یہ موقع پھر نہیں آئے گا--از:ایم ودودساجد

گائے کی آڑ میں دلتوں پرکئے جانے والے مسلسل حملوں کے کافی دنوں بعدجب ہمارے وزیر اعظم نے حسب عادت مہر سکوت توڑکرایک جذباتی بیان دیاتو مجھے گجرات میں2002کے فسادات پر مبنی فلم’ پرزانیہ‘ کا ایک منظر یاد آگیا۔دلتوں پر حملوں کے تعلق سے ان کاتازہ بیان 2002میں گودھرا کے ٹرین آتشزدگی سانحہ کے بعددئے گئے بیان سے مختلف تو تھا لیکن اثرآفرینی کے اعتبار سے ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔تازہ بیان میں انہوں نے گؤ رکشکوں سے دست بستہ اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ’’مارنا ہی ہے تو مجھے گولی مارولیکن میرے دلت بھائیوں کو نہ مارو‘‘۔آئیے اب دیکھتے ہیں کہ 2002میں انہوں نے کیا کہا تھا۔
فلم پرزانیہ گجرات کے مشہور فلم سازراہل ڈھولکیا نے بنائی تھی۔اس میں گودھرا ٹرین آتشزدگی سانحہ کے فوراًبعدایک ہندوستانی سیاستداں کے لباس میں ملبوس ایک شخص کو(جو ظاہر ہے کہ وہاں کا وزیر اعلی تھا) ٹیلیویژن چینل پرپورے غصہ کے عالم میںیہ کہتے ہوئے دکھایا گیا تھاکہ:’’جو کچھ ہوا ہے وہ ایک مہذب سماج میں نہیں ہونا چاہئے تھا۔اسے ہم کبھی معاف نہیں کرسکتے۔میں لوگوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ گجرات ایسے واقعات کو کبھی برداشت نہیں کرے گا۔مرتکبین کو ان کے گناہوں کی پوری سزا دی جائے گی۔صرف یہی نہیں بلکہ ہم ایک ایسی مثال قائم کریں گے کہ کوئی خواب میں بھی ایسا کرنے کے بارے میں سوچ نہیں سکے گا۔گجرات حکومت اپنے لوگوں کا تحفظ کرے گی اور کسی کوبھی گجرات کا امن وامان برباد کرنے کے لئے قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دے گی۔‘‘اسی شام کچھ وقفہ کے بعد ان کا دوسرا بیان آیا:’’ ایسے مجرموں کے لئے اس مہذب سماج میں کوئی جگہ نہیں ہے۔میں آپ سے ہاتھ جوڑ کر اپیل کرتا ہوں کہ اپنے ذاتی وقار(آتم سمان) کو برقرار رکھتے ہوئے امن وامان قائم رکھیں۔یہ ہمارا عہد ہے کہ مجرموں کو سزا دیں گے اور کسی ایک کو بھی بخشا نہیں جائے گا۔‘‘ اپنے بیان کے آخری حصہ کو ادا کرتے ہوئے فلم کے اس سیاستداں نے بڑے پر اسرار اور معنی خیز انداز میں اپنی چشم وابروکوخم دیا تھا۔اس کے بعدگجرات میں جو کچھ ہوا وہ پوری دنیا نے دیکھا۔ان کے بیان پر عمل کرتے ہوئے گجرات کے فسادیوں نے ٹرین حادثہ کے ’’مرتکبین کے گناہوں‘‘کی چن چن کرسزا دی۔ان کے بیان پر عمل کرتے ہوئے فسادیوں نے ایسی مثال قائم کی کہ فی الواقع آزاد ہندوستان میں ایسی مثال پہلے کبھی قائم نہیں ہوئی تھی۔بے گناہ اور باعفت حاملہ خواتین کی پہلے عصمت ریزی کی گئی اور پھر ان کے حمل کوچیر پھاڑکرآگ کے حوالے کردیا۔وزیر اعلی نے عہد تو اپنی حکومت کے حوالے سے کیا تھا لیکن اس عہد کو پورا ان کے فسادیوں نے کیا۔انہوں نے یہ نہیں کہا تھا کہ حکومت ایسے واقعات کو برداشت نہیں کرے گی بلکہ یہ کہا تھا کہ گجرات ایسے واقعات کو ہرگز برداشت نہیں کرے گا۔ لہذاانہوں نے ان فسادیوں کو روکا نہیں بلکہ اپنے وعدہ کے مطابق کہ’ گجرات حکومت اپنے لوگوں کا تحفظ کرے گی‘انہیں خوب چھوٹ دی اور پولس کوبھی ان کا ساتھ دینے پر مامور کردیا۔ ان کے فسادیوں نے پہلے ’’ مجرموں‘‘ کے گھروں کی نشاندہی کی اور پھر انہیں آگ کے حوالے کردیا اور ان کے مکینوں کا قتل عام کیا۔اس لائحہ عمل کی تصدیق بعد میں کئے جانے والے کئی اسٹنگ آپریشن سے بھی ہوئی۔ان میں تہلکہ اور غلیل ڈاٹ کام کے ذریعہ کئے گئے اسٹنگ آپریشن خاصے مقبول ہوئے تھے اور ان کی بنیاد پر بہت سے مقدمات بھی قائم ہوئے اور دو مقدمات تو سپریم کورٹ نے یہ کہتے ہوئے گجرات سے باہرمنتقل کئے کہ ایسا لگتا ہے کہ گجرات میں اب انصاف کا حصول ناممکن ہوگیا ہے۔
لوگ کہتے ہیں کہ جب تک ان کے گؤ رکشک مسلمانوں کو مارتے پیٹتے رہے ‘یہاں تک کہ ایک بے قصور کو مار مار کرہلاک بھی کردیا اس وقت تک تو وزیر اعظم خاموش رہے ۔لیکن جب دلتوں پر حملے بڑھ گئے اوریوپی‘پنجاب اور گجرات کے انتخابات میں شکست کا خوف ستانے لگا تووزیر اعظم دلتوں کے دردسے تڑپ اٹھے۔لیکن حالات دوسری ہی کہانی بیان کر رہے ہیں۔وزیر اعظم کو یوپی‘پنجاب اور گجرات کے انتخابات میں ممکنہ شکست کا خوف ضرور ستا رہا ہوگا لیکن یہ کہنا درست نہیں ہے کہ انہیں دلتوں کے دردنے تڑپادیا۔اگر ایسا ہوتا تو ان کے بیان کے بعدریاستوں میں اور خاص طورپر ان ریاستوں میں جہاں خود بی جے پی کی حکومتیں ہیں دلتوں پر حملے بند ہوگئے ہوتے۔اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ وزیر اعظم کی اپیل کے بعد تو دلتوں پر حملوں کی رفتار اور تیز ہوگئی ہے۔مدھیہ پردیش‘جھارکھنڈ‘راجستھان اورپنجاب میں دلتوں کو خوب ستایا جارہا ہے۔پنجاب میں تو دودھ دینے والی گایوں کے تاجرین کوبڑے پیمانے پر بلیک میل کرنے کے واقعات روشنی میں آئے ہیں۔وزیر اعظم نے جن 80فیصد گؤ رکشکوں کوناپسندیدہ سماجی عناصربتایا ہے وہ تو خود انہی کی قبیل کے ہیں۔انگریزی چینل ٹائمز ناؤ اور ہندی چینل آج تک نے تو اس کا اسٹنگ بھی کرلیا ہے۔ان چینلوں نے دکھایا ہے کہ گؤرکشاسے وابستہ زیادہ تر غنڈے بی جے پی‘شوسینا‘بجرنگ دل اور آر ایس ایس کی ذیلی جماعتوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ٹائمز ناؤ نے تو ایسے 14افراد کے انٹرویوز بھی دکھائے ہیں جنہوں نے اپنا رابطہ آر ایس ایس‘بی جے پی اور حکومت سے بتایا ہے۔ایک تازہ واقعہ میں گجرات کے ایک قصبہ میں ایک دلت کو اپنی مردہ بیوی کی چتا نہیں جلانے دی گئی اور مجبور ہوکر اس نے اپنے گھر کے آگے اس کام کو انجام دیا۔
واقعہ یہ ہے کہ گجرات کے اونا میں رونما ہونے والے واقعہ نے ہندوستان بھر کے دلتوں کو جس بڑے پیمانے پر بیدار اور متحد کردیا ہے اس پیمانے پر تاریخ میں شاید پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔ہندوستان میں نمایاں طورپردلت مفادات کے دو ہی بڑے علمبردار ہیں۔رام ولاس پاسوان تو خود اس وقت مرکزی حکومت کا حصہ ہیں۔اور مایا وتی یوپی میں بلا شرکت غیرے دلتوں کی قائد ہیں۔اس واقعہ کے بعد انہیں بھی دلتوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے میں کوئی جد وجہد نہیں کرنی پڑی اور پورے ملک میں دلت بیدار ہواٹھے۔انہوں نے اعلان کردیا کہ اب ہم مردہ جانور او رخاص طورپر مری ہوئی گائیں نہیں اٹھائیں گے۔