تنظیم اور سیاسی میدان کے کھیل (پانچویں قسط) ۔۔۔۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے
سیاسی بازی گری کی اس شطرنج میں مقامی ایم ایل اے کی طرف سے جو چال چلی گئی اور اس نے جس طرح اپنے مہرے کو آگے بڑھا یا وہ اس کی مہارت کا مظاہرہ تھا۔ اب اگر اسے مکاری یا غداری کا نام دے کر جی خوش کرلیں تو اس سے کہیں پر بھی اور کسی کوبھی فرق پڑنے والا نہیں ہے۔ دوسری طرف تنظیم کو جس طرح شہہ مات کا مزہ چکھنا پڑا ہے وہ یقیناًدور رس نتائج کا حامل ہے۔ اگر اس میں چھپے ہوئے پیغام کوہم نے سنجیدگی سے سمجھنے کی کوشش نہیں کی اور اپنی بساط کے مہروں کو نئی سوجھ بوجھ کے ساتھ آگے بڑھانے کے منصوبے نہیں بنائے تو پھر آنے والے دن خدانخواستہ اس سے بھی برے ہوسکتے ہیں۔
کیا تنظیم کی کوئی مجبوری تھی!: گزشتہ قسط میں یہ بات واضح کی گئی کہ تنظیم کے سیاسی پینل نے اپنی سابقہ روایات اور پالیسی کے مطابق بڑی ممکنہ حد تک صحیح طریقۂ کار اپنایا۔اور ایم ایل اے نے جو چال چلی وہ اس کی اپنی سیاسی ضرورت اور مجبوری تھی۔ لیکن تنظیم کے طریقۂ کار کا اگر بے لاگ تجزیہ کیا جائے تو یہ پہلو ابھر کر سامنے آتا ہے کہ یہاں سیاسی مجبوریوں اور زمینی حقائق سے زیادہ سطحی نتائج اور خام خیالیوں کا پلڑا بھاری ہوجاتا ہے۔ جالی پٹن پنچایت کے معاملے میں دیگر جذباتی کوتاہیوں کے ساتھ سب سے اہم اور کمزور پہلو رولنگ پارٹی کی قیادت اور بالخصوص مقامی ایم ایل اے کے ساتھ پر اعتماد رابطے کا فقدان نظر آتا ہے۔ اور یہ عملی طور پر تنظیم کے سیاسی پینل کی مجبوری کہی جاسکتی ہے۔ کیونکہ تنظیم کے سیاسی پینل کے اندر اور باہر کچھ با اثر لوگ بڑے جذباتی انداز میں یہ نکتہ اٹھاتے ہیں کہ کب تک ہم رولنگ پارٹی یا کانگریس کا دامن تھاما کریں گے۔ ہمیں اپنی سیاسی لیڈر شپ کو ابھارنے کا موقع کب ملے گا۔ ہمیں اپنے بل بوتے پر فیصلے لینے اور لاگو کرنے چاہئیں، وغیرہ۔اس کے بارے میں ہم آگے بات کریں گے، لیکن پہلے یہ دیکھاجائے کہ یہاں سیاسی رقابت یا کم ازکم اپنی اپنی پارٹیوں کے سیاسی مفادات کس حد تک اثر اندازہوتے ہیں
زمیں کی چاہتیں کچھ ایسے گل کھلاتی ہیں پھر اس کے آگے کوئی بات سوچتا ہی نہیں
سیاسی مفادات اورتشخص کا ٹکراؤ: اب اسی تازہ معاملے کو لیجئے۔ ایک طرف رولنگ پارٹی کا ایم ایل اے ہے۔ اسے اپنے مفادات اور پارٹی کے استحکام کی فکر کرنی ہے۔ دوسر ی طرف تنظیم ہے جسے سیاسی ایوانوں سے ملّی مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔ یہ ایک قدرتی بات ہے کہ دونوں فریقین کے درمیان خوشگوار رابطے اور باہمی اعتمادکا استوار رہنا لازمی ہے۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہورہا ہے۔حالیہ انتخابات کے وقت تنظیم کی اعلیٰ قیادت میں سیاسی پینل کی نگرانی کرنے والوں میں سے ایک قائد رولنگ پارٹی سے عملاً وابستہ رہنے کے باوجود شرعی عذر سے پس منظر میں چلا جاتا ہے اور اس انتخاب کی کارروائی میں اس کا عمل دخل صرف برائے نام رہتا ہے ۔ جبکہ دوسری طرف سیاسی پینل کا اپناکنوینر ہونے کے باوجود عملاً تنظیم کے دوسرے اعلیٰ عہدیدار کا عمل دخل اور نگرانی ا و رہنمائی کا حاوی ہوجانا فطری بات ہے ۔ اور یہ جو اعلیٰ عہدیدار یعنی نائب صدرہے وہ اپوزیشن پارٹی کا ایک جانا مانابے لوث اور فداکار لیڈر ہے ۔ایک طرف اس کا اپنا سیاسی تشخص ہے اور دوسری طرف اس کی پارٹی کے سیاسی مفادات بھی ہیں۔ایسے میں اگر کوئی اس سے یہ مطالبہ کرے کہ وہ خود جاکر مقامی ایم ایل اے کے ساتھ بات چیت اور مفاہمت کرے۔ تو کیا یہ تقاضہ غیر فطری نہیں ہے؟ ایک زمانے سے اپنی پارٹی کی شناخت کے ساتھ مقامی سیاست میں اپنا مقام اور پہچان بنانے والا سیاسی قائدکیا اسی ایم ایل اے کے پاس کانگریس کو فائدہ پہنچانے والا کوئی بھی سمجھوتہ کرنے کے لئے جائے گا جس نے اسی میعاد کے الیکشن میں اسے شکست فاش بھی دی ہو؟!