ؒچند مظلوم ومرحوم شخصیتیں۔۔۔(۱) تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی

Bhatkallys

Published in - Other

09:04PM Tue 11 Aug, 2020

چند مظلوم و مرحوم شخصیتیں

تحریر:مولانا عبدالماجد دریابادیؒ

(پہلی قسط)

زندگی بھر میں حق ادا کسی کے بھی کر پایا ہوں، بڑوں، چھوٹوں، برابر والوں میں شرمندگی نہیں کس سے ہے؟ صفات ستّاری وغفّاری اگر آڑے نہ آجائیں تو حشر میں آنکھیں چار کر کے سامنا کسی ایک بھی سابقہ والے کا نہیں کر سکتا، پھر بھی چند ہستیاں تو خصوصیت سے ایسی ہوئی ہیں، جن کے معاملہ میں حق تلفی اتنی نمایاں اور سنگین رہی ہے کہ جب ان کی یاد آجاتی ہے تو جسم میں جھر جھری سی آنے لگتی ہے، اور آنکھیں فرط ندامت سے زمین پر گڑ کر ر ہ جاتی ہیں ۔احاطہ اور استقصاء اپنے ایسے مظلوموں کا کہاں کر سکتا ہوں، یہی غنیمت ہے کہ دو چار نام حافظہ میں ناقابل محو ہونے کی حد تک ثبت ہو چکے ہیں،سب سے پہلا شکار اس بدبخت کی خیرہ سری کا تو خود والد ماجد مرحوم رہے ۔ میں 20 سال کا ہو چکا ہوں 12ء میں ان کی وفات ہوئی، اور گریجویٹ ہو چکا تھا، مضمون نگاری میں خاصہ نام پیدا کر چکا تھا ۔ غرض ذمہ دار زندگی پوری طرح شروع کر چکا تھا، لیکن والد ماجد کی خدمت و اطاعت کی طرف سے آنکھیں کم بخت بند کی بند ہی رہیں ۔

پندرہ، سولہ سال کے سن تک تو حال غنیمت رہا، اور عام انگریزی خواں نوجوانوں کی طرح لشتم پشتم گزر ہوتا گیا ۔ سولہ، سترہ برس کے سن سے، جب سے "عقلیت" " آزادی " و آزاد خیالی کا سودا سر میں سمایا، معمولی بزرگ داشت بھی طبیعت پر بار ہونے لگی ۔ نماز، روزہ سب چھوٹا، یہی ان کی تکلیف اور سوہان روح کے لئے کیا کم تھا کہ براہ راست نافرمانیاں بھی شروع کر دیں، تفصیلات درج کرنے سے کچھ نہ حاصل نہ ناظرین کا کوئی نفع ۔ خلاصہ یہ کہ عمر کے آخری ڈھائی تین سال مجھ نالائق کی طرف سے تکلیف ہی میں گزرے ۔ "رَبَّنَا ظَلَمنَا اَنفُسَنَا واِن لَّم تَغفِر لَنَا وَتَرحَمنَا لَنَکُونَنَّ مِنَ الخٰسِرِینَ۔

 بزرگ دوستوں بلکہ محسنوں میں بھی کم سے کم تین شخص تو ضرور ایسے گزرے ہیں، جن کے حقوق کسی درجہ میں بھی ادا نہیں ہوئے بلکہ انھیں اذیت ہی پہنچتی رہی _ ان میں سے ایک علی گڑھ کے رکن رکین اور بعد کو یونیورسٹی کے وائس چانسلر صاحبزادہ آفتاب احمد خان ہیں، بچارے نے ہمیشہ میرے اوپر لطف وعنایت کی نظر رکھی، مجھے اس وقت بلاکر اپنے ہاں ملازمت دی، جب میرا کوئی پوچھنے والا نہ تھا، اور افسر وماتحت کے بجائے برتاؤ بھی مجھ سے بالکل مساویانہ رکھا ۔ میں نے ان کے اخلاص کی کچھ قدر نہ کی اور میری طرف سے انھیں گوناگوں تکلیفیں ہی پہنچتی رہیں ۔آج جب اپنی طوطا چشمی کا خیال آتا ہے تو شرم سے کٹ جاتا ہوں لیکن ان کے علم وشرافت سے توقع یہی ہے کہ حشر میں بھی وہ بجائے انتقام کے عفو و درگزرہی سے کام لیں گے __ دوسرا نام فرنگی محل کے مشہور عالم اور صاحب طریقت مولانا قیام الدین عبدالباری (متوفی 1926ء) کا ذہن میں آتا ہے ۔ ان کی طرف سے برتاؤ مجھ سے ہمیشہ شفقت وعنایت کا ہی رہا ۔ میں اپنی نادانی وکج فہمی سے ان کے مخالفین کے کہنے سننے میں آگیا، اور جو طریقے انھوں نے مولانا کی تضحیک و تفضیح کے اختیار کئے ان میں ان کا مشیر بلکہ آلہ کار بنا رہا، مولانا بڑے صاحب حوصلہ وعالی ظرف تھے، یقین ہے کہ حشر میں بھی وہ اپنے اس نالائق خُرد کے مقابلہ میں اسی کا ثبوت دیں گے _ تیسرا نام اگر چہ ان دونوں سے کم درجہ پر اسی سلسلہ میں مولانا ابوالکلام آزاد (ایڈیٹر الہلال) کا ہے، ان کی اذیت و دلآزاری میں مَیں نے 12ء 13ء میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی __ ان تینوں صورتوں میں ہر بار یہی ہوا کہ میں دوسروں کی روایتوں کے بھروسے پر رہا، اور خوا مخواہ اتنی بدگمانیاں قائم کرلیں، ورنہ بالذات مجھے تینوں میں سے کسی صاحب سے بھی شکایت نہ تھی ۔

ماخوذ: مولاناعبدالماجد دریابادی، آپ بیتی، مکتبہ فردوس،  مکارم نگر، برولیا۔ لکھنٔو، 1989۔

https://telegram.me/ilmokitab