مجلس اصلاح و تنظیم صد سالہ تاریخ کے آئینہ میں ایک احساس ایک اور ایک جائزہ

Bhatkallys

Published in - Other

12:19PM Mon 22 Dec, 2014
از: عبدالرقیب ندوی ابن خواجہ معین الدین ایم جے مرحوم اُڑائے کچھ ورق لالہ نے کچھ سنبل نے کچھ گل نے چمن میں ہر طرف بکھری ہو ئی ہے داستان اُن کی زندہ قوم کی علامت یہ ہے کہ وہ اپنے محسنین کی خدمات کو یاد کر تی ہے اور قوم کے مستقبل کو سنوارنے کیلئےان بھولی بسری ماضی کی خوشگوار اور سنہری یادوں کو مشعل راہ بناکر  نئی منزلیں اور نئی راہیں تلاش کرتی ہے ، گردش ایام کہیں پر کسی  تاریخی واقعہ کو انقلاب زمانہ کا نام دے کر خوشیوں کے پھول بکھیرتا ہے تو یہی انقلاب  کسی اور خطہ میں ظلم و بربریت کی داستانیں رقم کرتے ہو ئے دلوں کو رنج و الم سے بھر دیتا ہے ، کم وبیش آ ج سے ایک صدی قبل ہمارا یہ پیارا ہندوستان حریت کے ذوق و جذ بہ سے سرشار سر پر کفن  باندھے غاصب انگریزوں سے بر سر پیکار تھا، آزادی کی طویل جد وجہد فیصلہ کن اور آخری مر حلہ میں تھی تو یہاں پر اس چھوٹے  سے خطہ بھٹکل میں بھی مسلم والینٹرس کورپس (corps)کے نام سے مجلس اصلاح و تنظیم  کے بینر تلے یہاں کا جوان اور بچہ بچہ تک کمانڈر، کیپٹین ،کرنل غرض یہ کہ اس پیارے وطن کا وفادار سپاہی بن کر دل وجان سے تحریک و جنگ آزادی کی اس لڑائی میں  شریک تھا، انقلاب زندہ باد کا یہ دور انتہائی دشوار گذار اور سخت ترین مراحل سے دو چار ہو نے کے باوجود حب الوطنی ، رواداری ، ہم آہنگی  ، بادئی چارگی ، انسانیت دوستی و آپسی اخوت و محبت کا بلا شبہ یہ ایک منفرد  اور مثالی دور تھا، ایک طرف آزادی کی جدوجہد جاری تھی تو دوسری طرف اس ملک کےمسلمان  بھی عالم اسلام کے بدلتے حالات سے متفکر ہی نہیں بلکہ سلطنت عثمانیہ کے سقوط  کے آثار نے انہیں یاس و قنوط کا شکار بنادیا تھا ، ایک طرف اس خطہ میں بھی جنگ آزادی کی تحریک بڑے زور و شور سے جاری تھی تو دوسری طرف ملّی و اسلامی تشخص کی بقاء کیلئے چھوٹی چھوٹی تنظمیں سیاسی، سماجی و تعلیمی میدانوں میں سر گرم عمل تھیں ، رہبر قوم جناب آئی ایچ صدیق اور انکے اہل بصیرت رفقاء نے اپنی دور اندیشی کے ذریعہ اس قوم کی تمام تر صلا حیتوں کو ایک مرکز پر لا کر جمع کرتے ہو ئے ایک ادارہ کی بنیا د رکھی جس کا نام مجلس اصلاح و تنظیم رکھا گیا ، صدی گذر گئی اور الحمد اللہ آج تک یہ  ادارہ سیا سی ، سماجی و ثقافتی میدانوں میں سر گرم عمل ہے ، ایک طرف تحریک آزادی و جنگ آزادی میں اس ادارہ نے قائدانہ کر دار ادا کیا ہے ، ایک جانب علی گڈھ مسلم یو نیورسٹی کے تعلیمی و اقلیتی کر دار کو بحال رکھنے کی کو ششوں میں یہ ادراہ پیش پیش نظر آتا ہے ، تو دوسری جانب مشترکہ سول کوڈ کے نفاذ کے خلاف مسلم پر سنل لاء بورڈ کی تائید میں  بھی اس ادارہ کا نمایاں کردار رہا ہے ، ملت کے درد کو اپنے