محقق گیلانیؒ اور مفسر دریابادیؒ کے علمی روابط۔۔ مختصر جائزہ۔۔۔ تحریر: نعیم الرحمن صدیقی ندوی

Bhatkallys

Published in - Other

07:22PM Mon 21 Sep, 2020

محقق گیلانیؒ اورمفسر دریابادیؒ کے علمی روابط

مختصر جائزہ

نعیم الرحمن صدیقی ندوی

زباں پہ بار خدایا یہ کس کا نام آیا

کہ میرے نطق نے بوسے مری زباں کے لیے

سلطان القلم، متکلم ملت مولاناسیدمناظراحسن گیلانیؒ (ولادت:یکم اکتوبر ۱۸۹۲ء؁، وفات:۵؍جون ۱۹۵۶ء؁) گزشتہ مسیحی صدی کے ایسے عالم باعمل اورفاضل بے بدل تھے جو مولانا عبدالماجددریابادیؒ کے بہ قول ’’دورحاضر کے طبقہ علماء کے خواص میں نہیں اخص الخواص میں تھے‘‘۔(وفیات ماجدی،ص:۸۹)

علامہ گیلانیؒ ایک کثیرالابعاد، جامع الصفات اورنابغہ عصر شخصیت تھے۔ انہوں نے تفسیر، حدیث، فقہ، علم کلام، تصوف، سوانح اور تاریخ جیسے موضوعات پرخوب لکھا۔ وہ ایک صاحب طرز ادیب بھی تھے اورایک خاص اسلوب انشا کے موجد بھی۔ وہ قادرالکلام شاعر بھی تھے اورکام یاب صحافی بھی۔ وہ ایک عظیم مصنف بھی تھے اورمثالی معلم بھی۔ ان کے اوصاف، کمالات اورخدمات پر ان کے معاصر واصاغر اہل علم وصاحبان قلم نے خوب لکھا۔

راقم نے درج ذیل سطور میںعلامہ گیلانی اوران کے رفیق قدیم وصدیق حمیم مولانا دریابادی کے باہمی علمی روابط، تاثرات اوراحساسات کا مختصر جائزہ دونوں بزرگوں کی تحریروں کی روشنی میں لیاہے۔

مایہ ناز مفسرقرآن، ممتاز ادیب وصحافی مولانا عبدالماجددریابادیؒ (ولادت:۱۶؍مارچ ۱۸۹۲ء؁، وفات: ۶؍جنوری ۱۹۷۷ء؁) عہدحاضر کے ایک باکمال اورتوفیق یافتہ اہل قلم تھے۔ ان کورب کریم نے علم کی دولت، قلم کی امانت اوروقت کی قدرکرنے جیسی بہترین نعمتوں سے مالامال کیاتھا۔ انھوں نے ایک طرف تو قرآنیات اوراسلامیات کے باب میں بیش بہاخدمات انجام دیں تودوسری طرف انھوں نے صحافت، فلسفہ، نفسیات، سوانح نگاری اورزبان و ادب کے دیگرگوشوں کوبھی اپنے قیمتی رشحاتِ قلم سے بھرپورنوازا۔

مولانا دریابادیؒ ایک زندہ، متحرک، روشن ضمیر، چشم کشا اورحقیقت شناس عالم کی طرح اپنے گردوپیش سے پوری طرح باخبر رہتے تھے۔ ان کی طبیعت میںہمہ گیری، خودداری، خوداعتمادی، صاف گوئی، بے باکی، حق شناسی، اسلام اوراسلامی تہذیب وثقافت سے اٹوٹ محبت، وقت کی پابندی، مغربی تہذیب وتمدن اورلادینی وغیراسلامی کلچر سے نفرت پوری طرح رچی بسی ہوئی تھی۔ ان خصوصیات کا اثر ان کے قلم صدق رقم سے جھلکتا ہی نہیں چھلکتا بھی تھا۔

ایک سچے آدمی کی علامت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے باطن کے خلاف گواہی نہیںدیتا اوراپنے ضمیر کی آواز کو خاموش نہیںکرتا۔ مولانادریابادیؒ کی شخصیت اسی کلیے سے عبارت تھی اوراس کا اظہار ان کی تمام تحریروں میںواضح طورپر ہوتا ہے۔

مفسردریابادی محقق گیلانی سے اپنے روابط وتعلقات کے سلسلے میں رقم طراز ہیں:

’’معاصرین میںپہلے مولاناسیدسلیمان ندوی اوراس کے سال ہاسال بعدمولاناسیدمناظراحسن گیلانی سے دل ودماغ دونوں بہت متاثر رہے۔ دونوں سے تعلقات دوستانہ سے بڑھ کر عزیزانہ ہوگئے۔ دونوں سے خدامعلوم چھوٹی بڑی کتنی چیزیں لیںاورکتنی اورلینے کی حسرت ہی باقی رہ گی۔ دونوں کی وفات میرے لیے واقعی حسرت آیات ہوئی۔ دونوں کی مفارقت سے دل ودماغ میں ایک سناٹاچھاگیا‘‘۔ (آپ بیتی،ص:۲۵۵)

راقم نے سطورذیل میں پہلے مولانادریابادی کی ان تحریروں کو یک جاکیاہے جن میںانہوں نے مولاناگیلانی کے سوانح، اوصاف اورکمالات کا ذکر کیاہے۔ اس کے بعدمولانادریابادی کی مشہورکتابوں پرمولاناگیلانی کے تبصرے جمع کیے ہیں۔

مولانادریابادی اپنے اکابر، معاصراوراصاغر کے خاکوں پرمشتمل اپنی کتاب ’’معاصرین‘‘ میںمولاناگیلانیؒ کا ذکر اس طرح کرتے ہیں:

’’گیلانی‘‘

نام دیوبند کے سلسلے میںعرصے سے سن رہاتھا اوردوایک مضمون بھی پڑھ چکا تھا۔ خیال یہ ہورہاتھا کہ بڑے مناظر، جدال پسند اوربحاث قسم کے عالم ہوںگے۔ پُرانی اصطلاح میں ’’معقولی‘‘ زیارت جب اوّل اوّل حیدرآباد میں ہوئی، مولانا عبدالباری کے ساتھ تونقشہ ہی دوسرا نظرآیا۔ بڑے ہنس مکھ، وجیہ، شکیل، نرم مزاج، نرم رو اورچہرے پر داڑھی توخاص طورپر ملائم وخوش نما۔ بال ریشم کی طرح نرم اورچہرے پر خشونت وکرختگی کہیں نام کو نہیں۔ نماز عشاء کا وقت آیا تو آواز بھی سُریلی اورمترنم، دردوگداز لیے ہوئے سننے میںآئی۔ قرأت سورۃ الملک کے دوسرے رکوع کے نصفِ آخر کی تھی، جوں ہی انھوں نے ’’أفمن یمشی مُکبًّا علی وجہہ‘‘ سے شروع کی معلوم ہوا کہ کسی نے دل مَل دیا ہے۔ حال آں کہ میں ازسرنو اسلام لانے کے بعدبھی ابھی تک پختہ نہیںہوا تھا۔ تعلقات یگانگت اسی وقت سے بڑھنے شروع ہوگئے اوران کی عمربھربرابر بڑھتے ہی گئے۔ حج میں ساتھ رہا، ایک ایک منزل کی رفاقت مادّی وروحانی، ہرسطح کی رفاقت سے کئی درجے اوربڑھ گئی۔ مولانا دریاباد بھی آئے، لکھنؤ میں، اعظم گڑھ میں، حیدرآباد میں، پٹنہ اورخاص گیلانی (ضلع پٹنہ۔ موجودہ نالندہ) میںبارہا ملاقاتیں رہیں اورآپس میں کسی قسم کا تکلف باقی نہ رہا۔ میری بیوی سے جورشتہ عرفاتی بہن کا انھوں نے لیا، اسے آخر وقت تک نباہ دیا۔ ہرخط میںضروری ذکران عرفاتی بہن کا کرتے۔ مولانا کی ذہانت، ذکاوت، حافظے کے کرشمے باربار دیکھے۔ نعتیہ نظمیں کہتے اورخوب ترانداز سے پڑھتے۔ ہرمصرعے کے ساتھ دل کشی اورجاذبیت بڑھتی ہی جاتی۔ بہار کی ہندی (مگدھی) زبان پر بھی قدرت انھیں حاصل تھی اورایسی قدرت بے تکلف فارسی مصرعوں پر بلکہ عربی مصرعوں پربھی۔

تحریر میںجوبانکپن تھا، اُس سے کچھ ہی کم تقریر میںبھی تھا۔ موضوع کوئی سا بھی دیجیے بس یہ معلوم ہوتا کہ خیالات کا دریا ہے کہ اُبلتا اوراُمنڈتا چلاآرہا ہے! کہاں کہاں سے مضمون پیدا کرلیتے! اورنکتہ سنجی اوردقیقہ آفرینی، قرآنی عنوانات میںاورزیادہ نمایاں ہوتی اورقرآن کے بعدہی نمبر حدیث کا رہتا۔ ایسی نکتہ سنجیوں کواب کان ترس گئے ہیں۔

ماشاء اللہ کتابیں اچھی خاصی تعداد میںچھوڑگئے ہیں۔ ’’امام ابوحنیفہؒ کی سیاسی زندگی‘‘، ’’تدوین حدیث‘‘، ’’تدوین قرآن‘‘، ’’سوانح قاسمی‘‘، ’’مقالات احسانی‘‘، ’’النبی الخاتمؐ‘‘ وغیرہ۔

انتقال گویا دفعتاً ہوا۔ وہیں گیلانی(ضلع نالندہ) اپنے وطن میں۔ سگے بھائی کا بیان ہے کہ یہ کرامت دیکھنے میںآئی کہ عین انفکاک روح ہوتے ہی، داڑھی کے سفید بال ایک دم سیاہ ہوگئے اورچہرہ بالکل جوان آدمی کا معلوم ہونے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔ میری جذباتی زندگی جن چندلوگوں سے خصوصاً وابستہ تھی ان میںایک مولانا بھی تھے۔ عجب نہیں کہ اگرمیرے نصیب میںجنت لکھی ہوئی ہے، تومجھے لینے کے لیے مولانا خودآئیں!‘‘(معاصرین،ص:۱۸۲-۱۸۳)

مولانادریابادیؒ اپنی کتاب ’’وفیات ماجدی‘‘ میںعلامہ گیلانی کی وفات حسرت آیات کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں:

’’محقق گیلانی‘‘

’’جوکل تک ہرغم زدہ کے لیے مجسم تسکین وتشفی تھا آج خوداس کے غم میں کون اورکس کس کوتسلی دے؟ جوکل تک ہمہ تازگی وزندگی، ہمہ جودت وذہانت تھا، کس طرح یقین آئے کہ آج اس کا جسم خاکی زیرزمین پہنچ چکا ہے؟

فاضل گرامی حضرت مولاناسیدمناظراحسن گیلانیؒ (آہ کہ اُن کے نام کے ساتھ بجائے مدظلہ العالی کے آج کس طرح مرحوم یا نوراللہ مرقدہٗ یا رحمۃ اللہ علیہ لکھا جائے گوزبان وقلم کچھ روزبعداسی کے عادی ہوجائیںگے) دورِحاضر کے طبقہ علماء کے خواص میں نہیں اخص الخواص میںتھے، بلکہ کہنا چاہیے تھا کہ اپنی دقتِ نظر، نکتہ رسی کے لحاظ سے فردفرید اوراپنی نظیربس آپ ہی تھے۔ جامعہ عثمانیہ میں صدرشعبۂ دینیات وشیخ الحدیث سال ہاسال رہے اورنظرجیسی حدیث پرتھی ویسی ہی قرآن مجید، فقہ، اصول فقہ، کلام، تصوف اورمعقولات پربھی تھی۔ عقائد اہل سنت میںپختگی، دیوبندی تعلیم وتربیت کی کھلی ہوئی برکت تھی، پھر جامعہ عثمانیہ میںبہ حیثیت استاد کے برسوں جوانگریزی خواں طلبہ اوراعلیٰ ڈگریاں رکھنے والے استادوں سے یک جائی رہی، اس نے علوم جدیدہ اورمسائل حاضرہ سے بھی انھیں پوری طرح باخبر کردیاتھا اورخیالات میںوسعت اوررواداری اس کا قدرتی نتیجہ تھی۔ خوش عقیدگی، روشن خیالی اوررسوخ فی الدین اوررواداری کی ایسی جامعیت کی نظیر کہیں اورشاید ہی مل سکے۔

