رئیس الشاکری:اب نہ پائے گا زمانہ کبھی ان کی تمثیل (۲)۔۔۔ محمد اویس سنبھلی

Bhatkallys

Published in - Other

07:55AM Sun 9 May, 2021

رئیس الشاکری کی غزل کا پیرایۂ اظہار سادہ اور راست ہوتے ہوئے بھی شعری حسن اور تاثیر کا حال ہے۔ ان کے لسانی اور تہذیبی پس منظر نے انھیں لفظوں کے انتخاب و استعمال کا سلیقہ اور کلاسیکی روایات سے آگاہی ودیعت کی ہے اور یہ دونوں ہی خصوصیات آج کے دور میں کمیاب ہوتی جارہی ہیں‘‘۔

رئیس الشاکری کی غزل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:۔

لذت غم ہے کہ لفظوں میں سماتی ہی نہیں

بے سخن جھوم اٹھے عشق کے آزار سے ہم

دل کو چھو رہی ہے بے گناہی

لہو چپ ہے تو خنجر بولتا ہے

سب ہراساں دکھائی دیتے ہیں

جیسے بستی میں کوئی خطری ہے

کتنا واقف تھا زندگی سے رئیسؔ

غم کی بنیاد ڈالنے والا

ہجر میں کم بھی نہیں پچھلے پہر کی آہیں

موسم گل نہ سہی رقص شرر تو مانگو

کچھ نہ کچھ کہہ گئیں آنکھیں دل مرحوم کا حال

مجھ سے بھی راز محبت کا چھپایا نہ گیا

باغ کے سرخ گلابوں کی جوانی ہے گواہ

اس کا چہرہ کبھی لفظوں میں سجایا نہ گیا

اجڑ جائے نہ پھر غالب کی دلّی

ہزاروں شعر نادر ہوگئے ہیں

رئیس الشاکریؔ موضع ’برہواں‘علی آباد کے ایک متوسط زمیندار گھرانے میں یکم جنوری ۱۹۴۳ء کو پیدا ہوئے۔بعد میں انھوں نے یوپی کے ایک قدیم اور روایت پرست قصبہ ردولی کو اپنا وطن بنایا اور ۴؍مئی ۲۰۲۱ کواسی قصبہ کے قبرستان شیخ صفی الدین میں ان کی تدفین عمل میں آئی۔رئیس الشاکری کے گھرانے میں شعر و ادب کا چرچا ہمیشہ رہا ہے۔ ان کے والد بزرگوار مرحوم مولوی منظور ؔاحمد صاحب استاد شاعر تھے اور چچا مرحوم فیاض احمد فیاضؔ کو بھی شعر و ادب سے خاصی دلچسپی رہی۔ والد مرحوم مثنوی گوئی اور چچا غزل گوئی میں درک رکھتے تھے۔ والدہ مرحومہ فارسی اور اردو کا پاکیزہ ذوق رکھتی تھیں۔ خود رئیس الشاکری اکثر کہا کرتے ہیں کہ’’ مولانا روم کا نام اور کلام میری زندگی میں والدہ مرحومہ کا مرہون ہے، وہ زبان کی صحت پر ٹوکا کرتی تھیں جس کا فائدہ میں آج تک محسوس کر رہا ہوں۔‘‘ گویا اس سے یہ تو صاف ہو جاتا ہے کہ رئیس الشاکریؔ کی تربیت کا اولین نقش اپنے والدین کے ہاتھوں بنا اور شاعری ، تصوف، علمی لگن شروع سے مزاج کا حصہ بن گئی۔ان کی ابتدائی تعلیم مدرسہ خانقاہ ابوحمدیہ گل چپہ کلاں قصبہ علی آباد میں ہوئی ۔ یہاں سے فراغت کے بعد وہ دارالعلوم ندوۃ العلماء میں داخل ہوئے اور عالمیت کی سند حاصل کی۔ ندوہ کے فراغت کے بعد انھوں نے تقریباً ۳۰؍برس تک رودولی تحصیل کے حلیم نگر کی عیدگاہ میں امامت کے فرائض انجام دیے۔ اس کے بعد وہ کچھ عرصہ ’رحمان فائونڈیشن‘ سے بھی وابستہ رہے۔ سن ۲۰۰۸ء میں ان کا تقرر ندوۃ العلماء میں ہوا۔ ۱۳؍برس تک انھوں نے دارالعلوم ندوۃ العلماء میں لائبریرین کے عہد پر فائز رہتے ہوئے اپنی خدمات انجام دیں۔

رئیس الشاکری زمانہ طالب علمی سے شعر کہتے تھے۔ مولانا شاکر ناطقی کانپوری سے انھیں شرف تلمذ حاصل رہا اور اسی نسبت سے رئیس احمد ، رئیس الشاکری ہوگئے۔ مولانا ماہر القادری سے انھوں نے بذریعہ ڈاک اپنے کلام پر اصلاح لی ۔ ان دونوں بزرگوں کا فیض ہی کہا جائے کہ ان کا ادبی ذوق نکھرتا چلا گیا۔رئیس الشاکریؔ کی شاعری کے اب تک ۶؍ مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں اور شعر و ادب کے منظر نامہ میں برائے نام ہی سہی شناخت ان کے حصہ میں ضرور آئی ہے۔انہوں نے تمام ِصنف سخن پر طبع آزمائی کی ہے، غزل ان کی محبوب ِصنف رہی ہے لیکن دوسری کسی ِصنف میں بھی وہ پیچھے نہیں رہے۔نعتیہ شاعری میں انھیں بہت مقبولیت حاصل تھی اور نعتیہ مشاعروں میں انھیں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا نیز ان کی شرکت مشاعرے کی کامیابی کی ضمانت سمجھی جاتی تھی۔

رئیس الشاکری اردو غزل کے علاوہ خوبصورت نعت بھی کہتے تھے ، حبِّ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا دامن سرشار تھا۔وہ سچے اور پکے عاشقِ رسولؐ تھے۔انھوں نے کیا خوب نعتیہ شعر کہے ہیں   ؎

اگرکوثر کی خواہش ہے تو ساقی سے جڑے رہنا

کہ ساری قدر کھو دیتے ہیں ساغر بے سبو ہوکر

٭

ممکن ہے تم کو رحمت یزداں نواز دے

تم نے رئیس نعت کو شیوہ بنا لیا

٭

عجب نہیں وہ سر حشر سرفراز کرے

ہمارے ناز شہ اُنس و جاں اُٹھاتے ہیں

٭

رئیس ہی سہی لیکن فقیر طیبہ ہوں

وہ جانتے نہیں جو انگلیاں اُٹھاتے ہیں