سینے میں بسا کر اس ادارہ نے بیت المقدس پر غاصب یہودیوں کے ناجائز قبضہ اور وہاں پر جاری ظلم و بر بریت کے خلاف اُ س وقت سے اب تک بڑ ے ہی پُر درد  انداز میں اپنی آواز بار بار دہلی کے ایونوں تک پہنچائی ہے ، مسلمانوں کے مقامی ، تعلیمی ، سماجی ، سیا سی و اقتصادی مسائل میں اس کے کار ناموں کی تفصیل کچھ ایسی ہے کہ آ ج کا مؤ رخ گھنٹوں میں بھی اس کا احاطہ نہ کر سکے ، اس کے علاوہ مسلمانوں کے قانونی و اجتماعی معاملات میں ریاستی و ملکی سطح پر اس ادارہ نے ہمیشہ بہترین رہنمائی و رہبری کی ہے ، ہر کو ئی جا ننے والا شخص جسکا قائل و معترف ہے، جنگ بلقان سے لیکر حالیہ کشمیر کے ہلاکت خیز طوفانی سیلاب تک امداد باہمی، ریلیف و باز آباد کاری کی اس ادارہ کی ایسی درخشاں تا ریخ ہے کہ ہندوستان کے مختلف دور دراز کے علاقوں میں بھٹکل تنظیم کے نام سے کئی کالونیاں آباد ہیں اور یہ سب کام بلا کسی مذہبی تعصب و جانبداری کے انسانی بنیادوں پر انجام دیئے جاتے ہیں ، اس وقت اسلاف کے خوابوں کی تعبیر اور انکی کو ششوں کا ثمرہ سو سالہ تاریخ کے طور پر ہمارے سامنے ہے ، ہمارے یہ بیشتر و مخلصین صفحہ تاریخ پر اپنے نام و کام کی مہر ثبت کر کے اس دنیا سے رخصت ہو کر بھی وہ ہمیشہ کیلئے اپنے کارناموں سے زندہ جاوید بن چکے ہیں اور معاشرہ کا ہر فرد جی جان سے انکی نیک نامی کے گن گا رہا ہے ، پیار ومحبت میں ڈوبے ہو ئے گیتوں سے انکے محاسن اور خوبیوں کو گنایا جا رہا ہے ،خو شی و مسرت کے پلک جھپکتے ہو ئے  آنسوؤں سے ہر کو ئی اس باوقار تنظیم اور اسکے پاسبانوں کو خراج عقیدت پیش کر نے کیلئے بے چین نظر آ رہا ہے ، اس وقت بھٹکل کی فضا بڑی معطر ، پر کیف اور روح پرور منظر پیش کر رہی ہے ، بس ایک چھوٹا ساسوال ہے کہ اس انتہائی درجہ کی محبت و عقیدت کی آخر وجہ کیا ہے ، بس صرف اسلئے کہ ہمارے یہ اسلاف حسن نیت کے ساتھ حسن عمل کے خوگر تھے،انکے قول وکردار میں مماثلت تھی ، دولت و ثروت کے باوجود قناعت پسندی ان کا شیوہ تھا ، اپنے غم سے بڑھ کر دوسروں کے غم کو دیکھ کر ملول ہو جا نا اور ان کیلئے کچھ کر گذرنا یہ ان کی خا ص صفت تھی ، ہر ایک کی خدمت کا پاس و لحاظ ، مذہب پرستی و وطن دوستی یہ ان کا مزاج تھا ، جنگ آزادی کے دور کو دیکھئے ، آپسی اتحاد و اتفاق وپیارومحبت کی وجہ سے اُجڑا اُجڑاہندوستان بھی بڑا پیارااور ہرابھرا لگتا تھا، طبیعت و مزاج کے ہزار اختلاف کے باوجود رنجشیں اورعدالتیں ناپید تھیں ، وہ ہمارے آ ج کے اکثر رہنماؤں کی طرح میر کارواں کا مزاج نہیں رکھتے تھے ،دوسروں پر انگلیاں اٹھانے سے پہلے وہ خود اپنا محاسبہ کرتے تھے ، غرض یہ کہ دین فطرت و محسن انسانیت نبی آخرالزماں ﷺکے وہ سچے پیروکار تھے ، اسی لئے تو رفعتوں اور عظمتوں کا بول بالاتھا  ،ہم دین فطرت کے حامل و داعی ہیں ، اسی لئے آج بھی ہم اپنی عظمت