مولانابیک وقت مفسر، محدث، فقیہ، متکلم،معقولی اورصوفی صافی تھے۔ تاریخی مطالعے کی وسعت وکثرت نے انھیں مورخ بھی بنادیاتھا۔ طلبہ اوراونچے یونی ورسٹی طلبہ کے حق میں بہترین معلم تھے اورایک بہترین مقرر وخوش بیان خطیب بھی تھے۔ انبالہ کے ایک اجلاس ندوہ ۱۹۲۶ء؁ میں، میں نے دیکھا کہ گوبولنے والے اوربھی اچھے اچھے علماء موجود تھے لیکن پبلک کی طرف سے باربار مطالبہ جن بزرگ کی تقریر کے لیے ہوتا وہ بعد مولاناعطاء اللہ شاہ بخاری کے یہی مولاناگیلانی تھے- قوتِ تحریر کا جوملکہ مولانا کوحاصل تھا،اس سے ناظرین صدق (مولانا دریابادیؒ کا مشہورہفتہ وارجریدہ) ناآشنا نہیں۔ ایک خاص طرزانشا کے مالک تھے اوراس میں کسی کے مقلد نہیںخود اس کے موجد تھے۔ تحریر کا سب سے بڑا وصف بے ساختگی وبرجستگی تھی۔ جب اورجس موضوع پر قلم اٹھایا بس لکھتے ہی چلے گئے۔ جوعنوان دوسروں کوپامال نظرآتے تھے اُن میںبھی وہ نئے نئے نکتوں کے انبار لگاتے چلے جاتے۔ خشکی اُن کا قلم جانتا ہی نہ تھا۔ تحریر کی سطرسطر جان دار ہوتی۔

مسلک میںدیوبندی ہونے کے باوجود بڑے بڑے ندویوں سے بڑھ کرروشن خیال تھے اور’’جدیدیت‘‘ سے بے زار ومتنفر نہیں بلکہ اس کے مبنیٰ ومنشا سے واقف تھے اورہرتازہ فتنے کی گہری جڑوں پر پوری نظر رکھنے والے تھے۔ حمایت ونصرتِ اسلام میں ہزارہاہزار صفحے لکھ ڈالے ہیں۔ اسلامی معاشیات، امام ابوحنیفہؒ کی سیاسی زندگی، النبی الخاتمؐ، تدوین قرآن، تدوین حدیث، تدوین فقہ، ظہورنور، ابوذرغفاریؓ، سوانح قاسمی وغیرہا کے علاوہ محض مضامین ومقالات ہی کی ضخامت ہزارہاصفحات تک پہنچے گی۔ کاش مولانا کے کوئی سعید شاگرد وقت نکال کر ان متفرق، منتشر اجزا کو یک جا ومرتب کرنے کی زحمت گوارا فرماتے! شاگردوں کا ذکر آگیا تویہ بات بھی سن رکھنے اور خوش ہونے کی بات ہے کہ مولانا اپنے ایک نہیں متعدد شاگردوں میں دینی وعلمی ذوق کی روح پوری طرح پھونک گئے ہیں اوران لوگوں نے جواہم دینی خدمات علمی رنگ میںکی ہیں، اُن کے اجر کے بھی بڑے حق دار خود مولانا ہی ہیں۔

بعض کتابوں کے ناتمام رہ جانے کا افسوس خصوصیت کے ساتھ ہے۔ مثلاً تدوین حدیث جوتاریخ حدیث پرتھی وہ اگرمکمل ہوجاتی تومنکرین حدیث کے شبہات کا بہترین مدلل وشافی جواب تھی۔ متعدد اورعنوانات بھی مولانا کے ذہن میںتھے، سب کے سب ضروری اوراہم۔ حضرت آخر وقت تک طالب علم ہی رہے۔ آخری خطوط جووفات سے چندہی روز قبل موصول ہوئے علمی سوالات، علمی مسائل اوربعض اشکالات کے علمی جوابات سے بھرے ہوئے ہیں۔

مزاج میںانتہائی سادگی اوربے تکلفی تھی۔ اپنی بڑائی اورکمالات کا شایدانھیں وسوسہ بھی کہیں نہیںپیدا ہوا۔ اپنے سے چھوٹوں اورکہیں چھوٹوں کی بات کواس التفات سے سنتے کہ وہ گویا اُن کے ہم سرہیں بلکہ بعض وقت تواپنے چھوٹوں کواتنا بڑھاتے کہ وہ بے چارے خوداپنے متعلق بڑی غلط فہمیوں میںمبتلا ہوجاتے!--- بے تکلف وبے ساختہ طرز انشا اوربے تصنع وپُرجوش رنگ تقریر،دونوں اس سرشت وطینت کے پرتو تھے۔ تحریروتقریر دونوں میںبس یہ معلوم ہوتا تھا کہ ایک دریااُبلاپڑرہا ہے!

طبیعت کے لحاظ سے اتنے وارستہ تھے کہ کھانے کوجوکچھ مل گیا بس اسی کونعمت سمجھے۔ پہننے کوجوکچھ ملاخوش ہوکر پہن لیا۔ رہنے سہنے کا جوادنیٰ ساادنیٰ معیار بھی وقت کے ساتھ نصیب ہوگیا اسی میںمگن زندگی گزاردی۔ ایک زمانے میں موٹر بھی رکھا لیکن ان کے لیے موٹر اوراکّہ اورجھٹکا اورپیدل سب برابر ہی تھے--- بڑے رقیق القلب، بڑے رحم دل، بڑے نرم مزاج تھے۔ دوسرے سے اپنی بات منوانے کے فن سے واقف ہی نہ تھے۔ کسی ادنیٰ شخص کی بھی ناخوشی نہیں دیکھ سکتے تھے۔ اُسے آزردہ دیکھ کر بلاوجہ اورخواہ مخواہ بھی اپنی غلطی تسلیم کرنے اوراسے منانے میںلگ جاتے۔

دوسروں کی امداد کا حوالہ دینے میںزرا بھی بخیل اورتنگ نظر نہ تھے۔ ہرادنیٰ امداد کا حوالہ بھی بڑی فیاضی اورخوش دلی سے دیتے اوراس کی تومیں شہادت آج اس دنیا میں بھی دیتا ہوں اورکل ان شاء اللہ حشرمیںبھی دوںگا کہ اپنی ۳۶،۳۷؍سال کے تعلق وارتباط کی لمبی مدت میںایک بار بھی اپنی بڑائی کا کوئی کلمہ ان کی زبان سے سننے میںنہ آیا--- یہ سارے اوصاف معمولی نہیںغیرمعمولی ہیں۔

تصوف کے بڑے جاننے والوں میںسے تھے۔ شیخ اکبرمحی الدین ابن عربی سے عقیدت خصوصی بھی رکھتے تھے اور مناسبت طبعی وروحانی بھی۔ باوجود اس کے رسوم خانقاہی اوربدعات مشائخ کے زرا بھی قائل نہ تھے اوروہم پرستیوں اورضعیف الاعتقادیوں کے نزدیک بھی نہیںگئے تھے۔ اکبر کی زبان میں    ؎

قائل میں تصوف کا ہوں اکبر لیکن

ارواح پرستی کو تصوف نہیں کہتے

ضابطے سے بیعت شیخ الہند مولانامحمودحسن دیوبندیؒ سے تھے اورطبیعت پرمذاق توحید تمام ترغالب تھا۔ نماز میںقرآن مجید اس خوش الحانی اوردردوتأثر سے پڑھتے کہ جی چاہتا گھنٹوں اسے سنتے رہیے۔

میرے ہم سن تھے اورحضرت تھانویؒ اورمولانا محمدعلیؒ کی وفات کے بعداب ملت کی زندہ ہستیوں میںانہی کی ذات میرے لیے محبوب ترین تھی۔ ہم سن کی وفات نے میرے لیے بھی قرب موت کی ایک اورگھنٹی بجادی ہے اورمحبوب کے سفرآخرت نے میرے لیے بھی اس منزلِ مقصود میںایک اورکشش ودل کشی پیدا کردی ہے!

صحت ادھر عرصے سے بہت گرگئی تھی، پھربھی اتنی جلدی وقت موعود آجانے کا ہم اہل غفلت کوخیال بھی نہ تھا۔ شوقِ لقائے رب پوری طرح رکھتے تھے جیسا کہ ایک درویش عارف کورکھنا ہی چاہیے تھا اورجہاں تک دماغی قوت کے بس میںہے خدا جانے کتنے اسرارغیب حل بھی کرچکے تھے۔ اصل حقائق کا انکشاف اب ہواہوگا اوراس وقت ان شاء اللہ پوری طرح ابدی لذتوں اورسرمدی راحتوں کی آغوش میںہوںگے۔ ابھی چندہی سال کی بات ہے کہ جب گیلانی مولانا سے ملنے جانا ہوا تھا اورایک باردفعتاً زورکا چکرساآگیاتھا۔ اضطراراً میں نے مولانا کا ہاتھ پکڑلیاتھا اوردل نے آناً فاناً خوشی اس کی محسوس کی تھی کہ اب نمازِ جنازہ مولانا ہی پڑھائیںگے۔ مشیت کو یہ منظور نہ ہوا اوراب لَواس کی لگی ہوئی ہے کہ جس وقت اپنا وقت موعود آئے گا(جویقینا اب دورنہیں) تواپنے مالک ومولا سے اپنے ایک قدیم تباہ کاررفیق ونیازمند کی شفاعت میںاصرار ومبالغہ کرنے والوں میںایک نمایاں وممتاز شخصیت مولانا ہی کی ہوگی۔ رخصت اے امام المسلمین! عارضی طورپر رخصت نسأل اللّٰہ لنا ولکم العافیۃ وان شاء اللّٰہ بکم لاحقون۔

مضمون ختم ہوچکا تھا کہ مرحوم کے چھوٹے بھائی کا خط موصول ہوا کہ:

’’آج صبح بعدنمازبھائی صاحب بستر پر لیٹے ہی تھے اورمیںبھی بغل کے پلنگ پرتھا کہ اچانک روح پروازکرگئی--- رات اس قدر خوش اوربشاش تھے کہ میں نے زندگی بھراتنا خوش نہیںدیکھاتھا خوب خوب گایا اورگویا رقص کیا جب ہی میرا ماتھاٹھنکاتھا کہ بعدنمازفجر یہ حادثہ پیش آگیا‘‘۔

جودوسروں کوجنت ورحمت کی بشارتیں سناتا رہتا اوربقول شخصے مغفرت کے پروانے تقسیم کرتا رہتا تھا، دنیا نے دیکھ لیا کہ خود اس کا انجام کتنا طرب آمیز ہوا۔ ناسُوت کی آخری رات اس کے لیے ’’شب برأت‘‘ تھی۔ وعدۂ وصال کے قرب نے اسے رات بھربے خود رکھا اورنمازفجر کے بعدبلاوا آیا توپاس ہی لیٹے ہوئے بھائی کو’’سکرات‘‘ کا پتا بھی چلنے نہ پایا۔’’والناشطات نشطاً‘‘ کے وعدے کا تحقق اس سے بڑھ کر اورکیا ہوگا‘‘۔ (ہفتہ وار صدق جدید لکھنؤ، ۱۵؍جون ۱۹۵۶ء)

ایک اقتباس’’سیاحت ماجدی‘‘ سے، جوعبرت زائی، رقت آفرینی اورحسرت سامانی کا نمونہ ہے۔ موقع ہے مولانا دریابادیؒ کا مرقد گیلانی پرحاضری کا!تاریخ ۵؍اگست ۱۹۵۷ء؁ :

