تنظیم میڈیا ورکشاپ۔ مثبت سمت میں بڑھتے قدم۔ کیا ایک بڑی چھلانگ لگانا ممکن ہے! (تیسری قسط)۔۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........
پچھلی قسط میں ہم نے فیلڈ میں موجود بھٹکلی مسلم صحافیوں کے ساتھ ساتھ ان کا بھی ذکر کیا جو صحافتی ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد عملاً اس پیشے یا مہم سے وابستہ نہیں ہوپائے ہیں۔یا پھر صحافتی میدان کا عملی تجربہ ہونے کے باوجود میڈیا کے محاذ پر ہمارا جو اہم مشن اور مقصد ہے اس کو پورا کرنے کے سلسلے میں پوری طرح سرگرم عمل نہیں ہوسکے ہیں۔ ٹھیک ہے کہ ہم میں سے کچھ لوگ اردو جرنلزم میں یا پھر سوشیل میڈیا پر اپنی زبان میں ہمارے شہر سے متعلق کچھ سرگرمی دکھاتے ہوں، لیکن ہمارا نشانہ او ر مقصود تو یہ نہیں ہے۔ سوشیل میڈیا پر ہماری سرگرمیوں کے تعلق سے اگلی قسطوں میں بات آئے گی ۔ فی الحال ورقی( پرنٹ) اور برقی (الیکٹرانک) میڈیا کے تعلق سے ہی بات آگے بڑھاتے ہیں۔اور دیکھتے ہیں کہ مستقبل کی صورتحال کیا ہے؟
نئی کھیپ جو آنے والی ہے!: جرنلزم اور ماس کمیونی کیشن میں گریجویشن اور ماسٹرس ڈگریوں کے ساتھ بھٹکلی مسلمانوں میں سندیافتہ صحافیوں کی سرِ دست جو نئی کھیپ آنے والی ہے اس میں ایک عبدالرحمن رکن الدین ہے جو اس وقت منگلورو میں جرنلزم میں گریجویشن کے تیسرے سال میں زیر تعلیم ہے۔ دوسرا نام عبدالمہیمن سعدا کا ہے جو اس سے قبل کچھ عرصے تک ساحل آن لائن سے منسلک رہ کرعملی تربیت پارہے تھے اور اب انہوں نے منگلورو سے جرنلزم میں ماسٹرس ڈگری کے لئے امسال داخلہ لیا ہے۔ منگلورو سے ہی جرنلزم میں گریجویشن کے لئے بھٹکل کے اسماعیل ذبیح ابن نورالامین شیخ نے بھی امسال داخلہ لیا ہے۔اسی سال جناب امتیاز ادیاور کے فرزند قادر میراں ایہاب نے بھی کے سی کالج ممبئی میں جرنلزم میں ماسٹرس ڈگری کے لئے داخلہ لیا ہے۔کہاجاسکتا ہے کہ ہمارے نوجوانوں میں باقاعدہ سنداور تربیت یافتہ صحافی بننے کی طرف بڑھتا ہوا یہ رجحان بہت ہی خوش آئند بات ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ ان میں سے دو چار ایسے پُر عزم اور حوصلہ مند صحافی نکلیں گے جو ہماری ملّی ضرورت کو ہمارے مشن اور ویژن کے مطابق پورا کرنے میں معاون بنیں گے۔
اسی امید پر تو جی رہے ہیں ہجر کے مارے کبھی تو رخ سے اٹھے گی نقاب آہستہ آہستہ
