کسی قیامت کا انتظار ہے؟ ایم ودودساجد

Bhatkallys

Published in - Other

02:21PM Sat 6 May, 2017
ممبئی اور دہلی سے یکے بعد دیگرے دو فیصلے آئے۔ ممبئی ہائی کورٹ نے گجرات میں 2002میں رونما ہونے والے بدنام زمانہ بلقیس جہاں اجتماعی عصمت دری واقعہ میں سفاک مجرموں کو عمر قید کی توثیق کی۔اورسپریم کورٹ نے دسمبر 2012میں رونما ہونے والے دہلی کے بدنام زمانہ ’نربھیااجتماعی عصمت دری ‘ واقعہ میں سفاک درندوں کی سزائے موت کی توثیق کی۔ اب دردمندافراد اس پر متفکر ہیں کہ نربھیا کے مجرموں کوتو سزائے موت مگر بلقیس کے مجرموں کو سزائے عمر قید ؟۔بظاہر یہ ایک بڑا سوال تو ہے۔اس سوال کی اہمیت کو یکسر مسترد نہیں کیا جاسکتا۔لیکن یہ معاملے قانونی موشگافیوں کے بھی ہیں اس لئے سرسری معلومات یا جذبات کی بنیاد پر رائے زنی کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔سوشل میڈیا پر مسلمانوں کی جو نوجوان نسل اس فیصلہ پر اپنی غیر محتاط رائے ظاہر کر رہی ہے اسے نظر ثانی کرنے اور احتیاط کا دامن تھامنے کی ضرورت ہے۔ گجرات میں 2002میں جو کچھ ہوا اس کو ہندوستان کے فسادات کی تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکے گی۔گجرات کا قتل عام اس وقت کے وزیر اعلی نریندر مودی کے دور میں ہوا تھا۔لیکن گجرات کے سب سے وحشت ناک اجتماعی عصمت دری واقعہ میں مجرموں کو سزائے عمر قید کی توثیق ایسے وقت میں ہوئی ہے جب نریند رمودی اس ملک کے وزیر اعظم ہیں۔اس نکتہ پر غور کئے بغیر دو ایک ہی طرح کے واقعات پر سنائے جانے والے فیصلوں پر رائے دینا مناسب نہیں ہے۔گجرات میں متاثرین اور خاص طورپر مسلمانوں کو انصاف کا حصول کتنا مشکل بلکہ ناممکن ہوگیا تھا اس کا اندازہ اس ایک مثال سے لگایا جاسکتا ہے کہ گجرات ہائی کورٹ کے ایک مسلمان جسٹس (قادری)کو اپنی عمر رسیدہ والدہ کو کاندھوں پر بٹھاکراپنا گھر چھوڑ کر بھاگنا پڑا اور انہوں نے گجرات ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے گھر میں جاکر پناہ لی۔حد تو اس وقت ہوگئی جب انہیں اپنے گھر میں سیکیورٹی فورسز تک تحفظ فراہم کرنے میں بے بس نظر آئیں۔ اس سلسلہ میں اس وقت سپریم کورٹ کی مختلف بنچوں نے جو تبصرے کئے تھے وہ بھی تاریخ میں ہمیشہ درج رہیں گے اور بے بس لوگوں کی داستان رنج والم پر مہر تصدیق ثبت کرتے رہیں گے۔سپریم کورٹ نے ظہیرہ شیخ اور بلقیس جہاں جیسے مقدمات کو گجرات سے باہر منتقل کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ایسا لگتا ہے کہ گجرات میں انصاف کا حصول ناممکن ہوگیا ہے۔‘‘اس سے پہلے گجرات کے قتل عام کے واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کہہ چکی تھی کہ ’’ایسا لگتا ہے کہ جس وقت گجرات جل رہا تھا تو عہد جدید کا نیرو چین کی بانسری بجارہا تھا۔‘‘ محتاط الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ خودگجرات ہائی کورٹ اس بات کو یقینی بنانے سے عاجز وقاصر تھی کہ متاثرین کو انصاف مل جائے۔