آج معروف شاعر ، ناول نگار ، افسانہ نگار ، محقق اور ادیب خاطر غزنوی کی برسی ھے ۔

Bhatkallys

Published in - Other

04:26PM Wed 5 Jul, 2017

ابو الحسن علی بھٹکلی

محمدابراہیم بیگ نام اور خاطر تخلص ہے۔1925ء میں پشاور میں پید اہوئے۔تعلیم ایم اے (اردو)، ڈپلوما چینی زبان، آنرز (پشتو) ، سرٹیفکیٹ روسی زبان۔ریڈیو پاکستان پشاور سے منسلک رہے۔ کئی اخباروں اور رسالوں کے اڈیٹر رہے۔ پشاور یونیورسٹی میں چینی زبان کے استاد کی حیثیت سے تدریسی فرائض انجام دیتے رہے۔ ان کی تصانیف اور تالیفات کے چند نام یہ ہیں: ’سرحد کی رومانی کہانیاں‘، ’سرحد کے رومان‘(لوک کہانیاں)، ’رزم نامہ‘(رزمیہ نظم)، ’جدید نظمیں‘(انتخاب)، ’ننھی منی نظمیں‘(بچوں کی نظمیں)، ’خوش حال خاں خٹک کا کلام‘(اردو ترجمہ)، ’مرزا محمود سرحدی۔ شخصیت وفن‘، ’خواب در خواب‘(شعری مجموعہ)۔

معروف شاعر، ادیب اور ماہر تعلیم پروفیسر خاطر غزنوی 06 جولائی پیر کی صبح انتقال کر گئے تھے۔ ان کی عمر 90 برس تھی۔ پروفیسر خاطر غزنوی اباسین آرٹس کونسل کے بانی رکن اور اکادمی ادبیات پاکستان کے سابق ڈائریکٹر جنرل رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ پشاور یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے چیئرمین کے فرائض بھی سرانجام دے چکے ہیں۔ وہ طویل علالت کے باعث گزشتہ روز انتقال کرگئے تھے ان کی نماز جنازہ پیر کی شام 7 بجے گلبرگ پشاور میں ادا کی گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خاطر غزنوی نے اپنی زندگی میں ہی اپنی عظیم لائبریری جس کے بارے میں اہل ادب کا کہنا ہے کہ ایسی لائبریری کے مالک اشخاص دنیا میں ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔

خاطر غزنوی نے اس بیش قیمت لائبریری کا ایک حصہ قرطبہ یونیورسٹی کو عطیہ کردیا اور ایک حصہ مرحوم صابر کلوروی سابق صدر شعبۂ اردو پشاور یونیورسٹی کے آبائی گاؤں قلندر آباد کی اردو لائبریری کو دان کردیاہم نے ذاتی طور پر خاطر صاحب کو تجویز پیش کی تھی کہ پشاور میں ان کے بااثر مخیر دوستوں کا کنسورشیم بنا کر رنگ روڈکے پار ایک قطعہ اراضی حاصل کرکے ایک پبلک لائبریری تعمیر کی جائے اس وقت اس علاقہ میں زمین پانچ دس ہزار روپیہ مرلہ مل جاتی تھی مگر ہمارے کچھ مہربانوں نے اس بیل کو منڈھے نہ چڑھنے دیا ورنہ خاطر صاحب کی ساری لائبریری ایک جگہ محفوظ ہو جاتی اور اہل علاقہ اس دریائے علم سے سیراب ہوتے اب اس پشاور میں جو علم کا مرکز تھا لائبریریوں کی ناگفتہ بہ حالت کس سے پوشیدہ ہے خدا مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ دے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منتخب کلام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے

میں اسے شہرت کہوں یا اپنی رسوائی کہوں مجھ سے پہلے اس گلی میں میرے افسانے گئے

یوں تو وہ میری رگِ جاں سے بھی تھے نزدیک تر آنسوؤں کی دھند میں لیکن نہ پہچانے گئے

وحشتیں کچھ اس طرح اپنا مقدر ہو گئیں ہم جہاں پہنچے، ہمارے ساتھ ویرانے گئے

اب بھی ان یادوں کی خوشبو ذہن میں محفوظ ہے بارہا ہم جن سے گلزاروں کو مہکانے گئے

کیا قیامت ہے کہ خاطر کشتۂ شب بھی تھے ہم صبح بھی آئی تو مجرم ہم ہی گردانے گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اک تجسس دل میں ہے یہ کیا ہوا کیسے ہوا جو کبھی اپنا نہ تھا وہ غیر کا کیسے ہوا میں کہ جس کی میں نے تو دیکھا نہ تھا سوچا نہ تھا سوچتا ہوں وہ میرا خدا کیسے ہوا ہے گماں دیوار زنداں کا فصیل شہر پر وہ جو اک شعلہ تھا ہر دل میں فنا کیسے ہوا رنگ خوں روز ازل سے ہے نشان انقلاب زیست کا عنوان مگر رنگ حنا کیسے ہوا غزنوی تو بت شکن ٹھرا مگر خاطرؔ یہ کیا تیرے مسلک میں اسے سجدہ روا کیسے ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انسان ہوں گِھر گیا ہوں زمیں کے خداؤں میں اب بستیاں بساؤں گا جا کر خلاؤں میں یادوں کے نقش کندہ ہیں ناموں … Read more [8:12 PM, 7/5/2017] Abul Hasan Jubapu Ksa: آج ممتاز مزاح نگار شوقؔ بہرائچی کا یومِ پیدائش ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شوق بہرائچی جنکا پورا نام سید ریاست حسین رضوی تھا کی پیدائش اجودھیاضلع فیض آباد کے محلہ سیدواڑا میں ایک زمیندار طبقہ سے تعلق رکھنے والے سید سلامت علی رضوی کے گھر میں 06 جون 1884ء کو ہوئی تھی۔شوق صاحب تلاش معاش میں بہرائچ آئے اور پھر یہیں کے ہوکے رہ گئے۔

شوق کے کمزور جسم پر ایک شیروانی ٹنگی رہتی تھی جو جسم کی ساخت کے آگے سے لٹکی ہوئی اور پیچھے سے اچکی ہوئی رہتی تھی۔پیٹ کے پاس کے دو تین بٹن بند رہتے تھے باقی کھلے رہتے تھے۔ہوسکتا ہے ایک آدھ بٹن ٹوٹا بھی رہتا رہاہو۔داہنے ہاتھ میں پرانی سی چھڑی ،سر پر تیل خوردہ کشتی دار ٹوپی اور بازار سے گھر آتے وقت بائیں ہاتھ میں ایک پڑیا جس میں کوئی نہ کوئی مٹھائی رہتی تھی ۔

علمی لیاقت کے اعتبار سے وہ صفر تھے لیکن یہ وہی صفر تھا جسے کسی گنتی کے داہینی طرف لگا دیا جائے تو اس کی قیمت دس گنا بڑھ جاتی ہے شوقؔ کا حال کچھ ایسا ہی تھا اردو ہندی انگریزی اور فارسی زبان کے الفاظ پر بڑی قدرت رکھتے تھے۔شروع میں غزلیں کہتے تھے پر انکی چلبلی طبیعت نے کروٹ بدلی اور غزل سے قطع تعلق کر کے وہ طنز و مزاح کی دنیا میں آگئے ۔شوق کی زندگی کے آخری دور میں یہ چہ میگوئیاں ہوتی رہتی تھی کہ شوق ؔ نے غزلیں لکھنا بند نہیں کیا بلکہ اجرت لیکر دوسرے شاعروں کے لیے لکھا کرتے تھے۔ شوق نے جب بہرائچ سے اپنا ادبی سفر شروع کیا تو یہاں شعر و شاعری کا عام چرچا تھا ۔ جگرؔ بسوانی کے ہم عصر رافعت ؔ بہرائچی ،حکیم محمد اظہر ؔ وارثی ،جمال ؔ بابا،شفیعؔ بہرائچی، بابو لاڈلی پرساد حسرتؔ سورج نرائن آرزو،مولانا سید سجاد حسین طور ؔ جونپوری ثم نانپاروی، پیارے میاں رشید لکھنوی کے شاگرد سید محمد اصغر نانپاروی ،ابوالفضل شمسؔ لکھنوی ،حکیم نبی احمد نجم خیرآبادی ،تعلقدار وصی حیدر جرولی کی غزل گوئی چھائی ہوئی تھی جو شہر بہرائچ اور نانپارہ و جرول جیسے مردم خیز اور ادب نواز قصبوں میں رہتے تھے۔ شاعر و ادیب شارق ربانی کا کہنا ہے کہ طنز و مزاح کے شاعر وں میں شوقؔ بہرائچی کا شمار اکبر الہ آبادی کے بعد ہوتا ہے ۔شوق ؔ طنز و مزاح کے نامور شاعر تھے۔