میڈیا کی ہاؤس کی ضرورت: تنظیم میڈیا ورکشاپ اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مادھیما کیندرا منگلورو کے چیف جناب عبدالسلام پتّگے نے ایک پتے کی بات کہی تھی کہ آج میڈیا میں جن کا سکہ چل رہا ہے ان تمام میڈیا ہاؤسس پر کارپوریٹ سیکٹریعنی بڑے بڑے دولتمند تاجروں اور صنعت کاروں کا قبضہ ہے۔ اور انہی کے ہاتھوں میں میڈیا کی نکیل ہے۔ وہی صحافتی رجحان اور ترجیحات کارخ طے کرتے ہیں ۔ ایسے میں موجودہ دور میں صحافتی محاذ پر جمے رہنے اور ملّی مسائل کو حقیقی تناظر میں پیش کرنے کے علاوہ حق و انصاف کا تحفظ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ بڑے بڑے میڈیا ہاؤس ہماری ملکیت میں ہوں ۔ انہوں نے اس ضرورت کی اہمیت جتانے اور ترغیب دلانے کے لئے یہ بھی کہا کہ دین کے قلعے کے طور پر مدارس اور مساجد تعمیر کرنے کا جس قدر ثواب ملے گا کچھ ایساہی ثواب میڈیا ہاؤس قائم کرنے پر بھی ملے گا۔میں نے اسی پس منظر میں اپنے مضمون کی سرخی میں یہ سوال اٹھایا تھا کہ کیا ایک بڑی چھلانگ لگانا ممکن ہے ؟ !اور اسی کے جواب میں مختلف جہتوں سے قسط وار اس موضوع کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ نقاش نائطی کی جدوجہد: ملت کاایک بڑا’میڈیا ہاؤس‘ قائم کرنے کی ضرورت پر ہمارے دوست اور مجلس اصلاح تنظیم کے نائب صدر جناب فاروق شاہ بندری پٹیل (نقاش نائطی) ایک عرصے سے مسلسل لکھ رہے ہیں اور اس نکتے کی طرف قوم کو متوجہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ان کی تحریروں کے پس منظر میں میرا اپنا تجزیہ ہمیشہ یہ رہا ہے کہ یہ مسئلہ عملی طور پراتنی آسانی سے حل نہیں ہوسکتا۔اوراس کا اظہار میں نے پہلے بھی سرسری طور پر کردیا تھا۔ میرا یہ احساس تب بھی تھااوراب بھی ہے کہ محترم نقاش نائطی صاحب چونکہ ماشاء اللہ خود ایک بڑے تاجر اور خاص کر حالات حاضرہ پر بے تکان لکھنے والے قلم کار ہیں۔سعودی عرب میں رہتے ہوئے ہندوستان کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور نامور اہل قلم دانشوروں سے ان کے ذاتی روابط ہیں تو انہیں خود آگے بڑھ کر اس مشن کو عملی طور پر انجام دینے کی سعی کرنی چاہیے۔ محض مراسلے اورمضامین لکھ کرخاموش نہیں بیٹھنا چاہیے بلکہ کچھ ہم خیال اور بااثر رفقاء کی ٹیم بناکر اس’میڈیا ہاؤس ‘ کا خاکہ وضع کرنا چاہیے ۔ او ر اس کے لئے ضروری فنڈ اکٹھا کرنے کے لئے خود انہیں آگے بڑھنا چاہیے۔ ہنوز دلّی دور است: میری یہ سوچ اس لئے بھی تھی کہ ایک’ میڈیا ہاؤس‘(جسے حقیقی معنوں میں میڈیا ہاؤس کہا جاتا ہے) کوئی چند لاکھ روپوں کا معاملہ نہیں ہے۔ کروڑہا کروڑ کا فنڈ چاہیے ۔ اس منصوبے کی قیادت کرنے والا خود مالی اعتبار سے اتنا مضبوط اور قابل اعتماد ہو اور ا س کی امیج قوم کی رئیس اور امیر ترین شخصیات کے پاس اتنی معتبر ہوکہ وہ خوش دلی کے ساتھ اس منصوبے سے جڑ سکیں اوراپنا بھر پور مالی تعاون کرسکیں۔علاوہ ازیں قانونی مسائل کا حل اور دیگر وسائل کا حصول بازیچۂ اطفال نہیں ہے۔ اور اب میری یہ سوچ ، یقین میں بدل گئی ہے کہ کم ازکم نقاش نائطی کے پرعزم ہونے کے باوجود ان کے نقشے کے مطابق بھٹکلی احباب کی طرف سے ’ میڈیاہاؤس‘ کا قیام ہنوز دلّی دور است والا بن گیا ہے۔ کیا ہم جذباتی لوگ ہیں!: مسلمانوں کے میڈیا ہاؤس کے قیام والے اپنے پسندیدہ اور ترجیحی عنوان پرنقاش نائطی نے گزشتہ ہفتے اپنے تازہ ترین مضمون میں بڑی حد تک مایوسی کا اظہارکیا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اس ایجنڈے پر بہت ہی مخلصانہ سوچ رکھتے ہیں۔لیکن صرف خیالی خاکوں سے عملی ڈھانچے وجود نہیں پاتے۔ ہر سنہرے خواب کی تعبیر آسان نہیں ہواکرتی۔اور شائداپنے انداز میں تمام تر عملی کوشش کے بعد اب جاکر انہیں تلخ زمینی حقائق کا احساس ہوگیا ہے۔ انہوں نے اس ضمن میں اپنی طرف سے کی گئی گزشتہ چند برسوں کی عملی تگ و دو کا خلاصہ اس مضمون میں پیش کیا ہے اوراپنے مخصوص طرزِ تحریر میں تان جس بات پر توڑی ہے وہ یہ ہے کہ’’ :..... ہم نے اپنوں کو مشوروں سے نوازنے میں ، گفتار کا غازی زیادہ پایا اور مالی اعانت میں دشمنانِ اسلام کے مقابلے میں اپنوں کے بخل کو زیادہ پایا۔ہم جذباتی لوگ ہیں،حفظِ ماتقدم اخراجات پر یقین کم، ناگہانی صورتحال میں ، مصیبت کے ماروں کی بازآبادکاری پر دھیان زیادہ دینے والوں میں سے ہیں۔‘‘آرزو ، حسرت اور امید ، شکایت ، آنسو اک ترا ذکر تھا اور بیچ میں کیا کیا نکلا
مقامی میڈیا کی خدمات: جناب فاروق پٹیل(نقاش نائطی) اورملّت کے لئے فکر مند دیگر احباب جس قسم کے بڑے میڈیا ہاؤس کی باتیں کرتے ہیں اس سے ہٹ کر اگر مقامی طوربھٹکلی مسلم نوجوان صحافیوں کی طرف سے کی جارہی صحافتی خدمات کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لیاجائے تو الحمدللہ شعوری بیداری کی حد تک بڑا کام ہورہا ہے۔ عملی طور پر انگریزی اور کنڑا میڈیا میں خود ہمارے صحافی نہ ہونے کے باوجود کنڑا اور انگریزی سیکشن کے تحت ہمارے تمام مقامی ویب سائٹس خبروں اور مضامین کے ذریعے جو بھی مثبت خدمات انجام دے رہے ہیں وہ لائق ستائش ہے۔بھٹکلیز ڈاٹ کام کی خصوصیت بلکہ بڑا سرمایہ اس کے پاس موجودنادر و نایاب قسم کے آڈیو اور ویڈیو کا بے مثال خزانہ ہے۔نامور قلمکاروں کے ذریعے حالات حاضرہ پرلکھے گئے اور دل و دماغ کو جھنجھوڑنے والے مضامین کے لئے بھی بھٹکلیز ڈاٹ کام کی اپنی الگ پہچان ہے اور اس لحاظ سے وہ سب سے آگے ہے۔ چھوٹا میڈیا ہاؤس ۔ بڑی خدمات: لیکن اگر ہم نیوز اور خاص کر بھٹکل کے تعلق سے منفی پروپگنڈے کا مقابلہ کرنے کے زاویے سے ذرا منصفانہ اور تحقیقی جائزہ لیں توساحل آن لائن بھٹکل ہمارا چھوٹا مگر ایک بہت ہی کار آمد میڈیا ہاؤس ہے۔ اس کی خدمات کا دائرہ تاحال دیگر ویب سائٹس سے ذرا وسیع تر ہے اوروہ اس راہ پر ایک قدم آگے چل رہا ہے۔