اس وقت صورت حال ہی ایسی تھی۔انگریزی روزنامہ انڈین ایکسپریس نے اس سلسلہ میں (6مئی 2017کو)تحریراپنے اداریہ کا اختتام اس جملہ پر کیا ہے کہ’’بلقیس جہاں عصمت دری واقعہ میں ممبئی ہائی کورٹ کا فیصلہ اس وقت کی گجرات حکومت کو بھی مجرم قرار دیتا ہے جس نے انصاف کے عمل سے سمجھوتہ کیا‘‘۔ اب اس نکتہ پر بھی غور کیجئے کہ 16مئی 2014کو‘جس روز عام انتخابات کے نتائج نے نریندرمودی کی قیادت والی بی جے پی کو فاتح اعظم قرار دیااسی روز گجرات کے ان 11مسلمانوں کو سپریم کورٹ نے باعزت بری کردیا تھاجن کو اکشر دھام بم دھماکہ کے معاملہ میں سزائے موت سنائی جاچکی تھی اور جس کی گجرات ہائی کورٹ بھی توثیق کر چکی تھی۔لیکن اس کے بعد پھر ایسا کوئی فیصلہ نہ آسکا۔عدلیہ پرمبصرین کا اعتمادمتزلزل ہوگیا۔اور یہ سمجھنے میں کوئی ترددنہ ہوا کہ اب حالات بدل گئے ہیں اور اب انصاف کا حصول صرف گجرات میں ہی نہیں بلکہ کہیں بھی ممکن نہیں رہا۔لیکن اب اگر ٹھیک تین سال کے بعد بلقیس جہاں اجتماعی عصمت دری کے مقدمہ میں ممبئی ہائی کورٹ نے تمام مجرموں کو سزائے عمر قید کی توثیق کر دی ہے تو اس واقعہ کو چھوٹا سمجھنا یا نربھیا کے مقدمہ میں آنے والے فیصلہ سے اس کا موازنہ کرنا درست نہیں ہوگا۔ باوجود اس کے کہ بلقیس جہاں کے مجرموں کو سزائے موت نہیں دی گئی‘عدلیہ ہمارے شکریہ‘ہمارے عزت واحترام اور ہمارے سلام کی مستحق ہے۔ بلقیس جہاں کے فیصلہ میں ایک اہم بات یہ ہے کہ گجرات فسادات کے درجنوں مقدمات میں شاید یہ پہلا مقدمہ ہے کہ جس میں عدالت نے نہ صرف تفتیش کارپولس والوں کو بلکہ بلقیس کے تین سالہ بچہ سمیت اس کے ایک درجن سے زیادہ رشتہ داروں کی لاشوں کاپوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹروں کو بھی سزاسنائی ہے۔گجرات کے ان درندوں نے نہ صرف یہ کہ حاملہ بلقیس جہاں کی اجتماعی عصمت دری کی تھی بلکہ اس کے 14 گھر والوں کو بھی قتل کردیا تھا۔ٹرائل کورٹ نے پانچ پولس اہلکاروں اور دوڈاکٹروں کوبری کردیا تھا لیکن ممبئی ہائی کورٹ نے ان پانچوں پولس اہلکاروں اور دونوں ڈاکٹروں کو بھی مجرم قرار دے کر سزا سنائی۔یہاں تفصیل میں جانے کا موقعہ نہیں ہے لیکن 2002میں بلقیس جہاں پر جو قیامت گزری اوراس کے بعد سے آج کے دن تک اسے اور اس کے اہل خانہ کو جن ناقابل بیان اذیتوں کا سامنا کرنا پڑااس کی روشنی میں15سال بعدآنے والا ممبئی ہائی کورٹ کا فیصلہ انتہائی اہم اور اطمینان بخش ہے۔نربھیا والے معاملہ میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کو سامنے رکھ کر اس کا موازنہ کرکے اس فیصلہ کی قدر وقیمت نہ گھٹائی جائے۔یہ فیصلہ ان طاقتوروں کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ ہے جنہوں نے مئی 2014کے بعد سمجھ لیا تھا کہ اب انصاف کے سارے ادارے ان کے زیرنگیں ہوگئے ہیں اور اب بشمول عدلیہ کوئی مظلوموں کی داد رسی کی ہمت نہ کرسکے گا۔