خدا کے ایک محبوب بندہ کی رحلت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔از: مولوی عاکف ندوی بھٹکلی

Bhatkallys

Published in - Other

04:16PM Fri 15 Apr, 2022
 آنکھوں میں بس کے دل میں سما کر چلے گئے ۔   آج رمضان المبارک  کے دوسرے عشرے کی بابرکت ساعتوں میں ہم سب کے ہر دل عزیز باغ و بہار شخصیت کے مالک جناب حبیب اللہ صاحب رکن الدین (محمد باپو) اس فانی دنیا سے رخصت فرما گئے۔ رمضان کے پہلے عشرے میں خدا کی بے پایاں رحمتوں کو اپنے دامن میں سمیٹنے کے بعد وہ مغفرت کے عشرے میں داخل ہی ہوئے تھے کہ خدا نے انہیں اپنی رحمت کے آغوش میں ڈھانپ لیا ۔ موصوف ہر دل عزیز،  اور تمام طبقوں میں مقبول عام تھے۔ ہر عام و خاص میں اپنی محبوبیت کی وجہ سی وہ اسم با مسمی بن چکے تھے ۔ آپ کے والد محمد صاحب، رکن الدین محمد باپو خاندان سے تعلق رکھتے تھے تقسیم ہند کے بعد وہ پاکستان میں تجارت سے منسلک ہو گئے اور اپنی پوری زندگی نیک نامی کے ساتھ وہیں بسر کی اور سجدہ کی حالت  میں بڑی قابل رشک موت کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اللہ نے انہیں چھ فرزندان اور دو بیٹیوں سے نوازا تھا ۔ آپ کے فرزندان میں ابو بکر، نثار احمد ، حبیب اللہ،باشاہ ،ابو الحسن،جلال الدین شامل ہیں۔ جن میں سے چار خدا کے دربار میں حاضری دے چکے ہیں ۔جبکہ دو بقید حیات ہیں اللہ تعالیٰ صحت و عافیت کے ساتھ تادیر انکا سایہ سلامت رکھے ۔ حبیب اللہ صاحب نے 1940 اسی شہر بھٹکل میں آنکھیں کھولیں۔ ابتدائی تعلیم اپنے گھر پر مکمل کرنے کے بعد  شہر کے مشھور تعلیمی ادارے انجمن حامی مسلمین میں دسویں کلاس تک تعلیم مکمل کی میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہندوستان کے مختلف علاقوں آندھرا پردیش مدراس اور کالیکٹ وغیرہ میں تجارت سے منسلک رہے۔ اَسّی (80) کی دہائی میں معاش کے لیے دبئ کا قصد کیا۔دبئ میں ساڑے  تین دہائیوں سے زائد عرصہ  اسٹیشنری کی مشہور کمپنی  الفھیدی سے وابستہ رہے ۔ اسکے بعد دبئی کو خیر باد کہتے ہوئے آپ نے بھٹکل میں اسی کاروبار کو فروغ بخشا اور الفھیدی اسٹیشنری کے نام سے کاروبار کا آغاز کیا جسکو وہ اپنی موت تک بڑے خوبصورت انداز میں چلاتے رہے۔ آپ سے میری شناسائی اپنے بچپن میں اسی دکان کے ذریعہ ہوئی اور گزرتے وقت کے ساتھ تعلقات میں اضافہ ہوا ۔ آپ کی سب سے بڑی صفت  جس کا ہم نے بچپن سے مشاہدہ کیا وہ بچوں سے ان کا غیر معمولی تعلق تھا۔ بھٹکل کے تمام حضرات اس بات کی گواہی دے سکتے ہیں آپ بچوں کے ساتھ کس طرح شفقت کا معاملہ فرماتے تھے ۔سچی بات تو یہ ہے کہ آپ کی شخصیت میں کچھ ایسی مقناطیسی کشش اور پاکیزہ کردار کی خوشبو تھی کہ جس سے ہر بچہ آپ کا شیدائی بن جاتا اور ان کی دکان میں آنے میں ایک عجیب خوشی محسوس کرتا ۔ وقت کی پابندی آپ کا خاص امتیاز تھا۔ انہوں نے اپنے روز و شب کو  نظام الاوقات کے ساتھ مربوط کر رکھا تھا۔ سن رسیدہ ہونے کے باجود صبح سویرے دکان پہنچتے اور دکان کی صفائی اور اسکے تمام امور بذات خود انجام دیتے۔ دکان پر آنے کے بعد  سب سے پہلے اخبار کا مطالعہ کرتے اور حالات حاضرہ سے مکمل آگاہی حاصل کرتے ۔ تجارت کے دوران اپنے گاہک کے ساتھ جس بلند اخلاقی کا مظاہرہ فرماتے تھے وہ انہیں کا حصہ تھا۔ اٹھارہ سال کے اس طویل عرصہ میں ہم نے انہیں کبھی اپنے گاہکوں کے ساتھ الجھتے اور بد اخلاقی کا مظاہرہ کرتے نہیں دیکھا ۔   آپ صوم و صلوٰۃ کے حد درجہ پابند تھے۔مؤذن کی اذان کے ساتھ ہی وہ اپنی دکان بند کرتے ہوئے باجماعت نماز کا اہتمام فرماتے۔ اپنی جوانی سے لیکر اپنی عمر کے آخری ایام تک انہیں حلال رزق کا بڑا اہتمام رہا۔ اور اسکے لیے انھوں نے کبھی کسی چیز سے سمجھوتہ نہیں کیا اور اپنی خودداری اور عزت نفس پر آنچ بھی نہیں آنے دی ۔   آپ اپنی جوانی ہی سے تحریک جماعت اسلامی سے وابستہ رہکر  اسکی تمام سرگرمیوں سے جڑے رہے ۔اسکے علاوہ بھٹکل کے تمام ملی  سماجی اور تعلیمی اداروں سے بھی آپ کا تعلق تھا ۔ بھٹکل کے مشہور تعلیمی ادارے ادارہ تربیت اخوان کے تحت چلنے والے نیو شمس اسکول سے آپ کا بہت والہانہ تعلق تھا۔وقتا فوقتاً آپ اس کی تمام سرگرمیوں سے واقفیت حاصل کرتے اور اسکو ترقی دینے اور تعلیم کے اعلیٰ معیار تک پہنچانے میں اپنے فکروں کا اظہار فرماتے تھے ۔اس ادارے سے آپ کے حد درجہ تعلق ہی کا نتیجہ تھا کہ انھوں نے اپنی موت سے چند دنوں قبل اپنے بھائی باشاہ رکن الدین صاحب سے گفتگو کرتے ہوئے ادارہ کی ترقی کے لیے انہیں بھٹکل آنے کی دعوت دی تھی کہ وہ یہاں آکر اسکی ترقی کے  لیے عملی طور پر اسکی سرگرمیوں میں حصہ لیں۔ اپنی موت سے چند لمحے قبل انھوں نے اپنے چھوٹے فرزند مصعب رکن الدین سے شمس اسکول کی ترقی کے سلسلے میں آخری گفتگو فرمائی ۔ جناب حبیب اللہ صاحب حد درجہ ملنسار اور ہردلعزیز شخصیت کے مالک تھے ۔ آپ خاندان کی ایک پُر رونق شخصیت تھے جن سے خاندان میں باغ و بہار اور محلہ والوں میں الفت و محبت کا ماحول قائم تھا۔ صلہ رحمی آپ کا امتیاز تھاجسکا واضح ثبوت یہ ہے کہ رمضان سے عین قبل انھوں نے اپنے تمام اقارب سے ملاقات کرتے ہوئے انکی دلجوئی کا سامان فراہم کیا ۔اسی طرح  لوگوں کے دکھ درد میں شریک ہوکر انکی تسلی کا سامان فراہم کرنا انکی فطرت تھی ۔ آپ نے اپنی زندگی کے آخری دن تک ان صفات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اسکا مظاہرہ فرمایا ۔   آپ نے اپنے چاروں بیٹوں اور ایک بیٹی کی دینی نہج پر تربیت فرمائی۔ اور انکی دینی تربیت اور اسلامی ذہن سازی کرنے میں کسی بھی کوتاہی کا مظاہرہ نہیں فرمایا اور اپنے ایک لخت جگر(مولانا)  اسعد رکن الدین ندوی کو علم دین کی دولت سے مالامال فرمایا جو اسم بامسمی ہو کر اپنی صالحیت اور نیک نامی کے ساتھ دین کی خدمت میں مصروف ہیں۔  اللہ کی ذات سے یقین ہے کہ انکی اولاد اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انکی نیک نامی اور ذخیرہ آخرت کا سبب بنیں گے ۔   اللہ تعالی سے دعا ہے ہے کہ وہ مغفرت کے اس عشرہ میں ان کی مغفرت فرمائے اور انہیں اعلی درجات میں اپنے شایانِ شان مقام عطا فرمائے ۔اور انکے بعد بھی خاندان اور گھر والوں میں الفت و محبت کا ماحول قائم رکھے جو انکے لیے سامان نجات ثابت ہو ۔  

موت اسکی ہے کرے جسکا زمانہ افسوس

ورنہ دنیا میں سبھی آتے ہیں مرنے کے لیے