ایک تو ساحل کے پاس مبشر ہلارے، یحییٰ ہلارے، پروفیسر رؤف ساونور، رضا مانوی، ضہیب دامودی، صفوان موٹیا، سجاد قاضی(کمٹہ)، شاہد مختصر، عبدالرحمن نیر ، سعید کولا جیسی بہت ہی فعال ٹیم ہے جو رات دن تینوں زبانوں کے سائٹس کو بروقت اَپ ڈیٹ کرنے میں مصروف رہتی ہے۔اس متحرک ٹیم میں ایک بہت ہی ذہین اور اردو کے ساتھ انگریزی زبان پر بھرپور عبور رکھنے والانوجوان مولوی احمد زکریا دامودی بھی ہے ۔ اس کے قلم میں بڑی جان ہے۔مطالعہ وسیع ہے۔ نقد و تبصرے کا عنصر بہت قوی ہے۔مجھے امید ہے کہ یہ نوجوان اگر پوری سنجیدگی کے ساتھ نیشنل سطح پر انگریزی میڈیا میں ہمارے مشن کے تحت ویژن پیش کرنے کی مہم میں لگ جائے گا تو بے شک اپنا رنگ جماکر رہے گا۔ غیر مسلم رپورٹرس۔مثبت پہلو: اس کے علاوہ ساحل آن لائن کے دفتر سے اہم کنڑا اخباروں اور چینلس سے وابستہ دو چار غیر مسلم رپورٹرس بھی منسلک ہیں۔پہلی نظر میں کچھ لوگوں کو اس بات پر اعتراض بھی ہوسکتا ہے، لیکن میرے اپنے تجربے اور تجزیے کی بنیاد پر میں کہہ سکتا ہوں کہ اس دفتر سے ان کی وابستگی کی وجہ سے ان کی رپورٹنگ میں بڑی حد تک اعتدال اور میانہ روی آگئی ہے۔ ورنہ ماضی میں انہی میں سے دو ایک رپورٹرس جس قسم کی منفی رپورٹنگ کیا کرتے تھے وہ کچھ ہم جیسے لوگ ہی جانتے ہیں۔مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیں ہے کہ90 ء کے بعد بھٹکلی مسلمانوں او ران کے اداروں کے خلاف لکھنے والے مقامی رپورٹرس کی جو ایک مضبوط ٹیم بن گئی تھی، اس میں شگاف ڈالنے اور دو چار کو غیر جانب دار(neutral)یا ’کم جانب دار‘اور ان کے نظریات کو نرم soft کرنے میں بڑی کامیاب کوشش اس مقامی میڈیا ہاؤس کی طرف سے ہوئی ہے۔ فسادات کے بعد ضلعی سطح کے ایک اخبار میں بہت زیادہ زہر افشانی کرنے والا ایک نوجوان رپورٹر جس نے ایک مرتبہ اپنے اخبار میں یہ شہ سرخی لگائی تھی کہ’’اسامہ بن لادن نے بھٹکل کا دورہ کیا‘‘اس نے پچھلے کچھ برسوں سے اخباری دنیا سے ہی سنیاس لے لیاہے۔ علاقائی اورنیشنل میڈیا پر اثرات: یقیناًملکی سطح پر ہمیں ایک بڑے میڈیا ہاؤس کی ضرورت ہے۔ لیکن فی الحال بھٹکل میں رہتے ہوئے ساحل آن لائن کے پلیٹ فارم سے نیشنل سطح کے ورقی اور برقی میڈیا پر بھی مثبت اثرات ڈالنے کی جو ممکنہ کوششیں ہورہی ہیں وہ نہ صرف غنیمت ہیں بلکہ لائق ستائش ہیں۔ بھٹکل کے ساتھ لگے ہوئے دہشت گردی کے ٹیاگ پر اسٹوریز بنانے کے لئے علاقائی (regional) اورنیشنل لیول بلکہ بی بی سی جیسے عالمی میڈیا سے وابستہ نمائندے جب بھٹکل آتے ہیں تو ان میں سے اکثر ساحل کے دفتر سے رجوع ہوتے ہیں۔ان میں بالکل غیر جانب دار اورمعتدل قسم کے رپورٹرس بھی ہوتے ہیں اور کٹر پنتھی زعفرانی ذہنیت والے نمائندے بھی ہوتے ہیں۔ان نمائندوں کے پاس دہشت گردی (terrorism) اور بھٹکل پر اسٹوری کا پہلے سے تیار شدہ اسکیچ رہتا ہے۔