’’قبرستان‘‘ جی ہاں! نہ کوئی گنبد، نہ کوئی مقبرہ، نہ کوئی حجرہ، نہ کوئی چبوترہ، نہ اونچی پکی قبروں کی قطار، نہ کوئی درودیوار، ایک بڑے طویل وعریض باغ میں خاندان والوں کی دوایک کچی تربتیں، بس یہ کل کائنات اس گورستان کی! سڑک سے چندمنٹ کے فاصلے پر کھلے ہوئے آسمان کے نیچے مولانا کا مزار پُرانوار۔۔۔۔۔ یعنی مٹی کا ایک ڈھیر، جس کے نیچے جسدخاکی اس مردمومن کا دائمی آرام میں ہے جووقت کا زبردست فاضل، معقول ومنقول کا جامع، شریعت وطریقت دونوں کا رازداں، ایک بہترین خطیب،ایک بہترین اہل قلم، بے داردل، روشن دماغ، مورخ، محقق، شاعر، عارف سب ہی کچھ تھا اورابھی کل تک جیتا جاگتا اوردوسروں کے دلوں کوزندہ رکھے ہوئے تھا!۔۔۔۔۔۔۔۔دن گزرتے کیادیرلگتی ہے، ابھی پانچ سال ادھر کی بات ہے، یہی برسات کا موسم تھا کہ جولائی ۱۹۵۲ء؁ میںمولانا اسی باغ میں اپنے اس نیازمند کوسیرکرانے لائے تھے۔ اس کے دریافت کرنے پر اپنے والدمرحوم کی قبربتائی تھی۔ آج اسی کے مزار پرایک گرفتار قیدعنصری کی حاضری تھی، بارش مسلسل جاری تھی۔ اس پر بھی ہٹنے کا جی نہیں چاہتاتھا، جوکشش، جاذبیت، جومحویت زندگی میںتھی اس کا ظہوراس وقت بھی ہورہاتھا۔ زیرلب نیم مضطرحالت میںجودعائیں، التجائیں، مخاطبے ہوئے وہ اب سب کہاں یاد، اتنا یاد ہے کہ آنسوئوں کے تار کے ساتھ کچھ اس قسم کی صدائیں زیرلب وزبان ٹکراتی رہیں:

دلوں کے دیکھنے والے اورسینوں کے اندرکی خبررکھنے والے! اپنے دین کے اس دیوانے کواپنی بہترین نعمتوں اوربخششوں سے سرفراز فرما۔ اس نے اٹھتے بیٹھتے اپنے کوتیرے دین اورتیرے پیمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی عزت وناموس کے لیے وقف کررکھا، تواسے وہ صلہ دے جواس کے خیال میں نہ آیاہو۔ بال بال اسے اپنی رحمتوں اورسرفرازیوں سے نوازدے! اوراس نیک اورپاک روح کے طفیل میں ہم لوگوں کا بھی بیڑا پارکردے جوجواس سے محبت کا دم بھرتے تھے۔ بداں رابہ نیکاں بہ بخشد کریم۔ بڑے بڑے عارفوں کا مقولہ ہے کرم میںکون تیرا مقابلہ کرسکتا ہے اورتواپنے عارفوں کی بات سچ ہی کردکھاتا ہے۔

مزار سے اٹھ کر مکان پرآئے چندہی قدم کا توفاصلہ تھا۔ وہ کمرہ دیکھا جہاں مولاناکا پلنگ بچھارہتا تھا۔ سیدمکارم سلّمہ نے ہرچیزحتی الامکان اسی طرح رہنے دی ہے جیسے مولانا کی حیات میںتھی۔ چائے پلوائی، پانی میںشرابور کپڑے آگ پرجلدجلد خشک کرادیے۔ باتیں زیادہ مولانا ہی کی کرتے رہے۔ اس سب کے باوجود کچھ زیادہ جی نہ لگا، طبیعت پر وحشت ہی غالب رہی۔ مکان بغیر مکین کے لطف ہی کیارکھتا ہے۔ بلبل خوش نوا اُڑ چکا تھا اورخالی پنجرے میںاب کیارکھاتھا! جی لگنے کی جگہ تواب وہی کچی مٹی کا ڈھیر رہ گئی تھی، اس پختہ مکان میںاب کیاتھا؟ بالکل ویسا ہی تأثر حضرت تھانویؒ کی وفات کے بعد تھانہ بھون جاکر پیدا ہوا تھا، خانقاہ وغیرہ کہیں جی نہ لگا، جی پھر کہیں لگا تواسی شیخ وقت کی کچی تربت پرحاضری دے کر۔ (سیاحت ماجدی،ص:۱۴۰-۱۴۱)

ان کتابوں کے علاوہ مولانا دریابادیؒ نے مولانا گیلانیؒ کا تذکرہ اپنی تصانیف سفرحجاز،حکیم الامت-نقوش وتاثرات، آپ بیتی اوردیگرکتابوں میںبھی خوب کیاہے۔ ان کی گراں قدر تصانیف پر مشتمل تبصرے کیے ہیں۔ مولانا گیلانیؒ ہفتہ وارسچ،صدق اورصدق جدید لکھنؤ کے خاص مضمون نگار تھے۔ ان کے متعدد اہم مضامین ان جرائدکے اوراق میںمحفوظ ہیں۔ان میںسے مولانا گیلانی کی مشہور کتاب ’’تذکیر بسورۃ الکہف‘‘ پر مولانادریابادی کا تعارف و تبصرہ ملاحظہ فرمایے:

ایک ترجمہ طلب کتاب:

فاضل گرامی مولانا مناظر احسن گیلانی کے مرتبۂ علم وفضل سے جولوگ واقف ہیں ان سے مرحوم کے کسی تعارف کی ضرورت نہیں۔ ذہانت، ذکاوت، نکتہ آفرینی میںمولانا خوداپنے معاصرین میںبے مثال تھے۔ تاریخ ہی نہیں قرآن سے بھی ان کا ذہن رسا عجیب وغریب مضمون پیدا کرتا رہتا اورلطیف ترین نکتے اورنتیجے اخذ کرتا رہتا اور قرآنی سورتوں میںبھی سورۃ الکہف(پ۱۵ و۱۶) کے تووہ گویا ماہرخصوصی بھی تھے۔ اپنے اخیرزمانے میں انھوں نے ’’تذکیربسورۃ الکہف‘‘ کے عنوان سے ایک بڑا فاضلانہ اوراس طرح دل چسپ لمبا مقالہ کئی نمبروں میںماہنامہ الفرقان (لکھنؤ) کے لیے لکھا تھا جومنتشر صورت میں اسی کی جلدوں میں محدود ہوکر رہا--- اب حیدرآباد کی قرآن وسیرت سوسائٹی نے ایک بڑا کام کردیا ہے کہ ان منتشر مقالوں کوحضرت مصنف کی نظرثانی اور جابجااضافوں کے بعدیک جائی طورپر ایک کتاب کی صورت میںشائع کردیا ہے۔ کتاب شروع سے آخر تک لطائف معنوی سے لب ریز ہے۔ دل بے اختیار چاہا کہ کتاب کسی طرح انگریزی کاقالب اختیارکرکے انگریزعالموں فاضلوں تک پہنچے اورحیدرآبادمیں یہ کام ہوجانا ایسا زیادہ دشوار بھی نہیں۔ ڈاکٹر میرولی الدین فلسفی تومولانا کے شاگردوں ہی میں ہیں اوراگرآمادہ ہوسکیں تومولانا کے رفیق تدریس ڈاکٹر عبداللطیف (ماہرادبیات انگریزی) کی مدد ومشورے سے اس ترجمانی کے کام کوبحسن اسلوب انجام دے سکتے ہیں۔ یہ دونام توصرف بطورنمونہ درج کردیے گئے ہیں، ورنہ حیدرآباد میں اب بھی مولانا کے شاگردوں اورنیازمندوں کی ایک خاصی تعداد نکل آئے‘‘۔(ہفتہ وارصدق جدید لکھنؤ، ۲۸؍اگست ۱۹۷۰ء؁)

اس اہم کتاب پر مولانادریابادی کا تبصرہ:

’’تذکیربسورۃ الکہف: از مولانا سیدمناظراحسن گیلانیؒ، ۳۲۰ صفحات، قیمت پانچ روپے، قرآن وسیرت سوسائٹی، خواجہ کا چلّہ، مغل پورہ، حیدرآباد دکن-۲

مولانا گیلانیؒ استاد دینیات عثمانیہ یونی ورسٹی زمانۂ حال کے ذہین ترین فاضلوں میںہوئے ہیں۔ خصوی درک وملکہ انھیں قرآن مجیدسے نکتوں کے ایسے استنباط کا تھا جس کا نام بھی انھوںنے بہت صحیح طورپرتفسیر وتفہیم دونوں سے ہٹ کر ’’تذکیر‘‘ رکھا تھا، اس کا بہترین نمونہ پیش نظرکتاب ہے۔ یہ سورۃ الکہف (پارہ ۱۵،۱۶) کی تفسیر وتفہیم دونوں سے الگ ایک نئی اوربالکل البیلی قسم کی تذکیر ہے۔

تہذیب حاضر کے دجالی پہلوئوں کی اس میںخوب خوب نشان دہی کی گئی ہے اوران کواس درجہ دل نشیں پیرایے میں نمایاں کیاگیا ہے کہ طبیعت عش عش کراٹھتی ہے اور ذوق ایمانی وجد میںآ آجاتا ہے--- پوری کتاب مقالے کی صورت میںرسالہ الفرقان (لکھنؤ) کے کئی نمبروں میںنکل چکی تھی اس کے بعد مولانا نے اس پر نظرثانی کی اورجابجا مفصل حاشیوں کا بھی اضافہ کیا۔ حیدرآباد کی قرآن وسیرت سوسائٹی والے قابل مبارک باد ہیں کہ انھوںنے اشاعت کے لیے ایک بہترین کتاب کا انتخاب کرکے اجربے حساب حاصل کیا‘‘۔ (ہفتہ وارصدق جدید لکھنؤ، ۲۵؍ستمبر ۱۹۷۰ء؁)

محقق گیلانیؒ نے مفسردریابادیؒ کی کتابوں پر تبصرے کیے ہیں۔ وہ ان اصحابِ اربعہ میںتھے جن کے لیے قرآن کریم کی ترجمہ نگاری کے ضمن میںمسترشد دریابادیؒ نے مرشدتھانویؒ کواپنے مکتوب میںلکھاتھا:

’’دورانِ ترجمہ میںحضرات علماء سے ہدایات حاصل کرتے رہنا توشروع سے ذہن میںتھا جناب والا(مرشدتھانوی) حضرت مولانا(حسین احمدمدنی) کے علاوہ مولانامناظراحسن گیلانی اورمولاناسیدسلیمان ندوی، یہ اصحاب اربعہ توپیش ہیں ہی، اس کے علاوہ اورجونام ارشاد ہوں‘‘۔ (حکیم الامت-نقوش وتأثرات،ص:۳۲۱)

مولانا گیلانی کے تبصرے مولانا دریابادی کی مشہورکتابوں پر:

مولانا گیلانی تفسیر ماجدی(انگریزی) پرتبصرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

’’مغربی علوم وفنون کے ساتھ مشرقی واسلامی معارف وحقائق کے متعلق مولانا(ماجد) کا مطالعہ استناد کا درجہ حاصل کرچکا ہے۔۔۔۔۔ قرآن حکیم کا انگریزی ترجمہ تشریحی حواشی کے ساتھ اس سلسلے میں آپ کے قلم کا ایک ایسا غیرمعمولی کارنامہ ہے جس سے رہتی دنیا تک ان شاء اللہ تعالیٰ لوگ استفادہ کرتے رہیں گے۔۔۔۔۔ مولاناعبدالماجد دریابادی، جہاں تک میرا خیال ہے، پہلے بزرگ اور قرآن کے پہلے خادم ہیں جنھوں نے انگریزی زبان کے سمجھنے والوں کواسی روح اوراسی شکل کے ساتھ قرآن سے روشناس کرانے کی کوشش کی ہے جومسلمانوں کے نزدیک قرآن کی حقیقی روح اور صحیح، واقعی شکل ہے۔ ان کی اس علمی ودینی خدمت کا یہی سب سے زیادہ اختصاصی طغرائے امتیاز ہے‘‘۔ (عبدالماجددریابادی-احوال وآثار از ڈاکٹرتحسین فراقی ۴۴۰-۴۴۱ بہ حوالہ رہ نمائے دکن ۱۹۵۲ء؁)

علامہ گیلانیؒ نے تفسیرماجدی(اردو) کے مطالعے کے بعد مولانا دریابادیؒ کو یہ مکتوب تحریر فرمایا:

