سچی باتیں ۔۔۔ اولیاء اللہ ۔۔۔ تحریر : مولانا عبد الماجد دریابادی مرحوم

Bhatkallys

Published in - Other

02:21PM Sun 13 May, 2018

          ولی ”ولی اللہ“ اولیاء اللہ“ یہ الفاظ جب ہم آپ سنتے ہیں  یابولتے ہیں تو ذہن میں تخیل کیا پیدا ہوتا ہے؟بس ایسے شخص کا، جو بستی سے دور اور آبادی سے الگ کسی حجرہ یا کٹی میں  رہتے ہوں، ان تک رسائی دشوار ہو، وہ لوگوں  سے ملتے بہت کم ہوں  اور بولتے اس سے بھی کم ہوں  زیادہ تر چشم و ابرو کے اشارے سے کام لیتے ہوں، ہنسی اور مسکراہٹ تو ان کے قریب بھی نہ آئے اک طرح کا جلال ہر وقت چہرے سے برستا ہو، کوئی انھیں  کبھی کھاتے پیتے نہ دیکھے، نہ کوئی بیوی ہو نہ بچے، اور بازار میں  چلنا پھرنا، عام لوگوں  سے گھل مل کر رہنا، خرید و فروخت کرنا، کسی قومی جلسہ یا ملی مجلس میں  شریک ہونا یہ چیزیں  تو کہیں  آس پاس بھی نہ ہوں، زبان سے ان کے جو کچھ بھی نکل جائے پورا ہوکررہے وہ جس بیمار کو چاہیں  اچھا کردیں، جب چاہیں  پانی برسادیں  جس کے حق میں  دعا کریں  بس اس کا بیڑا پار ہو جائے، قدم قدم پر کرامتوں  کا ظہور ہو رہا ہے، بے کہے دل کی باتیں  سمجھ جایا کریں۔ عموماً یہی تخیل ایک ولی اللہ (یا بہ زبان عوام ”اولیاء اللہ) کا ذہنوں  میں  سمایا ہوااور دلوں  میں بیٹھا ہوا ہے نا؟

          لیکن اس کی سند آخر کہاں  سے ہے؟ یہ طریقہ کسی نبی کا بھی رہاہے اور خصوصاً ہمارے نبی ﷺ کا؟ اولیاء کاملین میں  صدیق و فاروق عثمان وعلی حسن و حسین رضی اللہ عنھم  سے بڑھ کر اور کون ہوا ہے، کیا یہ طریقے ان کی زندگی کے تھے؟ کلام پاک میں  ایک مقام پر اولیاء اللہ کے مقا م کی بلندی انھیں  الفاظ کی صراحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ  اَلَا اِنَّ اَوْلِیَاءَ اللّٰہِ لَاخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْن  اولیاء اللہ پر یقینا نہ کوئی خوف ناک واندیشہ ناک واقعہ طاری ہوگا نہ انھیں  غم ہوگا۔ تخصیص آخرت کی نہیں  اس عالمِ ناسوت میں  بھی ان کے قلب کو سکون ہی حاصل رہتاہے مگر یہ لوگ ہوتے کون ہیں؟ ولی کے لغوی معنی قرب رکھنے والے اور دوست کے ہیں، اولیاء اللہ کے معنی ہوئے اللہ سے قرب رکھنے والے  یہ مرتبہ حاصل جس طرح ہوتاہے اس کا ذکر بھی  عین اسی مقام پر کلام مجید میں  موجود ہے  اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْوَکَانُوْا یَتَّقُوْن  وہ لوگ جو ایمان لائے اورجنھوں  نے تقویٰ اختیار کیا، سبحان اللہ ولی اللہ کی کیسی جامع ومانع تعریف بیان فرمادی گئی، ضروری صرف دو چیزیں  نکلیں، پہلی چیز ایمان یعنی عقائد درست ہوں  اللہ پر کامل ایمان ہو قوائے نظری کے لحاظ سے  تزکیہ ہوچکا ہو، بس یہی لوگ ولی اللہ، نہ غیب واقی نہ پیشینگوئیاں   نہ خرق عادت نہ بیوی بچوں  سے نفرت  لَھُمُ الْبُشْریٰ فِیْ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃ   ایسے لوگوں  کے لیے خوشخبری اس دنیا کی زندگی میں  بھی اور آخرت میں  بھی!

          تجارت کرنا، گلہ بانی کرنا، لوگوں  سے ملنا جلنا، دشمنانِ دین سے جنگ کرنا، شرائط صلح طے کرنا، مالِ غنیمت تقسیم کرنا، جزیہ کا حساب کتاب رکھنا، بیوی بچے رکھنا، ایک وقت میں  کئی کئی بیویاں  رکھنا، اپنا سارا کام کاج اپنے ہاتھ سے کرنا یہ سب چیزیں  جب نبوت و صدیقیت کے منافی نہ ہوئیں  تو ولایت کا درجہ نبوت سے تو بہرحال کمتر ہے کافروں  کا تخیل حضرات انبیاء سے متعلق بھی ایسا ہی مسخ شدہ تھا حیرت اور اعتراض کے ساتھ کہا کرتے تھے کہ  مَا لِھٰذَا الرَّسُوْلِ یَاْ کُلُ الطَّعَامَ وَیَمْشِیْ فِی الْاَسْوَاقِ  یہ کیسے رسول ہیں  کہ کھاتے پیتے بھی رہتے ہیں  اور ہم ہی لوگوں  کی طرح بازاروں  میں  چلتے پھرتے رہتے ہیں!بس ایسے ہی کچھ وہی اولیاء الٰہی کے متعلق ہم نے گڑھ لئے ہیں  حالانکہ ولی کے لیے جو شئی ضروری ہے وہ صرف اللہ سے تعلق اور رضائے الٰہی کی طلب ہے۔