بلقیس کا مقدمہ لڑنے والوں کے پاس ابھی ایک موقعہ ہے۔وہ نربھیا کے فیصلہ کو بنیاد بناکرمجرموں کو سزائے موت دلوانے کیلئے سپریم کورٹ میں اپیل کرسکتے ہیں۔لیکن اس پہلو پر ہمیں ہمالیائی اطمینان ظاہر کرناچاہئے کہ ممبئی ہائی کورٹ نے بری شدہ پولس اہلکاروں اور ڈاکٹروں کو بھی مجرم گردانا۔ اس ملک میں جس طرح کی ہوا چل رہی ہے اس کے پیش نظر ہم عدلیہ کی تنقیص کے متحمل نہیں ہوسکتے۔لیکن اس کے ساتھ ہی ہمیں اس طرح کے معاملات میں اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کراور ملی جذبہ سے سرشار ہوکر مقدمات لڑنے والے ان وکلاء کی بھی ہمت افزائی کرنی چاہئے جوعدالتوں سے مثالی فیصلے کرانے میں کامیاب رہے۔مجھے اس موقعہ پر ایک واقعہ یاد آتا ہے۔قارئین کو جرمن بیکری دھماکہ کے ملزم حمایت بیگ کا مقدمہ یاد ہوگا۔حمایت کوٹرائل کورٹ نے پانچ بار سزائے موت اور چار بارسزائے عمر قید سنادی تھی۔اس کے بعدیہ مقدمہ مشہور وکیل محمود پراچہ کے پاس گیا اور انہوں نے (کوئی معاوضہ لئے بغیر)وہ قانونی موشگافیاں کیں کہ ممبئی ہائی کورٹ نے حمایت کی پانچوں سزائے موت اور چاروں عمر قید کوکالعدم قرار دیدیا۔18مارچ 2016کو انگریزی صحافی عامراکرم کی ایک رپورٹ انڈین ایکسپریس میں شائع ہوئی‘جس میں حمایت کو مخاطب کرتے ہوئے جج صاحبان کے ان جملوں کو نقل کیاگیاکہ’’آپ کو پھانسی کی سزا سے بری کیا جاتا ہے‘‘۔دیانتداری کے ساتھ بتائیے کہ اس فیصلہ کے بعد محمود پراچہ کے ساتھ ہماری جمعیتوں اور جماعتوں کو کیا سلوک کرنا چاہئے تھا؟شاید زیادہ لوگوں کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ اس فیصلہ کے چند گھنٹوں کے بعد مسلمانوں کی ایک جمعیت نے اس طرح کے 147مقدمات محمود پراچہ سے واپس لے لئے۔اسی طرح مسلمانوں کی ایک دوسری جماعت نے بھی بتدریج ان سے مقدمات واپس لے لئے۔ان پر بہت سے احمقانہ الزامات لگائے گئے اورمسلمانوں کے ایک انگریزی نیوز پورٹل کو اس کے لئے استعمال کیا گیا۔اس واقعہ کو اختصار کے ساتھ بتانے کے بعد اب میں سوشل میڈیا کے ان جانبازوں سے سوال کرتا ہوں جو بلقیس جہاں مقدمہ کے فیصلہ کی بالواسطہ تنقید کررہے ہیں کہ اپنی جمعیتوں اور جماعتوں کی ان پراسرارسرگرمیوں کے بعدبھی کیاہم عدالتوں پر نقدونظر کرکے اسی جرم کے مرتکب نہیں ہورہے ہیں جومحمودپراچہ سے مقدمات واپس لے کر کیا گیا۔ہمیں چاہئے تو یہ تھا کہ ایک طرف ہم جہاں اپنے معاون برادارن وطن اور انصاف پسند جج صاحبان کو محبت بھرا سلام پیش کرتے وہیں دوسری طرف ہم محمود پراچہ جیسے ایک نہیں بلکہ درجنوں وکیلوں کوتلاش کرکے ان کی پشت پر مضبوطی کے ساتھ کھڑے ہوجاتے۔کرنے کا جو کام ہے وہ ہم سے نہیں ہوتا۔لیکن فضول کی بحث میں ہم دن رات صرف کردیتے ہیں۔ہندوستان میں ایک خاص طبقہ نے اچانک اپنا جو سیاسی چہرہ دکھایا ہے اس کو دیکھ کر بھی اگر ہمارا طرز عمل نہیں بدلے گا توآخر کس قیامت کو دیکھ کربدلے گا؟