اس خام خیالی کے لئے کس کو ذمہ دار ٹھہرائیں! میرے خیال میں سیاسی مفاد اور تشخص کا یہی وہ ٹکراؤ ہے جو جالی پٹن پنچایت کے الیکشن میں تنظیم کی کراری ہار کے بہت سارے دیگر اسباب میں سے ایک اہم سبب بناہے۔ مگر ہونا تو یہی چاہیے تھا!: یہ بات صحیح ہے کہ تنظیم کی قیادت میں شامل کچھ سیاسی لیڈروں کی غیرت نے انہیں اپنے مخالف کیمپ کے سیاسی لیڈروں کے ساتھ مفاہمت کے لئے ان کے روبرو جانے سے روکا ہوگا اوربظاہر اسے کوئی غیر فطری بات یہ بڑا جرم نہیں کہا جاسکتا۔ مگر تنظیم کے سامنے ملّی مفادات ہوتے ہیں۔ تنظیم کسی سیاسی پارٹی کے مفادات کو تحفظ دینے یا کسی سیاسی شخصیت کے تشخص کو بچانے کے لئے اپنے وسیع تر ملّی مفادات کو قربان نہیں کرسکتی۔ جس سمجھوتے اور اقدام سے قوم و ملت کو فائدہ پہنچتا ہو، اس پر عمل کرنا تنظیم کی پالیسی ہمیشہ رہی ہے اور رہنی چاہیے ۔ اور بالفرض اس کی راہ میں کسی کی شخصی یا سیاسی مجبوری ہے تواس سے تنظیم کا اجتماعی مفادکو سبو تاژ کرنے کی اجازت ہرگزنہیں دی جا سکتی۔ لیکن جالی پٹن پنچایت الیکشن کے جو بھی حالات اب تک سامنے آرہے ہیں اس سے اندازہ یہی ہورہا ہے کہ قیادتوں کی سیاسی انانیت جو تھی وہ زمینی حقائق پر حاوی ہوگئی۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے بعض سیاسی قائدین انتخابات کے موقعوں پر ہتھیلی پر جنت دکھلا کر عوامی رائے بنانے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔اس کا تجربہ ماضی میں بھی بارہا ہوچکا ہے۔ اور مجھے لگتا ہے کہ اس بار بھی وہی پرانی روش یا سوچ نے ہمیں کھل کر رولنگ پارٹی کے ساتھ گفتگو اور مصالحانہ رویہ اپنانے سے باز رکھاہوگا۔اور ہم ایک بڑے نقصان اور رسوائی سے دوچار ہوئے۔ سوچتا ہوں کس نے بخشیں اس قدر رسوائیاں گھوم پھر کر خود پہ ہوتا ہے گماں کیسے لکھوں
کب تک کانگریس کا ساتھ دیں؟: ہر بارانتخابی ماحول میں یہ سوال اٹھائے جاتے ہیں کہ کب تک ہم رولنگ پارٹی یا کانگریس کا ساتھ دیں۔ ہمیں اپنے طور پر سیاسی قیادت کو ابھارنا چاہیے۔ نوجوان لیڈروں کو آگے بڑھانا چاہیے۔ ہمیں سیاسی empowermentحاصل کرنے کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ یہ سوالات بظاہر بڑے دل خوش کن ہیں۔اوران میں کافی وزن بھی نظر آتا ہے۔ اس سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے امکانات پر ان شاء اللہ اگلی قسط میں بات کریں گے۔ لیکن تازہ معاملے میں ہم سوچیں کہ جب بلدی اداروں کے تمام معاملات حکمراں پارٹی کے پاس ہوتے ہیں۔ جو کہ براہ راست ضلع انچارج وزیر اور مقامی ایم ایل اے کے دسترس میں ہے ۔ ایسے میں کیامقامی ایم ایل اے اور ضلع انچارج وزیر کا آشیرواد لئے بغیر کوئی بھی سیاسی فائدہ اٹھانا ممکن ہوگا؟ کیا رولنگ پارٹی سے ناوابستہ کوئی بلدی عہدیدار اپنے علاقے میں ترقیاتی کام پورے اطمینان سے انجام دے سکے گا؟اگر نہیں تو پھر ایم ایل اے کے ساتھ دوبدو ملاقات اورہمارے نمائندے کے انتخاب میں مختلف زاویوں سے اس کے ساتھ مشورہ کیے بغیر صرف ہمارے پاس ووٹ ہونے کا بھرم لے کر ایک طرح سے ایم ایل اے کے ساتھ خاموش ٹکراؤ کا طریقۂ کاراپنا کر کیا ہم نے اپنی کمزور سیاسی حکمت عملی کا مظاہرہ نہیں کیا؟! جب یہی صورتحال ہے تو پھر کسی اور کو دوش دیناکہاں تک صحیح ہوسکتا ہے!ٹھنڈے دل سے سوچنے والی بات یہی ہے کہ کیا موجودہ سیاسی پس منظر اور پیش منظر میں اس طرح کے جوشیلے اور جذباتی خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کیا جانا ممکن ہے؟ اثاثہ عہد ماضی کا سڑک پر آ گیا ہے مرے بچوں کو دینے کے لئے اب کیا بچا ہے)اب جوکاکو اور یحییٰ صاحبان کا دور نہیں رہا !۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔اگلی قسط ملاحظہ کریں(
haneefshabab@gmail.com
ضروری وضاحت:اس مضمون میں پیش کئے گئے خیالات مضمون نگار کی ذاتی رائے پر مبنی ہیں۔ اس میں پیش کردہ مواد کی صحت کے سلسلہ میں ادارہ بھٹکلیس ذمہ دار نہیں ہے۔ ادارہ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