’’تفسیر ماجدی کی دوسری قسط روح افزا اوردیدہ افروز ہوئی۔ مطالعے میںمشغول ہوگیا، کیوں کہ کافی اہم سورتوں سے اس کا تعلق تھا۔۔۔۔۔۔ تفسیر ماجدی میرے نزدیک تو موجودہ صدی میںقرآن کی ایسی خدمت ہے جس کی قدروقیمت کا اندازہ اس وقت ہمارے مولویوں کو ہو یا نہ ہو لیکن زمانہ جیسے جیسے آگے کی طرف بڑھتا جائے گا، اسی قسم کی تفسیریں مسلمانوں میںجگہ حاصل کرتی جائیںگی۔ اقاصیص وروایات والی کتابوں کا زمانہ ختم ہوگیا، ہمارے علماء انہی کے عادی ہیں۔ان کواندازہ ہی نہیں ہے کہ قرآن کو دنیا اب کس طرح سمجھنا چاہتی ہے۔ خدا کی بات خدا ہی کی بات کی حیثیت سے سمجھ میںآئے، مطالبہ اس کا بڑھ رہا ہے،لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ روایتوں کے بغیر قرآن کے سمجھانے اورسمجھنے کی کوئی دوسری راہ ہی نہیں ہے۔ بحمداللہ آپ کا کام ہرلحاظ سے کام یاب اورعہدحاضر کے تقاضوں کی تکمیل کے ساتھ سلف کی راہ سے بال برابر بھی الگ نہیں ہوا ہے۔ میرے لیے توقدم قدم پر اس تفسیر میںنئے معلومات کا ذخیرہ ہی ملتا چلاجاتا ہے، خدا کرے آیندہ حصے بھی جلدسامنے آجائیں‘‘۔

علامہ گیلانیؒ کے مکتوب کے بعدمولانادریابادیؒ لکھتے ہیں:

’’ایک حقیر وبے بضاعت کی سعی وکاوش ہی کیا، لیکن بہرحال اگراللہ کے کلام کی کچھ صحیح ومناسب حال ترجمانی ہوسکی ہے تویہ شایدایک بڑی حدتک خود مولانا اورانہی جیسے اللہ کے نیک بندوں کی دعائوں اورحوصلہ افزائیوں کا نتیجہ ہے۔یہ جلدسورۃ المائدہ سے لے کر سورۃ البرأۃ کے خاتمے تک ہے اورتیسری جلد جوسورۂ نحل کے خاتمے تک ہے۔ سننے میں آیا ہے کہ وہ بھی شائع ہوگئی ہے۔۔۔۔۔۔ عام مولوی صاحبان کے جمود اورخالص تقلیدی ذہنیت پر توکیا عرض کیاجائے، لیکن اللہ کی اس نعمت کا شکر کس زبان سے ادا کیاجائے کہ اس حقیر سے کام کو اس نے وقت کے ایک نہیں متعدد صاحب نظر ومستند علمائے دین کی نگاہ میں بلندومعتبر کردکھایاہے۔ مولانا سیدابوالحسن علی حسنی ندوی اورعلامہ سیدسلیمان مرحوم، مولانا محمداویس نگرامی(استاذ تفسیردارالعلوم ندوہ) توخیرندوی ہی ہیں اورفاضل گیلانی بھی سال ہاسال انگریزی دانوں سے گہرا سابقہ رکھنے سے ندوی ہی ہوگئے ہیں۔ خوش قسمتی یہ ہے کہ مولانا ظفراحمدعثمانی تھانوی ثم پاکستانی اورمولانا محمدطیب صاحب دیوبندی جیسے قدیم خیال کے بزرگوں کے دلوں میں بھی ہرطرح محبت ہی ڈال دی ہے۔(ہفتہ وارصدق جدید لکھنؤ، ۳؍دسمبر ۱۹۵۴ء؁)

’’حکیم الامت-نقوش وتأثرات‘‘ پرمولاناگیلانی کا تبصرہ:

’’گزشتہ مہینے میںایک نئی کتاب ’’حکیم الامت-نقوش وتأثرات‘‘ کے نام سے اردوزبان کے کہنہ مشق صاحب طرزادیب مولاناعبدالماجددریابادی مدیر’’صدق جدید‘‘ کے قلم سے مرتب ہوکرشایع ہوئی ہے۔ کتاب خاک سار کے پاس بھی پہنچی۔ یہ واقعہ ہے کہ ہاتھ میںلینے کے بعداسی وقت الگ ہوئی جب (۶۱۴) صفحات کوختم کرکے تڑپ رہا تھا کہ آخر یہ کتاب کیوں ختم ہوگئی؟ یہ کتاب کیا ہے؟ اس میں دین کے لیے، علم کے لیے، عقل کے لیے، ذہن کے لیے، دل کے لیے، دماغ کے لیے مصنف کے حسن مذاق نے کتنی لذیذ، زودہضم غذائیں جمع کردی ہیں، اس کا صحیح اندازہ کتاب کے پڑھنے ہی سے ہوسکتا ہے۔

لیکن ایک بات توبالکل نمایاں اورکھلی ہوئی ہے، یعنی مکتوبات، ملفوظات یااسی نوعیت کی کتابیں جوعموماً حضراتِ صوفیہ کرام کے افادات کی عام شکلیں ہیں، اس کتاب کا رنگ ان سب سے الگ اورنرالاہے۔ اگرچہ اس میںبھی حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کے کچھ ملفوظات بھی ہیں اورکچھ مکتوبات بھی، لیکن جس شکل میں یہ چیزیں اس کتاب میں پیش کی گئی ہیں کم از کم خاک سار کا ذاتی تاثر تویہی ہے کہ تصنیف وتالیف کے دائرے میںشاید ایک مستقل صنف کا اضافہ اس کتاب کی شکل میںہوگیاہے۔ پڑھنے والے اس میںبے شمار اعتقادی الجھنوں سے نجات کی ضمانتیں بھی پائیںگے۔ بعض اہم فقہی مسائل کی تحقیق کا لطف بھی ان کو ملے گا۔ تصوف کے نکات واسرار کا تویہ کتاب مستقل گنجینہ ہے، لیکن اس کے سوا بھی خانگی زندگی کی دشواریوں کے متعلق راحت بخش نیک مشورے بھی آپ کو ملیںگے۔وہیں وقت کے بعض سیاسی نظریات کے سلسلے میںآپ کے سامنے ایسے پہلو بھی آئیںگے جسے مانا جائے یا نہ ماناجائے،لیکن سیاسی تدبیر وفکر کا اسے غیرمعمولی نمونہ سمجھاجاسکتا ہے۔ مجلسی آداب،ملنے جلنے کے ضوابط، لاضرر ولاضرار والی خوش گوار زندگی کے اصول وقواعد توتھانوی افادات کے خصوصیات ہیں۔ الغرض کتاب کا ہرورق، بلکہ شاید ہرصفحہ کم از کم میرے لیے تومستقل درس ہی بنتا چلاجاتاتھا۔ یہ کہہ سکتا ہوں کہ آج پڑھنے والے اخباروں، رسالوں، موسمی کتابوں کے ہزارہا صفحات میںبھی جن چیزوں کو نہ پاتے ہیں اورنہ پاسکتے ہیں، اسی کتاب کا پڑھنے والا تصدیق کرے گا کہ اس کی ایک ایک سطر میںوہی چیزیں مسلسل ملتی چلی جاتی ہیں۔ بے ساختہ مصنف کے لیے دل سے دعائیں نکلتی ہیں۔ جزاء اللّٰہ عنا وعن أمۃ محمدصلی اللّٰہ علیہ وسلم خیرالجزاء۔ باقی اپنی ناچیزرائے یاتاثر کو بجائے تقریظ کے عصری تنقید کا مصداق بنانے کے لیے کتاب کی کوتاہیوں اورنقائص کا ذکر ہو، اس کے متعلق کیا عرض کروں؟ وہی امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ والی بات یادآتی ہے۔ ’’الرسالۃ‘‘ نامی تصنیف لکھنے کے بعد سترہ دفعہ، بیان کیاجاتا ہے کہ امام نے اس کتاب کی نظرثانی کی۔ ہردفعہ کافی نقائص سامنے آتے تھے، آخر سترہویں دفعہ نظرثانی کے بعدفرمایا:

’’خدا انکار کرتا ہے کہ اس کی کتاب کے سوا کسی مخلوق کی کتاب نقائص سے پاک ہو‘‘۔

امت کے ایک جلیل القدرامام مجتہد کا جب یہ تجربی اعتراف ہے تواسی سے سمجھنا چاہیے کہ کسی ناقص مخلوق کے ناقص کام کی تعریف کا مطلب یہ قطعاً نہیں ہوتا کہ اس میںواقعی کوئی کوتاہی نہیں رہ گئی ہے، یاعیب چینی کا ارادہ کیاجائے توعیوب نہیں نکالے جاسکتے۔ دوسروں کے متعلق توکیاکہوں، خودبعض مواقع پر اس فقیر کا ذکر اس کتاب میںجس طریقے سے کیاگیاہے، پڑھ کر شرم سے گردن جھک گئی۔میرے ایک خط کا مضمون جووقتی تاثر کا نتیجہ ہوگا شاید اب مجھے یادبھی نہیں، بجنسہٖ مصنف مدظلہ نے نقل فرمادیاہے۔ خدا ہی جانتا ہے کہ لوگ اس سے کیا کیا نتیجے نکالیںگے۔ خانگی خطوط کی عام اشاعت لکھنے والے کے استمزاج کے بغیراسی لیے خاک سار کا خیال تویہی ہے کہ شاید مناسب بھی نہیں ہے، لیکن ’’ماقدراللّٰہ فسوف یکون جف القلم بماہو کائن‘‘۔(ماہنامہ معارف اعظم گڑھ بابت اکتوبر ۱۹۵۲ء؁)

’’محمدعلی:ذاتی ڈائری کے چند ورق‘‘پرعلامہ گیلانی کا تاثراتی مکتوب:

’اکبرنامہ‘ کے چندہی روز بعد، اللہ اللہ، اس مست روزالست کا کارنامہ اوروہ بھی آپ کے قلم سے سامنے آیا۔ جس کے ہرہرورق پر جی چاہتا تھا کہ چیخیں مارمارکرروئوں۔ ساری زندگی نذرناکامی ونامرادی ہوگئی، لیکن اللہ کے اس دیوانے کی نہ ہمت میںفتور ہی پیدا ہوا اورنہ آگے بڑھنے کی جگہ قدم پیچھے ہٹانے کا خیال ہی اس کے دماغ میںکبھی آیا۔ مولانا محمدعلی قدس اللہ سرہ کی زندگی کے ایسے مختلف پہلواس کتاب سے سامنے آجاتے ہیں جن سے دنیاناواقف ہے۔ مجھ پر توسب سے زیادہ اثران کی دینی فہم کا ہوا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بہ ایں ہمہ وارفتگی فطرتاً وہ فقیہ النفس تھے۔ آپ نے اشاروں اشارے میںان کے اس ملکہ کا ذکر کیاہے۔مگر میرا دماغ انہی اشاروں سے کیا عرض کروں کہاں کہاں گیا، بلکہ اس کا افسوس ہوتا ہے کہ انگریزی ادب وانشا کے ملکۂ فائقہ وراسخہ کے ساتھ یورپ وامریکہ میںاسلام اوراس کے نظام کے پیش کرنے پر ان کا قلم آمادہ ہوجاتا اورمسلمانوں کوحکم راں بنانے کی جدوجہدمیں جووقت ان کا صرف ہوا، کاش یہی وقت حکم راں قوموں کومسلمان بنانے کی طرف متوجہ ہوجاتا، توشاید ان کی زندگی ہی میںہم دیکھ لیتے کہ تاریخ فتنہ تاتار کے افسانے کودہرارہی ہے اورصنم خانے سے کعبے کی حفاظت کے لیے لوگ فوج درفوج کی شکل میںچلے آرہے ہیں۔ آپ نے چندہی باتوں کا ذکر فرمایاہے، لیکن ان کی دینی فہم وفراست کی گہرائیوں کا اندازہ لگانے کے لیے وہی کافی ہیں۔

آخرمیںآپ کے صلح پسندیا مسالمت آفریں قلم کی داد دیتا ہوں پیرومرید کے تعلقات میںجوالجھائو پیدا ہوا، اسی الجھائو میں سلجھائو کے اسرار پوشیدہ تھے۔ اس نازک مسئلے کومیں تونہیںسمجھتا کہ اتنی کام یابی کے ساتھ کسی اورکا قلم سلجھاسکتا تھا۔ اس میںدخل خود آپ کی فطرت اورافتاد طبع کوہے۔ فجزاکم اللّٰہ عن المسلمین خیرالجزاء۔ آپ کی فطرت کا یہ صوفیانہ رجحان ہے۔ (ہفتہ وارصدق جدید لکھنؤ، ۲۴؍ستمبر ۱۹۵۴ء؁)

