قرآن کے بعداب جمعہ کی چھٹی اور درسی کتابیں فسطائی نشانے پر (دوسری قسط) از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے………..
قرآن پر پابندی کی اپیل کلکتہ ہائی کورٹ سے خارج ہونے کے بعدچاند مل چوپڑا نے جون 1985میں ایک اور ریویو پٹیشن داخل کی اور وہ بھی خارج کردی گئی۔اس کے بعد قرآن مخالف اس مہم کو زندہ رکھنے کے لئے The Calcutta Quran Petition کے نام سے سیتا رام گوئل اور چاند مل چوپڑا نے 1986 میں باقاعدہ ایک کتاب شائع کی ہے۔اگست 1986میں کتاب کی اشاعت کے لئے چاند مل چوپڑا کو گرفتار کیا گیا جبکہ سیتا رام گوئل گرفتاری سے بچنے کے لئے روپوش ہوگیا۔مگر بعد میں اس کتاب کے کئی ایڈیشن نکل چکے ہیں اور وہ آج بھی عوام کے ذہنوں کو مسموم کررہی ہے۔
ٹائمز آف انڈیا کا مثبت رول: جب قرآن پر پابندی کی اپیل کا تنازعہ گرمایا ہوا تھا تو اس وقت ٹائمز آف انڈیا میں تین بہت ہی تفصیلی مضامین شائع ہوئے ، جس میں قرآن کی مثبت تصویر پیش کرتے ہوئے اس کی تعریف و توصیف کی گئی تھی۔ لیکن سیتا رام گوئل اسے اپنے نقطۂ نظرسے جانبدارانہ مضامین قرار دیتا ہے۔وہ کہتا ہے کہ ان مضامین کے خلاف اس نے جوتردیدی مضمون شائع کرنا چاہا اسے ٹائمز آف انڈیا نے مسترد کردیا اور مبینہ طور پر اخبار کے اس وقت کے ایڈیٹر گری لال جین نے کہاتھا کہ وہ قرآن مخالف مضامین مستردکرنے کے وجوہات بتانے سے قاصر ہیں۔ٹائمز آف انڈیا کے اس رول پر آج سوچیں تو لگتا ہے کہ اب وہ خواب کی باتیں ہیں۔ ایک ٹائمز آف انڈیا کا کیا رونا کہ صحافتی دنیا کے تقریباً ہر محاذ اور مرحلے پر اسلام دشمن اور مسلم مخالف ذہنیت کا دور دورہ ہے۔اگرچہ کلدیپ نیر جیسے دو ایک معتدل اور انصاف پسند صحافی راج دیپ سر دیسائی، ویریش، برکھا دت وغیرہ ابھی پرنٹ او ر الیکٹرانک میڈیا میں موجود ہیں مگر مسلمانوں کے خلاف بھگوا بریگیڈنے جس طرح منفی طوفان اٹھا رکھا ہے اس کا مقابلہ کرنے کے لئے یہ مثبت آوازیں کچھ زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہورہی ہیں۔ پھر بھی اسے غنیمت ہی کہا جاسکتا ہے۔ان حالات میں یاد رکھنے کی بات بس یہ ہے کہ :
ابھی کیا ہے ، کل اک اک بوند کو ترسے گا میخانہ جو اہلِ طرف کے ہاتھوں میں پیمانے نہیں آئے
متنازعہ پوسٹراور میجسٹریٹ حیرت انگیزکا بیان: چوپڑا اور گوئل کی اس متنازعہ کتاب کی اشاعت کے بعد ہندو رکھشا دَل نے قرآن کی مبینہ قتل و غارت گری پر اکسانے والی آیات کے نام سے 24آیات کے حوالے کے ساتھ پوسٹر س بھی شائع کیے تھے جس پر حکومت نے پابندی لگادی تھی۔اس پوسٹر کے پبلیشرس اندرا سائن شرما اور راج کمار آریاکو پولیس نے تو گرفتار کرلیا مگر بعد میں جولائی 1986کودہلی کے میٹرپولیٹن میجسٹریٹ نے ان کو الزامات سے بری کرتے ہوئے اپنا جو فیصلہ لکھا وہ چونکانے والا تھا۔