بی جے پی عاملہ سے خالی ہاتھ واپسی

Bhatkallys

Published in - Other

12:28PM Tue 14 Jun, 2016
حفیظ نعمانی اسے ملائم سنگھ کی اقبال مندی کہا جائے گا کہ جو اجیت سنگھ اپنی پارٹی بغل میں کو دبائے ملائم سنگھ کے در پر اسلئے دستک دے رہے تھے کہ وہ جاٹ ووٹوں کی لالچ میں اجیت سنگھ کو ایسے ہی راجیہ سبھا کا ممبر بنا دیں گے جیسے کرمی ووٹوں کے لئے بینی پرساد ورما کو بنوایا اور ٹھاکر ووٹوں کے خیال سے امر سنگھ کو ۔لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملائم سنگھ بھی سمجھ گئے ہیں کہ اب جاٹ ووٹ جو کبھی چودھری چرن سنگھ کے اشارہ پر سو فیصدی ادھر سے ادھر ہو جایا کرتاتھا ۔اب انکے بیٹے اجیت سنگھ کے پاس اتنا بھی نہیں ہے جتنا بی جے پی کے پاس ہے ۔ملائم سنگھ نے ان سے کیا کہا یہ سب راز ہی میں رہ گیا لیکن ملائم سنگھ کو انکے ووٹ مل گئے ۔بالکل ایسے ہی جیسے ملائم سنگھ نے سات ممبروں میں ایک بھی مسلمان نہیں لیا ۔اور ہر مسلم حلقہ سے اسکا شکوہ بھی کیا گیا ۔لیکن پیس پارٹی کے ڈاکٹرمحمد ایوب انصاری نے اپنے ووٹ ملائم سنگھ کو دینے کی پیش کش کردی ۔ اس سماج وادی پارٹی کا تو بس بی جے پی کی مجلس عاملہ میں متھرا تک ذکر محدود رہا لیکن کانگریس مکت بھارت جس پربھی مذاکرہ ہوا اور رائے بریلی تو ایسا موضوع تھا جس پر عاملہ کی میٹنگ میں ہر ہر پہلو سے غور کیا گیا ۔شاید اتر پردیش کے الیکشن کے بعد حکومت بنانے کی اتنی فکر نہیں ہے جتنی اسکی ہے کہ رائے بریلی کی چھ سیٹیں جن میں سے پانچ سماج وادی کے پاس ہیں اور ایک آزاد ہے وہ سب سیٹیں جیت لیں تو اسکامطلب یہ ہوگا کہ امت شاہ نے سونیا مکت رائے بریلی بنا دیا ۔ عاملہ کی کارروائی کئی اخباروں میں جو رپورٹنگ ہے اس میں صحافیوں کی بے دلی ظاہر ہو رہی ہے ۔اسکی وجہ یہ ہے کہ امت شاہ اور انکی عاملہ کے کہنے کو اس لئے کچھ زیادہ نہیں تھا کہ وہ جسے لوک سبھا کے الیکشن میں ہر جگہ گجرات ماڈل کو پیش کرتے تھے ۔اب دو سال کی کارگردگی میں کہیں وہ ماڈل نہیں ہے ۔اور ستم بالائے ستم یہ کہ ٹی وی کے ہر مذاکرہ میں جب مہنگائی پر بات آتی تھی تو بی جے پی کے تر جمان ٹیڑھی گردن کرکے کہتے تھے کہ ہماری حکومت نے اتنی مرتبہ ڈیزل کی قیمت کم کی ہے ۔اور آج جب الہ آباد میں بی جے پی کی مجلس عاملہ کی میٹنگ ہورہی ہے تو اخباروں کی خبر ہے کہ حکومت نے ڈیزل کی قیمت 19 مرتبہ اور پیٹرول کی 16مرتبہ بڑھائی ہے ۔ایک صاحب نے گردن جھٹک کر کہا کہ جو پیاز سو روپے کلو تک بکی اسے آج ہم نے ایک روپے کا چار کلو کر دیا ۔یہ کہتے وقت یہ نہیں سوچا کہ یہ قدرت کی مہربانی ہے اور کسان کی حماقت کہ ہر کسی نے یہ سوچ کر پیاز بوئی تھی کہ بے موسم بارش سے آدھی خراب ہوگئی اور آدھی پچاس روپے کلو بکے گی اور موسم خراب کرنا حکومت کا کام نہیں ہے ۔ بات صرف ڈیزل پیٹرول اور کھانے پینے کی چیزوں کی مہنگائی کی نہیں ہے حکومت نے با قاعدہ اعلان کیا ہے کہ ہر سفر مہنگا ہوگا اور گھرسے باہر ہر کھا نا مہنگا کردیا گیا ۔ایک بات جس کے اوپر نریندر مودی کا وزیر اعظم بننے سے پہلے سب سے زیادہ زور تھا وہ پارلیمنٹ کے داغی ممبروں کی صفائی ۔اور سیاست میں داغی افراد کا داخلہ تھا اب انکے پاس اسکا کوئی جواب نہیں ہے کہ پارلیمنٹ کے کسی داغی ممبر کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی ؟ اور غضب یہ کہ اتر پردیش بی جے پی کے صدر کے لئے ان صاحب کو لایا گیا ہے جنکے خلاف گیارہ مقدمے چل رہے ہیں جن میں ہر قسم کا مقدمہ ہے ۔ظاہر ہے کہ انکا جتنا بس چلے گاوہ ٹکٹ کے لئے ایسے دوست تلاش کریں گے جنکے خلاف گیارہ سے زیادہ مقدمے چل رہے ہوں ۔اور شاید عاملہ میں اخباروالوں کو سروے کرنے کے بعد ٹکٹ دینے کا جو جواب دیا گیا ہے وہ یہی سروے ہوگا کہ کس کے خلاف کتنے مقدمے چل رہے ہیں ؟یہ بھی وہی فارمولہ ہے جو سنجے گاندھی نے بنایا تھا کہ یہ نہ بتاؤ کہ کس نے دیش کی اور پارٹی کی کتنی خدمت کی ہے ؟یہ بتاؤ کہ جیت جائیگا ؟اور مشہور ہو گیا تھا کہ سنجے تو ایک ہی بات کہتے ہین کہ جیتنے والا گھوڑا لاؤ ۔اب بی جے پی کے صوبائی صدر کہیں گے کہ ایک درجن سے زیادہ مقدمے والا لاؤ۔ بی جے پی کے قو می صدر امت شاہ نے وزیر اعظم مودی کی موجودگی میں کہا کہ یوپی کی ترقی کے لئے یہاں بی جے پی کی حکومت ضروری ہے ۔کیوں کہ یوپی کی ترقی کے بغیرملک کی ترقی نہیں ہو سکتی ۔یعنی انہوں نے وزیر اعظم کو گواہ بناکر کہہ دیا کہ ملک کی ترقی نہیں ہوئی ۔اس لئے کہ یوپی کی ترقی نہیں ہوئی ۔اور یوپی کی تر قی اس لئے نہیں ہوئی کہ یہاں بی جے پی کی حکومت نہیں بنی۔جتنی بھی کارروائی اخباروں میں آتی ہے اس میں مایاوتی کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔اور آثار ایسے ہیں کہ ہو سکتا ہے مایاوتی کانگریس سے ملکر الیکشن میں اتریں ۔انہوں نے اتر اکھنڈ کے نازک موڑ پر بھی کھل کر کانگریس کا ساتھ دیا تھا ۔اور راجیہ سبھا کے الیکشن میں بھی دونوں کانوں میں باتیں کرتی رہیں ۔اور آنے والے الیکشن میں اتر پردیش کا نگراں کانگریس نے کشمیری مسلمان غلام نبی آزاد کو بنا دیا ہے ۔مقصد بظاہر یہ ہے کہ وہ مسلمان جو ملائم سنگھ سے ناراض یا مایوس ہو چکے ہیں وہ ہمیشہ کی طرح مایاوتی کے ساتھ جائیں گے ۔انکی وجہ سے شاید انہیں ایسے ہی نتیجہ کی تو قع ہو جیسا کانگریس نے بہار میں لالو یادو سے ہاتھ ملاکر حاصل کرلیا ۔یہ الگ بات ہے کہ لالو اور مایاوتی ندی کے دو کنارے ہیں ۔