(تیسری اور آخری قسط) مذبح کے لئے جانوروں کی فروخت پر پابندی۔۔ایک تیر کئی شکار....از: ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........
آستھا کے نام پر گؤ رکھشا کی مہم چلانے والوں نے ماضی میں بھی بارہا تشدد کا راستہ اختیار کیا ہے، لیکن اکثر واقعات محدود پیمانے پر ہوا کرتے تھے۔ سب سے پہلی بڑی اور پرتشدد مہم 1966میں چلی تھی جس کے دوران آزاد ہندوستان کی تاریخ میں ملک کی پارلیمان پر پہلی بار دھاوا بولنے کی کوشش گؤ رکھشکوں نے ہی کی تھی،(اس کی تفصیل آگے آئے گی)۔لیکن ادھرگزشتہ تین سال سے جب سے مودی سرکار نے زمام حکومت سنبھالی ہے، تو گؤ رکھشا کے نام پر ملک کے مختلف حصوں میں تشدد کابدترین اوربے لگام تانڈو رقص شروع ہوگیا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ جیسے مسلمانوں اور دلتوں کے خلاف بھگوا بریگیڈکے جذبات و خیالات"بیف ہسٹیریا " کارخ اختیار کرگئے ہیں۔اور ماحول پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ:
سناٹے کی دہشت بڑھتی جاتی ہے بستی سے سیلاب گزرنے والا ہے
گائے سے سستی انسانی جان: اب سے پہلے تو گؤ رکھشکوں vigilantes Cowکے نشانے پر صرف مسلم ہوا کرتے تھے، لیکن اب دلتوں پربھی جان لیوا حملے عام ہوگئے ہیں۔پہلے صرف قصائی خانے کے لئے جانور فراہم کرنے والوں پر گھات لگاکر حملے کیے جاتے تھے، مگر اب تو کھیتی باڑی اور ڈیری dairy farming کاروبار کے لئے بھی گائے ، بیل ، بھینس وغیرہ لے جانا اپنی موت کو آواز دینے کے برابر ہوگیا ہے، اوردوسری جو بات دیکھنے میںآرہی ہے اب اس میں مسلم، دلت اور دیگر ہندو یاکسی اور ذات کا کوئی امتیاز نہیں ہوتا۔ راجستھان ، ہریانہ ، پنجاب،جھارکنڈ، گجرات، مہاراشٹرا، تاملناڈو اور کرناٹکا میں مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلموں کے ساتھ بھی گؤ رکھشا کے نام پر تشدد،جان لیوا حملوں اورقتل تک کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔کرناٹکا کے جنوبی کینرا ضلع میں بجرنگیوں کے ہاتھوں گؤ رکھشا کے ضمن میں بجرنگ دل کارکن کے قتل کا واقعہ بھی رونما ہوچکا ہے۔ بھاگوت اور مودی کے یہ رضاکار: سنگھ پریوار کے تعلق سے یہ بات مشہور ہے کہ اس کا کیڈر نظم وضبط کا بڑا ہی پابند اور بہت ہی تربیت یافتہ ہوتا ہے اور اپنے سنگھ چالک کے احکام کا پابند ہوتا ہے۔اس لئے مودی جی اورآر ایس ایس سر سنگھ چالک موہن بھاگوت نے اپنے رضاکاروں کو گؤ رکھشا کے نام پرقانون ہاتھ میں نہ لینے اور پرتشدد کارروائیاں نہ کرنے کی تاکید کی توفطر ی بات ہے کہ امن پسند عوام نے چین کا سانس لیا تھاکہ چلو اب ان پرتشدد کارروائیوں پر روک لگ جائے گی۔ مگر حقیقت اس کے برخلاف نکلی۔حالات کا رخ بتا رہا ہے کہ اس معاملے میں مودی جی اور بھاگوت جی کے خیالات ایک طرف اور ان کے رضاکاروں کی سرگرمیاں دوسری طرف ہیں۔ تازہ واقعہ جسے نیشنل میڈیا میں بہت زیادہ کوریج ملاوہ بھوبنیشور ریلوے اسٹیشن پر ابھی حال ہی میں پیش آیا۔ جہاںKochuveli-Guwahati Express ٹرین روک کر مویشی لے جانے والے غیر مسلم امیش سنگھ، اس کے ایک ساتھی اور ریلوے اسٹاف پر گؤ رکھشک ٹولے نے وحشیانہ حملہ کیا ، ان کے گلے میں رسیوں کا پھندا ڈال کر جانوروں کی طرح انہیں گھمایا اور پلیٹ فارم کے کھمبے سے باندھ رکھا۔ ویڈیو میں صاف دیکھا جاسکتا ہے کہ کھلے عام دھنائی کرتے وقت یہ ٹولہ جئے سری رام کے نعرے بھی لگارہاہے ۔اب مظلومین اور متاثرین زباں پر قفل نہ لگائیں تو پھر کیا کریں!تھا ارادہ تری فریاد کریں حاکم سے وہ بھی کم بخت ترا چاہنے والا نکلا