عمر کے آخری ایام میں بوڑھے شوق کے لاغر جسم کو دمہ کے پرانے مرض نے بد حال کر رکھ دیا تھا ۔بیماری اور بے روزگاری نے زندگی کو بہت دشوار بنا دیا تھا ۔شوق کو حکومت کی طرف سے ایک مختصر سی رقم بطور وظیفہ ملتی تھی لیکن یہ سلسلہ صرف ایک سال کے لئے تھا۔اس وقت کے وزیر انصاف سید علی ظہیر صاحب کسی سلسلہ میں بہرائچ آئے تھے اور شوق کی عیادت کے لئے بھی شوق کے گھر گئے تھے۔شوق کی کسمپرسی اور علالت سے وزیر صاحب بہت متاثر ہوئے اور سرکاری مدد اور پنشن دلانے کا وعدہ کر لیا لیکن لیڈران کے وعدے کبھی پورے نہیں ہوتے ۔چنانچہ بستر مرگ پر پڑے ہوئے آدمی سے کیا گیا وعدہ بھی اور وعدوں کی طرح وفا نہیں ہو سکا اور شوقؔ بہرائچی مدد کے انتظار میں راہی ملک عدم ہو گئے ،اسی سلسلہ میں شوقؔ نے ایک قطعہ لکھا تھا ” سانس پھولے گی ،کھانسی سواآئے گی لب پہ جان حزیں بار ہا آئے گی دار فانی سے جب شوقؔ اٹھ جائے گا تب مسیحا کے گھر سے دوا آئے گی “ شوقؔ بہرائچی کی وفات 13 جنوری1964ء بہرائچ میں ہوئی اور آزاد انٹر کالج کے پچھم واقع قبر ستان چھڑے شاہ تکیہ میں تدفین ہوئی۔ بشکریہ: وکی پیڈیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ برباد گلستاں کرنے کو بس ایک ہی الو کافی تھا ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہو گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مہ جبینوں کی محبت کا نتیجہ نہ ملا مرغیاں پالیں مگر ایک بھی انڈہ نہ ملا

حسن خود بیں نہ ملا حسن خود آرا نہ ملا جب میں سسرال گیا ایک بھی سالا نہ ملا

کس طرح جاتا کوئی منزل مقصد کی طرف کوئی یکہ کوئی تانگہ کوئی رکشا نہ ملا

نظر آیا نہ کہیں ناصح ناداں میرا جستجو جس کی تھی وی مٹی کا ببوا نہ ملا

اب کی ناکام رہا قائد ملک و ملت اب کی بربادئ اقوام کا ٹھیکہ نہ ملا

شیخ صاحب کے تلون کا فسوں ہے یہ بھی مسجدوں میں کبھی اک مٹی کا بدھنا نہ ملا

اے غم دوست ضیافت میں تری کیا کرتا ایک خوراک سے راشن ہی زیادہ نہ ملا

لاکھ بازار محبت کے لگاۓ پھیرے بے وقوفی کے سوا ااور کوئی سودا نہ ملا

کس طرح سے کوئی تعمیر نشیمن کرتا کبھی ستلی نہ ملی اور کبھی سیٹھا نہ ملا

دوست کی شیریں بیانی کا مزا کیا کہۓ ایسی برفی کبھی ایسا کبھی پیڑا نہ ملا

رکھے ہی رکھے ہوئی جنس کرم سب برباد ایک بھوکے کو مگر پاؤ بھر آٹا نہ ملا

ہاتھ آۓ گا نہ پروانہء جنت اے قوم شیخ صاحب کو اگر حلوا پراٹھا نہ ملا

کس طرح سے کسی تعمیر کی ہوتی تکمیل وقت پر جب کبھی اینٹا کبھی گارا نہ ملا

آج شمشیر برہنہ وہ لیے پھرتے ہیں جن کے گھر میں کبھی اک بانس کا پھٹا نہ ملا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نئی بزم عیش و نشاط میں یہ مرض سنا ہے کہ عام ہے کسی لومڑی کو ملیریا کسی مینڈکی کو زکام ہے

