واہ! کیا بات ہے !....کمار سوامی نے بھٹکل میں لگایا موقع دیکھ کر چوکا!!۔۔۔از: ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے
پوری ریاست کرناٹکا میں سیاسی اونٹ دھیرے دھیرے کروٹیں بدلنے لگا ہے۔ بھٹکل اسمبلی حلقے کی اپنی ایک الگ اہمیت ہے کیونکہ پورے ساحلی علاقے میں بلکہ ریاست کرناٹکا میں بی جے پی کو سیاسی عروج دلانے میں 1993کے بھٹکل مسلم کش فسادات کا بڑا کردار رہا ہے۔ اسی لئے کم ازکم ساحلی علاقے میں سیاسی نقطۂ نظرسے کانگریس اور بی جے پی کے لئے بھٹکل حلقے کی سیٹ بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی جنتا دل (ایس)کے لئے بھی پورے شمالی کینرا میں بھٹکل کی سیٹ ہی ایسی ہے جس کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ اگر پارٹی کو جیتنا ہے تو صرف عنایت اللہ شاہ بندری جیسے لیڈر کے بھروسے پر ہی بازی لگا سکتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ جنتادل کے ریاستی سکریٹری اور سابق وزیراعلیٰ کماراسوامی نے بھٹکل میں تنظیم کے ٹیبل پرایک زبردست سیاسی بیان دیتے ہوئے کہا کہ ’’اگر اس مرتبہ اس حلقے میں غیر مسلموں کے 15تا20ہزار ووٹ جنتادل (یا عنایت اللہ ) کو نہ دلا سکا تو سیاست سے سنیاس لے لوں گا۔‘‘
اسے کہتے ہیں موقع دیکھ کر چوکا لگانا: سیاسی لیڈروں کی مختلف پینترے بازیوں میں تھوڑی دیر کے لئے لوگوں کو حیران یا مسحور کرنے والے اس قسم کے بیانات دیناکرکٹ پریمیوں کی زبان میں موقع دیکھ کر چوکا لگانا کہلاتاہے۔اور کمار سوامی نے بھی وہی کیا ہے۔فطری طور پربھولی بھالی عوام پر اس کا کافی اثر ہوتا بھی دکھائی دے رہا ہے۔کیونکہ عام لوگ کمار سوامی کے اس ایک ’جرأت مندانہ‘ جملے کے جادو میں کچھ ایسے کھو گئے کہ انہیں کمار سوامی سے پوچھے گئے بنیادی سوال اور اس کے جواب یعنی’’انتخابی نتائج آنے کے بعد بی جے پی کا ساتھ دینے یا ساتھ قبول کرنے‘‘ کی اہمیت کا احساس ہی نہیں رہا۔اکثر لوگ بڑی سنجیدگی سے اس پرغور کرتے ہوئے دیکھے گئے ہیں کہ پارٹی کی پوزیشن مضبوط ہونے کی وجہ سے ہی کمار سوامی نے اتنی بڑی بات کہی ہوگی۔کم ہی لوگ ایسے ملے جو اسے بس ’ایک سیاسی جملے بازی ‘قرار دیتے ہوئے سوال کرتے نظر آئے کہ کیا ایک سابق چیف منسٹر اور پارٹی چیف اتنا بے وقوف ہوسکتا ہے کہ کسی ایک اسمبلی حلقے کی سیٹ پر اپنا سیاسی کیریئرکوحقیقی معنوں میں داؤ پر لگاسکے؟!