اور یہ سرکاری گائیں تھیں!: بھوبنیشور معاملے میں چونکانے والی بات یہ ہے کہ میگھالیہ میں وہاں کے وزیراعلیٰ نے کسانوں کی سہولت کے لئے جو جوڈیری فارم قائم کیا ہے، اس کے لئے سرکارکی طرف سے دیا گیا آرڈر پورا کرنے کے لئے یہ20 جرسی گائیں سیلم تاملناڈومیں واقع Vertex Agro Private Limitedنامی فارم سے ٹرین کے ذریعے تمام قانونی دستاویزات کے ساتھ میگھالیہ کے Ampati شہرلے جائی جارہی تھیں۔اس کی تصدیق تامل ناڈو حکومت کے animal husbandaryمحکمہ کی جانب سے بھی کردی گئی ہے۔ لیکن گؤرکھشکوں نے امیش سنگھ اور اس کے ساتھی کی جو درگت بنائی وہ حیوانیت کاایک اور کھلا مظاہرہ تھا۔ اس کے باوجود پولیس نے صرف کیس درج کیا اور گؤرکھشکوں کے حملے کی تصاویر اور ویڈیو کلپ وائرل ہونے کے باوجود حملہ آوروں کو گرفتار نہیں کیا۔ حوصلے تو بلند ہونگے ہی!: یہی صورت تشدد کے دیگر معاملات میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے کہ گؤ رماتا کی رکھوالی کے پردے میں غنڈہ گردی اور درندگی کو ہوا دینے والوں اور حملہ آوروں کے خلاف مقدمات درج کرنے کے بجائے حملے کا شکار ہونے والوں کے خلاف ہی پولیس کیس درج کیا کرتی ہے۔ ایک معاملے میں پولیس نے تو ہندو شدت پسندوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے شخص کے خلاف ہی گائے چرانے اور گؤ کشی کے الزامات کے ساتھ مقدمہ درج کررکھا ہے۔این ڈی ٹی وی کے ایک اسٹنگ آپریشن میں یہ بھی صاف ہوگیا ہے کہ پولیس اہلکار اور نام نہاد گؤ رکھشکوں کے ناپاک گٹھ جوڑ سے ہی اکثرایسی کارروائیاں ا نجام دی جاری ہیں۔ظاہر ہے کہ سرکارکی طرف سے کھلی چھوٹ اور پولیس کی جانب سے ڈھیل بلکہ درپردہ حمایت کا ہی نتیجہ ہے کہ ملک میں گائے کے رکھوالوں کے حوصلے قدرتی طور پر بلند ہوتے جارہے ہیں۔ یہ ایک بڑا نیٹ ورک ہے: ملک میں گؤ کشی روکنے کے لئے ہندتووادیوں اور فاشسٹوں کا ایک پورا نیٹ ورک کام کررہا ہے۔ ایک تو نظریاتی طور پر یہ لوگ پوری طرح یکسوئی کے ساتھ اپنے مشن پر کاربند ہیں اور دوسرے تنظیمی طور پر بھی آپس میں ان کے تار ملے ہوئے ہیں اورگؤ رکھشا کے لئے پرتشدد کارروائیاں کرنے والے ایک وفاقی گروپ Bharatiya Gau Raksha Dalکی چھتر چھایا میں متحد ہیں۔اس وفاقی گروپ کے لیڈر پون پنڈتPavan Pandit کا کہناہے کہ سال 2012میں رجسٹر کیے گئے' بھارت گؤ رکھشا دل 'کے نیٹ ورک کے ساتھ ملک گیر پیمانے پر 50گؤ رکھشک گروہ جڑے ہوئے ہیں اور اس کے رضاکاروں کی تعداد10ہزار سے زیادہ ہے جو ملک کی ہر ریاست میں موجود ہے۔اس کے علاوہ ہر ریاست کے شہروں اور خاص کر مضافات میں بجرنگ دل، یووا واہنی، رام سینا اور دیگرناموں سے مقامی شدت پسند ہندتواوادی تنظیمیں جو کارروائیاں انجام دیتی ہیں اس کا حساب الگ ہے۔لیکن پون پنڈت بڑی عیاری کے ساتھ پر تشدد کارروائیوں میں اپنے گؤ رکھشکوں کے ملوث ہونے کی بات سے انکار کرتا ہے۔وہ اسے " اِکا دُکاّ"مقامی اور" فوری رد عمل" کی کارروائی قرار دیتا ہے۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ:منزل منزل ہَول میں ڈوبی آوازیں ہیں رستہ رستہ خوف کے پہرے دیکھ رہا ہوں