اخذ واقتباس کے ان طویل ومختصر نمونوں سے ہمارے ان دونوںاکابر کے باہمی تعلقات وروابط کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔

ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے

http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid/

 

زباں پہ بار خدایا یہ کس کا نام آیا

کہ میرے نطق نے بوسے مری زباں کے لیے

سلطان القلم، متکلم ملت مولاناسیدمناظراحسن گیلانیؒ (ولادت:یکم اکتوبر ۱۸۹۲ء؁، وفات:۵؍جون ۱۹۵۶ء؁) گزشتہ مسیحی صدی کے ایسے عالم باعمل اورفاضل بے بدل تھے جو مولانا عبدالماجددریابادیؒ کے بہ قول ’’دورحاضر کے طبقہ علماء کے خواص میں نہیں اخص الخواص میں تھے‘‘۔(وفیات ماجدی،ص:۸۹)۔

علامہ گیلانیؒ ایک کثیرالابعاد، جامع الصفات اورنابغہ عصر شخصیت تھے۔ انہوں نے تفسیر، حدیث، فقہ، علم کلام، تصوف، سوانح اور تاریخ جیسے موضوعات پرخوب لکھا۔ وہ ایک صاحب طرز ادیب بھی تھے اورایک خاص اسلوب انشا کے موجد بھی۔ وہ قادرالکلام شاعر بھی تھے اورکام یاب صحافی بھی۔ وہ ایک عظیم مصنف بھی تھے اورمثالی معلم بھی۔ ان کے اوصاف، کمالات اورخدمات پر ان کے معاصر واصاغر اہل علم وصاحبان قلم نے خوب لکھا۔

راقم نے درج ذیل سطور میںعلامہ گیلانی اوران کے رفیق قدیم وصدیق حمیم مولانا دریابادی کے باہمی علمی روابط، تاثرات اوراحساسات کا مختصر جائزہ دونوں بزرگوں کی تحریروں کی روشنی میں لیاہے۔

مایہ ناز مفسرقرآن، ممتاز ادیب وصحافی مولانا عبدالماجددریابادیؒ (ولادت:۱۶؍مارچ ۱۸۹۲ء؁، وفات: ۶؍جنوری ۱۹۷۷ء؁) عہدحاضر کے ایک باکمال اورتوفیق یافتہ اہل قلم تھے۔ ان کورب کریم نے علم کی دولت، قلم کی امانت اوروقت کی قدرکرنے جیسی بہترین نعمتوں سے مالامال کیاتھا۔ انھوں نے ایک طرف تو قرآنیات اوراسلامیات کے باب میں بیش بہاخدمات انجام دیں تودوسری طرف انھوں نے صحافت، فلسفہ، نفسیات، سوانح نگاری اورزبان و ادب کے دیگرگوشوں کوبھی اپنے قیمتی رشحاتِ قلم سے بھرپورنوازا۔

مولانا دریابادیؒ ایک زندہ، متحرک، روشن ضمیر، چشم کشا اورحقیقت شناس عالم کی طرح اپنے گردوپیش سے پوری طرح باخبر رہتے تھے۔ ان کی طبیعت میںہمہ گیری، خودداری، خوداعتمادی، صاف گوئی، بے باکی، حق شناسی، اسلام اوراسلامی تہذیب وثقافت سے اٹوٹ محبت، وقت کی پابندی، مغربی تہذیب وتمدن اورلادینی وغیراسلامی کلچر سے نفرت پوری طرح رچی بسی ہوئی تھی۔ ان خصوصیات کا اثر ان کے قلم صدق رقم سے جھلکتا ہی نہیں چھلکتا بھی تھا۔

ایک سچے آدمی کی علامت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے باطن کے خلاف گواہی نہیںدیتا اوراپنے ضمیر کی آواز کو خاموش نہیںکرتا۔ مولانادریابادیؒ کی شخصیت اسی کلیے سے عبارت تھی اوراس کا اظہار ان کی تمام تحریروں میںواضح طورپر ہوتا ہے۔

مفسردریابادی محقق گیلانی سے اپنے روابط وتعلقات کے سلسلے میں رقم طراز ہیں:

’’معاصرین میںپہلے مولاناسیدسلیمان ندوی اوراس کے سال ہاسال بعدمولاناسیدمناظراحسن گیلانی سے دل ودماغ دونوں بہت متاثر رہے۔ دونوں سے تعلقات دوستانہ سے بڑھ کر عزیزانہ ہوگئے۔ دونوں سے خدامعلوم چھوٹی بڑی کتنی چیزیں لیںاورکتنی اورلینے کی حسرت ہی باقی رہ گی۔ دونوں کی وفات میرے لیے واقعی حسرت آیات ہوئی۔ دونوں کی مفارقت سے دل ودماغ میں ایک سناٹاچھاگیا‘‘۔ (آپ بیتی،ص:۲۵۵)۔

راقم نے سطورذیل میں پہلے مولانادریابادی کی ان تحریروں کو یک جاکیاہے جن میںانہوں نے مولاناگیلانی کے سوانح، اوصاف اورکمالات کا ذکر کیاہے۔ اس کے بعدمولانادریابادی کی مشہورکتابوں پرمولاناگیلانی کے تبصرے جمع کیے ہیں۔

مولانادریابادی اپنے اکابر، معاصراوراصاغر کے خاکوں پرمشتمل اپنی کتاب ’’معاصرین‘‘ میںمولاناگیلانیؒ کا ذکر اس طرح کرتے ہیں:

’’گیلانی‘‘

نام دیوبند کے سلسلے میںعرصے سے سن رہاتھا اوردوایک مضمون بھی پڑھ چکا تھا۔ خیال یہ ہورہاتھا کہ بڑے مناظر، جدال پسند اوربحاث قسم کے عالم ہوںگے۔ پُرانی اصطلاح میں ’’معقولی‘‘ زیارت جب اوّل اوّل حیدرآباد میں ہوئی، مولانا عبدالباری کے ساتھ تونقشہ ہی دوسرا نظرآیا۔ بڑے ہنس مکھ، وجیہ، شکیل، نرم مزاج، نرم رو اورچہرے پر داڑھی توخاص طورپر ملائم وخوش نما۔ بال ریشم کی طرح نرم اورچہرے پر خشونت وکرختگی کہیں نام کو نہیں۔ نماز عشاء کا وقت آیا تو آواز بھی سُریلی اورمترنم، دردوگداز لیے ہوئے سننے میںآئی۔ قرأت سورۃ الملک کے دوسرے رکوع کے نصفِ آخر کی تھی، جوں ہی انھوں نے ’’أفمن یمشی مُکبًّا علی وجہہ‘‘ سے شروع کی معلوم ہوا کہ کسی نے دل مَل دیا ہے۔ حال آں کہ میں ازسرنو اسلام لانے کے بعدبھی ابھی تک پختہ نہیںہوا تھا۔ تعلقات یگانگت اسی وقت سے بڑھنے شروع ہوگئے اوران کی عمربھربرابر بڑھتے ہی گئے۔ حج میں ساتھ رہا، ایک ایک منزل کی رفاقت مادّی وروحانی، ہرسطح کی رفاقت سے کئی درجے اوربڑھ گئی۔ مولانا دریاباد بھی آئے، لکھنؤ میں، اعظم گڑھ میں، حیدرآباد میں، پٹنہ اورخاص گیلانی (ضلع پٹنہ۔ موجودہ نالندہ) میںبارہا ملاقاتیں رہیں اورآپس میں کسی قسم کا تکلف باقی نہ رہا۔ میری بیوی سے جورشتہ عرفاتی بہن کا انھوں نے لیا، اسے آخر وقت تک نباہ دیا۔ ہرخط میںضروری ذکران عرفاتی بہن کا کرتے۔ مولانا کی ذہانت، ذکاوت، حافظے کے کرشمے باربار دیکھے۔ نعتیہ نظمیں کہتے اورخوب ترانداز سے پڑھتے۔ ہرمصرعے کے ساتھ دل کشی اورجاذبیت بڑھتی ہی جاتی۔ بہار کی ہندی (مگدھی) زبان پر بھی قدرت انھیں حاصل تھی اورایسی قدرت بے تکلف فارسی مصرعوں پر بلکہ عربی مصرعوں پربھی۔

تحریر میںجوبانکپن تھا، اُس سے کچھ ہی کم تقریر میںبھی تھا۔ موضوع کوئی سا بھی دیجیے بس یہ معلوم ہوتا کہ خیالات کا دریا ہے کہ اُبلتا اوراُمنڈتا چلاآرہا ہے! کہاں کہاں سے مضمون پیدا کرلیتے! اورنکتہ سنجی اوردقیقہ آفرینی، قرآنی عنوانات میںاورزیادہ نمایاں ہوتی اورقرآن کے بعدہی نمبر حدیث کا رہتا۔ ایسی نکتہ سنجیوں کواب کان ترس گئے ہیں۔

ماشاء اللہ کتابیں اچھی خاصی تعداد میںچھوڑگئے ہیں۔ ’’امام ابوحنیفہؒ کی سیاسی زندگی‘‘، ’’تدوین حدیث‘‘، ’’تدوین قرآن‘‘، ’’سوانح قاسمی‘‘، ’’مقالات احسانی‘‘، ’’النبی الخاتمؐ‘‘ وغیرہ۔

انتقال گویا دفعتاً ہوا۔ وہیں گیلانی(ضلع نالندہ) اپنے وطن میں۔ سگے بھائی کا بیان ہے کہ یہ کرامت دیکھنے میںآئی کہ عین انفکاک روح ہوتے ہی، داڑھی کے سفید بال ایک دم سیاہ ہوگئے اورچہرہ بالکل جوان آدمی کا معلوم ہونے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔ میری جذباتی زندگی جن چندلوگوں سے خصوصاً وابستہ تھی ان میںایک مولانا بھی تھے۔ عجب نہیں کہ اگرمیرے نصیب میںجنت لکھی ہوئی ہے، تومجھے لینے کے لیے مولانا خودآئیں!‘‘(معاصرین،ص:۱۸۲-۱۸۳)۔

مولانادریابادیؒ اپنی کتاب ’’وفیات ماجدی‘‘ میںعلامہ گیلانی کی وفات حسرت آیات کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں:

’’محقق گیلانی‘‘

’’جوکل تک ہرغم زدہ کے لیے مجسم تسکین وتشفی تھا آج خوداس کے غم میں کون اورکس کس کوتسلی دے؟ جوکل تک ہمہ تازگی وزندگی، ہمہ جودت وذہانت تھا، کس طرح یقین آئے کہ آج اس کا جسم خاکی زیرزمین پہنچ چکا ہے؟

فاضل گرامی حضرت مولاناسیدمناظراحسن گیلانیؒ (آہ کہ اُن کے نام کے ساتھ بجائے مدظلہ العالی کے آج کس طرح مرحوم یا نوراللہ مرقدہٗ یا رحمۃ اللہ علیہ لکھا جائے گوزبان وقلم کچھ روزبعداسی کے عادی ہوجائیںگے) دورِحاضر کے طبقہ علماء کے خواص میں نہیں اخص الخواص میںتھے، بلکہ کہنا چاہیے تھا کہ اپنی دقتِ نظر، نکتہ رسی کے لحاظ سے فردفرید اوراپنی نظیربس آپ ہی تھے۔ جامعہ عثمانیہ میں صدرشعبۂ دینیات وشیخ الحدیث سال ہاسال رہے اورنظرجیسی حدیث پرتھی ویسی ہی قرآن مجید، فقہ، اصول فقہ، کلام، تصوف اورمعقولات پربھی تھی۔ عقائد اہل سنت میںپختگی، دیوبندی تعلیم وتربیت کی کھلی ہوئی برکت تھی، پھر جامعہ عثمانیہ میںبہ حیثیت استاد کے برسوں جوانگریزی خواں طلبہ اوراعلیٰ ڈگریاں رکھنے والے استادوں سے یک جائی رہی، اس نے علوم جدیدہ اورمسائل حاضرہ سے بھی انھیں پوری طرح باخبر کردیاتھا اورخیالات میںوسعت اوررواداری اس کا قدرتی نتیجہ تھی۔ خوش عقیدگی، روشن خیالی اوررسوخ فی الدین اوررواداری کی ایسی جامعیت کی نظیر کہیں اورشاید ہی مل سکے۔