دلتوں کی فلاح کیلئے کام کرنے والے دلت دانشورکنچاالائیانے اعدادوشمار کی روشنی میں بتایا ہے کہ ہندوستان بھر میں ہر روز21ہزار سے زیادہ گائیں مرجاتی ہیں۔ان کو اٹھاکر ٹھکانے لگانے اور ان کی کھال اتارنے کا کام ہر ایک کے بس کا نہیں ہے۔یہ کام روایتی طورپردلتوں کا ایک خاص طبقہ کرتا ہے۔لہذا جب ایک ہفتہ تک پورے ملک میں اور خاص طورپرگجرات اور مدھیہ پردیش میں دلتوں نے ایک لاکھ سے زیادہ مری ہوئی گایوں اور دوسرے جانوروں کو نہیں اٹھایا تو بی جے پی حکومتوں کے ہوش ٹھکانے لگ گئے۔انہوں نے وزیر اعظم پر دباؤ ڈالا کہ وہ اب کچھ کریں۔اور وزیر اعظم نے گجرات 2002کی طرز کا بیان دے ڈالا۔لیکن شرپسندوں نے ان کے تازہ بیان سے وہی اشارہ اخذکیا جو انہوں نے 2002میں دئے گئے بیان سے اخذ کیا تھا۔اب تو یہ تک ہورہا ہے کہ کوئی بچہ چوری کرتا ہوا پکڑا جائے اورباز پرس کے دوران وہ اپنی ذات دلت بتادے تو اسے جان بوجھ کر اور زیادہ زدوکوب کیا جاتا ہے اور پھر وہ موقعہ پرہی مرجاتا ہے۔وزیر اعظم نے جن گؤ رکشکوں کو ناپسندیدہ عناصر قرار دیا ہے وہ کھلے طورپر وزیر اعظم کے خلاف ناگواری کا اظہار کر رہے ہیں۔چینلوں نے جن گؤرکشکوں کو یہ تک کہتے ہوئے سنایااور دکھایا تھا کہ وہ کس طرح اپنے شکار کو مارتے ہیں ان کے خلاف ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔ریاست راجستھان میں سرکاری گؤ شالاؤں میں خود گایوں پر جو ظلم ہورہا ہے وہ بھی چینلوں نے دکھادیا ہے۔اس کے باوجود شرپسندوں اور ذمہ داروں کے خلاف کوئی تفصیل تیار نہیں کی جارہی ہے اور نہ ہی انہیں روکا جارہا ہے۔
بہر حال اب اس کے امکان کم ہیں کہ وزیر اعظم کے اس بیان کے بعد مظلوم دلت ان کی طرف پھر پلٹ کر آئیں گے۔یوپی میں مایاوتی کی سیاسی پوزیشن اور مستحکم ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔حال ہی میں سماجوادی‘بی جے پی اور کانگریس کے چار ممبران اسمبلی پالا بدل کر بی ایس پی میں چلے گئے ہیں۔حیرت ہے کہ گائے کے نام پردلتوں سے زیادہ مسلمانوں پر ظلم کیا گیا ہے لیکن مسلمان ان دلتوں کی طرح متحد ہوتے ہوئے نظر نہیں آتے۔میرا خیال ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کے پاس اس سے بہتر اور کوئی موقع نہیں ہوگا کہ وہ دلتوں اور دیگر پسماندہ طبقات اور ان کے قائدین کے قریب جائیں اور دلت مسلم اتحاد کا کوئی دور رس اور وسیع ومضبوط لائحہ عمل تیار کریں۔مسلمانوں کی مختلف تنظیموں اور جماعتوں کو اس سلسلہ میں کوئی موثر اور قائدانہ کردار ادا کرنا ہوگا۔لیکن شاید ابھی ان جماعتوں کے پاس فرصت نہیں ہے اور ترکی کے سفیر سے مل کراظہار یکجہتی کرنا اور ناکام بغاوت کے بہانے ترکی کے آمر شہنشاہ کے نام اپنی وفاداری کے خطوط لکھنا ان کے نزدیک زیادہ ضروری کام ہیں۔موجودہ حکومت کے دور میں یہ موقع شاید پھر کبھی ہاتھ نہ آئے۔ایسے میں عام مسلمانوں اور ان کے مقامی قائدین کو آگے آناپڑے گا۔یہ کام گاؤں ‘محلے ‘قصبے ‘ شہراور ضلع کی سطح پر کرنا ہوگا۔اس لئے کہ یہ موقع عمر رسیدہ بلیک میلراور جاہ پرست قیادتوں کو پھلانگ کرکوئی نئی ‘جوان اور صالح فکر قیادت کو جنم دینے کے لئے انتہائی سازگار ہے۔کیا ملت اس کے لئے تیار ہے؟