شہر کے مختلف افراد، مسلم و غیرسماجی ذمہ داران اور پولیس افسران سے ان کی ملاقاتیں کروانے کے بعد یا اس سے ذرا پہلے ساحل ٹیم کی معرفت ان کی ایک تفصیلی ملاقات خاکسار سے کروائی جاتی ہے۔پھر کم ازکم آدھے گھنٹے تک اس موضوع پران کے ساتھ میری نرم و گرم اور تلخ و شیریں گفتگو کے بعد تقریباً ہر مرتبہ ایسا ہو جاتاہے کہ رپورٹر کو ہم اپنے دلائل سے قائل کرنے میں بڑی حد تک کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد یاتو ان کی اسٹوری کا پیٹرن پوری طرح بدل جاتا ہے۔ یا پھر ہم اسے بہت زیادہ منفی ہونے سے بچانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔یہ ایک خاموش اور پردے کے پیچھے ہونے والی مسلسل کوشش ہے اورالحمد للہ اب تک بڑے بڑے میڈیا ہاؤسس سے شائع ہونے والی درجنوں ایسی اسٹوریزکومثبت یا کم منفی اور dilute کرنے میں ہمیں کامیابی ملی ہے۔اس طرح یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ :دل سا وحشی کبھی قابو میں نہ آیا یارو ہار کر بیٹھ گئے جال بچھانے والے
سوورن ٹی وی ۔ ایک مثال: جیساکہ میں نے کہا کسی بھی بڑے انگریزی یا کنڑا میڈیا ہاؤس کے نمائندے کے ساتھ میری دوٹوک بات چیت آدھے گھنٹے سے کم کی تو ہوتی نہیں۔ لیکن جب اسٹوری چھپتی تو ہے دو ایک لائن میں ہمارے بیان کا تذکرہ کیاجاتا ہے کیونکہ اخباروں کے چیف ایڈیٹرس جس پہلو کو ابھارنا اور سنسنی خیز بناناچاہتے ہیں، اس پہلوکو ہمارے بیانات سے نقصان پہنچتا ہے۔ لیکن منجملہ پوری اسٹوری کو کم نقصان دہ ضرور بنادیا جاتا ہے۔میڈیا والوں کے ساتھ ہماری گفتگو کس انداز کی ہوتی ہے ، اس کی مثال اگر کوئی ملاحظہ کرنا چاہے تو ’یاسین بھٹکل‘ کی گرفتاری کے بعد کنڑا چینل ’سوورنا ٹی وی‘ پرتین ایپی سوڈ میں پیش کی گئی اسٹوری دیکھیں۔ جس میں سے ایک ایپی سوڈ صرف میرے ساتھ ہوئی گفتگو پر مشتمل ہے۔میرے کلینک میں آدھے گھنٹے سے زیادہ کی ریکارڈنگ ختم ہوتے ہی رپورٹر نے جو پہلا جملہ کہا تھا وہ یہ تھا:"This is what I wanted"(یہی وہ چیز تھی جس کی مجھے ضرورت تھی)۔ اس پر میں نے کہا کہ تم دو تین منٹ میں بات ختم کردوگے اور میرا ورژن ٹیلی کاسٹ کرنے کی اجازت تمہارا چیف نہیں دے گا۔تب اس نے کہاکہ آپ دیکھنا کہ میں پوری کوشش کرکے اسے ریلے کروں گا۔ پھر واقعتا اس نے تقریباً 17منٹ کا بیان اپنے ایپی سوڈ میں شامل کرلیاجو آج بھی یو ٹیوب پر دستیاب ہے۔ ایک مزیدار بات: جب یہ ایپی سوڈ ٹیلی کاسٹ ہورہاتھا تو ضلع شمالی کینرا ، جنوبی کینرا ور ریاست کے دیگر مقامات سے میری جان پہنچان والے احباب فون کرکے حوصلے اور دلائل کی داد دیتے ہوئے ستائش کررہے تھے اور بتارہے تھے کہ پروگرام دیکھ کر جی خوش ہورہا ہے۔