مولانابیک وقت مفسر، محدث، فقیہ، متکلم،معقولی اورصوفی صافی تھے۔ تاریخی مطالعے کی وسعت وکثرت نے انھیں مورخ بھی بنادیاتھا۔ طلبہ اوراونچے یونی ورسٹی طلبہ کے حق میں بہترین معلم تھے اورایک بہترین مقرر وخوش بیان خطیب بھی تھے۔ انبالہ کے ایک اجلاس ندوہ ۱۹۲۶ء؁ میں، میں نے دیکھا کہ گوبولنے والے اوربھی اچھے اچھے علماء موجود تھے لیکن پبلک کی طرف سے باربار مطالبہ جن بزرگ کی تقریر کے لیے ہوتا وہ بعد مولاناعطاء اللہ شاہ بخاری کے یہی مولاناگیلانی تھے- قوتِ تحریر کا جوملکہ مولانا کوحاصل تھا،اس سے ناظرین صدق (مولانا دریابادیؒ کا مشہورہفتہ وارجریدہ) ناآشنا نہیں۔ ایک خاص طرزانشا کے مالک تھے اوراس میں کسی کے مقلد نہیںخود اس کے موجد تھے۔ تحریر کا سب سے بڑا وصف بے ساختگی وبرجستگی تھی۔ جب اورجس موضوع پر قلم اٹھایا بس لکھتے ہی چلے گئے۔ جوعنوان دوسروں کوپامال نظرآتے تھے اُن میںبھی وہ نئے نئے نکتوں کے انبار لگاتے چلے جاتے۔ خشکی اُن کا قلم جانتا ہی نہ تھا۔ تحریر کی سطرسطر جان دار ہوتی۔

مسلک میںدیوبندی ہونے کے باوجود بڑے بڑے ندویوں سے بڑھ کرروشن خیال تھے اور’’جدیدیت‘‘ سے بے زار ومتنفر نہیں بلکہ اس کے مبنیٰ ومنشا سے واقف تھے اورہرتازہ فتنے کی گہری جڑوں پر پوری نظر رکھنے والے تھے۔ حمایت ونصرتِ اسلام میں ہزارہاہزار صفحے لکھ ڈالے ہیں۔ اسلامی معاشیات، امام ابوحنیفہؒ کی سیاسی زندگی، النبی الخاتمؐ، تدوین قرآن، تدوین حدیث، تدوین فقہ، ظہورنور، ابوذرغفاریؓ، سوانح قاسمی وغیرہا کے علاوہ محض مضامین ومقالات ہی کی ضخامت ہزارہاصفحات تک پہنچے گی۔ کاش مولانا کے کوئی سعید شاگرد وقت نکال کر ان متفرق، منتشر اجزا کو یک جا ومرتب کرنے کی زحمت گوارا فرماتے! شاگردوں کا ذکر آگیا تویہ بات بھی سن رکھنے اور خوش ہونے کی بات ہے کہ مولانا اپنے ایک نہیں متعدد شاگردوں میں دینی وعلمی ذوق کی روح پوری طرح پھونک گئے ہیں اوران لوگوں نے جواہم دینی خدمات علمی رنگ میںکی ہیں، اُن کے اجر کے بھی بڑے حق دار خود مولانا ہی ہیں۔

بعض کتابوں کے ناتمام رہ جانے کا افسوس خصوصیت کے ساتھ ہے۔ مثلاً تدوین حدیث جوتاریخ حدیث پرتھی وہ اگرمکمل ہوجاتی تومنکرین حدیث کے شبہات کا بہترین مدلل وشافی جواب تھی۔ متعدد اورعنوانات بھی مولانا کے ذہن میںتھے، سب کے سب ضروری اوراہم۔ حضرت آخر وقت تک طالب علم ہی رہے۔ آخری خطوط جووفات سے چندہی روز قبل موصول ہوئے علمی سوالات، علمی مسائل اوربعض اشکالات کے علمی جوابات سے بھرے ہوئے ہیں۔

مزاج میںانتہائی سادگی اوربے تکلفی تھی۔ اپنی بڑائی اورکمالات کا شایدانھیں وسوسہ بھی کہیں نہیںپیدا ہوا۔ اپنے سے چھوٹوں اورکہیں چھوٹوں کی بات کواس التفات سے سنتے کہ وہ گویا اُن کے ہم سرہیں بلکہ بعض وقت تواپنے چھوٹوں کواتنا بڑھاتے کہ وہ بے چارے خوداپنے متعلق بڑی غلط فہمیوں میںمبتلا ہوجاتے!--- بے تکلف وبے ساختہ طرز انشا اوربے تصنع وپُرجوش رنگ تقریر،دونوں اس سرشت وطینت کے پرتو تھے۔ تحریروتقریر دونوں میںبس یہ معلوم ہوتا تھا کہ ایک دریااُبلاپڑرہا ہے!

طبیعت کے لحاظ سے اتنے وارستہ تھے کہ کھانے کوجوکچھ مل گیا بس اسی کونعمت سمجھے۔ پہننے کوجوکچھ ملاخوش ہوکر پہن لیا۔ رہنے سہنے کا جوادنیٰ ساادنیٰ معیار بھی وقت کے ساتھ نصیب ہوگیا اسی میںمگن زندگی گزاردی۔ ایک زمانے میں موٹر بھی رکھا لیکن ان کے لیے موٹر اوراکّہ اورجھٹکا اورپیدل سب برابر ہی تھے--- بڑے رقیق القلب، بڑے رحم دل، بڑے نرم مزاج تھے۔ دوسرے سے اپنی بات منوانے کے فن سے واقف ہی نہ تھے۔ کسی ادنیٰ شخص کی بھی ناخوشی نہیں دیکھ سکتے تھے۔ اُسے آزردہ دیکھ کر بلاوجہ اورخواہ مخواہ بھی اپنی غلطی تسلیم کرنے اوراسے منانے میںلگ جاتے۔

دوسروں کی امداد کا حوالہ دینے میںزرا بھی بخیل اورتنگ نظر نہ تھے۔ ہرادنیٰ امداد کا حوالہ بھی بڑی فیاضی اورخوش دلی سے دیتے اوراس کی تومیں شہادت آج اس دنیا میں بھی دیتا ہوں اورکل ان شاء اللہ حشرمیںبھی دوںگا کہ اپنی ۳۶،۳۷؍سال کے تعلق وارتباط کی لمبی مدت میںایک بار بھی اپنی بڑائی کا کوئی کلمہ ان کی زبان سے سننے میںنہ آیا--- یہ سارے اوصاف معمولی نہیںغیرمعمولی ہیں۔

تصوف کے بڑے جاننے والوں میںسے تھے۔ شیخ اکبرمحی الدین ابن عربی سے عقیدت خصوصی بھی رکھتے تھے اور مناسبت طبعی وروحانی بھی۔ باوجود اس کے رسوم خانقاہی اوربدعات مشائخ کے زرا بھی قائل نہ تھے اوروہم پرستیوں اورضعیف الاعتقادیوں کے نزدیک بھی نہیںگئے تھے۔ اکبر کی زبان میں    ؎۔

قائل میں تصوف کا ہوں اکبر لیکن

ارواح پرستی کو تصوف نہیں کہتے

ضابطے سے بیعت شیخ الہند مولانامحمودحسن دیوبندیؒ سے تھے اورطبیعت پرمذاق توحید تمام ترغالب تھا۔ نماز میںقرآن مجید اس خوش الحانی اوردردوتأثر سے پڑھتے کہ جی چاہتا گھنٹوں اسے سنتے رہیے۔

میرے ہم سن تھے اورحضرت تھانویؒ اورمولانا محمدعلیؒ کی وفات کے بعداب ملت کی زندہ ہستیوں میںانہی کی ذات میرے لیے محبوب ترین تھی۔ ہم سن کی وفات نے میرے لیے بھی قرب موت کی ایک اورگھنٹی بجادی ہے اورمحبوب کے سفرآخرت نے میرے لیے بھی اس منزلِ مقصود میںایک اورکشش ودل کشی پیدا کردی ہے!

صحت ادھر عرصے سے بہت گرگئی تھی، پھربھی اتنی جلدی وقت موعود آجانے کا ہم اہل غفلت کوخیال بھی نہ تھا۔ شوقِ لقائے رب پوری طرح رکھتے تھے جیسا کہ ایک درویش عارف کورکھنا ہی چاہیے تھا اورجہاں تک دماغی قوت کے بس میںہے خدا جانے کتنے اسرارغیب حل بھی کرچکے تھے۔ اصل حقائق کا انکشاف اب ہواہوگا اوراس وقت ان شاء اللہ پوری طرح ابدی لذتوں اورسرمدی راحتوں کی آغوش میںہوںگے۔ ابھی چندہی سال کی بات ہے کہ جب گیلانی مولانا سے ملنے جانا ہوا تھا اورایک باردفعتاً زورکا چکرساآگیاتھا۔ اضطراراً میں نے مولانا کا ہاتھ پکڑلیاتھا اوردل نے آناً فاناً خوشی اس کی محسوس کی تھی کہ اب نمازِ جنازہ مولانا ہی پڑھائیںگے۔ مشیت کو یہ منظور نہ ہوا اوراب لَواس کی لگی ہوئی ہے کہ جس وقت اپنا وقت موعود آئے گا(جویقینا اب دورنہیں) تواپنے مالک ومولا سے اپنے ایک قدیم تباہ کاررفیق ونیازمند کی شفاعت میںاصرار ومبالغہ کرنے والوں میںایک نمایاں وممتاز شخصیت مولانا ہی کی ہوگی۔ رخصت اے امام المسلمین! عارضی طورپر رخصت نسأل اللّٰہ لنا ولکم العافیۃ وان شاء اللّٰہ بکم لاحقون۔

مضمون ختم ہوچکا تھا کہ مرحوم کے چھوٹے بھائی کا خط موصول ہوا کہ:۔

’’آج صبح بعدنمازبھائی صاحب بستر پر لیٹے ہی تھے اورمیںبھی بغل کے پلنگ پرتھا کہ اچانک روح پروازکرگئی--- رات اس قدر خوش اوربشاش تھے کہ میں نے زندگی بھراتنا خوش نہیںدیکھاتھا خوب خوب گایا اورگویا رقص کیا جب ہی میرا ماتھاٹھنکاتھا کہ بعدنمازفجر یہ حادثہ پیش آگیا‘‘۔

جودوسروں کوجنت ورحمت کی بشارتیں سناتا رہتا اوربقول شخصے مغفرت کے پروانے تقسیم کرتا رہتا تھا، دنیا نے دیکھ لیا کہ خود اس کا انجام کتنا طرب آمیز ہوا۔ ناسُوت کی آخری رات اس کے لیے ’’شب برأت‘‘ تھی۔ وعدۂ وصال کے قرب نے اسے رات بھربے خود رکھا اورنمازفجر کے بعدبلاوا آیا توپاس ہی لیٹے ہوئے بھائی کو’’سکرات‘‘ کا پتا بھی چلنے نہ پایا۔’’والناشطات نشطاً‘‘ کے وعدے کا تحقق اس سے بڑھ کر اورکیا ہوگا‘‘۔ (ہفتہ وار صدق جدید لکھنؤ، ۱۵؍جون ۱۹۵۶ء)۔

ایک اقتباس’’سیاحت ماجدی‘‘ سے، جوعبرت زائی، رقت آفرینی اورحسرت سامانی کا نمونہ ہے۔ موقع ہے مولانا دریابادیؒ کا مرقد گیلانی پرحاضری کا!تاریخ ۵؍اگست ۱۹۵۷ء؁ :۔

