میں نہایت مختصر معلومات ملتی ہیں اور بعض ادیبوں یا شاعروں کی کتابوں کے نام تک کہیں دستیاب نہیں ہوتے۔ احمد حسین صدیقی صاحب نے چار جلدوں میں ’’دبستانوں کا دبستان کراچی‘‘ لکھ کر اس کمی کو کسی حد تک پورا کیا ہے لیکن انہوں نے اپنے کام کو بیشتر اہلِ قلم تک محدود رکھا ہے۔ دیگر شعبوں سے متعلق کراچی کی دیگر شخصیات کی وفیات بالعموم آسانی سے نہیں ملتیں۔ پھر ان چاروں جلدوں میں تقریباً آٹھ سو (800) اہل قلم کا احوال ملتا ہے۔ لیکن ڈاکٹر منیر احمد سلیچ کی زیر نظر کتاب میں کراچی سے تعلق رکھنے والے ڈھائی ہزار (2500)سے زیادہ مشاہیر، جن میں اہلِ قلم کے علاوہ  دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی معروف و کم معروف شخصیات بھی شامل ہیں، کی سوانحی تفصیلات بشمول تاریخ پیدائش و وفات، ان کی ادبی یا دیگر شعبوں میں مصروفیات، کارہائے نمایاں، نیز بعض دیگر اہم معلومات موجود ہیں۔ اس میں 1947ء سے 2015ء کے درمیان وفات پانے والے مشاہیرِ کراچی کا ذکر ہے۔ درحقیقت محمد منیر احمد سلیچ کی یہ کتاب یعنی ’’وفیاتِ مشاہیرِ کراچی‘‘ ایک بڑی کمی کو پورا کرتی ہے اور اس میں انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں کم سے کم جگہ میں زیادہ سے زیادہ معلومات نہایت معروضی، غیر جذباتی اور محققانہ انداز میں پیش کی ہیں۔

یہ امر باعثِ اطمینان اور مسرت ہے کہ سلیچ صاحب نے ہر شخصیت کے بارے میں پوری تحقیق اور تدقیق کے بعد قلم اٹھایا ہے اور وفیات کے ضمن میں اسی حزم و احتیاط کا مظاہرہ کیا ہے جس میں ہمارے بزرگ تاریخ نویسوں اور محققوں نے قابلِ فخر مثالیں قائم کی تھیں۔ انہوں نے نہ صرف احتیاط سے کام لیا ہے بلکہ مکمل معلومات پیش کی ہیں اور ضروری مآخذات کا ذکر بھی  مختصراً کردیا ہے۔ اسی لیے اس کتاب کے بارے میں ادھورے حوالوں یا ناقص معلومات ہونے کی شکایت سننے میں نہیں آئے گی، جیسا کہ مشاہیر کراچی کے سلسلے میں لکھی گئی بعض دیگر تحریروں کے بارے میں سنی جاتی ہے۔‘‘

کتاب سفید کاغذ پر طبع کی گئی ہے۔ مجلّد ہے۔ بڑے سائز میں ہے۔ وفیات نگاری میں وقیع اضافہ ہے۔

بشکریہ : فرائیڈے اسپیشل

www.akhbaroafkar.com