اب تک 9افراد کو مار ڈالا گیا ہے: گؤ رکھشا کے نام پر جو ظلم و ستم کیا جاتا ہے اس میں ہجوم کے ذریعے وحشیانہ مار پیٹ کے علاوہ بڑے جانور ذبح کرنے یا فروخت کے لئے لے جانے والوں کو گوبر کھانے اور گائے کا پیشاب پینے پر مجبور کرنے کے واقعات سامنے آچکے ہیں۔ ہریانہ میں گھر میں بیف کھانے کے شبہے میں قتل کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کے واقعے کی بھی خبریں میڈیا میں آ چکی ہیں۔حقوق انسانی کی ایک تنظیم Human Rights Watch کی رپورٹ کے مطابق اپریل2017میں گؤ کشی مخالف غنڈوں کے ہاتھوں پہلو خان کی موت تک حالیہ دنوں میں ہندتووادی ہجوم کے ذریعے ملک کے مختلف مقامات پر 9دیگر افراد کو جان سے مار ڈالا گیا ہے۔ ایک بات یہ بھی نوٹ کرنے کی ہے کہ اب بڑے مویشی جس کے پاس سے برآمد ہوتے ہیں، وہ بازار یا کسی فرد سے خریدے ہوئے ہونے کے باوجود اس کے خلاف جانوروں کی چوری کے الزامات کے تحت کیس درج کیے جارہے ہیں چاہے ہجوم کے ہاتھوں اس کی جان ہی کیوں نہ چلی گئی ہو۔ جانکاروں کا کہنا ہے کہ قتل کے مقدمے کو کمزور کرنے کے لئے پولیس اور گؤ رکھشک مل کر یہ مکارانہ چال چلتے ہیں۔ اجازت نامے اور سرٹی فکیٹ کام نہیں آتے: مغربی بنگال اور کیرالہ دو ایسی ریاستیں ہیں جنہوں نے مکمل گؤ کشی پر پابندی تو کیا، گائے اور بچھڑے کے ذبیحہ پر بھی پابندی لگانے سے ہمیشہ انکار کیا ہے۔ مگرجن ریاستوں میں گؤکشی پر پابندی کا قانون لاگو ہے اور گائے اور بچھڑے کے سوابھینس اور بوڑھے بیل وغیرہ کو ناکارہ ہونے کی وجہ سے ذبح کرنے کی قانونی اجازت ہے۔وہاں ویٹرنری ڈاکٹرکے سرٹی فکیٹ اور متعلقہ نقل و حمل کی اجازت کے ساتھ ایسے جانوروں کو ذبح کرنے یا قصائی خانے تک قانونی طور پر لے جایا جاسکتاہے، لیکن اب ان ریاستوں میں بھی جن میں ریاست کرناٹکا بھی شامل ہے، قانونی دستاویزات موجود رہتے ہوئے بھی گؤ رکھشکوں کی طرف سے حملوں کی وارداتیں عام ہوگئی ہیں۔سرٹی فکیٹ، دستاویزات اور اجازت ناموں کو بھگوا بریگیڈ کے غنڈے ہی نہیں بلکہ پولیس افسران اور اہلکار بھی اپنے جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔ تمام قانونی دستاویزات کے باوجودکچھ نہیں تو جانوروں پر ظلم crueltyکا چارج لگاکر لوگوں کو پھنسانااور ان کے جان ومال کو بھگوا بریگیڈ کے ہاتھوں پامال کرنا پولیس کے بائیں ہاتھ کا کام ہوگیاہے۔ مجروحؔ قافلے کی مرے داستاں یہ ہے رہبر نے مل کے لوٹ لیا راہزن کے ساتھ پارلیمنٹ پر پہلا حملہ گؤ رکھشکوں نے کیا تھا!: گؤ رکشی پر پابندی یا گائے اور اس کے سنتان کے تحفظ کے لئے احتجاج اور تشدد کوئی آج کے زمانے کی بات نہیں ہے۔ اس کی جڑیں تو گزشتہ صدی سے جڑی ہوئی ہیں۔یہ 1966کی بات ہے جب دستورہند میں موجود اس رہنما اصول : The State shall endeavour to ... take steps for ... prohibiting the slaughter of cows and calves and other milch and draught animals.کے پس منظر میں شدت پسند ہندو تنظیموں نے ملک گیر سطح پر مکمل گؤ کشی کا مطالبہ کرتے ہوئے پارلیمنٹ کے سامنے زبردست احتجاجی مظاہرہ کیاتھا۔اس احتجاج میں بہت سارے ہندو رہنماؤں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جس میں شنکر اچاریہ اوربڑی تعداد میں سادھو شامل تھے ۔