اس کے دو دن بعد میں شام کے وقت فروٹ کی دکان پر خریداری کررہا تھاتو ایک غیر مسلم شخص نے قریب آکر مجھے غور سے دیکھااور پوچھا پرسوں سوورنا ٹی وی پر آپ ہی بول رہے تھے نا؟ پہلے میں ذرا سا چونکا ، پھرجواب دیا:جی ہاں!۔ تو اس نے آگے بڑھ کر مصافحہ کرتے ہوئے کنڑا میں کہا’’سر! آپ نے کتنے اچھے انداز میں دلائل کے ساتھ باتیں سامنے رکھیں۔ واقعی آپ کی باتیں حقیقت پسندانہ تھیں!‘ ‘ میں نے مسکراکراس کا شکریہ ادا کیااورپھر اللہ کا شکر اداکیاکہ میری باتوں سے قائل ہونے والا ایک غیر مسلم شخص تو بھٹکل میں مل گیا(بھلے کسی بھٹکلی مسلم بھائی کو اس کا احساس نہ ہواہو!) اس ضمن میں ایک مزیدار بات یہ ہوئی کہ اس پروگرام کے نشر ہونے کے دو ایک مہینے بعد مہاراشٹرا کے آکوٹ سے ہمارے ایک شناسا بزرگ شاعر اقبال خلشؔ صاحب کا فون آیا کہ :ڈاکٹرصاحب ! کنڑ اٹی وی چینل پر آپ کی گفتگوکا ویڈیو دیکھنے کا موقع ملا۔ زبان تو میری سمجھ میں نہیں آئی، لیکن آپ کا اندازبیان اور چہرے کے تاثرات سے سمجھ میں آیا کہ آپ اس حساس مسئلے پر بڑی ہمت اور دلائل کے ساتھ بول رہے ہیں۔ جی بہت خوش ہوا۔ اللہ آپ کو سلامت رکھے!‘‘ قوم کو احسا س ہونا چاہیے: کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بھٹکلی مسلمانوں کا کوئی بڑا میڈیا ہاؤس نہ ہونے کے باوجود ملّت اور خاص کر بھٹکل سے متعلق مسائل پرمحدود وسائل کے ساتھ چھوٹے اور مقامی میڈیا والوں کی جانب سے نیشنل میڈیا پر بھی اثر انداز ہونے کی ممکنہ کوششیں ہورہی ہیں۔لیکن اس کی اہمیت کا اندازہ اور احساس ہماری اپنی قوم کو نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ مقامی طور پر جتنے بھی ویب سائٹس اپنی اپنی حد تک جو مثبت خدمات انجام دے رہے ہیں اور جتنے نوجوان اس مہم میں لگے ہوئے ہیں۔ان کی پزیرائی جس طرح ہونی چاہیے ، میرا خیال ہے کہ ویسی نہیں ہورہی ہے۔ لہٰذا بڑے’ میڈیا ہاؤس‘ کے لئے لمبی چھلانگ لگانے کی تدابیر نتیجہ خیز ہونے تک ان مقامی ویب سائٹس کی پشت پناہی اور خاص طور پر مالی استحکام کے سلسلے میں قوم کے اربابِ حل و عقد اور اربابِ زر کو سنجیدگی کے ساتھ سوچنا اورخود آگے بڑھ کر عملی اقدام کرنا ہوگا۔تاکہ جرنلزم کے میدان میں نئی کھیپ جو آنے والی ہے وہ معاشی طور پربھی بے فکر اور یکسو ہوکر قوم و ملّت کی ایک اشد ضرورت پوری کرنے میں جی جان سے لگ جائے۔اورکل پھر انہیں بھی یہ شکایت نہ رہے کہ:زندگی جیسی توقع تھی ، نہیں کچھ کم ہے ہر گھڑی ہوتا ہے احساس ، کہیں کچھ کم ہے
haneefshabab@gmail.com (میڈیا کی بدقسمتی......میڈیا سے وابستگی ایک فیشن.....میڈیا کے مختلف رنگ..... جاری ہے... اگلی قسط ملاحظہ فرمائیں) (ضروری وضاحت: اس مضمون میں درج مواد مضمون نگار کی ذاتی رائے مشتمل ہے۔اس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)