جوش نہیں صرف ہوش سے ووٹ ڈالیے، ورنہ.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔..از:۔ظفر آغا

سنہ 2019 کا لوک سبھا چناؤ معمولی چناؤ نہیں ہے۔ بلکہ اقلیتوں کے لیے یہ چناؤ موت و زندگی کے بیچ کا فیصلہ ہے۔ یاد ہے پچھلے سنہ 2014 کے چناوی کیمپین کے دوران نریندر مودی نے گجرات فسادات کے بارے میں کیا کہا تھا۔ جب ان سے ایک صحافی نے یہ سوال کیا کہ ان کو 2002 کے گجرات قتل عام پر افسوس ہے کہ نہیں۔ ان کا جواب تھا کہ انھیں ’’ان فسادات پر اتنا ہی افسوس ہے جتنا ایک کتے کے پلے کے کار سے کچل کر مر جانے پر ہوتا ہے‘‘۔ تب ہی تو مودی حکومت کے دوران اقلیتوں کو کتے کی طرح مارا گیا اور حکومت خاموش تماشائی بنی رہی۔ جی ہاں، ’موب لنچنگ‘ کی موت ایک کتے کی موت سے کم نہیں۔
بس یاد رکھیے کہ سنہ 2019 کے چناؤ میں وہی نریندر مودی پھر سے وزیر اعظم بننے کے لیے چناؤ لڑ رہے ہیں۔ اگر مودی اس بار وزیر اعظم پھر بن گئے تو ہندوستان وہ ہندوستان نہیں رہے گا جو اب تک تھا۔ ملک کا آئین بدل دیا جائے گا۔ آر ایس ایس کی دیرینہ خواہش کہ مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنا دیا جائے، وہ خواہش بھی پوری کر دی جائے گی۔ اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ سنہ 2019 کے چناؤ کے نتائج ہندوستان اور ہندوستانی اقلیتوں کے لیے کیا معنی رکھتے ہیں۔
اس پس منظر میں ظاہر ہے کہ ایک ایک ووٹ کی اہمیت ہوگی۔ اگر کہیں بی جے پی مخالف ووٹ آپس میں بٹ جاتا ہے تو ظاہر ہے کہ ایسی سیٹوں پر بی جے پی آسانی سے کامیاب ہو جائے گی۔ اس بات کا امکان ایسی سیٹوں پر سب سے زیادہ ہے جہاں سہ رخی مقابلہ ہے۔ اتر پردیش میں تقریباً ہر سیٹ پر ہی سہ رخی مقابلہ ہو رہا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ سنہ 2014 میں بھی اتر پردیش میں کچھ یہی صورت حال تھی۔ چنانچہ وہاں زیادہ تر سیٹوں پر سیکولر اور بی جے پی مخالف ووٹ بٹا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اتر پردیش سے اکیلے بی جے پی اور اس کے حلیفوں کو 80 میں سے 73 سیٹوں پر کامیابی ملی تھی۔
یہی سبب ہے کہ اس بار ایسا نہ ہو اس سلسلے میں چناوی دور کے پہلے مرحلے میں ہی کانگریس صدر راہل گاندھی نے ایک ٹوئٹ کر ووٹر سے یہ کہا تھا کہ وہ اس چناؤ میں ہندوستان کی روح کی بقا کے لیے ووٹ ڈالیں۔ ظاہر ہے کہ کانگریس ملک کی سب سے بڑی قومی سطح کی پارٹی ہے تو وہ ووٹر کی پہلی پسند کانگریس کے لیے ووٹ مانگ رہے تھے۔ لیکن ہندوستان کی روح سے ان کی مراد غالباً یہ تھی کہ یہ چناؤ کسی ایک پارٹی کی ہار جیت کا چناؤ نہیں ہے۔ بلکہ اس چناؤ کی پہلی ترجیح اس ملک کی گنگا-جمنی تہذیب کی بقا ہے۔ اس لحاظ سے سہ رخی مقابلے کی شکل میں ووٹ ڈالتے وقت کسی ایک پارٹی کا مفاد نہیں بلکہ ملک کی روح اور اس ملک کی گنگا -جمنی تہذیب کی بقا کا خیال رکھنا ہوگا۔
اتر پردیش میں 23 اپریل کو جن 10 سیٹوں پر چناؤ ہونے ہیں وہاں بھی ووٹنگ ملک کی روح کو بچانے کے لیے ہونی چاہیے۔ سیکولر ووٹ آپس میں بٹنے سے محض بی جے پی کو ہی فائدہ ہوگا۔ بہت سی سیٹوں پر ووٹر کو وہاں کے امیدوار سے شکایت ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ چناؤ میں ذاتی ناراضگی پر دھیان دینے والا چناؤ نہیں ہے۔ یہ چناؤ تو ملک اور اس کے آئین کی بقا کا چناؤ ہے۔ اور اس مشن میں کامیابی تب ہی ممکن ہے جب کہ سیکولر اور اقلیتوں کا ووٹ قطعاً تقسیم نہ ہونے پائے۔
چنانچہ حالیہ چناؤ میں ووٹنگ جوش یعنی جذبات سے اوپر اٹھ کر ہوش سے ہونی چاہیے۔ ابھی وقت ہے، اس لیے ووٹنگ سے قبل بے حد ہوشمندی سے ایسا فیصلہ کریں کہ جب چناوی نتائج آئیں تو ان نتائج سے اس ملک کی گنگا-جمنی تہذیب اور اس ملک کی روح کی بقا کا راستہ نکل سکے۔ اگر فیصلے میں ذرا سی بھی لغزش ہو گئی تو یاد رکھیے نریندر مودی اقلیتوں کو کتے کی موت مروا دے گا۔