سیاست یعنی منافقت اور جھوٹ کی فیکٹری : موجودہ دور کی سیاست کی اگر صحیح معنوں میں تعریف کی جائے تو اسے’ جھوٹ اور منافقت کی فیکٹری ‘کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ کچھ ایسی ہی خاصیتوں والے پروڈکٹس اور سکّے یہاں بنتے اور جمہوریت کے بازار میں بکتے اور چلتے ہیں(جن میں مسلم ناموں کے ساتھ سیکیولر سیاسی روبوٹس بھی شامل ہیں)۔ وہ دن کب کے لَد گئے جب سیاسی لیڈروں کا اپنا پختہ اور صاف ستھرا کردار ہوا کرتا تھا۔عوامی خدمت کا جذبہ اور جوابدہی کا تصور ہوا کرتاتھا۔ خلوص کے ساتھ منصبی فرائض ادا کرنے کی دھُن سر پر سوار رہا کرتی تھی۔ اب تو مذہبی و فرقہ وارانہ جذبات اور لسانی و علاقائی تعصبات کو ہو ادے کر توا گرم کرنے اور منافقانہ طرز عمل کے ساتھ اپنے ذاتی مفاد کی روٹیاں سیکھنے کا نام سیاست بن گیا ہے۔ اور ناگپور فیکٹری سے نکلنے والے زعفرانی روبوٹس نے تو اس مفروضے کو پوری طرح حقیقت میں بدل کر رکھ دیا ہے۔
ہاتھ میں کبوتر ہے ، دل میں ناگ پلتے ہیں بے خدا سیاست میں ایسے سکّے چلتے ہیں
شخصی سیاسی مفادات اور سیاسی پارٹیاں: تعجب اس بات پر ہے کہ جانتے بوجھتے عوام بے وقوف بن جاتی ہے۔ بی جے پی کو چھوڑ کر باقی سیاسی پارٹیاں آج چاہے جس نام سے بھی اپنا سیاسی وجود ثابت کرنے کی جنگ لڑ رہی ہوں، لیکن تقریباً یہ ساری پارٹیاں انڈین نیشنل کانگریس کے دھارے سے ہی نکلی ہوئی ہیں۔ ان کے سیاسی اجداد نے اپنے مفاد یا ایجنڈے کے تحت تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزرتے ہوئے پہلے کانگریس کے نام سے ہی دھڑے الگ کرلیے، پھر جنتا پارٹی بناڈلی جس میں زعفرانی ایجنڈے والی جن سنگھ بھی شامل تھی۔ اس کے بعد سنگھیوں نے الگ ہوکر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) بنائی تو جنتادل ایک بڑی سیاسی پارٹی بن گئی جس میں کئی علاقائی لیڈران اور پارٹیاں شامل رہیں۔لیکن برا ہوا ان سیاسی خواہشات اور ذاتی مفادات کا کہ یونائٹیڈ، راشٹریہ ، سیکیولر اور دیگر درجنوں ناموں سے اس کے بھی ٹکڑے کر دئے گئے۔اپنے سیاسی قد کو بلند اور بااثر بنانے کے لئے بعض قومی لیڈروں نے دوسرے کئی ناموں سے علاقائی پارٹیاں بناڈالیں۔تقریباً تمام ہی سیاسی قائدین کا معاملہ دَل بدلیوں کی تاریخ سے بھرا پڑا ہے ۔اورایسا بھی نہیں ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی میں پھوٹ اور تقسیم کا عمل ہواہی نہ ہو۔گجرات میں شنکر سنگھ واگھیلا، یو پی میں کلیان سنگھ اور کرناٹکا میں ایڈی یورپا نے بی جے پی سے بغاوت کرکے اپنی اپنی پارٹیاں بنابھی لی تھیں ، مگر ان کی عمر محض دو ایک برسوں سے زیادہ نہیں رہی، چونکہ یہ ناگپور فیکٹری کا پروڈکٹ تھا اس لئے پھر سے وہیں پر پہنچ گیا جہاں کا خمیر تھا۔ دیوے گوڈا کی تاریخ بھی یہی ہے: آج جنتا دل (ایس ) کے سپریمو بنے دیوے گوڈا کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے ۔انہوں نے 1953 میں کانگریس میں شمولیت اختیار کی تھی اور1962تک انڈین نیشنل کانگریس میں رہے۔ غالباً کانگریس سے ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے 1962کے اسمبلی انتخاب میں انہوں نے بحیثیت آزاد امیدوار پہلا انتخاب ہولے نرسی پور سے جیتا تھا۔6 مرتبہ متصلاً اس حلقے سے جیتنے والے دیوے گوڈا نے کانگریس سے جدا ہونے والی نئی پارٹی ’کانگریس (او) میں شمولیت اختیارکی۔پھر وہ جنتا پارٹی کا حصہ بنے اور اس کے بعدکانگریس ہی کی طرح مرحلہ در مرحلہ اے بی سی ڈی سے ایکس وائی زیڈ تک ٹوٹتی پھوٹتی جنتا پارٹی سے جنتادل اورپھر جنتا دل کے ایک حصے ’جنتا دل سیکولر‘ کے سپریمو بن گئے۔’بلّی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا‘ کے مصداق دیوے گوڈا جی کی جھولی میں ملک کی وزارت عظمیٰ بھی اتفاقی طور پرآ گئی۔جس پر وہ یکم جون 1996سے 21اپریل 1997تک براجمان رہے۔لیکن چاہے کرناٹک کے وزیر اعلیٰ کی کرسی ہو یا ملک کی وزارت عظمیٰ ،کسی بھی مقام پر رہتے ہوئے دیوے گوڈا کا ایسا کوئی کارنامہ اور contribution نہیں ہے جس نے ہندوستانی سیاست کو متاثر کیا ہو۔ زیادہ تر کانگریس پارٹی کواور کبھی کبھار بی جے پی کے ایڈی یورپّا کو اپنی تنقید کانشانہ بنانا ، دیوے گوڈااور ان کے سپوت کمارسوامی کا خاص مشغلہ رہا ہے۔پُر خطر رفاقت وہ جو مفاد کے تابع سوچ بے ثمر اپنی ذات کے پجاری کی
فسطائی طاقتوں سے گٹھ جوڑ: اپنے آپ کو سیکولر ازم کا علمبردرا کہلوانے والے ،جنتا دل سیکیولر پارٹی کے کرتادھرتاباپ اور بیٹے یعنی دیوے گوڈااور کمارا سوامی نے تو کرناٹکا میں فرقہ پرست اور فسطائی ایجنڈے کی علمبرداربی جے پی کے ساتھ مل کرحکومت بناتے ہوئے موقع پرستانہ سیاست کی جو مثال قائم کی ہے وہ بھی گوڈا کمپنی کی تاریخ کا حصہ ہے۔بی جے پی کی فسطائیت سے لڑنے کے لئے وجود میں آنے والی اور اپنے نام کے ساتھ ہی ’سیکیولر‘ کا ٹیاگ لگانے والی سیاسی پارٹی کی اس منافقانہ روش کو ریاست کے باشعور عوام ابھی بھولے نہیں ہیں۔اس کے علاوہ پارٹی مورچے پر بھی باپ بیٹے کو اپنے ہی اراکین اسمبلی کی بغاوت کاسامنا ہے، اور اس سے نپٹنے کے لئے بھی انہیں بڑے پاپڑ بیلنے پڑرہے ہیں۔جبکہ گھریلو محاذپر خود گوڈا فیملی میں جو کھینچا تانی چل رہی ہے سو وہ الگ ہے۔ دیوے گوڈا کے دو بیٹوں کمارسوامی اور ریونّاکے درمیان جو رسہ کشی ہے اور کمار سوامی کے لئے خود ان کا بھتیجہ پراجول جس طرح کا سر درد بنا ہوا ہے اس سے صاف اشارے مل رہے ہیں کہ پارٹی اور خاندان کا جھگڑا الیکشن کے دن قریب آتے آتے کہیں جنتادل سیکیولر کابھی وہی حال نہ کردے جو کہ یوپی میں ملائم سنگھ اور اکھلیش فیملی fuedنے کیاتھا۔ کیاگوڈا فیملی پر بھروسہ کیا جاسکتاہے؟: مجلس اصلاح و تنظیم کے ٹیبل پر سابق صدر تنظیم جناب سید محی الدین برماور نے واضح طور پر دو سوالات کیے تھے۔ ایک تو یہ کہ الیکشن کے بعد بی جے پی کو کچھ سیٹیں کم پڑتی ہیں اور اس وقت وہ جنتادل سے تعاون مانگتی ہے یا پھر جنتادل سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرتی ہے اور حکومت بنانے کے لئے چند سیٹیں درکار ہوتی ہیں اور ایسی صورت میں بی جے پی غیر مشروط طور پراپنا تعاون پیش کرتی ہے۔تب جنتادل (ایس) کا موقف کیاہوگا؟کمارسوامی نے بس سرسری سا جواب دیا کہ ’بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملانے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔‘ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ ان کے جواب میں وہ جوش اور لہجے میں وہ استحکام نہیں تھا جیسا کہ عنایت اللہ شاہ بندری کو غیر مسلموں کے20تا25ہزار ووٹ دلانے میں ناکامی پر سیاست چھوڑ دینے والی بات کہتے وقت تھا۔بات بات پر دھرمستھلاکے منجوناتھ(دیوتا) کی قسمیں کھانے والے کمارسوامی نے ایسی کوئی قسم بھی نہیں کھائی۔اس سے سیاست کا معمولی طالب علم بھی یہ نتیجہ اخذ کرسکتا ہے کہ یہ کوئی ایسی یقین دہانی نہیں ہے کہ جس پر آنکھ بند کرکے اعتماد کیا جاسکے۔ دکھانے کے دانت اور کھانے کے دانت: تقریباً ہر سیاسی پارٹی ایسا ہاتھی ہے جس کے دکھانے کے دانت اور کھانے کے دانت بالکل الگ الگ ہوتے ہیں۔ جب کھانے کا موقع آتا ہے توبے شک وہ دانت اپنا کام شروع کرتے ہیں۔اس لحاظ سے کرناٹکا میں گوڈا فیملی کے وعدوں پر ایک تو اس وجہ سے بھروسہ نہیں کیا جاسکتاکیونکہ ماضی میں عہد اور اعتماد شکنی کی مثال موجود ہے ۔خیال رہے کہ پہلے تو باپ اور بیٹے نے عوام کے ساتھ دھوکہ کیا کہ غیر فسطائی ایجنڈے پر ووٹ مانگے اورپھرفسطائی پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنائی۔ اس کے بعد خود بی جے پی کے ساتھ بھی دھوکہ کیا اور وعدے کے مطابق اپنی نصف میعاد پوری ہونے کے بعد اگلی میعادکے لئے اسے حکومت سونپنے کا معاہدہ توڑ دیا۔بی جے پی کو اس کا قلق تو ہوگا مگر موجودہ حالات میں کانگریس پارٹی کو عملی سیاست سے بے دخل کرنے کے لئے بی جے پی اپنے فسطائی ایجنڈے کے مطابق ملک گیر سطح پر جس طرح جوڑ توڑ کررہی ہے ، اس سے کچھ بھی بعید نہیں کہ وہ گوڈا اینڈ پارٹی کو اپنے جھانسے میں لینے کے لئے کسی بھی حد تک جائے۔اورہوسکتا ہے کہ سجا ہوا دسترخوان دیکھنے کے بعد کمارا سوامی کی بھی شایدرال ٹپک پڑے اور اپنے کھانے کے دانتوں کا استعمال کرنے میں انہیں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ ہو۔ 