یہ عجیب ساقئ ماہ وش ترے مے کدے کا نظام ہے ہوا جیسے تو بھی دیوالیہ نہ تو خم نہ مے ہے نہ جام ہے

یہاں ذکر آب و طعام کیا یہاں کھانا پینا حرام ہے یہاں برت رکھتے ہیں روز سب یہاں روز ماہ صیام ہے

نہ تو متفق کسی امر میں نہ تو متحد کسی کام میں مرے لیڈروں کا دماغ ہے کہ حماقتوں کا گودام ہے

ابھی ہے غریبوں کی چشم تر ابھی ان کے حال پہ اک نظر ابے انقلاب ٹھہر ذرا ابھی تجھ سے اور بھی کام ہے

میں سنا چکا ہوں ہزار بار انہیں درد و یاس کی داستاں نہ یقین ہو تو وہ پوچھ لیں کہ گواہ ٹیلی گرام ہے

ابھی اس کو جسم تو ڈھکنے دو ابھی اس کو پیٹ تو بھرنے دو ابھی اس کو فکر عوام کیا ابھی ننگا بھوکا نظام ہے

وہی خادمانہ روش رہے یہ خیال رہبری چھوڑ دو اسے پی سکو گے نہ دوست تم یہ بہت ہی گاڑھا قوام ہے

تجھے اپنے اور پراۓ کا نہیں کچھ شعور ابھی تلک مرے جاں نثاروں کی لسٹ میں ذرا دیکھ تیرا بھی نام ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ جب دیکھی گئی میری تڑپ میری پریشانی پکڑ کر ان کو جھوٹنے کھینچ لایا شوق عریانی

لباس ایجاد کر ایسا کوئی اے عقل انسانی کہ تن پوشی کی تن پوشی ہو عریانی کی عریانی

معاذ اللہ وہ کافر ادا کو حسن پنہانی کہ اب خطرے میں ہے ہر اک مسلماں کی مسلمانی

بتا دیتی ہے بڑھ کر ان کے جلووں کی فراوانی کہ گھر سے بے حجابانہ نکل آئی ہے مغلانی

معاذ اللہ جناب شیخ کا یہ جوش ایمانی سمجھتے ہیں بتوں کے حکم کو آیات قرآنی

جسے دیکھو رکھے ہے سر پہ اپنے تاج سلطانی ہنسی ٹھٹھا سمجھ رکھا ہے ہر اک نے جہاں بانی

تمنائیں مری پامال یوں کرتا ہے وہ ظالم کسی موضع میں جیسے کھیت جوتے کوئی دہقانی

ہر اک کی خاطریں حسب مراتب ہوں گی دوزخ میں وہ ناصح ہوں کہ زاہد ہوں کہ ملا ہوں کہ ملانی

خدا محفوظ رکھے فطرت انساں سے عالم میں مؤدب ہو کے کہتا ہے جسے شیطاں بھی استانی

سدا حرص و ہوس سے دور رہنا چاہۓ ہم دم یہ دونوں ہیں بڑی فتنہ جٹھانی ہو کہ دیورانی

بقدر ذوق تکمیل تمنا شوقؔ کیا ہوتی کہ ہم نے عورتیں پائیں کبھی اندھی کبھی کانی

ہیں یکساں زاہد کم عقل ہوں یا ناصح ناداں کھلونے سب برابر ہیں وہ چینی ہوں کہ جاپانی

وہ ناصح ہوں کہ واعظ ہوں کہ قاعد ہوں کہ رہبر ہوں انہیں لوگوں سے پھیلی ہے جہاں میں نسل انسانی

جفائیں ہم پہ ہوتی ہیں کرم غیروں پہ ہوتا ہے یہاں گرتے ہیں اولے اور وہاں برساتے ہیں پانی

مجھے برباد کر کے دوست پچھتانے سے کیا حاصل نہ لڑھکا دے تمھیں دوزخ میں یہ شیطان کی نانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