رفتہ کو بحال کرنے اور گذرتے ہو ئے ،اسی لئے آج بھی ہم اپنی عظمت رفتہ کو بحال کرنے اور گذرتے ہو ئے روشن  اور تابناک زمانہ کو کھینچ لانے کا فن و ہنر رکھتے ہیں ، آج بھی آئی ایچ صدیق جیسا دوراندیش ، جوکاکو شمس الدین جیسا سیاسی مدبر، یحیٰ جیسا مخلص  رہبر اور منیری جیسا عزم کا پیکر وغیرہ ان جیسے رہبر و رہنما قوم کو میسر ہو سکتے ہیں ، بس شرط یہ ہے کہ ہم بےحسی کی چادر کو اپنے تن سے اکھاڑ پھینکیں ، اسلامی غیرت و حمیت ، عفت و پاکدامنی کے پاکیزہ جذبات سے اپنے دل و دماغ کو مزین کر کے ہمارے یہ مستقبل کے معمار ، قوم کے نوجوان فولادی عزائم کے ساتھ میدان عمل میں کود جائیں کہ ہم اپنی ان تھوڑی سی بہکی بہکی مست مست جوانیوں کومہکی مہکی خوشبو بکھیرتی جوانیوں میں تبدیل کر کے ہی دم لیں گے تو یقین کیجیئے قسم ہے رب کا ئنات کی انشاء اللہ وہ دن دور نہیں جب ہمارا پو را معاشرہ دین ودنیا کی سعادتوں سے بہرہ ور ہوگا اور خزاں کی جگہ بھی صرف بہار ہی بہار ہو گی ،تاریکیوں کی جگہ ہرچہارسو صرف روشنی ہی روشنی اور نور ہی نور ہو گا ،اسلئے کہ فرمان رسول  رحمت کائنات ﷺ کی پیشین گو ئی کے مطابق دین فطرت پر مبنی صحیح اسلامی معاشرہ کے وجود کی بناء پر ایک زمانہ وہ آئیگا جب اسلام اوراہل اسلام کا بول بالا اس قدر  ہو گا کہ شجر و حجر بھی گواہی دیں گے کہ ہمارے اس درخت کے نیچے اسلام کا دشمن بد بخت یہودی چھپا ہے ، اس بات کو بھی ہم یاد رکھیں کہ قوم و ملت کے یہ ہمارےا دارےدراصل ہمارے لئے قلعے کی حیثیت رکھتے ہیں ، انہی اداروں کی چہار دیواری میں ہم محفوظ ہیں ، انہیں اداروں سے ہماری شان، پہچان اور عظمت وابستہ ہے ، قوم و ملت کیلئے ہمہ جہتی خدمات انجام دینے والے ان اداروں کو قدرومحبت کی نگاہوں سے دیکھنا بھی عبادت ہے ، ان محسنین کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا بھی باعث اجرو ثواب ہے ، ان اداروں کے مخلص ذمہ داروں سے اپنائیت و محبت ، چاہت وخلوص کا اظہار نیز اعتماد و اعتبار یہ صفات بھی دراصل دین حنیف کا حصہ ہیں ، مجلس اصلا ح و تنظیم کے اس تاریخی جشن کے پس پردہ اصل مقاصد کی تکمیل کیلئے رب کائنات کے حضور اپنی بے بسی کے احساس کے ساتھ لو لگا کر دعاؤں کا اہتمام بھی کیجیئے ،حسن عمل و دعا سے ہی تقدیر یں بدلتی اور سنورتی ہیں،اور یہی مومن کا سب سے بڑاہتھیار ہے، اللہ رب العزت ہمارے تمام اداروں کو تنظیم ہو کہ انجمن،جامعہ ہو کہ دیگر جماعتں  وادارے جو دینی نہج واسلامی  بنیادوںپر قائم ہیں اور قوم و معاشرہ کو سنوارنے کے مشن پر گامزن ہیں شاد و آباد رکھے ، پھلتاو پھولتارکھےاور ہر دم تر قی کی راہوں پر گامزن رکھے اور ہمارے محسنین کو ان کی خدمات کا بہترین صلہ و بدلہ عطا فر مائے ۔آمین ؂ یقین افراد کا سرمایہء تعمیر و ملت ہے           یہی قوت ہے جو صورت گر تقدیر ملت ہے ع،ح،خ