پارٹی ٹوٹی نہیں منتقل ہوئی ہے

Bhatkallys

Published in - Other

04:13PM Fri 20 Jan, 2017
از:حفیظ نعمانی اگر سماج وادی پارٹی کی گھر بدلی کی کہانی غور سے پڑھی جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ یہ اصلی مال کا بورڈ لگا کر نقلی مال بیچنے کی سزا ہے جو ملائم سنگھ کو بڑھاپے میں ملی ہے۔ وہ جمہوریت کا بورڈ لگائے ہوئے تھے اور آمریت کا کاروبار کررہے تھے۔ ان کا بار بار یہ کہنا کہ میں نے تنکا تنکا جوڑ کر یہ پارٹی بنائی تھی، یہی آمریت ہے۔ تنکا تنکا جوڑ کر گھونسلہ بنتا ہے باغ نہیں بنتا۔ الیکشن کمشنر نے جو فیصلہ کیا وہ جمہوریت پر کیا ہے آمریت پر نہیں۔ الیکشن جمہوریت کا سب سے روشن چہرہ ہے اور ۲۲۸ میں ۲۰۵ کا ا کھلیش کے ساتھ آجانا کونسل کے ممبروں میں ۵۶ کا آجانا اور پارلیمنٹ یا ورکنگ کمیٹی کے ممبروں کی اکثریت کا آنا الیکشن تھا جس میں ملائم سنگھ کی ضمانت بھی ضبط ہوگئی ہے وہ ایسے ۱۰ ممبر بھی پیش نہیں کرسکے جو کہتے کہ ہم نے دستخط نہیں کیے۔ یا دستور میں ہے کہ کسی عہدہ دار کو نکالنے پر تین ممبروں کی کمیٹی غور کرے گی لیکن ملائم سنگھ کو صرف یہ یاد رہا کہ میں نے پارٹی بنائی تھی اور کیسے بنائی تھی۔ اور یہ بھول گئے کہ پارٹی بنانے کے بعد بنانے والا سب کچھ نہیں ہوتا۔ ملائم سنگھ تو بہت بعد میں سامنے آئے ہیں ، ہندوستان میں تو جمہوریت کے بانی پنڈت جواہر لعل نہرو نے صرف اترپردیش میں یوپی سی سی کا ایک الیکشن ہار کر اور اپنی مرضی کے خلاف سی بی گپتا کے صدر بن جانے کے بعد پارٹی کا اندرونی الیکشن ہی ختم کردیا تھا اور ایک بار پرشوتم داس ٹنڈن ان کی مخالفت کے باوجود کانگریس کے صدر ہوگئے تھے تو وہ کانگریس کو توڑنے کی بات کرنے لگے تھے۔ یہ جو ہندوستان کے ہر لیڈر کے اندر ایک ’’میں‘‘ بیٹھا ہوا ہے وہ جمہوریت کا نام لینے کی اجازت تو دیتا ہے لیکن جمہوریت میں اگر فیصلہ ان کے خلاف آجائے تو وہ وہی کہنے لگتا ہے جو کل ملائم سنگھ نے کہا کہ میں اکھلیش کے خلاف الیکشن لڑوں گا۔ لالو یادو ملائم سنگھ کے دوست بھی ہیں اور پارلیمنٹ کے پرانے ساتھی بھی۔ وہی ہیں جنھوں نے اٹل جی کی حکومت گرائی تھی اور کہا تھا کہ ہم نے گرائی ہے اور اب ہم ہی بنائیں گے۔ لیکن سونیا گاندھی کی کم عقلی کی بنا پر نہ بن سکی۔ اس کے بعد دوستی برقرار رہی اور اب تو دونوں رشتہ دار بھی ہیں۔ لالو یادو نے فیصلہ آتے ہی ٹی وی کے ذریعہ ملائم سنگھ کو یہ پیغام دے دیا تھا کہ اب آپ الیکشن میں نہ کودیں۔ لیکن مسئلہ وہی ہے جس نے انہیں اتنا ذلیل کرادیا ہے کہ ان کے جو دوست نما دشمن ہیں وہ انہیں مجبور کریں گے کہ لڑئے۔ اور وہ اشارہ کر بھی چکے ہیں کہ وہ ڈاکٹر ایوب اور مولانا توقیر رضا کو ساتھ ملا کر لڑیں گے۔ اس کے علاوہ شیوپال، امرسنگھ اور مختار انصاری کے کنبہ والے یا عتیق اور سنبھل کے ڈاکٹر شفیق برق جو اقبال محمود سے دو دو ہاتھ کرنے کے لیے ڈھائی برس سے بے چین ہیں، وہ جھنڈے پر صرف ملائم سنگھ کی تصویر لگا کر سنبھل سے ہی الیکشن اپنے پوتے کو لڑائیں گے۔ یا اویسی کی پارٹی سے۔ ان کا مقصد صرف اقبال محمود سے انتقام لینا ہے۔ اس وقت سائیکل اکھلیش کو مل جانے کے بعد پارٹی کی تائید کے ساتھ قانون بھی ان کے ساتھ ہوگیا ہے۔ ملائم اگر خاموش رہتے ہیں تو کچھ نہ کچھ انہیں مل سکتا ہے اور اگر دشمنوں کا کلیجہ ٹھنڈا کرنے کے لیے وہ میدان میں کودتے ہیں تو عوامی حمایت بھی کھودیں گے۔ اور جس دیوار کے لیے ہم نے لکھا تھا وہ دیر سویر دونوں مکانوں کے درمیان میں آخرکار کھڑی ہوجائے گی۔ اور وہ اب عمر کی اس سیڑھی پر ہیں جو جانتے ہیں کہ دیوار کھڑی ہوجائے تو پھر اس کا گرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ ملک کی تقسیم کی تاریخ پڑھئے تو معلوم ہوجائے گا کہ نہرو، پٹیل اور گاندھی جی نے تقسیم منظور کرنے کے لیے یہ شرط لگائی تھی کہ پنجاب اور بنگال کے جن ا ضلاع میں ہندوؤں کی اکثریت ہے وہ ہندوستان میں رہیں گے۔ اور اسے کٹا پھٹا پاکستان کہا تھا اور یقین تھا کہ مشکل سے سال دو سال میں پاکستان خوشامد کرے گا کہ ہم سب ساتھ رہیں گے اور ہمیں بھی یقین ہے کہ ایسا ہی ہوتا اگر عالم اسلام میں جگہ جگہ تیل نہ نکل آتا۔ اور اس کا اشارہ مسٹر جناح نے اپنی آخری بیماری میں کر بھی دیا تھا۔ الیکشن کمیشن کے فیصلہ کے بعد اب پارٹی اکھلیش کی ہوگئی۔ اب اگر ملائم سنگھ الیکشن لڑتے ہیں تو اصلی سماج وادی پارٹی یا قومی سماج وادی پارٹی نام رکھنا پڑے گا۔ انتخابی نشان بھی دوسرا لینا ہوگا اور جھنڈا بھی بدلنا پڑے گا۔ اور وہ جو کچھ بھی ہوگا وہ ان کا ذاتی ہوگا، لیکن اکھلیش کے خلاف بولنے میں انہیں انگاروں پر چلنا پڑے گا اور ہر کوئی کہے گا کہ اگر اکھلیش کی ماں ہوتیں تو ملائم سنگھ کو ایک قدم بھی باہر نہ نکالنے دیتیں۔ اب پارٹی کا نام جھنڈا اور نشان جس کے پاس ہے وہ اصلی ہے۔ اسے نقلی ثابت کرنا اور دوسرے نام، دوسرے جھنڈے اور دوسرے نشان کو گھر گھر پہنچانا آسا ن نہیں ہے۔ اور اس ساری محنت کا حاصل صرف یہ نکلے گا کہ اکھلیش زیادہ سے زیادہ ۱۰ سیٹیں ہار جائیں گے لیکن ملائم سنگھ کو کیا ملے گا؟ سائیکل کا اکھلیش کو ملنا ہمیں کیا خود رام گوپال یادو کو نظر نہیں آرہا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ صرف کانگریس حمایت میں تھی اور یقین تھا کہ الیکشن کمشنر پر ہر طرف سے دباؤ ہوگا کہ یا تو ملائم سنگھ کو دے دو۔ ورنہ سیز کردو نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ لیکن رام گوپال نے جو ۱۵ ہزار حلف نامے پیش کرائے اور ایک بھی فرضی نہیں تھا اس نے اور کپل سبل کی دلیلوں نے انہیں باندھ دیا۔ور اس اعلان سے ہی اکھلیش آدھا الیکشن جیت گئے۔ یہ بات بھی سوچنے کی ہے کہ ملائم سنگھ کانگریس سے اپنی شرطوں پر بھی مل کر لڑنے کے لیے کیوں تیار نہیں ہوئے؟ جبکہ معلوم تھا کہ بی جے پی اس الیکشن کو امریکہ کے الیکشن کی طرح لڑے گی۔ اسے اگر مودی کے سارے کپڑے بھی نیلام کرنے پڑ جائیں تب بھی وہ جیتنا چاہے گی۔ اس لیے کہ اسے راجیہ سبھا میں اکثریت اور صدر اپنا بنانا ہے۔ اب اگر ہندوستان کے دستور کو بچانا ہے اور ملک میں جمہوریت ا ور سیکولرزم کو بچانا ہے تو ووٹ دیتے وقت ان باتوں کو دیکھنا ہوگا۔ یہ الیکشن نہ باپ بیٹے کے مقابلہ کا ہے اور نہ کسی سے اپنی ہار کا انتقام لینے کا۔ اس کے لیے 2021ء کا الیکشن آئے گا تو سب گلے شکوے دور کرلیے جائیں گے۔ اس وقت اگر دستور کو نہ بچایا گیا تو آنے والی نسلیں اس لیے معاف نہیں کریں گی کہ ہم نے تو دستور سے فائدے اٹھالیے اور ان کو محروم ہوجانے دیا۔