میاں ہم آپ کو جاہل سمجھتے ہیں

از: ندیم صدیقی
’’ میاں ! آپ ہم کو جاہل سمجھتے ہیں ‘‘ دُوسری زبانوں کے بارے میں تو نہیں مگراُردو کے لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس زبان میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنےکے بعد بھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ہم زبان جانتے ہیں۔ واضح رہے کہ زبان جاننے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ حروف تہجی سے واقف ہیں ، جاننے سے مراد ،زبان کا بر محل استعمال ہے۔ اس میں اچھے اچھےاصحاب چٗوک جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک لفظ بہت عام ہے بلکہ سچ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں کسی سے اختلاف ہوا اور فوراً کہہ دِیا جاتا ہے کہ ’’ میاں ! آپ جاہل ہیں۔‘‘ یہ کہہ دینا تو آسان، بہت آسان ہے مگر جب جہل کی یہ پھبتی ہم پر پڑتی ہے تو ہم تلملا جاتے ہیں۔ ایک واقعہ یاد آتا ہے جو کم و بیش 35برس پرانا ہے کہ ہمارے والد کےدیرینہ(شاعر) دوست تھے ایک مشاعرے میں انھیں مدعو نہیں کیا گیا اورہمیں یاد کر لیاگیا یہ بات اُن بزرگوار کو ناگوار گزری اور وہ یہ کہتے پائے گئے کہ’ ’ہمارے سامنے کے لونڈے ہیں جنہیں مشاعرے میں یاد کیا جاتا ہے اور ہمیں نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔‘‘ بات اسی پَہ ختم نہیں ہوئی بلکہ اُنہوں نے ہماری بعض کمزوریوں کو بھی نشانہ بنانا شروع کیا۔ ہماری بھی مت ماری گئی تھی یا یوں کہیے کہ عمر کا نشہ تھا۔ دو ڈھائی مہینے گزرگئے تو ہم نے ایک دن ان کے گھر حاضری دی ۔ موصوف عمر کے تیسرے حصے میں تھے ضعف کے شکار تھے۔ وہ پچھلا واقعہ بھول گئے کہ ’’کل اس لونڈے کو ہم نے کیاکچھ برا بھلا کہا تھا۔‘‘ ہم نے انکے گھر میں بیٹھتے ہی ان کے ایک شعر کی فرضی کہانی شروع کی کہ کل آپ کا فلاں شعر ایک پرائیویٹ نشست میں ڈاکٹر ظ انصاری نے نہ صرف پڑھا بلکہ اس پر خاصی دیرگفتگو بھی کی۔ یہ سنتے ہی موصوف کے چہرے کا رنگ گلابی ہوگیا اور وہاں بیٹھے ہوئے اپنے دوستوں کے سامنے سینہ چوڑا کر کے اہلِ خانہ کو آواز لگائی کہ ارے بھئی کچھ تو لاؤ۔ کچھ ہی دیر میں کباب اور سموسے سے ہماری’’ضیافت‘‘ کی گئی۔ اسی دوران باتیں بھی ہوتی رہیں ، جن کا موضوع شعرو ادب اور زبان ہی رہا۔ ہم نے ان کے پرانے اشعار نہ صرف سنائے بلکہ اس کی کچھ گہری تفہیم بھی کرنے کی کوشش کی۔ ۔۔ تو بڑے میاں نے گُل گُل ہوتے ہوئے فرمایا:’’اماں خمار امل نیری! میں کہتا تھا ناکہ جمیل کا یہ بیٹا بڑا ذہین ہے۔ سنیے اس کی باتیں۔‘‘ کچھ دیر ہم نے مزید انھیں خوش فہمی کے چمن میں ٹہلایا اور شگفتہ بیانی سے ان کے مشام جاں کو معطر کرتے رہے، ان کے شعر ہی نہیں موصوف کے مشاعروں کی فتوحات بھی گنانی شروع کیں۔ موصوف نے پھر خمار امل نیری کو مخاطب کیا اور کہا: دیکھو اس کا حافظہ بھی کتنا تیز ہے۔ جب وہ ’چنے کے درخت‘ پر چڑھ گئے تو ہم نے اپنا پینترا بدلا کہ حضرت ! اُردو کا ایک لفظ ہے، جس کی ہِجّے ہم سے نہیں لگ رہی ہے ذرا بتائیں تو۔۔۔؟؟ موصوف نے فرمایا۔ بتاؤ وہ کیا لفظ ہے۔ ہم نے کہا ارے وہ روز آپ کھاتے ہیں۔ انہوں کہا: میاں وہ لفظ بولوگے بھی یا یوں ہی پہیلیاں بوجھتے رہو گے۔ اب ہم نے کہا۔۔۔ وہ لفظ ہے۔۔۔ گو شت۔۔۔ یہ لفظ سنتے ہی کہنے لگے :کمال ہے ،سامنے کا لفظ ہے اس کی ہجے تم سے نہیں لگ رہی ہے۔ سنو! گاف واؤ پیش گو۔۔۔ یہ کہہ کر موصوف رُکے ۔ ہم نے ان کے چہرے کی طرف دیکھا تومحسوس ہوا کہ وہ سوچ رہے ہیں کہ’’ شین تے زبر ‘‘کہتے ہیں تویہ لفظ گوشَتْ ( Ghoshat) ہوجائے گا اور اگر یہ کہیں کہ شین ساکن تو پھر ’تے ‘ کو کیا کہیں، ساکن کے بعد ساکن تو نہیں ہو سکتا ؟!!‘‘۔۔۔ مختصر یہ کہ چند ثانیے بعد انہوں نے گھور کے ہمیں دیکھا۔ ہم نے ان کے دوست خمار امل نیری کی طر ف نظر کی اور کہا کہ اپنے دوست (Dosat) کی ہِجّے لگا لیجیے اورپھر ہم نے فوراً سے پیشتر اپنا راستہ لیا۔ جو پرانے لوگ ہیں اور جنہیں قرآن کریم ہجےکے ساتھ پڑھایاگیا ہے انکےلئے کسی لفظ کا ہجے لگانا ہرگز مشکل نہیں ۔ استاد کی بتائی ہوئی اُردو کے تعلق سے یہ ایک بات عمر کے 67ویں برس میں بھی ذہن سے نہیں نکلی کہ میاں اُردو کا کوئی لفظ ہو اس کا آخری حرف ساکن ہی ہوگا۔ مثلاً آپ کا نام ندیم ہے اس کی ہجے ہوگی نون زبر نا اور دال ’ی‘ زیر، دی۔۔۔ پڑھیے ذرا ،ہم نے پڑھا’’ نَدِی‘‘ پھر انھوں نے بتایا کہ آخری حرف پر ذرا سوچیے کہ زیر، زبر یا پیش ہے؟ ہم نے نفی میں جواب دِیا۔ اُستاد کہنےلگے چاہو تو کوئی اور لفظ بھی اسی اصول پرپرکھ لو۔ مثلاً وصیل، شکیل، تنویر، مجروح، سردار، ہوٹل اور موبائیل وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔ حال ہی میں ہمارے ایک کرم فرما نے ہمیں ٹوکا کہ ’’ آپ نے گزشتہ کالم( زبان صرف پڑھنے سے نہیں آتی !) میں ایک جگہ لکھا ہےکہ’عرب میں قرآنِ کریم کے جو نسخے پڑھے جاتے ہیں ان کے متن میں کہیں بھی آپ کو اعراب نہیں ملیں گے۔ یعنی عرب شخص کو قرآنِ کریم میں اعراب کی ضرورت ہی نہیں پڑتی وہ یو ں کہ عربی زبان تو ،ان کے خون میں شامل ہے۔‘۔۔۔۔۔ جبکہ ایسا نہیں ہے۔ عرب النسل شخص کو بھی اعراب کی ضرورت پڑتی ہے۔‘‘ مگر ہم نے اپنے بزرگوں سے سنا ہےاور پھر حرمِ مکی یا حرم مدنی میں قرآنِ کریم کے جونسخے دیکھے ہیں ان میں اکثر نسخے ایسے تھےجو اعراب سے عاری تھے۔ لیکن بعض دوستوں نے یہ بھی بتایا کہ حرمین شریفین میں اب ایسے نسخۂ قرآنی بھی موجود ہیں جن پر اعراب کا اہتمام کیا گیا ہے۔ کیونکہ بڑی تعداد میں دُنیا بھر سے ایسے لوگ آتے ہیں جن کو اعراب کے بغیر قرآنی لفظیات پڑھنے میں دِقت ہوتی ہے۔۔۔۔ اُردو زبان چو نکہ عربی رسم الخط کی حامل ہے مگر اس میں عام طور پر اعراب نہیں لگائےجاتے اور حقیقت یہ ہے کہ اُردو جن کی مادری زبان ہے ان میں سے اکثر حضرات کو اعراب کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ رہی بھول چوک یا سہو وغیرہ وہ تو (اِلا نبی) کسی بھی ابنِ آدم سے ممکن ہے۔ حال ہی کا ایک واقعہ ہے اور وہ بھی ایک دانش گاہ کے اُستاد کا جو، اب تدریس سے وظیفۂ حسنِ خدمت پر سبکدوش ہو چکے ہیں۔ ایک سمینار میں انہوں نے ایک لفظ۔۔۔ تند۔۔۔ پڑھا جس کا حرفِ اوّل انہوں نے مفتوح ادا کیا اور دو بار پڑھا۔ ہم نے حسنِ ظن سے کام لیا کہ یہ اُردو کے ادیب و اُستاد ہیں، صحیح پڑھ رہے ہوںگے اور ہم اب تک اس لفظ کے حرف ِاوّل کو مضموم پڑھتے رہے تھے مختصراً اپنے آپ کو غلط سمجھ کر، انھیں سُن لیا اور پروفیسر موصوف سے کوئی کلام نہیں کیا۔ مگر گھرپہنچ تمام لغات دیکھے تو سب میں یہ لفظ۔۔۔ تُند۔۔۔(Tund) ہی ملا۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر آپ لکھتے ہوئے بعض الفاظ پر اعراب لگا بھی دیں تو ہمارے (اُردو)پڑھنے والے فوراً بُرا سا منہ بنالیتے ہیں کہ ’’ میاں ! آپ ہم کو جاہل سمجھتے ہیں۔‘‘ ہم اپنی ا س بات کو دُہرا تے ہیں کہ اہلِ زبان چاہے وہ خواندہ ہو یا نا خواندہ وہ اپنی مادری زبان کے لفظیات اداکرنے میں شاذو نادر ہی غلطی کرے گا۔ مثلاً سلام کا یہ ایک مصرع ہے: ۔۔حسین لکھ کے تو دیکھو حسین ہےکہ نہیں۔۔ ۔ کو’ئی بھی محبِ اہل بیت اسے حُسَین کی جگہ حَسیٖن یا َحَسیٖن کی جگہ حُسَین نہیں پڑھے گا، بشرطِ کہ وہ مادری زبان جانتا ہو۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ہمیں کوئی خوش فہمی نہیں کہ ہم اہلِ زبان ہیں البتہ بعض اہلِ زبان اشخاص کی ہمیں صحبت ضرور میسر رہی ہے اوربہ حمد للہ آج بھی کوئی نہ کوئی درس مل ہی جاتا ہے۔