اس وقت کی وزیر اعظم مسز اندرا گاندھی نے گؤ کشی پر ملک گیر پابندی کا مطالبہ قبول کرنے سے انکار کردیا تو7نومبر کو ہندو کیلنڈر کے مطابق گوپااشٹمی کے موقع پر10ہزار افرادپر مشتمل ہجوم نے سادھوؤں کی قیادت میں پارلیمنٹ پر دھاوا بولنے کی کوشش کی جسے ناکام بنایا گیا۔احتجاجیوں نے دہلی کی سڑکوں پر فساد اور ہنگامے کھڑے کردئے۔ احتجاج اتنا پرتشدد ہوگیاکہ دہلی میں کانگریس کے صدر کامراج کی رہائش گاہ پر حملہ کرتے ہوئے اسے نذر آتش کردیا گیا۔ صورتحال پر قابو پانے کے لئے پولیس فائرنگ کی گئی جس میں کئی احتجاجی ہلاک ہوگئے ۔اور دہلی میں48گھنٹوں کا کرفیو نافذ کردیا گیا۔ 166دنوں تک احتجاجاً بھوک ہڑتال: جب پارلیمنٹ پر حملہ ناکام ہوا اور مرکزی حکومت نے احتجاج کو آہنی ہاتھوں سے کچل کر رکھ دیا تو پولیس فائرنگ میں سادھوؤں کی ہلاکت کی مذمت کرتے ہوئے شنکر اچاریہ نرنجن دیو تیرتھ، سوامی کرتاپتری اور مہاتما رامچندرا ویر وغیرہ نے بھوک ہڑتال شروع کردی۔ جس میں رامچندرا ویر نے166دنوں تک احتجاجاً بھوک ہڑتال جاری رکھی تھی۔اس موقع پردہلی میں امن وامان کی صورتحال کس قدر بگاڑدی گئی تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حالات کوبروقت قابو میں نہ کر پانے کی اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اس وقت کے ہوم منسٹر گلزاری لال نندا نے اپنے عہدے سے استعفیٰ تک دیدیا۔لیکن مرکزی حکومت نے گؤ پریمیوں کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے تھے۔ اب گائے کا سنتان ہی سلامت رہے گا : مگر حالات کی گردش یہ ہے کہ اب مرکزی حکومت کے تخت پر وہی ذہنیت براجمان ہے ،جو گؤ ماتا کی پجاری ہے،لہٰذاوہاں سے گؤ رکھشا کی راہ میں موجود ہر رکاوٹ ہٹانے کام نہ ہوگا اورکیا ہوگا!اس پس منظر میں کبھی کبھی ایسا لگتاہے کہ پرتشدد واقعات پر موہن بھاگوت جی اور نریندر مودی جی یہ جودکھ کا اظہار کرتے ہیں اور اپنے رضاکاروں کو اس سے باز رہنے کی جو تلقین کرتے ہیں یہ سب مگر مچھ کے آنسو ہیں۔ درپردہ ان کی ملی بھگت ہے۔ مہذب دنیا میں تذلیل سے بچنے اور اپنی امیج بنائے رکھنے کے لئے بظاہر یہ ٹسوے بہائے جارہے ہیں ، اور پردے کے پیچھے سے ڈوری تھامے ہوئے وہ لوگ اپنی کٹھ پتلیوں کو نچانے میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ جو کھلے بازار میں مذبح کے لئے جانوروں کی فروخت پر پابندی کا جو قانون لایا جارہا ہے ، یہ اسی کھیل کی ایک کڑی ہے ۔اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ یہ نیا قانون گؤ رکھشا کے نام پر تشدد اور جان لیوا حملوں کومزید بڑھا وا دینے کاکام ہی کرے گا۔وحشت اور درندگی کے کھلے مظاہرے کرنے والوں کو استحکام اور قانونی تقویت فراہم کرے گا۔اس سے آستھا کے نام پر سماج میں اشانتی پھیلانے کے سوا کیا مقصد پورا ہوسکتا ہے ۔ یعنی پیغام صاف ہے کہ اب گائے اور اس کے سنتان کو ہی سلامتی کی گارنٹی حاصل رہے گی۔ گائے کے تحفظ کی قیمت پر انسانوں کے ساتھ درندگی کا برتاؤہی دیش بھکتی کہلائے گا اوراس پر سوال اٹھانے والے دیش دروہہ کے مرتکب ٹھہریں گے۔اس سے ہٹ کر ایوان حکومت اور ارباب اقتدار سے کوئی توقع رکھنا بے وقوفوں کی جنت میں رہنے کے سوا کچھ نہیں ہے!دنیا مجھے ساحل پہ کھڑی دیکھ رہی ہے میں ایک جزیرے کی طرح ڈوب رہا ہوں
haneefshabab@gmail.com