’’قبرستان‘‘ جی ہاں! نہ کوئی گنبد، نہ کوئی مقبرہ، نہ کوئی حجرہ، نہ کوئی چبوترہ، نہ اونچی پکی قبروں کی قطار، نہ کوئی درودیوار، ایک بڑے طویل وعریض باغ میں خاندان والوں کی دوایک کچی تربتیں، بس یہ کل کائنات اس گورستان کی! سڑک سے چندمنٹ کے فاصلے پر کھلے ہوئے آسمان کے نیچے مولانا کا مزار پُرانوار۔۔۔۔۔ یعنی مٹی کا ایک ڈھیر، جس کے نیچے جسدخاکی اس مردمومن کا دائمی آرام میں ہے جووقت کا زبردست فاضل، معقول ومنقول کا جامع، شریعت وطریقت دونوں کا رازداں، ایک بہترین خطیب،ایک بہترین اہل قلم، بے داردل، روشن دماغ، مورخ، محقق، شاعر، عارف سب ہی کچھ تھا اورابھی کل تک جیتا جاگتا اوردوسروں کے دلوں کوزندہ رکھے ہوئے تھا!۔۔۔۔۔۔۔۔دن گزرتے کیادیرلگتی ہے، ابھی پانچ سال ادھر کی بات ہے، یہی برسات کا موسم تھا کہ جولائی ۱۹۵۲ء؁ میںمولانا اسی باغ میں اپنے اس نیازمند کوسیرکرانے لائے تھے۔ اس کے دریافت کرنے پر اپنے والدمرحوم کی قبربتائی تھی۔ آج اسی کے مزار پرایک گرفتار قیدعنصری کی حاضری تھی، بارش مسلسل جاری تھی۔ اس پر بھی ہٹنے کا جی نہیں چاہتاتھا، جوکشش، جاذبیت، جومحویت زندگی میںتھی اس کا ظہوراس وقت بھی ہورہاتھا۔ زیرلب نیم مضطرحالت میںجودعائیں، التجائیں، مخاطبے ہوئے وہ اب سب کہاں یاد، اتنا یاد ہے کہ آنسوئوں کے تار کے ساتھ کچھ اس قسم کی صدائیں زیرلب وزبان ٹکراتی رہیں:

دلوں کے دیکھنے والے اورسینوں کے اندرکی خبررکھنے والے! اپنے دین کے اس دیوانے کواپنی بہترین نعمتوں اوربخششوں سے سرفراز فرما۔ اس نے اٹھتے بیٹھتے اپنے کوتیرے دین اورتیرے پیمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی عزت وناموس کے لیے وقف کررکھا، تواسے وہ صلہ دے جواس کے خیال میں نہ آیاہو۔ بال بال اسے اپنی رحمتوں اورسرفرازیوں سے نوازدے! اوراس نیک اورپاک روح کے طفیل میں ہم لوگوں کا بھی بیڑا پارکردے جوجواس سے محبت کا دم بھرتے تھے۔ بداں رابہ نیکاں بہ بخشد کریم۔ بڑے بڑے عارفوں کا مقولہ ہے کرم میںکون تیرا مقابلہ کرسکتا ہے اورتواپنے عارفوں کی بات سچ ہی کردکھاتا ہے۔

مزار سے اٹھ کر مکان پرآئے چندہی قدم کا توفاصلہ تھا۔ وہ کمرہ دیکھا جہاں مولاناکا پلنگ بچھارہتا تھا۔ سیدمکارم سلّمہ نے ہرچیزحتی الامکان اسی طرح رہنے دی ہے جیسے مولانا کی حیات میںتھی۔ چائے پلوائی، پانی میںشرابور کپڑے آگ پرجلدجلد خشک کرادیے۔ باتیں زیادہ مولانا ہی کی کرتے رہے۔ اس سب کے باوجود کچھ زیادہ جی نہ لگا، طبیعت پر وحشت ہی غالب رہی۔ مکان بغیر مکین کے لطف ہی کیارکھتا ہے۔ بلبل خوش نوا اُڑ چکا تھا اورخالی پنجرے میںاب کیارکھاتھا! جی لگنے کی جگہ تواب وہی کچی مٹی کا ڈھیر رہ گئی تھی، اس پختہ مکان میںاب کیاتھا؟ بالکل ویسا ہی تأثر حضرت تھانویؒ کی وفات کے بعد تھانہ بھون جاکر پیدا ہوا تھا، خانقاہ وغیرہ کہیں جی نہ لگا، جی پھر کہیں لگا تواسی شیخ وقت کی کچی تربت پرحاضری دے کر۔ (سیاحت ماجدی،ص:۱۴۰-۱۴۱)۔

ان کتابوں کے علاوہ مولانا دریابادیؒ نے مولانا گیلانیؒ کا تذکرہ اپنی تصانیف سفرحجاز،حکیم الامت-نقوش وتاثرات، آپ بیتی اوردیگرکتابوں میںبھی خوب کیاہے۔ ان کی گراں قدر تصانیف پر مشتمل تبصرے کیے ہیں۔ مولانا گیلانیؒ ہفتہ وارسچ،صدق اورصدق جدید لکھنؤ کے خاص مضمون نگار تھے۔ ان کے متعدد اہم مضامین ان جرائدکے اوراق میںمحفوظ ہیں۔ان میںسے مولانا گیلانی کی مشہور کتاب ’’تذکیر بسورۃ الکہف‘‘ پر مولانادریابادی کا تعارف و تبصرہ ملاحظہ فرمایے:۔

ایک ترجمہ طلب کتاب:۔

فاضل گرامی مولانا مناظر احسن گیلانی کے مرتبۂ علم وفضل سے جولوگ واقف ہیں ان سے مرحوم کے کسی تعارف کی ضرورت نہیں۔ ذہانت، ذکاوت، نکتہ آفرینی میںمولانا خوداپنے معاصرین میںبے مثال تھے۔ تاریخ ہی نہیں قرآن سے بھی ان کا ذہن رسا عجیب وغریب مضمون پیدا کرتا رہتا اورلطیف ترین نکتے اورنتیجے اخذ کرتا رہتا اور قرآنی سورتوں میںبھی سورۃ الکہف(پ۱۵ و۱۶) کے تووہ گویا ماہرخصوصی بھی تھے۔ اپنے اخیرزمانے میں انھوں نے ’’تذکیربسورۃ الکہف‘‘ کے عنوان سے ایک بڑا فاضلانہ اوراس طرح دل چسپ لمبا مقالہ کئی نمبروں میںماہنامہ الفرقان (لکھنؤ) کے لیے لکھا تھا جومنتشر صورت میں اسی کی جلدوں میں محدود ہوکر رہا--- اب حیدرآباد کی قرآن وسیرت سوسائٹی نے ایک بڑا کام کردیا ہے کہ ان منتشر مقالوں کوحضرت مصنف کی نظرثانی اور جابجااضافوں کے بعدیک جائی طورپر ایک کتاب کی صورت میںشائع کردیا ہے۔ کتاب شروع سے آخر تک لطائف معنوی سے لب ریز ہے۔ دل بے اختیار چاہا کہ کتاب کسی طرح انگریزی کاقالب اختیارکرکے انگریزعالموں فاضلوں تک پہنچے اورحیدرآبادمیں یہ کام ہوجانا ایسا زیادہ دشوار بھی نہیں۔ ڈاکٹر میرولی الدین فلسفی تومولانا کے شاگردوں ہی میں ہیں اوراگرآمادہ ہوسکیں تومولانا کے رفیق تدریس ڈاکٹر عبداللطیف (ماہرادبیات انگریزی) کی مدد ومشورے سے اس ترجمانی کے کام کوبحسن اسلوب انجام دے سکتے ہیں۔ یہ دونام توصرف بطورنمونہ درج کردیے گئے ہیں، ورنہ حیدرآباد میں اب بھی مولانا کے شاگردوں اورنیازمندوں کی ایک خاصی تعداد نکل آئے‘‘۔(ہفتہ وارصدق جدید لکھنؤ، ۲۸؍اگست ۱۹۷۰ء؁)۔

اس اہم کتاب پر مولانادریابادی کا تبصرہ:۔

’’تذکیربسورۃ الکہف: از مولانا سیدمناظراحسن گیلانیؒ، ۳۲۰ صفحات، قیمت پانچ روپے، قرآن وسیرت سوسائٹی، خواجہ کا چلّہ، مغل پورہ، حیدرآباد دکن-۲

مولانا گیلانیؒ استاد دینیات عثمانیہ یونی ورسٹی زمانۂ حال کے ذہین ترین فاضلوں میںہوئے ہیں۔ خصوی درک وملکہ انھیں قرآن مجیدسے نکتوں کے ایسے استنباط کا تھا جس کا نام بھی انھوںنے بہت صحیح طورپرتفسیر وتفہیم دونوں سے ہٹ کر ’’تذکیر‘‘ رکھا تھا، اس کا بہترین نمونہ پیش نظرکتاب ہے۔ یہ سورۃ الکہف (پارہ ۱۵،۱۶) کی تفسیر وتفہیم دونوں سے الگ ایک نئی اوربالکل البیلی قسم کی تذکیر ہے۔

تہذیب حاضر کے دجالی پہلوئوں کی اس میںخوب خوب نشان دہی کی گئی ہے اوران کواس درجہ دل نشیں پیرایے میں نمایاں کیاگیا ہے کہ طبیعت عش عش کراٹھتی ہے اور ذوق ایمانی وجد میںآ آجاتا ہے--- پوری کتاب مقالے کی صورت میںرسالہ الفرقان (لکھنؤ) کے کئی نمبروں میںنکل چکی تھی اس کے بعد مولانا نے اس پر نظرثانی کی اورجابجا مفصل حاشیوں کا بھی اضافہ کیا۔ حیدرآباد کی قرآن وسیرت سوسائٹی والے قابل مبارک باد ہیں کہ انھوںنے اشاعت کے لیے ایک بہترین کتاب کا انتخاب کرکے اجربے حساب حاصل کیا‘‘۔ (ہفتہ وارصدق جدید لکھنؤ، ۲۵؍ستمبر ۱۹۷۰ء؁)۔

محقق گیلانیؒ نے مفسردریابادیؒ کی کتابوں پر تبصرے کیے ہیں۔ وہ ان اصحابِ اربعہ میںتھے جن کے لیے قرآن کریم کی ترجمہ نگاری کے ضمن میںمسترشد دریابادیؒ نے مرشدتھانویؒ کواپنے مکتوب میںلکھاتھا:۔

’’دورانِ ترجمہ میںحضرات علماء سے ہدایات حاصل کرتے رہنا توشروع سے ذہن میںتھا جناب والا(مرشدتھانوی) حضرت مولانا(حسین احمدمدنی) کے علاوہ مولانامناظراحسن گیلانی اورمولاناسیدسلیمان ندوی، یہ اصحاب اربعہ توپیش ہیں ہی، اس کے علاوہ اورجونام ارشاد ہوں‘‘۔ (حکیم الامت-نقوش وتأثرات،ص:۳۲۱)۔

مولانا گیلانی کے تبصرے مولانا دریابادی کی مشہورکتابوں پر:۔

مولانا گیلانی تفسیر ماجدی(انگریزی) پرتبصرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:۔

’’مغربی علوم وفنون کے ساتھ مشرقی واسلامی معارف وحقائق کے متعلق مولانا(ماجد) کا مطالعہ استناد کا درجہ حاصل کرچکا ہے۔۔۔۔۔ قرآن حکیم کا انگریزی ترجمہ تشریحی حواشی کے ساتھ اس سلسلے میں آپ کے قلم کا ایک ایسا غیرمعمولی کارنامہ ہے جس سے رہتی دنیا تک ان شاء اللہ تعالیٰ لوگ استفادہ کرتے رہیں گے۔۔۔۔۔ مولاناعبدالماجد دریابادی، جہاں تک میرا خیال ہے، پہلے بزرگ اور قرآن کے پہلے خادم ہیں جنھوں نے انگریزی زبان کے سمجھنے والوں کواسی روح اوراسی شکل کے ساتھ قرآن سے روشناس کرانے کی کوشش کی ہے جومسلمانوں کے نزدیک قرآن کی حقیقی روح اور صحیح، واقعی شکل ہے۔ ان کی اس علمی ودینی خدمت کا یہی سب سے زیادہ اختصاصی طغرائے امتیاز ہے‘‘۔ (عبدالماجددریابادی-احوال وآثار از ڈاکٹرتحسین فراقی ۴۴۰-۴۴۱ بہ حوالہ رہ نمائے دکن ۱۹۵۲ء؁)۔

علامہ گیلانیؒ نے تفسیرماجدی(اردو) کے مطالعے کے بعد مولانا دریابادیؒ کو یہ مکتوب تحریر فرمایا:۔