جج نے لکھاکہ اس پوسٹر کو"قرآن کی حقیقی معنوں میں مناسب تنقید کہا جاسکتا ہے۔ قرآن کے احترام کے ساتھ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ان آیات کا گہرائی سے مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ نقصان دہ ہیں اور ان سے نفرت پھیلتی ہے۔مسلمانوں اور دیگر قوموں کے بیچ تفرقہ پیدا ہوتا ہے۔"جج کے اس تبصرے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عدلیہ میں کس ذہنیت کے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔یعنی:ہم اپنا طرزِ عمل سوچتے ہی رہتے ہیں وہ کافر اپنے ارادوں میں کامیاب بھی ہے
درس گاہوں کی نصابی کتابیں نشانے پر: قرآن پر پابندی کا مطالبہ کرنے کا سلسلہ اب بھی رکا نہیں ہے۔ کہیں نہ کہیں سے آوازیں اٹھتی رہتی ہیں۔ کچھ آن لائن پٹیشن بھی نیٹ پر دیکھی جاسکتی ہیں۔ مگر اب سرکاری مشنر ی کے نشانے پرمسلم درس گاہوں کی نصابی کتابیں آگئی ہیں۔ ادھر پچھلے کچھ عرصے سے مسلمانوں اور دیگر سیکیولر طبقات کی طرف سے سرکاری نصابی کتابوں کو زعفرانی رنگ دینے کے خلاف آوازیں مسلسل اٹھ رہی تھیں۔ لیکن اب بھگوابریگیڈ کے اشاروں پر مسلم اسکولوں اور مدرسوں کی نصابی کتب کی چھان بین اور پابندیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ چند برسوں قبل مولانا علی میاں اکیڈیمی بھٹکل کی طرف سے شائع شدہ اسلامیات کورس کی بعض کتابوں کے خلاف ہماری اپنی ملت کے ایک مسلک والوں نے پولیس سے شکایت کی تھی اور رات کے وقت اچانک پولیس کے دستے نے اکیڈیمی کے احاطے پر چھاپہ مارا تھا۔الزام یہی تھا کہ یہ کتابیں غیرمسلموں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت اور تفریق پیدا کرتی ہیں۔اس خبر کے پھیلتے ہی مشتعل مسلم نوجوانوں کاایک ہجوم اکیڈیمی کے باہر جمع ہوگیا تھا۔ اس وقت بہت ہی کشیدہ صورتحال کو مرحوم عبدالغنی محتشم اور ہم تنظیم کے ذمہ داروں نے الحمدللہ بڑی حکمت کے ساتھ ہینڈل کیا تھا۔قہر آلود تھے ماحول کے تیور کتنے معرکے پھر بھی محبت نے کیے سر کتنے
اب ذاکر نائک اور نصابی کتابیں: اب چونکہ پیس ٹی وی اور اسلامی مبلغ و داعی ڈاکٹر ذاکر نائک پر بے بنیاد الزامات لگاکر زعفرانی حکومت اور اس کے کارندوں نے شکنجہ کس لیا ہے تو ذاکر نائک اور اسی طرزکے اسکول اور نصابی کتابیں بھی نشانے پر آگئی ہیں۔ کیرالہ میں واقع پیس انٹرنیشنل اسکول کے خلاف تحقیقات کے پردے میں بروج ریئلائزیشن کی طرف سے شائع شدہ نصابی کتابوں کو انتہائی غیر سیکولر، قابل اعتراض اور ملک میں موجود نصابی قوانین کے منافی قرار دیا گیا ہے۔ حالانکہ پورے ملک میں سرکاری سطح پر درسی کتابوں کو زعفرانی رنگ دے کر ہندتوا کے مقاصد پورے کیے جارہے ہیں۔ ان کتابوں میں اسلام اورمسلمانوں کے خلاف ہر طرح سے زہر اگلا جارہا ہے۔ مگر الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق مسلم اسکولو ں اور مدرسوں کے نصاب کے اندر کیڑے نکالے جارہے ہیں۔ پچھلے دنوں کیرالہ کی کوچی پولیس نے ممبئی سے بروج ریئلائزیشن(Burooj Realization )نامی اشاعتی ادارے کے تین ذمہ داروں کو اس الزام میں گرفتار کرلیا کہ وہ متنازعہ ،غیر سیکیولر اور نفرت انگیز درسی کتابیں شائع کرنے میں ملوث ہیں۔کہا یہ جارہا ہے کہ پرائمری اسکول کی سطح پر بھی ان کی جانب سے شائع شدہ کتابوں کے ذریعے بچوں کو مذہبی شدت پسندی سکھائی جارہی ہے۔اسلام پر فدا ہونے کی تعلم دی جاتی ہے۔ غیر سیکیولر اورشدت پسندانہ رجحان کی مثال: سرکاری مشینری نے اپنی سوچ کے مطابق بات کو ثابت کرنے کے لئے کیرالہ میں پیس انٹرنیشنل اسکول کے خلاف تحقیقات کا سرا داعش سے جوڑا ہے اور کہا ہے کہ مبینہ طور پر داعش سے تعلق رکھنے والے کیرالہ کے کچھ نوجوانوں کا تعلق اس اسکول سے بھی ہے۔ تحقیقاتی ایجنسی نے اسکول کے پرنسپال، ایڈمنسٹریٹر اور دیگر تین ذمہ داروں کے خلاف کیس درج کرلیا ہے۔ ماضی میں مولانا علی میاں اکیڈیمی کی کتابوں کے خلاف غیر سیکیولر نصاب کی مثال کے لئے اس میں موجود توحید اور شرک سے متعلقہ موادکا حوالہ دیا گیا تھا۔ جبکہ پیس اسکول میں رائج بروج کی دوسری جماعت کی کتاب سے ایک مثال پیش کی گئی ہے، جس میں عملی سرگرمی کے تحت بچوں سے ایک سوال کیا گیا ہے کہ اگر ان کا کوئی غیر مسلم دوست اگر مسلمان بننا چاہے تو وہ اس کودرج ذیل میں سے کونسا مشورہ دیں گے۔ ۱)وہ فوراًاپنا نام احمد ؍ سارہ رکھے ۲۔وہ اپنے گلے سے صلیب اتاردے ۳۔کلمہ شہادت پڑھے ۴۔والدین غیر مسلم ہونے کی وجہ سے وہ گھر سے بھاگ جائے ۵۔وہ حلال چکن کھائے اس طرح سازش یہ کی جارہی ہے کہ مسلم بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے مسلمانوں کے اپنے انتظامات کے تحت چلنے والے اداروں کواب کسی نہ کسی بہانے سے ملک دشمنی، نفرت انگیزی اور تفرقہ پروری کے دائرے میں لاکھڑا کیا جائے اور دین اسلام کو ہی نعوذباللہ انسانیت دشمن ثابت کیا جائے۔چھیڑا ہے پھر ستم کا نیا ساز وقت نے تازہ غزل پھر اس سے کہلوانا چاہیے
( اب جمعہ کی تعطیل بھی کھٹکنے لگی۔۔۔۔۔ جاری ہے ۔۔۔تیسری اور آخری قسط ملاحظہ کریں)haneefshabab@gmail.com
ضروری وضاحت:اس مضمون میں پیش کئے گئے خیالات مضمون نگار کی ذاتی رائے پر مبنی ہیں۔ اس میں پیش کردہ مواد کی صحت کے سلسلہ میں ادارہ بھٹکلیس ذمہ دار نہیں ہے۔ ادارہ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