20تا25ہزار ووٹ پلیٹ میں رکھے ہیں!: کمارسوامی نے تنظیم کے ٹیبل پر جو دھماکہ خیز بیان دیا کہ اس مرتبہ بھٹکل حلقۂ اسمبلی سے جنتا دل امیدوار کو غیر مسلموں کے 20تا25ہزار ووٹ نہیں دلا سکا تو میں سیاست چھوڑدوں گا۔ اس پر تھوڑی دیر تک مسکر ا کر چپ رہنے کے بجائے ہمارے کچھ احباب بہت ہی زیادہ بانچھیں کھلانے لگے ہیں۔ اور عوام کو بھروسہ دلانے میں لگے ہیں کہ جیسے سنڈے مارکیٹ میں پڑے ووٹوں کے ڈھیر سے کماراسوامی 25 ہزار ووٹ پلیٹ میں سجاکر پیش کرنے والے ہیں۔ جس شمبھو گوڈا کا نام لے کر لوگوں کو گوڈا اور گونڈا کمیونٹی کے ووٹ ہول سیل میں دلانے کی بات کی جارہی ہے ، اس نے تو کبھی الیکشن جیتا نہیں ۔ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ اب وہ اتنا زیادہ ’پاوورفل سیاست دان‘ہے کہ اپنے بیٹے کو ضلع پنچایت تک کی سیٹ پر جیت نہیں دلا سکتا ۔یقبی طور پر ایک زمانے میں بڑی تعداد میں ووٹرس اس کی بات مانا کرتے تھے، لیکن اب جو حال ہے اس کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ ایک گرتی ہوئی دیوار ہے جس کے سایے میں سر اور جان سلامت رہنے کی کوئی گارنٹی دی نہیں جاسکتی ۔ ایک ’دانشور‘ کی خوش خیالی: اپنے لڑکپن کے دنوں میں مقامی اور ریاستی سیاست سے وابستہ شخصیات کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے ،حالات کو قریب سے دیکھنے اور عملی طور پر معاملات میں ملوث رہنے والے اوراب پردیس میں بس کر قلم کی نوک، بلکہ’ کی پیڈ پر انگلیوں کی تھرک‘سے ملکی اور مقامی’ سیاست کا تجزیہ‘ کرنے والے ہمارے ایک’ دانشور‘بھی کمارسوامی کی بات پر یقین کربیٹھے ہیں۔ اور اتنے بڑی پیش کش کو ہاتھوں ہاتھ لینے کا مشورہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ تنظیم کو کمارسوامی کے ساتھ ایگریمنٹ کرلینا چاہیے کہ اگران کی یقین دہانی(یا خوش گمانی) حقیقت میں بدل نہیں جاتی ہے اور اس مرتبہ بھی گوڈا اور گونڈہ کمیونٹی اوردیگر غیر مسلم ووٹرس کی وجہ سے عنایت اللہ صاحب کی ہار ہوجاتی ہے، تو پھر جے ڈی ایس کی طرف سے ایم ایل سی کی سیٹ عنایت اللہ کو دی جائے گی۔ مگر اس قسم کے دانشور ان کو کون سمجھائے کہ ان کے لڑکپن اور جوانی کے دن اور اس وقت کے باکردار سیاست دان کب کے ہَوا ہوگئے۔آج کے دور میں سیاسی وعدے صرف الیکشن تک ہوتے ہیں اور صرف مفاد پرستی کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ ایسے ایگریمنٹس اور معاہدے اگر ہوتے بھی ہیں تو الیکشن کے بعدکوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ اور کمارسوامی کے ریکارڈکے حاشیے پر عوام اور نیشنل پارٹی کے ساتھ تک وعدہ خلافی اور عہد شکنی کی شرح سرخ روشنائی سے لکھی ہوئی ہے۔ کیا اسے نظر انداز کرکے ان کے ایک سیاسی بیان کوقابل عمل معاہدہ سمجھ لینا بے وقوفی ہوگی یا دانشوری اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا مسلم قیادت ملت کی ترجمانی کررہی ہے؟: سچ پوچھئے تووہ زمانے کب کے گزرگئے جب مسلم سیاسی لیڈران اسمبلیوں اور پارلیمان میں مسلم کاذ کی ترجمانی کیا کرتے تھے۔ مسلم مسائل پر اپوزیشن ہو یا خود اپنی پارٹی سے ٹکرانے کے لئے ہمیشہ تیار رہتے تھے۔اپنے عہدوں اور منصبوں سے دستبردار ہونے میں ذرا تامّل نہیں کیا کرتے تھے۔اور اپنے ایمان کی سلامتی اورملّی شناخت مقدم رکھاکرتے تھے۔آج دوایک مسلم لیڈران کو چھوڑیں تو بقیہ مسلم لیڈران اپنے ذاتی مفاد، اپنی پارٹی اور اپنی سیٹ کی حدبندیوں میں اس طرح جکڑے ہوئے ہیں کہ نہ انہیں اپنے ایمان کی فکر ہے اور نہ ملّی مفاد کی پروا۔یہ لوگ سیکیولرازم کے لبادے میں اپنے آپ کو اس طرح لپیٹ لیتے ہیں اور اپنی دینی شناخت کے ساتھ اس حد تک سمجھوتہ کرلیتے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ ہماری اپنی ریاست کے مشہور سیاسی رہنماؤں کی حالت یہ ہے کہ مندروں میں خود کے لئے پوجاکااہتمام،رتھ اتسوا، ماری ہبّا، کورگجّا اور دیگر بھوتوں کے تہواروں میں بصد عقیدت شمولیت، عیسائی گرجا گھروں کے دعائیہ جلسوں میں شرکت، درگاہوں پر حاضری اور پھر علمائے دین کی مجالس میں شرکت ،سب کچھ بیک وقت چلتارہتاہے۔اور طرفہ تماشہ یہ ہے کہ یہ سیاسی لیڈرمسلم عوام کے سامنے ملّت کی ترجمانی کا دعویٰ کرکے ووٹ حاصل کرتے ہیں۔افسوس اور شرم کی بات تو یہ ہے کہ سیکیولر غیر مسلم لیڈر اپنے آپ کو راسخ العقیدہ ہندو یا عیسائی کہلوانے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا، لیکن ہمارے یہ موجودہ بیشتر سیاسی لیڈران سیکیولرازم کے نام پر اپنی دینی شناخت سے اعلانیہ دستبردار ہونے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔دامن کے چاک سینے کو بیٹھے ہیں جب بھی ہم کیوں بار بار سوئی سے دھاگا نکل گیا
کیا ہمیں محض سیاسی لیڈر کی ضرورت ہے؟: جہاں تک اس وقت بھٹکل کاجو سیاسی منظر نامہ اور ہمار ے ملّی ادارے مجلس اصلاح و تنظیم کے سامنے جو چیلنج ہے اس کے تحت ہمیں زعفرانی سیاست کے مسلم مخالف منصوبوں اورہتھکنڈوں سے بچانے کے سلسلے میں کوئی سوچ ، جرأت اور حکمت عملی رکھنے والا سیاسی لیڈرچا ہیے،(بلکہ یہ پورے ملک کی ضرورت ہے)۔ ورنہ ایک عام سیاسی لیڈر کی ضرورت تو کوئی غیر مسلم بھی پوری کرسکتا ہے(اور چاہے کوئی لاکھ اختلاف کرے ،مگرموجودہ ایم ایل اے نے بحسن و خوبی اس ضرورت کو پوراکیاہے)اس کے باوجود ہمیں ’مسلمانوں کی ترجمانی‘ کے لئے سیاسی لیڈر چاہیے۔اور اہم بات یہ ہے کہ ہمارے مسلم لیڈران بھی ہمارے سامنے ملی مفاد اور مسلم کاذ کے لئے جدوجہد کرنے اور مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کی سمت میں سرگرم رہنے کی ضرورت واہمیت اجاگر کرتے ہوئے انتخابی امیدواری کے لئے پوری قوم کی حمایت چاہتے ہیں۔اور انہی متوقع امیدوارلیڈروں کی دلیل یہ بھی ہے کہ ہم کانگریسی سمجھ کر ،یا پھرسیکیولر آزاد غیر مسلم امیدوار کا ساتھ دیں گے تو الیکشن کے بعد وہ زعفرانی جھولے میں جاگرے گا اور ہماراملّی مفاد مجروح ہوگا۔اس لئے ہمیں ایک بے باک مسلم امیدوار کو کسی بھی حال میں اس مرتبہ موقع دینا چاہیے اور ہماری ملّی قیادت کی نئی تاریخ کا آغاز کرنا چاہیے۔ تو پھر...کیوں نہ ایسا کیا جائے!: چلئے تھوڑی دیر کے لئے اس دلیل کو بے چوں و چرا مان لیتے ہیں۔اب بنیادی سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیا اس وقت جو بھی متوقع امیدوار ہیں اور ان میں سب سے قوی ترین امیدوار ہے، کیا وہ ہمارے ملّی مفادات کے تقاضوں کواپنے منصب پر مقدم رکھنے کے لئے تیار ہونگے؟ کیا وہ اپنی دینی شناخت کے ساتھ اپنا سیاسی وجود بنائے رکھنے کے سلسلے میں سنجیدہ ہیں؟ (اس تعلق سے ماضی کے واقعات کا تحلیل و تجزیہ انتہائی ضروری ہے) یا پھر ہمارے یہ لیڈران اس وقت ریاست میں اور ساحلی پٹی پرمو جود ’الٹرا سیکیولر‘سیاسی لیڈر س کی فہرست میں اضافے کا سبب بننے والے ہیں؟! جن میں سے بعض کے بارے میں معلوم ہواہے کہ وہ اپنی انتخابی تشہیری مہم کا آغاز درگاہ کے ساتھ کورگجّا جیسے بھوتوں اور دیگر دیوتاؤں کے مندروں میں حاضری سے کیا کرتے ہیں۔ اس پس منظرمیں ہمارے فی زمانہ معروف دانشور کی ایگریمنٹ والی تجویزپر اس انداز سے بھی غور کیا جانا سکتا ہے ۔یعنی مجلس اصلاح و تنظیم میں جس طرح کمار سوامی سے اس بات کا تیقن حاصل کرنے کی کوشش کی گئی کہ الیکشن کے نتائج سامنے آنے کے بعد وہ زعفرانی پارٹی کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے اقتدارپر قبضہ جمانے کا کام نہیں کریں گے ، (جس کا انہوں نے سیاسی انداز میں جواب بھی دیا،اور اس پر اعتماد کرنا خطرے سے خالی نہیں ہے)بالکل اسی طرح اگر ہم کسی مسلم امیدوار کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ کرتے ہیں ،توکیوں نہ ہمارے اپنے امیدوارسے اس بات کا تیقن اور ایگریمنٹ کرلیا جائے کہ اگر ان کی پارٹی فسطائی طاقتوں سے سمجھوتہ کرکے حکومت بنانے کی کوشش کرے گی تو کم ازکم وہ اپنی سیٹ سے مستعفی ہوکر اپنے قول وعمل سے ثابت کریں گے کہ وہ ملّی مفاد کے ساتھ دھوکہ اور اپنے ضمیر کا سودا کرنے والے نہیں ہیں۔کیا تنظیم کے ارباب حل و عقد اس اہم پہلو پر توجہ دینے اور اس پر عمل کرنے کے بارے میں سوچیں گے؟!یہ اہل بزم کس لئے خاموش ہو گئے توبہ مری زبان سے یہ کیا نکل گیا
*******
haneefshabab@gmail.com (وضاحت: مندرجہ بالا مضمون میں درج کسی بھی بات سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ادارہ)