’’تفسیر ماجدی کی دوسری قسط روح افزا اوردیدہ افروز ہوئی۔ مطالعے میںمشغول ہوگیا، کیوں کہ کافی اہم سورتوں سے اس کا تعلق تھا۔۔۔۔۔۔ تفسیر ماجدی میرے نزدیک تو موجودہ صدی میںقرآن کی ایسی خدمت ہے جس کی قدروقیمت کا اندازہ اس وقت ہمارے مولویوں کو ہو یا نہ ہو لیکن زمانہ جیسے جیسے آگے کی طرف بڑھتا جائے گا، اسی قسم کی تفسیریں مسلمانوں میںجگہ حاصل کرتی جائیںگی۔ اقاصیص وروایات والی کتابوں کا زمانہ ختم ہوگیا، ہمارے علماء انہی کے عادی ہیں۔ان کواندازہ ہی نہیں ہے کہ قرآن کو دنیا اب کس طرح سمجھنا چاہتی ہے۔ خدا کی بات خدا ہی کی بات کی حیثیت سے سمجھ میںآئے، مطالبہ اس کا بڑھ رہا ہے،لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ روایتوں کے بغیر قرآن کے سمجھانے اورسمجھنے کی کوئی دوسری راہ ہی نہیں ہے۔ بحمداللہ آپ کا کام ہرلحاظ سے کام یاب اورعہدحاضر کے تقاضوں کی تکمیل کے ساتھ سلف کی راہ سے بال برابر بھی الگ نہیں ہوا ہے۔ میرے لیے توقدم قدم پر اس تفسیر میںنئے معلومات کا ذخیرہ ہی ملتا چلاجاتا ہے، خدا کرے آیندہ حصے بھی جلدسامنے آجائیں‘‘۔

علامہ گیلانیؒ کے مکتوب کے بعدمولانادریابادیؒ لکھتے ہیں:۔

’’ایک حقیر وبے بضاعت کی سعی وکاوش ہی کیا، لیکن بہرحال اگراللہ کے کلام کی کچھ صحیح ومناسب حال ترجمانی ہوسکی ہے تویہ شایدایک بڑی حدتک خود مولانا اورانہی جیسے اللہ کے نیک بندوں کی دعائوں اورحوصلہ افزائیوں کا نتیجہ ہے۔یہ جلدسورۃ المائدہ سے لے کر سورۃ البرأۃ کے خاتمے تک ہے اورتیسری جلد جوسورۂ نحل کے خاتمے تک ہے۔ سننے میں آیا ہے کہ وہ بھی شائع ہوگئی ہے۔۔۔۔۔۔ عام مولوی صاحبان کے جمود اورخالص تقلیدی ذہنیت پر توکیا عرض کیاجائے، لیکن اللہ کی اس نعمت کا شکر کس زبان سے ادا کیاجائے کہ اس حقیر سے کام کو اس نے وقت کے ایک نہیں متعدد صاحب نظر ومستند علمائے دین کی نگاہ میں بلندومعتبر کردکھایاہے۔ مولانا سیدابوالحسن علی حسنی ندوی اورعلامہ سیدسلیمان مرحوم، مولانا محمداویس نگرامی(استاذ تفسیردارالعلوم ندوہ) توخیرندوی ہی ہیں اورفاضل گیلانی بھی سال ہاسال انگریزی دانوں سے گہرا سابقہ رکھنے سے ندوی ہی ہوگئے ہیں۔ خوش قسمتی یہ ہے کہ مولانا ظفراحمدعثمانی تھانوی ثم پاکستانی اورمولانا محمدطیب صاحب دیوبندی جیسے قدیم خیال کے بزرگوں کے دلوں میں بھی ہرطرح محبت ہی ڈال دی ہے۔(ہفتہ وارصدق جدید لکھنؤ، ۳؍دسمبر ۱۹۵۴ء؁)۔

’’حکیم الامت-نقوش وتأثرات‘‘ پرمولاناگیلانی کا تبصرہ:۔

’’گزشتہ مہینے میںایک نئی کتاب ’’حکیم الامت-نقوش وتأثرات‘‘ کے نام سے اردوزبان کے کہنہ مشق صاحب طرزادیب مولاناعبدالماجددریابادی مدیر’’صدق جدید‘‘ کے قلم سے مرتب ہوکرشایع ہوئی ہے۔ کتاب خاک سار کے پاس بھی پہنچی۔ یہ واقعہ ہے کہ ہاتھ میںلینے کے بعداسی وقت الگ ہوئی جب (۶۱۴) صفحات کوختم کرکے تڑپ رہا تھا کہ آخر یہ کتاب کیوں ختم ہوگئی؟ یہ کتاب کیا ہے؟ اس میں دین کے لیے، علم کے لیے، عقل کے لیے، ذہن کے لیے، دل کے لیے، دماغ کے لیے مصنف کے حسن مذاق نے کتنی لذیذ، زودہضم غذائیں جمع کردی ہیں، اس کا صحیح اندازہ کتاب کے پڑھنے ہی سے ہوسکتا ہے۔

لیکن ایک بات توبالکل نمایاں اورکھلی ہوئی ہے، یعنی مکتوبات، ملفوظات یااسی نوعیت کی کتابیں جوعموماً حضراتِ صوفیہ کرام کے افادات کی عام شکلیں ہیں، اس کتاب کا رنگ ان سب سے الگ اورنرالاہے۔ اگرچہ اس میںبھی حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کے کچھ ملفوظات بھی ہیں اورکچھ مکتوبات بھی، لیکن جس شکل میں یہ چیزیں اس کتاب میں پیش کی گئی ہیں کم از کم خاک سار کا ذاتی تاثر تویہی ہے کہ تصنیف وتالیف کے دائرے میںشاید ایک مستقل صنف کا اضافہ اس کتاب کی شکل میںہوگیاہے۔ پڑھنے والے اس میںبے شمار اعتقادی الجھنوں سے نجات کی ضمانتیں بھی پائیںگے۔ بعض اہم فقہی مسائل کی تحقیق کا لطف بھی ان کو ملے گا۔ تصوف کے نکات واسرار کا تویہ کتاب مستقل گنجینہ ہے، لیکن اس کے سوا بھی خانگی زندگی کی دشواریوں کے متعلق راحت بخش نیک مشورے بھی آپ کو ملیںگے۔وہیں وقت کے بعض سیاسی نظریات کے سلسلے میںآپ کے سامنے ایسے پہلو بھی آئیںگے جسے مانا جائے یا نہ ماناجائے،لیکن سیاسی تدبیر وفکر کا اسے غیرمعمولی نمونہ سمجھاجاسکتا ہے۔ مجلسی آداب،ملنے جلنے کے ضوابط، لاضرر ولاضرار والی خوش گوار زندگی کے اصول وقواعد توتھانوی افادات کے خصوصیات ہیں۔ الغرض کتاب کا ہرورق، بلکہ شاید ہرصفحہ کم از کم میرے لیے تومستقل درس ہی بنتا چلاجاتاتھا۔ یہ کہہ سکتا ہوں کہ آج پڑھنے والے اخباروں، رسالوں، موسمی کتابوں کے ہزارہا صفحات میںبھی جن چیزوں کو نہ پاتے ہیں اورنہ پاسکتے ہیں، اسی کتاب کا پڑھنے والا تصدیق کرے گا کہ اس کی ایک ایک سطر میںوہی چیزیں مسلسل ملتی چلی جاتی ہیں۔ بے ساختہ مصنف کے لیے دل سے دعائیں نکلتی ہیں۔ جزاء اللّٰہ عنا وعن أمۃ محمدصلی اللّٰہ علیہ وسلم خیرالجزاء۔ باقی اپنی ناچیزرائے یاتاثر کو بجائے تقریظ کے عصری تنقید کا مصداق بنانے کے لیے کتاب کی کوتاہیوں اورنقائص کا ذکر ہو، اس کے متعلق کیا عرض کروں؟ وہی امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ والی بات یادآتی ہے۔ ’’الرسالۃ‘‘ نامی تصنیف لکھنے کے بعد سترہ دفعہ، بیان کیاجاتا ہے کہ امام نے اس کتاب کی نظرثانی کی۔ ہردفعہ کافی نقائص سامنے آتے تھے، آخر سترہویں دفعہ نظرثانی کے بعدفرمایا:۔

’’خدا انکار کرتا ہے کہ اس کی کتاب کے سوا کسی مخلوق کی کتاب نقائص سے پاک ہو‘‘۔

امت کے ایک جلیل القدرامام مجتہد کا جب یہ تجربی اعتراف ہے تواسی سے سمجھنا چاہیے کہ کسی ناقص مخلوق کے ناقص کام کی تعریف کا مطلب یہ قطعاً نہیں ہوتا کہ اس میںواقعی کوئی کوتاہی نہیں رہ گئی ہے، یاعیب چینی کا ارادہ کیاجائے توعیوب نہیں نکالے جاسکتے۔ دوسروں کے متعلق توکیاکہوں، خودبعض مواقع پر اس فقیر کا ذکر اس کتاب میںجس طریقے سے کیاگیاہے، پڑھ کر شرم سے گردن جھک گئی۔میرے ایک خط کا مضمون جووقتی تاثر کا نتیجہ ہوگا شاید اب مجھے یادبھی نہیں، بجنسہٖ مصنف مدظلہ نے نقل فرمادیاہے۔ خدا ہی جانتا ہے کہ لوگ اس سے کیا کیا نتیجے نکالیںگے۔ خانگی خطوط کی عام اشاعت لکھنے والے کے استمزاج کے بغیراسی لیے خاک سار کا خیال تویہی ہے کہ شاید مناسب بھی نہیں ہے، لیکن ’’ماقدراللّٰہ فسوف یکون جف القلم بماہو کائن‘‘۔(ماہنامہ معارف اعظم گڑھ بابت اکتوبر ۱۹۵۲ء؁)۔

’’محمدعلی:ذاتی ڈائری کے چند ورق‘‘پرعلامہ گیلانی کا تاثراتی مکتوب:۔

’اکبرنامہ‘ کے چندہی روز بعد، اللہ اللہ، اس مست روزالست کا کارنامہ اوروہ بھی آپ کے قلم سے سامنے آیا۔ جس کے ہرہرورق پر جی چاہتا تھا کہ چیخیں مارمارکرروئوں۔ ساری زندگی نذرناکامی ونامرادی ہوگئی، لیکن اللہ کے اس دیوانے کی نہ ہمت میںفتور ہی پیدا ہوا اورنہ آگے بڑھنے کی جگہ قدم پیچھے ہٹانے کا خیال ہی اس کے دماغ میںکبھی آیا۔ مولانا محمدعلی قدس اللہ سرہ کی زندگی کے ایسے مختلف پہلواس کتاب سے سامنے آجاتے ہیں جن سے دنیاناواقف ہے۔ مجھ پر توسب سے زیادہ اثران کی دینی فہم کا ہوا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بہ ایں ہمہ وارفتگی فطرتاً وہ فقیہ النفس تھے۔ آپ نے اشاروں اشارے میںان کے اس ملکہ کا ذکر کیاہے۔مگر میرا دماغ انہی اشاروں سے کیا عرض کروں کہاں کہاں گیا، بلکہ اس کا افسوس ہوتا ہے کہ انگریزی ادب وانشا کے ملکۂ فائقہ وراسخہ کے ساتھ یورپ وامریکہ میںاسلام اوراس کے نظام کے پیش کرنے پر ان کا قلم آمادہ ہوجاتا اورمسلمانوں کوحکم راں بنانے کی جدوجہدمیں جووقت ان کا صرف ہوا، کاش یہی وقت حکم راں قوموں کومسلمان بنانے کی طرف متوجہ ہوجاتا، توشاید ان کی زندگی ہی میںہم دیکھ لیتے کہ تاریخ فتنہ تاتار کے افسانے کودہرارہی ہے اورصنم خانے سے کعبے کی حفاظت کے لیے لوگ فوج درفوج کی شکل میںچلے آرہے ہیں۔ آپ نے چندہی باتوں کا ذکر فرمایاہے، لیکن ان کی دینی فہم وفراست کی گہرائیوں کا اندازہ لگانے کے لیے وہی کافی ہیں۔

آخرمیںآپ کے صلح پسندیا مسالمت آفریں قلم کی داد دیتا ہوں پیرومرید کے تعلقات میںجوالجھائو پیدا ہوا، اسی الجھائو میں سلجھائو کے اسرار پوشیدہ تھے۔ اس نازک مسئلے کومیں تونہیںسمجھتا کہ اتنی کام یابی کے ساتھ کسی اورکا قلم سلجھاسکتا تھا۔ اس میںدخل خود آپ کی فطرت اورافتاد طبع کوہے۔ فجزاکم اللّٰہ عن المسلمین خیرالجزاء۔ آپ کی فطرت کا یہ صوفیانہ رجحان ہے۔ (ہفتہ وارصدق جدید لکھنؤ، ۲۴؍ستمبر ۱۹۵۴ء؁)۔

اخذ واقتباس کے ان طویل ومختصر نمونوں سے ہمارے ان دونوںاکابر کے باہمی تعلقات وروابط کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔

ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے

http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid/